فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی

داخلی سیاست کا شاخسانہ۔سیاسی مشکلات سے نکلنے کے لیے نیتن یاہوکی سفاکانہ کارروائی

مسعود ابدالی

ارضِ فلسطین گزشتہ سات دہائیوں سے لہولہان ہے، لیکن 1996 میں انتہا پسند بن یامین نیتن یاہو المعروف بی بی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے خونریزی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ گزشتہ سال دسمبر کی 29 تاریخ کو بی بی نے چھٹی بار اسرائیلی وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا۔ اُس دن سے 29 جنوری تک 32 فلسطینی اسرائیلی فوج کے ہاتھوں جاں بحق ہوئے۔ یعنی ہر روز ایک فلسطینی اپنی جان سے گیا۔ گزشتہ برس 300 فلسطینی مارے گئے تھے۔ ان بے گناہوں کی واضح اکثریت 13سے 25سال کے نوخیز نوجوانوں پر مشتمل ہے۔
نومبر 2022کے انتخابی نتائج دیکھ کر مشرق وسطیٰ پر نظر رکھنے والے سیاسیات کے علما نے خدشہ ظاہر کردیا تھا کہ مجرمانہ ماضی کے حامل انتہاپسند جتھوں پر مشتمل بی بی کی نئی حکومت فلسطینیوں کے لیے عذاب ثابت ہوگی۔ سچ تو یہ ہے کہ نیتن یاہو کے لیکڈ اتحاد اور ان کے قدامت پسند رفقا نے بھی اپنے فلسطین کش عزم کی اظہار میں مداہنت سے کام نہیں لیا۔ ان انتخابات میں بی بی کے لیکڈ اتحاد نے 32، دینِ صیہون (Religious Zionism)نے 14، شاس (پاسبانِ توریت) نے 11 اور توریت پارٹی نے 7 نشستیں جیت کر مخلوط حکومت بنانے کا فیصلہ کیا۔ ایک سو بیس رکنی اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) میں حکومت سازی کے لیے 61 ووٹ درکار ہیں۔ لیکڈ اور ان کے تین اتحادیوں کی مجموعی نشستیں 64ہیں لہٰذا بی بی نے اس بار قوم پرست اور دائیں بازو کی سیکیولر جماعتوں کو حکومتی اتحاد میں شامل ہونے کی دعوت نہیں دی۔ قوم پرست سیکیولر عناصر اور مذہبی جماعتوں کے مابین سماجی معاملات پر خاصے اختلافات ہیں اور ان کی باہمی چپقلش کے نتیجے میں بی بی حکومت کو 1999میں استعفی دینا پڑا تھا۔ اس بار برسرِ اقتدار اتحاد، نظریاتی اعتبار سے ہم آہنگ اور فلسطین کشی کے ایک نکاتی ایجنڈے پر یکسو ہے۔
اتحادی جماعتوں میں سب سے مضبوط دینِ صیہون جماعت، پارلیمان کی تیسری بڑی قوت ہے۔ یہ جماعت خود ہی کیا کم تھی کہ عزمِ یہود (Otzma Yehudit)اور خوشنودیِ رب پارٹی (Noam) بھی اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے دینِ صیہون کا حصہ ہیں۔ گویا نفرت کا یہ دوآتشہ، نیم چڑھے کریلے کی بدترین مثال ہے
اسے دلچسپ کہیں یا افسوسناک کہ مذہبی رہنماوں کے لیے فلسطینیوں کی نسل کشی ان کے نظریاتی ایجنڈے بلکہ عقیدے پر بھی غالب آچکی ہے۔ حکومت سنبھالتے ہی بی بی نے اسپیکر یاریو لیون (Yariv Levin)کو وزارتِ انصاف کا قلمدان پیش کیا، چنانچہ لیون صاحب اسپیکر کے منصب سے مستعفی ہوگئے۔ یاریو کی جگہ لیکڈ پارٹی نے 46 سالہ عامر اوہانہ (Amir Ohana)کو اسپیکر کا امیدوارنامزد کیا۔ خیالات کے اعتبار سے انتہائی قدامت پسند، مراقشی نژاد عامر اعلانیہ ہم جنس پرست ہیں جنہوں نے ایک مرد سے شادی کر رکھی ہے۔ یہ دونوں Surrogate Motherکے ذریعے ایک بیٹے اور ایک بیٹی کے والدین بھی ہیں۔ اسپیکر صاحب خود کو اپنے بچوں کی ما ں کہتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران مذہبی رہنماوں نے وعدہ کیا تھا کہ برسراقتدار آکر ہم جنس پرستی کی ہرسطح پر مخالفت کی جائے گی۔ خوشنودیِ رب پارٹی کے سربراہ اوی معوذ صاحب تو یہاں تک کہہ گئے کہ تھا کہ 2023 کی LGBTپریڈ ان کی لاش پر ہوگی۔ انتخابی مہم کے دوران وہ حضرت لوطؑ کی قوم پر آنے والے عذاب سے اسرائیلیوں کو ڈراتے رہے۔ یہی حال شاس کے سربراہ اور تلمود کے عالم أریہ مخلوف درعي کا تھا۔ لیکن ہم جنسی کے خلاف گز گز بھر لمبی زبان نکال کر تقریر کرنے والے سارے ”مولویوں‘‘ نے عامر اوہانہ کو ووٹ دئے۔ بی بی نے ڈرایا تھا کہ اگر ہمارا اسپیکر ہار گیا تو کوئی بھی ہدف حاصل نہ ہوسکے گا چنانچہ خُدّامانِ توریت نے بڑے مقصد کے حصول کے لیے چھوٹی برائی قبول کرلی۔
بی بی نے کابینہ کے لیے جن انتہا پسندوں کا انتخاب کیا وہ سب فلسطین دشمن تو ہیں ہی، ان میں سے کئی خود اسرائیلی عدالتوں سے سزایافتہ تھے۔ کسی اور کا کیا ذکر خود بی بی صاحب پر بدعنوانی اور مالی بے ضابطگی کا مقدمہ چل رہا ہے۔ وزارت عظمیٰ کے دوران انہوں نے استثنیٰ کے سہارے پیشیوں سے جان چھڑائی اور جب حکومت ختم ہوگئی تو کورونا کے نام پر عدالت کا سامنا کرتے سے کتراتے رہے۔
نئی حکومت کے وزیرصحت اور نائب وزیر اعظم اٰریہ مخلوف درعی کو بے ایمانی، رشوت ستانی، ٹیکس فراڈ اور منتخب نمائندے کی حیثیت سے عوام کا اعتماد پامال کرنے کے الزام میں تین سال قید کی سزا ہوچکی ہے۔ یہ جرم 1999 میں ثابت ہوا لیکن پارلیمانی استثنیٰ کی بناپر یہ جیل سے باہر ہیں۔ اس بار بھی جب یہ سوال اٹھا کہ ایک ’مجرم وزیر کیسے بن سکتا ہے تو اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا ’جب عوام نے منتخب کرلیا تو وزیربننے میں کیا قباحت ہے‘؟ اشتراکِ اقتدار معاہدے کے تحت کنیسہ کے پہلے اجلاس میں ایک قانونی ترمیم کے ذریعے جناب درعی کے استثنیٰ کو قانونی تحفظ فراہم کردیا گیا۔
بی بی کو احساس تھا کہ ان تقرریوں کے خلاف حزب اختلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتی ہے چنانچہ حلف اٹھاتے ہی وزیر انصاف نے ایک مسودہِ قانون کنیسہ (پارلیمان) میں پیش کردیا۔ نئے قانون کے تحت کنیسہ واضح اکثریت یعنی 61 ووٹوں سے سپریم کورٹ کے کسی بھی فیصلے کو غیر موثر کرسکتی ہے۔ اسی طرح ججوں کی تقرری کے لیے جوڈیشل کونسل کا فیصلہ محض سفارش ہوگا جس کی حتمی منظوری وزارت انصاف دے گی۔
اس قانون پر وکلا اور انسانی حقوق کے کارکن سخت مشتعل ہوگئے اور بار کونسل نے ملک گیر ہڑتال کی۔ جب رم اللہ کے فلسطینی وکلا سے رائے لی گئی تو انہوں نے کہا ان تبدیلیوں سے ہمیں کوئی پریشانی نہیں۔ فلسطینیوں کے لیے اگر حکومت قصاب ہے تو عدلیہ قصائی کے وہ ’چھوٹے‘ جو ذبیحے سے پہلے بسمل کے پیر باندھتے ہیں۔
