فلسطینی اراضی پر پانچ نئی اسرائیلی بستیوں کا قیام
غزہ نسل کشی کے ساتھ غرب اردن میں حیات و اسباب حیات کی پامالی
مسعود ابدالی
عالمی عدالت میں اسرائیلی قیادت کے پروانہ گرفتاری کے خلاف برطانیہ کی درخواست
جیسا کہ اس سے پہلے کئی نشستوں میں ہم عرض کر چکے ہیں کہ اسرائیل غزہ نسل کشی جاری رکھتے ہوئے غربِ اردن کے سیاسی جغرافیہ اور معاشرتی و تمدنی ہئیت کو تبدیل کرنے میں مصروف ہے۔ سارے کا سارا غرب اردن محاصرے میں ہے اور فوجی کاروائیوں میں یہاں چھ سو سے زیادہ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ گرفتار شدگان کی تعداد دس ہزار سے زیادہ ہے۔ دکانیں، کارخانے اور تجارتی مراکز مسمار کردیے گئے ہیں جس کی وجہ سے علاقے میں معاشی سرگرمیاں غارت ہو چکی ہیں۔ زرعی زمینوں پر بلڈوزر پھیر دیے گئے ہیں۔اسرائیلی فوج اور قابضین مویشی ہنکا لے گئے ہیں۔ بے گھر ہونے والے ہزاروں فلسطینیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح اردنی سرحد کی طرف دھکیل دیا گیا ہے، جہاں تپتی دھوپ میں یہ لوگ کھلے آسمان تلے پڑے ہوئے ہیں۔بعض مقامات پر اقوام متحدہ نے ان کے لیے خیموں کا انتظام کیا ہے۔
حکومت کے انہتا پسند وزیر خزانہ بیزلیل اسموترچ نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نئی بستیوں کی تعمیر شروع کردی ہے۔ گزشتہ سال امریکی صدر نے کہا تھا کہ اسرائیلی حکومت نے مزید بستیاں قائم نہ کرنے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔اس کی تصدیق کرتے ہوئے نتن یاہو نے مبہم انداز میں کہا تھا کہ اسرائیلی حکومت ‘فی الحال’ مزید بستیوں کی منظوری نہیں دے گی۔ غور کریں کہ لفظِ ‘فی الحال’ میں حیلہ سازی کی اسرائیلی روایت پوری مکارانہ شان کے ساتھ موجود تھی۔
طریقہ وارادت کچھ اس طرح ہے کہ فلسطینی آبادیوں کے کنارے انسداد دہشت گردی کے نام پر فوج حفاطتی چوکیاں قائم کرتی ہے۔ یہ چوکیاں محض چند مربع گز علاقہ نہیں بلکہ ہر چوکی کے لیے فلسطینیوں کی سیکڑوں ایکڑ زمینیں ‘کرایے’ پر لی گئیں۔ کرایے سے چھٹکارے کے لیے زیادہ تر مالکین کو دہشت گردی کے الزام میں گولی مار دی گئی۔ چوکیوں پر تعینات فوجیوں اور انتظامی اہلکاروں کے لیے قبضہ کی ہوئی اراضی پر رہائشی کوارٹر تعمیر کرلیے گئے۔ ضروری اشیاء کے لیے وہاں دکان بلکہ بازار بھی قائم ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد وہاں معبد (Synagogue) بھی تعمیر کر لیا گیا جس کے گرد مزید لوگ آکر آباد ہو گئے۔ ‘محلہ’ بن جانے والی چوکیوں کو ‘پوسٹ’ کا نام دے دیا جاتا ہے۔ پوسٹ دراصل ایسی اسرائیلی بستی ہے جسے قانونی تحفظ حاصل نہیں، بلدیاتی اصطلاح میں یہ کچی بستیاں ہیں۔
