فلسطین۔اسرائیل تنازعہ، روس۔یوکرین جنگ پر حاوی

امریکہ بہادر کی دلچسپیاں مفادات کے مطابق بدلتی رہتی ہیں کبھی یوکرین کبھی اسرائیل۔۔۔

  اسد مرزا

یوں تو فلسطین-اسرائیل تنازعہ محض بیالیس دن پرانا ہے لیکن اس تنازعہ میں ہونے والی ہلاکتوں نے اٹھارہ ماہ سے زیادہ پرانی یوکرین جنگ پر سے عالمی توجہ کم ہونے کے اشارے دیے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ فلسطین میں محض بیالیس دنوں میں جتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں وہ یوکرین میں گزشتہ اٹھارہ ماہ میں ہونے والی ہلاکتوں کا پچھتر فیصد ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یوکرین سے زیادہ خونی جنگ اس وقت فلسطین میں جاری ہے اور دوسرے یہ کہ اس تنازعہ کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ کے خطے کی صورتِ حال یکسر بدلنے کا اندیشہ بھی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یوکرین نے گزشتہ اٹھارہ ماہ سے یوروپی یونین میں اپنی شمولیت کے لیے اپنی سفارتی کاوشیں جاری رکھی ہیں اور اب اس کو اس سلسلے میں مثبت نتائج ملنے شروع ہوگئے ہیں۔
یوکرین کے یورپی یونین (EU) میں شامل ہونے کے عزائم کو بدھ 8؍ نومبر کو ایک اہم وسعت اس وقت ملی جب EU کی ایگزیکٹیو کمیٹی نے اعلان کیا کہ یوکرین کی رکنیت پر تفصیلی بات چیت اگلے سال شروع ہونی چاہیے۔ یورپی یونین کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نام نہاد الحاق کی بات چیت آخر کار شروع ہونی چاہیے، یعنی کہ یورپی یونین نے یوکرین کو بطور امیدوار ریاست قبول کرنے کے اٹھارہ ماہ کے بعد اس رپورٹ میں یہ سفارش کی گئی ہے اور ساتھ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ عمل مالڈووا کے ساتھ بھی شروع ہونا چاہیے، جس کی سرحد یوکرین سے ملتی ہے۔
بدھ 8؍ نومبر کو یوروپی یونین کی صدر ارسولا وان ڈیرلیین نے کہا ’’آج ایک تاریخی دن ہے کیونکہ آج کمیشن تجویز کرتا ہے کہ یوکرین اور مالڈووا کے ساتھ EU الحاق کے مذاکرات شروع کیے جائیں۔‘‘ یوکرین طویل عرصے سے یوروپی یونین میں شمولیت کے عزائم رکھے ہوئے ہیں۔ 2013 میں اس وقت کے صدر وکٹر یانوکووچ کو ہفتوں کے احتجاج کے بعد معزول کر دیا گیا تھا جب انہوں نے یوروپی یونین کے ساتھ تجارتی معاہدے کو ختم کرنے اور اس کے بجائے روس کی طرف جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاریخی طور پر EU میں شامل ہونے کا مقصد نیٹو کے ساتھ باضابطہ طور پر 2019 سے یوکرین کے آئین کا حصہ رہا ہے۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے فروری 2022 میں یوروپی یونین کی رکنیت کے لیے درخواست دی تھی، روس کے ان کے ملک پر حملہ کرنے کے کچھ دن بعد  انہوں نے بدھ 8؍ نومبر کے اعلان کا خیر مقدم کیا۔ زیلنسکی نے کہا کہ آج یوکرین اور پورے یورپ کی تاریخ نے درست قدم اٹھایا ہے اور تمام تر مشکلات کے باوجود ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔
اور اگرچہ یوکرین نے بروسلز کی اس تجویز کا خیر مقدم کیا کہ بات چیت جاری رہنی چاہیے اور وہ پوری طرح سے توقع کرتا ہے کہ اس سال کے آخر میں یوروپی یونین کے 27 رکن ممالک اس موقف پر متفق ہوں گے اور اسے اپنا لیں گے۔ یہ سفارش کچھ انتباہات کے ساتھ آئی ہے جن کی تعمیل کرنا ’کیو‘ کے لیے اس وقت مشکل ہو گا، خاص طور پر جب بد عنوانی کا مسئلہ EU کے زیرِ بحث آئے گا۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ یوکرین کی حمایت میں مغربی عزم فروری 2022 سے اب تک نمایاں طور پر مستحکم رہا ہے، جبکہ مغربی ممالک جو زیادہ تر اپنے ذاتی مفادات پر مرکوز پالیسیاں اختیار کرتے ہیں، اس معاملے میں وہ یوکرین کے مفاد کی بات کرتے نظر آرہے ہیں۔ CNN کی ایک رپورٹ کے مطابق مالی اور فوجی مدد کے علاوہ یوکرین کے یورپی یونین اور نیٹو جیسے مغربی اداروں میں شمولیت کے لیے ان کی حمایت پر بہت سے یوروپی یونین کے حکام نے نجی طور پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔
فروری 2022 کے بعد سے زیلنسکی اپنے سیاسی مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے میڈیا کو استعمال کرنے میں ماہر ہو گئے ہیں۔ وہ مختلف مغربی حکومتوں کو یوکرین کے شہریوں کے دفاع کے لیے اخلاقی دباؤ کا استعمال کرتے ہوئے روس کے خلاف دفاعی مہم کے لیے یوکرین کو مزید ہتھیار، گولہ بارود اور رقم فراہم کرنے پر آمادہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
