فلسطین پر اسرائیلی حملے کے خلاف لوگوں کی ناراضگی کا اثر
اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ میں سماجی تنظیموں سمیت دو وزراء بھی شامل
شبانہ جاوید، کولکاتا
بائیکاٹ کی وجہ سے اسرائیلی اشیاء کی فروخت میں اچھی خاصی کمی مثبت نتائج متوقع
اسرائیل کا فلسطین پر بمباری کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔ مسلسل حملوں نے ہزاروں فلسطینیوں کے آشیانے اجاڑ دیے ہیں۔ غم سے نڈھال فلسطینی عوام کی حالت زار دیکھ کر ہر ایک کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ معصوم بچے اور ان کے روتے بلکتے چہروں نے عالمی قوانین پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ ان دردناک حالات کے باوجود مختلف ممالک خاص کر یورپ اور امریکہ کی خاموشی پر لوگوں میں شدید ناراضگی پائی جاتی ہے کہ بے گناہ فلسطینیوں کے انتہائی ناگفتہ بہ حالات پر یہ ممالک اسرائیل کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کر رہے ہیں؟ دنیا بھر میں جنگ بندی کے لیے احتجاج کیا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک بھارت میں بھی اسی طرح کے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، یہاں تمام بڑے شہروں میں مختلف تنظیموں کی جانب سے اسرائیل کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔ مختلف تنظیموں نے اب اپنے اپنے طور پر اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے تاکہ وہ اسرائیل کی خلاف اپنے احتجاج کو مضبوط سے مضبوط تر بنا سکیں۔ کولکاتا میں بھی اسی طرح کا احتجاج دیکھنے کو ملا، یہاں کئی ایک تنظیموں جن میں آل بنگال اقلیتی یوتھ فیڈریشن، جماعت اسلامی ہند حلقہ بنگال۔ ہیومن پیس فورم سمیت کئی تنظیموں نے ریلیاں نکال کر نہ صرف فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا بلکہ اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔ ان ریلیوں میں نہ صرف مسلمان بلکہ مختلف مذاہب کے لوگ شامل ہو رہے ہیں۔
غاصب اسرائیل اور فلسطین کے درمیان کشیدگی کوئی نئی بات نہیں ہے، برسوں سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ مضبوط ملک سمجھا جانے والا اسرائیل ہمیشہ ہی فلسطینیوں کو ظلم کا نشانہ بناتا رہا ہے۔ لاکھوں فلسطینی اسرائیلی مظالم کا شکار ہوئے ہیں اور ان اسرائیلی حملوں میں اپنوں کو کھو چکے ہیں۔ ایک بار پھر اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ جاری ہے۔ فلسطین پر اسرائیلی حملے کو ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اب بھی اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر مسلسل بمباری کی جا رہی ہے، اس بمباری کے شکار بے گناہ فلسطینی شہریوں کی دردناک و ہولناک تصاویر کسی پتھر دل کا بھی دل دہلانے کے لیے کافی ہیں جس کے خلاف دنیا بھر کے لوگوں میں غم و غصہ دیکھا جا رہا ہے۔ فلسطین جنگ کا میدان بن چکا ہے۔ فلسطین اجڑ چکا ہے۔ آبادیاں تہس نہس ہو چکی ہیں۔ لوگ زمین پر پڑے ہوئے ہیں۔ نہ صرف عمارتیں، رہائشی مکانات بلکہ اسکولوں کالجوں اور ہسپتالوں کو بھی بمباری کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ حالات اتنے خراب ہیں کہ ہسپتالوں میں مریضوں کو طبی امداد بھی نہیں پہنچ پا رہی ہے۔ حالات اتنے دردناک ہیں کہ ہر ایک کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ پوری دنیا اس معاملے پر احتجاج کر رہی ہے اسرائیل کے خلاف غم غصے کا اظہار کر رہی ہے۔ وہیں فلسطینیوں کے تئیں ہمدردی دیکھی جا رہی ہے۔ بھارت سمیت دنیا بھر میں لوگ اسرائیل کے خلاف سڑکوں پر اتر کر احتجاج کر رہے ہیں۔ لوگ جہاں فلسطین کی تباہ حال صورت حال پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں وہیں اس بات پر بھی حیران ہیں کہ دیگر ممالک خصوصا یورپ اور امریکہ اس معاملے میں اسرائیل کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کر رہے ہیں؟ یورپ اور امریکہ کی خاموشی پر بھی لوگوں میں غیض و غضب پایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں سماجی تنظیموں کے احتجاج کے باوجود فلسطین کے خلاف اسرائیل کے حملے کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں اسرائیل کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کرنے کے لیے سماجی تنظیموں نے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ بھارت کے کئی بڑے شہروں میں ان تنظیموں کی جانب سے اسرائیلی اشیاء کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا ہے۔ ایک لسٹ جاری کی گئی ہے اور لوگوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ان مصنوعات کا استعمال نہ کریں تاکہ اسرائیل پر معاشی طور پر دباؤ بڑھ سکے۔ کولکاتا میں بھی مختلف تنظیموں کی جانب سے اسرائیل کے خلاف احتجاج بھی کیا گیا اور اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کیا گیا۔ چنانچہ گزشتہ دنوں کئی تنظیموں نے مشترکہ ریلی نکال کر اسرائیلی مصنوعات کے باقاعدہ بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ امام عیدین قاری فضل الرحمن نے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کو ضروری بتاتے ہوئے کہا کہ اسرائیل عالمی قوانین کی دھجی اڑا رہا ہے، اسرائیل کی ہٹ دھرمی کے خلاف یورپ اور امریکہ جیسی مضبوط طاقتیں بھی کوئی کارروائی کرنے میں ناکام ہیں ایسے میں عام لوگ جو فلسطینیوں کی حالات کو دیکھ کر پریشان ہیں ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے طور پر کوئی قدم اٹھائیں جس کے تحت اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ اسرائیل کو عوامی غصے کا سامنا کرنا پڑے۔ ریاستی وزیر جاوید احمد خان نے بھی اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کی، انہوں نے اسرائیل کے خلاف منعقدہ ریلی میں شامل ہو کر لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے طور پر اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں تاکہ اسرائیل کو معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ ایک اور ریاستی وزیر صدیق اللہ چوہری نے بھی اپنے طور پر اسرائیل کے خلاف ریلی نکالی اور اسرائیل کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے اعلان میں نہ صرف مسلم طبقہ پیش پیش ہے بلکہ غیر مسلموں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ وہیں کولکاتا میں موجود یہودیوں نے بھی امن و امان کی اپیل کی ہے۔ کولکاتا میں موجود یہودیوں کی عبادت گاہوں کی دیکھ بھال مسلمان کرتے ہیں اور یہودی بھی یہاں مسلم اکثریتی علاقے میں ان کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ یہودیوں نے جنگ کے بجائے امن کا نعرہ لگاتے ہوئے کہا کہ کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے جنگ کے بجائے بات چیت کا راستہ اپنانا چاہیے۔ کولکاتا میں موجود یہودی عبادت گاہوں میں فی الحال سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے اور یہاں آنے والے زائرین پر بھی کئی طرح کی پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔
اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے تعلق سے David Ashkenazy جوBethel Synagogue بورڈ کے صدر ہیں، نے کہا کہ وہ امن کا پیغام دینا چاہتے ہیں تاکہ دنیا امن و امان میں رہ سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہر مذہب میں انسانیت کی خدمت کو ضروری بتایا گیا ہے، لہٰذا جنگ میں معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے کے بجائے بات چیت کے ذریعہ مسائل کا حل ڈھونڈا جانا چاہیے۔ بہرحال کولکاتا کے کئی شاپنگ مالز کا جب جائزہ لیا گیا تو پتہ چلا کہ اسرائیلی مصنوعات کی خریداری پہلے کی بہ نسبت اچھی خاصی کم ہو گئی ہے۔ دکان داروں نے معاشی طور پر ایک بڑا فرق سامنے آنے کی بھی امید ظاہر کی ہے۔
سوال یہ ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جو طاقتور ہیں جو سپر پاور ہیں جو کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے خود کو اہم سمجھتے ہیں وہ کیوں اسرائیل اور فلسطین کی موجودہ صورتحال پر بے بس نظر آرہے ہیں؟ ایسے میں عوام کی جانب سے احتجاج کا جو نیا طریقہ اپنایا گیا ہے وہ شاید جنگ کے بادل چھانٹنے اور امن کی راہ نکالنے میں کچھ نہ کچھ کردار ادا کرے گا۔
***
دنیا کے وہ ممالک جو طاقتور ہیں جو سپر پاور ہیں جو کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے خود کو اہم سمجھتے ہیں وہ کیوں اسرائیل اور فلسطین کی موجودہ صورتحال پر بے بس نظر آرہے ہیں؟ ایسے میں عوام کی جانب سے احتجاج کا جو نیا طریقہ اپنایا گیا ہے وہ شاید جنگ کے بادل چھانٹنے اور امن کی راہ نکالنے میں کچھ نہ کچھ کردار ادا کرے گا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 نومبر تا 2 دسمبر 2023