اس ہفتے اسرائیلی حکومت نے غربِ اردن کی چار اور اثقلان میں ایک پوسٹ کو ‘قانونی’ حیثیت دینے کا اعلان کیا ہے۔یعنی اب یہاں پہلے سے قابض لوگوں کو مالکانہ حقوق دے دیے جائیں گے اور بلدیہ سے نقشہ منظور کرواکے یہاں پارک، تجارتی مراکز، سڑکوں اور اسکولوں کے لیے مزید اراضی عدالتی حکم کے ذریعے ہتھیائی جائے گی۔ ان بستیوں کو ‘دہشت گرد’ حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے چوکیاں بناکر قبضے کا نیا سلسلہ شروع ہوگا۔
گزشتہ ہفتے نیویارک ٹائمز نے وزیر خزانہ اسموترچ کے ایک نجی سمعی تراشے (Audio Clip) کا متن شائع کیا تھا جس کے مطابق وزیر موصوف اپنے ساتھیوں کو مبارکباد دے رہے تھےکہ وزیر اعظم نے ان پانچ بستیوں کے قیام کی منظوری دے دی ہے۔ وزیر اعظم کے دفتر سے اس خبر کی تردید یا تصدیق نہیں ہوئی لیکن 28 جون کو کابینہ کے سکریٹری یوسی فُکس (Yosi Fuchs) نے اعلان کیا کہ ہنگامی کابینہ نے پانچ چوکیوں کو بستی بنانے کی منظوری دے دی ہے۔ فاضل سکریٹری نے وضاحت کی کہ یہ نئی بستیاں نہیں ہیں بلکہ اسرائیلی حکومت صرف فوجی چوکیوں پر اپنی ملکیت قائم کر رہی ہے۔ کابینہ کے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ان پانچ بستیوں میں کئی ہزار نئے مکانات تعمیر کرنے کی بھی اجازت دے دی گئی ہے۔
اسرائیل اور امریکہ میں برپا پونے والے سیاسی بحران نے فلسطینیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔اسرائیلی بحران کا آغاز 24 جون کو اس وقت ہوا جب اسرائیلی ہائی کورٹ نے لازمی فوجی تربیت سے مدارس کے طلبا کا استثنٰی غیر آئینی قرار دے دیا۔ لازمی فوجی بھرتی کا اطلاق اب قدامت پسند حریدی فرقے پر بھی ہوگا جن کے ہاں ہر لڑکے کے لیے توریت کی تعلیم لازمی ہے ۔ حفظ توریت کے مدارس یا Yeshiva کے طلبا کو لازمی فوجی تربیت سے استثنی حاصل ہے تاکہ دو سال کی لازمی فوجی تربیت کی وجہ سے حفظ متاثر نہ ہو۔ حکم راں اتحاد کی توریت پارٹی (UTJ) اور پاسبان توریت یا Shas پارٹی کی طرف سے فیصلے کے خلاف شدید رد عمل سامنے آیا۔ شاس کے سربراہ اریہ مخلوف درعی نے ایک بیان میں کہا کہ توریت یہودی قوم کا اصل ہتھیار ہے اور دنیا کی کوئی قوت ہمیں اس کی تعلیم سے باز نہیں رکھ سکتی۔ حریدی فرقے کے روحانی پیشوا موسٰی مایا نے مدارس کے طلبا کے لیے فوجی تربیت کی مخالفت کرتے ہوئے مدرسہ نہ جانے والے نوجوانوں کو بھی اسرائیلی فوج میں بھرتی سے روک دیا۔ ایک ریڈیو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ توریت کی تعلیم میں خلل ڈالنا ’سبت کا قانون‘ توڑنے سے کم سنگین نہیں۔ مایا کا کہنا تھا کہ توریت کی برکت سے ہی فوج محفوظ ہے ورنہ بڑی آفت آئے گی۔ رِبیوں (یہودی ائمہ) کی ہدایت پر 29 جون (یوم سبت) کو دیوار گریہ کے سامنے اسرائیلی عدلیہ کے خلاف اجتماعی بد دعا کی گئی۔ اس موقع پر خطبہ سبت دیتے ہوئے صفاردی (Sephardic) یہودیوں کے ربی اعظم اسحٰق یوسف نے کہا کہ جاہل جج جو تلمود (یہودی فقہ) کی چند سطریں نہیں پڑھ سکتے، مدارس کے بارے میں حکم جاری کر رہے ہیں۔ ان جہلا کو توریت اور اس کے علم کی اہمیت کا کیا پتہ؟