اس جذباتی مہم کے نتیجے میں یوکرین کو بہت سے جدید ہتھیار مل گئے ہیں، جو شاید پر امن وقت میں ممکن نہ ہوں، جیسے ہیوی آرٹلری، جدید فضائی دفاعی نظام، لیوپارڈ-2 ٹینک اور یہاں تک کہ F-16 لڑاکا طیارے تمام ہتھیاروں کے نظام جن کی ترسیل یوکرین کو ہو گی، وہ پہلے ناقابل تصور گمان ہوتے تھے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ یوکرائنی حکام کو تشویش ہے کہ 7؍ اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے حال ہی میں عالمی اور خاص طور پر امریکی توجہ یوکرین سے مشرق وسطیٰ کی طرف مبذول ہو گئی ہے۔
یہ رجحان اس پس منظر میں دیکھا جا سکتا ہے جس کے تحت امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی کانگریس سے اسرائیل، یوکرین اور پیسفک رم کے لیے مزید 106 بلین ڈالر کی درخواست کی تھی۔ لیکن ریپبلکن پارٹی نے ان کے منصوبوں میں رخنہ  ڈال دیا، ساتھ ہی ایوان کے نئے اسپیکر مائیک جانسن نے اسرائیل کے لیے چودہ بلین ڈالر دینے پر اتفاق کیا، لیکن یوکرین کے لیے ایک سینٹ بھی جاری نہیں کیا۔ اسی طرح سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی صرف اس صورت میں ’کیو‘ کے لیے رقم جاری کرنا چاہتی ہے جب امریکی حکومت پناہ کے متلاشیوں کے لیے اپنے قوانین کو سخت کرے۔
حقیقت میں امریکی امداد کا کوئی بھی خاتمہ یوکرین کے لیے کسی تباہی سے کم ثابت نہیں ہوگا۔ اس کی فوج چھ سو سے زائد دنوں کی جنگ کے بعد شدید قلت کا شکار ہے۔ اس وقت ’کیو‘ کی ترجیحات کی فہرست فضائی دفاع کے لیے ہتھیار ہیں۔ پورٹیبل ڈیوائسز بشمول اسٹنگر میزائل سے لے کر جدید ترین میزائل ڈیفنس سسٹم جیسے یورپ کے Iris-T روسی ڈرونز کے خلاف دفاع کے لیے آرٹلری اور الیکٹرانک جنگی ساز و سامان کی بھی اس جنگ میں فوری ضرورت ہے۔
اس پیش رفت پر ادارتی طور پر تبصرہ کرتے ہوئے برطانوی اخبار دی گارجین نے لکھا کہ مغرب میں ’’جنگی تھکاوٹ‘‘ کی حالیہ گفتگو کا جواب دیتے ہوئے، صدر ولادیمیر زیلنسکی نے حال ہی میں ولادیمیر پوتن کے ذریعہ یوکرین پر زبردستی ہونے والے تنازعہ کی سنگین نوعیت کا اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں یقین ہے کہ روسی افواج کے خلاف جدوجہد میں مغربی ممالک کی حمایت حاصل ہوگی جس سے کہ یوکرین مزید مضبوط ہوگا۔
گارجین کے اداریے میں مزید کہا گیا کہ 8؍ نومبر کو اس نظریے کی توثیق ہوئی، جب مسز وان ڈیرلیین نے یوکرین کے ساتھ یورپی یونین کی رکنیت کے لیے بات چیت شروع کرنے کی سفارش کی۔ یہ یکجہتی کا ایک اور انتہائی ضروری عمل تھا۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب بین الاقوامی توجہ مشرق وسطیٰ کے المناک واقعات پر مرکوز ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ امریکہ یوکرین کے لیے اپنی حمایت کو کم کرنا شروع کر دے، اور اس صورت میں یوروپی یونین اس کمی کو پورا نہیں کر سکے گا، کیونکہ وہ امریکہ کے مالی وسائل کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
یہ اس حقیقت کی وجہ سے ہے کہ روایتی طور پر امریکہ اپنے سب سے مضبوط اتحادیوں میں سے ایک اسرائیل کو اس موڑ پر تنہا نہیں چھوڑ سکتا، کیونکہ یہ اس کے ساتھ عالمی اثرات کے ساتھ خطے میں مکمل طور پر نئے خطوط پر جیو پولیٹیکل منظر نامے میں تبدیل ہو سکتا ہے اور اس وقت امریکہ اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ فی الوقت صدر جو بائیڈن کو اپنی صدارت کی اہم دقتوں میں سے ایک کا سامنا ہے، کیونکہ انہیں ملک بھر میں لبرل عناصر کے حملوں کے ساتھ اگلے سال کے صدارتی انتخابات کا سامنا ہے اور اس پس منظر میں وہ ایسا کوئی بھی قدم نہیں اٹھا سکتے ہیں جو مشرقِ وسطیٰ پر کسی نئی امریکی پالیسی کو نشان زد کرے اور اس کا منفی اثر اگلے سال ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں ان کے خلاف پڑے۔
(مضمون نگار سینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)
***

 

***

 ’’ایسا لگتا ہے کہ چالیس دن پرانے فلسطین-اسرائیل تنازعہ نے گزشتہ اٹھارہ ماہ سے جاری یوکرین جنگ پر سے عالمی توجہ ہٹالی ہے، مزید یہ کہ اب امریکہ نے بھی آہستہ آہستہ یوکرین سے منہ موڑنا شروع کر دیا ہے۔ لیکن اس کے پسِ پشت یوکرین نے اپنی سفارتی کاوشیں جاری رکھتے ہوئے یوروپی یونین میں شامل ہونے کا راستہ بہت حد تک پار کرلیا ہے۔‘‘


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 نومبر تا 2 دسمبر 2023