اٰریہ مخلوف درعی کے حلف اٹھاتے ہی اسرائیلی عدالت عالیہ کے دس میں سے نو قاضیوں نے اخلاقی جرم میں سزا یافتہ ہونے کی بناپر موصوف کے تقرر کو ’انتہائی غیر معقول‘ قراردیتے ہوئے انہیں کابینہ سے ہٹانے کی سفارش کی ہے۔ جناب درعی نے اپنے خلاف عدالتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر تم ہم پر دروازے بند کروگے تو ہم کھڑکیوں سے کود کر (ایوانِ اقتدار) داخل ہون گے اور اگر کھڑکیاں مقفل کی گئیں تو اللہ کی مدد سے ہم چھت توڑ کر آجائیں گے‘‘۔ نو جج، 4لاکھ افراد کے فیصلے پر خطِ تنسیخ نہیں پھیر سکتے۔ بی بی، جناب درعی سے اظہار یکجہتی کرنے ان کے گھر گئے اور وہاں انتہاپسندوں کے جلسے میں شرکت کی۔ اس دوران اسرائیلی عدلیہ کے خلاف توہین آمیز نعرے لگائے گئے لیکن اٹارنی جنرل کی سفارش پر وزیراعظم نے درعی صاحب سے وزارت صحت کا قلمدان واپس لے لیا اور وہ متبادل و متوقع وزیراعظم یا PM in Waitingبنادیے گئے۔
اسرائیلی بار ایسوسی ایشن، انسانی حقوق کی تنظیموں اور حزب اختلاف نے حکومت کے ان ہتھکنڈوں کو آئین سے کھلواڑ قرار دیتے ہوئے بی بی سرکار کے خلاف مظاہرے شروع کردیے جسے ’کرائم منسٹر کے خلاف ملک گیر احتجاج‘ کا نام دیا گیا۔ یہ مظاہرے ہر ہفتے کی شام ، سارے ملک میں ہورہے ہیں۔ ان جلوسوں کی اہم بات یہ ہے کہ وزیراعظم کے خلاف نعروں پر مشتمل بینروں اور کتبوں کیساتھ فلسطینی پرچم بھی لہرائے جارہے ہیں۔ یروشلم کی جامعہ عبرانیات Hebrew University میں فلسطینی جھنڈے اٹھائے ہوئے اسرائیلی طلبہ نے عدلیہ پر قدغن نامنظور، کرائم منسٹر مردہ باد کیساتھ، فلسطینیوں پر تشدد بند کرو، فلسطینی زمینوں پر قبضہ فسطائیت ہے اور نہر الی البحر فلسطین (دریائے اردن سے بحر روم تک فلسطین) کے نعرے لگائے۔
نئی اسرائیلی حکومت کی انتہا پسند ہئیت امریکہ بہادر کو بھی پسند نہیں۔ گزشتہ دنوں ڈیموکریٹک پارٹی کی سینیٹر جیکی روزن اور ریپبلکن پارٹی کے سینیٹر جیمز لینک فورڈ کی قیادت میں امریکی سینیٹروں کا سات رکنی وفد اسرائیل، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراقش کے مابین ہونے والے معاہدہ ابراہیم پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے لیے علاقے کے دورے پر آیا۔ سفر کے آغاز پر ہی سینیٹر جیکی روزن نے کہا کہ اسرائیل میں قیام کے دوران ان کا وفد انتہاپسند وزیر دفاع و خزانہ بیزلیل اسموترخ اور وزیر اندرونی سلامتی بن کوئیرسے ملاقات نہیں کرے گا۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ سینیٹر روزن صاحبہ خود یہودی اور ان کا پورا وفد اسرائیل کا پرجوش حامی ہے۔