فیصلے کے خلاف Yeshiva کے طلبا نے فوجی بھرتی مراکز پر مظاہرے کیے۔ اس دوران طالب علموں نے وہیں سڑک پر اساتذہ سے توریت کا سبق لیا اور تلاوت کی۔ مظاہرین نے جو کتبے اٹھائے ہوئے تھے ان پر لکھا تھا کہ ‘اسرائیل اب یہود دشمن (Antisemitic) ملک بن گیا ہے’۔وزیر اعظم نتن یاہو کی حکومت شاس اور UTJ کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے اگر یہ جماعتیں UTJ حکم راں اتحاد سے الگ ہو گئیں تو حکومت تحلیل ہو جائے گی۔وزیر اعظم اس فیصلے پر عمل درآمد میں تاخیر کے خواہش مند ہیں لیکن فوجی بھرتی سے Yeshiva کا استثنیٰ ختم ہوتے ہی ان کی اٹارنی جنرل نے وزارت دفاع کو ہدایت کی کہ فوری طور پر مدارس کے تین ہزار طلبا کو فوج میں بھرتی کیا جائے، ساتھ ہی انہوں نے دھمکی بھی دی کہ جو مدارس بھرتی میں تعاون نہیں کریں گے ان کی سرکاری امداد معطل کردی جائے گی۔ حکومتی مدد سے بے نیاز ہونے کے لیے مدارس نے چندہ جمع کرنا شروع کر دیا ہے اور چند ہی گھنٹوں میں امریکی حریدیوں نے دس کروڑ ڈالر جمع کرلیے۔ عدالتی فیصلے نے وزیر اعظم نتن یاہو کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
امریکہ کا سیاسی بحران صدر بائیڈن کی بڑھتی ہوئی غیر مقبولیت ہے۔ جمعرات 27 جون کو ہونے والے صدارتی مباحثے میں امریکی صدر کی آواز لرز رہی تھی، لہجے میں لکنت کے ساتھ انہیں سوالوں کا جواب دینے میں سخت مشکل پیش آئی۔ ایک تجزیہ نگار نے کہا کہ یہ ایک انوکھا مباحثہ تھا، جناب ٹرمپ دھڑلے سے جھوٹ بولتے رہے اور صدر بائیڈن سے بولا ہی نہ گیا۔ امریکی صدر بائیڈن کی انتہائی خراب کارکردگی پر ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت پریشان ہے۔ کانگریس کے لیے قسمت آزمائی کرنے والے ڈیموکرٹک امیدوار بھی خوف زدہ ہیں کہ کہیں صدر کے ساتھ ان کی بھی چھٹی نہ ہو جائے جسے یہاں Down the ballot effect. کہا جاتا ہے یعنی ووٹر صدر کے ساتھ اسی جماعت کی پوری ٹکٹ پر ٹھپہ لگا دیتے ہیں۔ ان کی جماعت میں یہ بحث شروع ہوچکی ہے کہ نومبر کے لیے پارٹی کا ٹکٹ جناب بائیڈن کے بجائے کسی اور فرد کو عطا کر دیا جائے۔ قانونی اعتبار سے ڈیموکریٹک پارٹی بائیڈن کو دستبرداری پر مجبور نہیں کرسکتی لیکن انہوں نے مباحثے میں اپنی خراب کارکردگی کا خود ہی اعتراف کرلیا ہے۔
مباحثے میں دونوں امیدواروں نے خود کو اسرائیل کا سب سے بڑا دوست و پشتیان ظاہر کیا۔ صدر بائیڈن پرجوش انداز میں بولے ‘ہم نے اسرائیل کا تحفظ کیا، ہر قسم کی مدد فراہم کی۔ فلسطینی مزاحمت کاروں کی کمر توڑ دی۔ ان کے قائدین کا وہی حشر کیا جو اسامہ بن لادن کا ہوا’ ۔جواب دیتے ہوئے سابق امریکی صدر نے کہا ‘صدر بائیڈن اسرائیل کے حامی نہیں یہ عملاً فلسطینی ہیں لیکن ایک بے کار فلسطینی، اسی لیے فلسطینی بھی ان کو پسند نہیں کرتے ‘ ڈونالڈ ٹرمپ نے مزید کہا اگر میں حکومت میں ہوتا تو فلسطینی مزاحمت کار 7 اکتوبر کو حملہ نہ کر پاتے۔ اس لیے کہ غزہ مزاحمت کاروں کو ایران سے مدد ملتی ہے اور ہم ایران کو دیوالیہ کرچکے تھے۔
