پاکستان کے صدر عارف علوی نے دعویٰ کیا ہے کہ انھھوں نے قومی سلامتی کے نئے قوانین پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا
نئی دہلی، اگست 21: پاکستان کے صدر عارف علوی نے اتوار کے روز دعویٰ کیا کہ انھوں نے قومی سلامتی کے ان نئے قوانین کی منظوری دینے سے انکار کر دیا ہے جن کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ملک کی ملٹری انٹیلی جنس ایجنسی کو سخت اختیارات دیں گے۔
علوی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X، جو پہلے ٹویٹر کے نام سے جانا جاتا تھا، پر لکھا کہ انہوں نے آفیشیل سیکریٹ (ترمیمی) بل 2023 اور پاکستان آرمی (ترمیمی) بل 2023 پر دستخط نہیں کیے ہیں۔
علوی نے، جو سابق وزیر اعظم عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف پارٹی کے رکن ہیں جو ان دو بلوں کو منظور کرنے والی مخلوط حکومت کی مخالفت کرتی ہے، کہا کہ ’’میں ان قوانین سے متفق نہیں ہوں۔‘‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے عملے نے ان کے احکامات کو ’’کمزور‘‘ کیا اور مقررہ وقت کے اندر اندر دستخط شدہ بلوں کو مقننہ کو واپس کرنے میں ناکام رہے۔
آئین کے مطابق اگر صدر پاکستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد 10 دن کے اندر کسی مسودے پر دستخط نہیں کرتے یا اسے اپنے اعتراضات یا مخصوص مشاہدات کے ساتھ واپس نہیں کرتے ہیں تو وہ قانون بن جاتا ہے۔
صدر نے کہا ’’جیسا کہ اللہ سب جانتا ہے، وہ انشاء اللہ معاف کر دے گا۔ لیکن میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو اس سے متاثر ہوں گے۔‘‘
دی ڈان کی خبر کے مطابق آفیشیل سیکریٹ ایکٹ کسی بھی انٹیلی جنس اہلکار کی شناخت ظاہر کرنے کے جرم میں تین سال قید اور 10 ملین روپے تک کے جرمانے کی سفارش کرتا ہے۔
آرمی ایکٹ سیاست میں حصہ لینے یا حساس معلومات افشا کرنے کے قصوروار پائے جانے والے موجودہ اور ریٹائرڈ افسران دونوں کے لیے پانچ سال قید کی سفارش کرتا ہے۔
اتوار کو ایک پریس کانفرنس میں عبوری وزیر قانون احمد عرفان اسلم نے صحافیوں کو بتایا کہ آرمی بل 2 اگست کو صدر کے دفتر کو بھیجا گیا تھا جب کہ آفیشیل سیکریٹ بل 8 اگست کو بھیجا گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ صدر 10 دن کے اندر اپنے مشاہدات ریکارڈ کر سکتے تھے جیسا کہ انھوں نے پہلے بھی کئی مواقع پر کیا تھا۔
وزارت قانون نے کہا کہ علوی کو ’’اپنے اعمال کی ذمہ داری خود لینی چاہیے۔‘‘
وزارت نے کہا کہ یہ تشویش ناک بات ہے کہ صدر نے اپنے ہی عہدیداروں کو بدنام کرنے کا انتخاب کیا۔