سیاسی مشکلات سے نکلنے کے لیے بی بی نے حسب معمول مذہبی کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کیا اور تین جنوری کو اتامار بین گوئر دندناتے ہوئے مشرقی بیت المقدس المعروف القدس شریف (Temple mount)چلے گئے۔ یہ مسلمانوں کا قبلہ اول اور کعبہ و مدینہ کے بعد امت مسلمہ کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ بیت المقدس پر 1967 میں قبضے کے بعد اسرائیلی حکومت نے اس کے احترام کی تحریری ضمانت القدس شریف اوقاف اور اقوام متحدہ کو تحریری شکل میں جمع کرائی ہے جسکے مطابق، بیت المقدس کا دیوار گریہ والا مغربی حصہ یہودیوں کے لیے مخصوص ہے جبکہ القدس شریف میں غیر مسلموں کا داخلہ صرف مخصوص اوقات میں ہوگا۔ غیر مسلم زائرین کی تعداد دودرجن سے کم ہوگی، یہ افراد محدود وقت تک کمپاونڈ میں رہیں گے اور غیر مسلم زائرین کو کمپاونڈ میں عبادت کی اجازت نہیں ہوگی۔ بن کوئر زائرین کے لیے مخصوص وقت کے دوران کمپاونڈ میں آئے اور ان کے ساتھ آنے والے محافظین بھی غیر مسلح تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا لیکن واپسی میں انہوں نے ایک تکبر آمیز ٹویٹ میں کہا ’ٹیمپل ماؤنٹ یعنی القدس شریف سب کے لیے کھلا ہے اور اگر حماس یہ سمجھتی ہیں کہ وہ دھمکی دیکر مجھے روک دےگی تو اسے جان لینا چاہیے کہ وقت بدل چکا ہے‘۔
مسلمانوں کو اشتعال دلانے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بحث کے دوران اسرائیل کے مستقل نمائندے جیلاد آرڈن نے کہا کہ 1967میں القدس شریف کی اسلامی حیثیت تسلیم کرکے اس وقت کی اسرائیلی قیادت نے غلطی کی ہے۔ انہوں نے کہا القدس ہمارے لیے Har haBayīt یا مقدس پہاڑی مکان اور یہودی عقیدے کے مطابق کائنات کا مرکز ہے۔ اسرائیلی سفیر نے کہا کہ ہم القدس شریف کی حیثیت تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں نہ اس کی بے حرمتی چاہتے ہیں کہ یہ ہمارے لیے انتہائی مقدس مقام ہے لیکن یہودیوں کو اس کی زیارت سے روکا نہیں جاسکتا۔ اگرچہ کہ اس حوالے سے سلامتی کونسل نے کوئی قراداد منظور نہیں کی لیکن اپنی تقریروں میں امریکہ سمیت تمام ارکان نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ القدس شریف کے Status Que کو بحال رکھے۔
اسی کے ساتھ فلسطینی آبادیوں کو مسمار کرکے وہاں اسرائیلی بستیاں تعمیر کرنے کا کام تیز کردیا گیا۔ حکمراں لیکڈ پارٹی نے ایک پالیسی بیان جاری کیا جس کے تحت یہوداہ والسامرہ میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر نئی حکومت کی اولین ترجیح ہوگی۔ انتہا پسند، دریائے اردن کے مغربی کنارے کو اسرائیل کا اٹوٹ انگ ثابت کرنے کے لیے یہوداوالسامرہ کہتے ہیں جو کئی ہزار سال پہلے حضرت سلیمان کی ریاست کا حصہ تھا۔ اردن کے اس علاقے پر اسرائیل نے 1967میں قبضہ کیا تھا۔ اقوام متحدہ مغربی کنارےکو مقبوضہ قراردیتی ہے۔ اسے مذہبی رنگ دیتے ہوئے بی بی نے کہا کہ یہ کام روشنیوں کے تہوار یا Hanukkahکی مبارک ساعتوں میں ہورہا ہے۔ شادمانی و شکر کا یہ تہوار یروشلم کی پہلی عبادت گاہ کو حضرت سلیمان علیہ السلام سے منسوب کرنے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ گویا وہ سلطنت داودوسلیمان کی تعمیر نو کررہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے غیر جانبدار حلقوں کیساتھ خود اسرائیلی حزب اختلاف اور وکلا تنظیموں کا خیال ہے کہ بی بی حکومت، اپنےغیر جمہوری ہتھکنڈوں سے توجہ ہٹانے کے لیے اسرائیلیوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکارہی ہے۔ وزیراعظم کو مذہبی اتحادیوں کی جانب سے LGBT، اسکولوں میں مذہبی تعلیم ، معبدوں میں مخلوط عبادت کے خاتمے، کثرتِ اولاد کی حوصلہ افزائی، توریت و تلمود کے طلبہ کے لیے لازمی فوجی تربیت سے استثنیٰ جیسے معاملات پر بھی دباو کا سامنا ہے۔ لیکڈ کے سیکیولر عناصر کو ان مطالبات پر گہرے تحٖفظات ہیں، تاہم فلسطین کش اقدامات پر لیکڈ اور مذہبی طبقے کی نیت و عزم بالکل ایک ہے۔
فلسطیینوں کو اشتعال دلانے کے لیے القدس شریف کی حیثیت ختم کرنے کے لیے بیان بازی میں اضافہ تیز کردیا گیا۔ قدامت پسند ارکانِ کنیسہ نے Status Queختم کرنے کے لیے قانون سازی کی باتیں شروع کردیں۔ آبادکاروں کو جدید ترین اسلحے کے لائسنس جاری کرنے کیساتھ ہلاکت خیز آتشیں اسلحہ رعایتی قیمتوں پر پیش کیا گیا جس کی ادائیگی بلاسود قسطوں میں ہوگی۔ ان اقدامات کو انسانی حقوق کی تنظیموں نے فلسطینیوں کے قتل عام کی دعوت قراردیا ہے۔
نئی بستیوں کے لیے مغربی کنارے کے شہر جنین کو منتخب کیا گیا جہاں گھروں کی مسماری کا آغاز ہوچکا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں کزرتا جب جنین میں معصوم فلسطینی مارے نہ جاتے ہوں۔ نابلس اور رملہ بھی اسرائیلی فوج کے خاص اہداف ہیں۔ وزیر اندرونی سلامتی بن گوئر نے حال ہی میں انکشاف کیا کہ غزہ سے آنے والے ‘خوفناک دہشت گردوں’ نے بلاطہ پناہ گزیں کیمپ میں اڈے قائم کرلیے ہیں۔ نابلس کی اس گنجان خیمہ بستی میں ایک چوتھائی مربع کلومیٹر پر 30 ہزار نفوس آباد ہیں۔ دریائے اردن کے مغربی کنارے یہ خیمہ بستی ریاست اسرائیل بننے کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کے لیے 1950 میں ‘آباد’ کی گئی تھی یعنی دوبرس بعد اس خیمہ بستی کی ڈائمنڈ جوبلی ہوگی۔ موصوف نے ایسے ہی شک کا اظہار بیت اللحم کے الدھیشہ پناہ گزین کیمپ کے بارے میں بھی کیا ہے۔ چنانچہ تلاشی کے نام پر تمام پناہ گزیں کمیپوں کو کھنگھالا جارہا ہے۔ اس دوران اسرائیلی فوج کی اوباشی کی مزاحمت پر معصوم بچے بھون دیے جاتے ہیں۔
معلوم نہیں یہ اس قتل عام کا ردعمل تھا یا اسرائیلی فوج کی تزویراتی کارروائی کہ 27 جنوری کو مشرقی بیت المقدس کے یہودی معبد (Synagogue) کے سامنے ایک نوجوان کی اندھادھند فائرنگ سے ایک خاتون سمیت سات افراد ہلاک اور دس شدید زخمی ہوگئے ۔ واقعہ جمعہ کی رات سوا آٹھ بجے پیش آیا جب لوگ سبت (ہفتے) کی عبادت کے بعد معبد سے نکل رہے تھے۔ فوج کی فائرنگ سے مبینہ حملہ آور ہلاک ہوگیا جس کی شناخت 21سالہ ارقم خیری کے نام سے کی گئی ہے۔ دوسرے دن صبح کو البلدة القديمہ (عبرانی محلہ عتیق) میں 13 سالہ نوجوان محمد علیوات نے فائرنگ کرکے باپ بیٹے کو زخمی کردیا، جوابی فائرنگ سے علیوات زخمی ہوگیا جو پولیس حراست میں ہے۔ بلدہ القدیمہ المعروف اولڈ سٹی 900مربع میٹر پر مشتمل علاقہ ہے جہاں حرم الشریف، مسجد اقصی، دیوار گریہ اور گنبد صخری واقع ہیں۔ یہ علاقہ یہودی کوارٹرز، مسیحی کوارٹرز، مسلم کوارٹرز اور آرمینیائی کوارٹرز میں تقسیم ہے۔ ان واقعات کو اسرائیلی ریاست پر حملہ قرار دیتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نے قوم کو مشترکہ خطرے سے نمٹنے کے لیے متحد ہونے کا پیغام دیا۔ انہوں نے حزب اختلاف سے کہا کہ اس نازک موقع پر جلسے جلوس کرکے قوم کو تقسیم نہ کریں۔ شاس رہنماوں کا خیال ہے کہ ہفتہ وار مظاہروں سے قومی یکجہتی کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ وزیراندرونی سلامتی نے ان مظاہروں میں فلسطینی پرچموں کی موجودگی کو متاثرین کے زخموں پر نمک پاشی قرار دیتے ہوئے عوامی مقامات پر فلسطینی پرچم لہرانا جرم قرار دے دیا۔
نفرت اور جنگ کی فضا پیدا کرنے کے لیے سارے فلسطین میں خونریزی کی لہر اٹھادی گئی۔ مغربی کنارے اور یروشلم میں فلسطینیوں پر فائرنگ کے ساتھ غزہ پر بمباری کاآغاز ہوا بلکہ دمشق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر بھی میزائیل برسائے گئے جسکی وجہ سے ایرپورٹ کا ایک حصہ تادم تحریر ناقابل استعمال ہے۔
سیاسی مخالفین سے نمٹنے کے لیے جس سفاکی سے فلسطینیوں کو ذبح کیا جارہا ہے اس کی سنگینی کو اقوام عالم کی خاموشی نے دوچند کردیا ہے۔ اب تک 32 فلسطینی بی بی کی شیطانی ہوسِ اقتدار کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ یہ تو وہ ہیں جنکی لاشیں ان کے پیاروں کو مل گئیں۔ درجنوں بلکہ سینکڑوں نوجوان غائب ہیں جن کے بارے میں یہ پتہ نہیں کہ انہیں اسرائیلی فوج نے دفنا دیا یا یہ بیچارے عقوبت کدوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ درجنوں مجروح ، سہولتوں سے محروم ہسپتالوں اور شفاخانوں میں ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ رملہ، نابلس، جنین، غزہ، بیت اللحم، مشرقی بیت المقدس، شیخ جراح اور دوسری فلسطینی محلوں میں ماتم بپا ہے لیکن ’مہذب‘ دنیا کو تشویش تو دور کی بات پرواہ تک نہیںہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 سیاسی مخالفین سے نمٹنے کے لیے جس سفاکی سے فلسطینیوں کو ذبح کیا جارہا ہے اسکی سنگینی کو اقوام عالم کی خاموشی نے دوچند کردیا ہے۔ اب تک 32 فلسطینی بی بی کی شیطانی ہوسِ اقتدار کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ یہ تو وہ ہیں جن کی لاشیں ان کے پیاروں کو مل گئیں۔ درجنوں بلکہ سینکڑوں نوجوان غائب ہیں جن کے بارے میں یہ پتہ نہیں کہ انہیں اسرائیلی فوج نے دفنا دیا یا یہ بیچارے عقوبت کدوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ درجنوں مجروح ، سہولتوں سے محروم ہسپتالوں اور شفاخانوں میں ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ رملہ، نابلس، جنین، غزہ، بیت اللحم، مشرقی بیت المقدس، شیخ جراح اور دوسری فلسطینی محلوں میں ماتم بپا ہے لیکن ’مہذب‘ دنیا کو تشویش تو دور کی بات پرواہ تک نہیں ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 فروری تا 11 فروری 2023