عدم مقبولیٹ سے گھبرائے ہوئے صدر بائیڈن نے اسرائیل کے لیے دو ہزار پونڈ کے بموں کی ترسیل دوبارہ شروع کردی ہے۔ رفح پر حملے کے بعد اپریل میں ان ہلاکت خیز بموں کی فراہمی معطل کردی گئی تھی۔ امریکہ کی آن لائن خبر رساں ایجنسی AXIOS کے مطابق روزانہ تین دیو قامت امریکی طیارے ہلاکت خیزی کا سامان صحرائے نقب میں بئیر سبع (Beersheba) کے نواتم فوجی اڈے پر لا رہے ہیں۔
امریکہ اور یورپ کی جانب سے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی نئی بات نہیں ہے لیکن گزشتہ ہفتے انکشاف ہوا کہ ہندوستان بھی غزہ نسل کشی کے لیے اسرائیل کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ اسرائیلی خبر رساں ادارے Ynetnews کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے دہلی میں اسرائیل کے سابق سفیر دانیال کارمن Daniel Carmon نے بتایا کہ غزہ جنگ کے لیے ہندوستان، اسرائیل کو ڈرون اور توپ کے گولے فراہم کر رہا ہے۔ دانیال کارمن نے کہا کہ بقول ہندوستانی مشیر سلامتی اجیت دوال، ‘یہ 1999 کے پاک ہند کارگل تصادم میں اسرائیلی مدد پر ہندوستان کا اظہار تشکر ہے’
غزہ نسل کشی کے لیے اسرائیل کو مہلک اسلحے کی بلا روک ٹوک فراہمی کے ساتھ انصاف کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا کام بھی جاری ہے۔ برطانیہ نے 2 جون کو عالمی فوجداری عدالت (ICC) کے نام ایک درخواست میں فاضل عدالت کو آگاہ کیا ہے کہ اسرائیل ICC کو تسلیم نہیں کرتا، لہٰذا اس کے شہری عدالت کے دائرہ اختیار (Jurisdiction) سے باہر ہیں۔ اسے بنیاد
بناکر اسرائیلی وزیر اعظم، وزیر دفاع اور فوج کے مجوزہ پروانہِ گرفتاری منسوخ کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ اب وارنٹ کے اجرا سے پہلے عدالت کو برطانوی درخواست نمٹانا ہوگا، جس میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔
دنیا بھر کی حمایت و فوجی مدد اور 270 دنوں کی بلا تعطل بمباری کے بعد بھی اسرائیل، فوجی اہداف کے حصول سے کافی دور ہے۔ اس سے قبل ہم نے اسرائیلی فوج کے ترجمان کی مایوسی کاذکر کیا تھا جن کے خیال میں غزہ مزاحمت عسکری سے زیادہ نظریاتی ہے جسے ختم کر دینا ممکن نہیں۔ اب 28 جون کو شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اسرائیلی بریگیڈیر جنرل نے عبرانی روزنامے ایدیت خرنوت Yedioth Ahronoth سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے مزاحمت کاروں کی قوتِ حکم رانی کمزور کرنے میں وقت لگے گا، یہ طاقت ختم ہو جانے کے بعد بھی تحریک ختم ہونے والی نہیں۔ غزہ کی سرنگوں کو تباہ کرنا ایک پیچیدہ کام ہے جس میں چھ ماہ سے زیادہ لگ سکتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی تجزیہ بلوم برگ کی سینئر دفاعی تجزیہ نگار جمانا برساچی (Joumanna Bercetce کا بھی ہے۔ ایک انٹر ویومیں انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوج غزہ میں مزاحمت کے خاتمے کے ہدف سے پیچھے ہٹتی دکھائی دے رہی ہے۔
فوج کے اندر پھیلی ہوئی اسی مایوسی کا نتیجہ ہے کہ لبنان پر حملے کے بارے میں اسرائیلی قیادت یکسو نہیں ہے۔ نتن یاہو لبنان اور ایران کو مزہ چکھانے کی دھمکی دے رہے ہیں لیکن واشنگٹن میں ان کے وزیر دفاع یوف گیلینٹ نے کہا کہ معاملے کا سیاسی و سفارتی تصفیہ اسرائیل کی ترجیح ہے۔ اخباری کانفرنس میں روایتی تکبر کا اظہار کرتے ہوئے وزیر بانتدبیر بولے کہ ہمارے بمباروں کے لیے لبنان کو پتھر کے دور میں پہنچا دینا کچھ مشکل نہیں اور پرامن تصفیے کی خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔
ایک طرف اسرائیلی وزیر دفاع کی امریکہ میں شیخی تو دوسری جانب توانائی کے اسرائیلی ماپر اور بجلی تقسیم کرنے والے ادارے National Electrical System Management Company کے سی ای او، شال گولڈاسٹائین فکر مند ہیں کہ لبنان سے میزائیلوں کی بارش بجلی کے نظام کو مفلوج کرسکتی ہے۔ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لبنانی مزاحمت کاروں کے پاس ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ تباہ کن میزائیل ہیں اور وہ بیک وقت چار ہزار میزائیل داغ سکتے ہیں۔امریکی ساختہ آئرن ڈوم دفاعی نظام ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سو فضائی اجسام کو روک سکتا ہے۔ بچ نکلنے والے میزائیل power grids اور high-tension towers کو نشانہ بنائیں گے۔ گولڈ اسٹائن کے خیال میں ایسا کرنا لبنانیوں کے لیے مشکل نہیں کہ آئرن ڈوم نچلی سطح پر پرواز کرنے والے میزائیلوں کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ برقی ماہر کا کہنا تھا کہ اسرائیلی میں پینے کے لیے سمندر کے پانی کو میٹھا بنایا جاتا ہے اور بجلی معطل ہونے سے آبنوشی کا سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بجلی 72 گھنٹے سے زیادہ منقطع رہی تو گرمی کے اس موسم میں بچوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ لبنانی میزائیل، بحیرہ روم میں گیس کی تنصیبات کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ وزیر توانائی ایلی کوہن نے مسٹر گولڈ اسٹائین کے تجزیے کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔
اسرائیلی انتہا پسندوں کے ساتھ اسرائیلی وزیر اعظم کو ملک کے دانش وروں کی جانب سے بھی گہری تنقید کا سامناہے۔ سابق وزیر اعظم یہودا براک سمیت درجنوں اسرائیلی سیاست دانوں، سابق حکومتی اہلکاروں، پروفیسروں اور سائنسدانوں نے ایک خط میں امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے وزیر اعظم نتن یاہو کا خطاب منسوخ کرنے کی درخواست کی ہے۔ اسپیکر کانگریس کی دعوت پر نتن یاہو 24 جولائی کو مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ نتن یاہو علاقے میں کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں، انہوں نے طویل اقتدار کے لیے اسرائیلی قیدیوں کی جان خطرے میں ڈل دی ہے۔ ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انتہا پسند اور غیر ذمہ دار سربراہ حکومت کو امریکی کانگریس میں خوش آمدید کہنا نتن یاہو کی جارحانہ پالیسی کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔ دستخط کرنے والوں میں اسرائیل اکیڈمی برائے سائنس اور فنون کے صدر ڈاکٹر ڈیوڈ ہیرل، موساد کے سابق سربراہ تامر پاردو، موساد کے سابق سربراہ طالع سیسن اور نوبل انعام یافتہ ہارون شیشانور شامل ہیں۔
اہل غزہ کی پشت میں خنجر زنی کی ایک واردات پر گفتگو کا اختتام:
غزہ جارحیت کے آغاز سے امریکہ اور یورپ نے اسرائیل میں اسلحے کا انبار لگا دیے ہیں۔ اس ‘کارِ خیر’ میں ہندوستان بھی پیچھے نہیں ہے۔ معاملہ صرف توپ و تفنگ کی حد تک نہیں ہے بلکہ F35 بمباروں کے ساتھ تباہ کن بحری جہازوں کی فراہمی کا کام بھی جاری ہے۔ بحری راستے سے غزہ اترنے کے لیے امریکہ نے دو نئے Landing Craft اسرائیل کے لیے تعمیر کیے ہیں۔ گزشتہ ہفتے اس کھیپ کا دوسرا جہاز کوممیوت INS Komemiyut امریکہ سے اسرائیل روانہ ہوا، جسےایندھن اور عملے کی خوراک و آرام کے لیے کسی بندرگاہ پر ٹھیرنا تھا۔ اسپین نے اس جہاز کو اپنی بندرگاہ پر رکنے کی اجازت دینے سے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ ان کا ملک غزہ کی خلاف جارحیت میں تعاون نہیں کرسکتا۔ برطانوی کالونی جبرالٹر نے بھی معذرت کرلی، لیکن مراقش نے نہ صرف اجازت دے دی بلکہ طنجہ کی بندرگاہ پر جہاز میں ایندھن بھرنے کے ساتھ ہی مقامی روایات کے مطابق عملے کی بھرپور تواضع بھی کی گئی۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
***
دنیا بھر کی حمایت و فوجی مدد اور 270 دنوں کی بلا تعطل بمباری کے بعد بھی اسرائیل، فوجی اہداف کے حصول سے کافی دور ہے۔ اس سے قبل ہم نے اسرائیلی فوج کے ترجمان کی مایوسی کاذکر کیا تھا جن کے خیال میں غزہ مزاحمت عسکری سے زیادہ نظریاتی ہے جسے ختم کر دینا ممکن نہیں۔ اب 28 جون کو شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اسرائیلی بریگیڈیر جنرل نے عبرانی روزنامے ایدیت خرنوت Yedioth Ahronoth سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے مزاحمت کاروں کی قوتِ حکم رانی کمزور کرنے میں وقت لگے گا، یہ طاقت ختم ہو جانے کے بعد بھی تحریک ختم ہونے والی نہیں۔ غزہ کی سرنگوں کو تباہ کرنا ایک پیچیدہ کام ہے جس میں چھ ماہ سے زیادہ لگ سکتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی تجزیہ بلوم برگ کی سینئر دفاعی تجزیہ نگار جمانا برساچی (Joumanna Bercetce کا بھی ہے۔ ایک انٹر ویومیں انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوج غزہ میں مزاحمت کے خاتمے کے ہدف سے پیچھے ہٹتی دکھائی دے رہی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 جولائی تا 13 جولائی 2024