
پاکستان کو فوجی کارروائی کی پیشگی اطلاع دینے کے جے شنکر کے بیان پر حزب اختلاف برہم
دہشت گردی کے خلاف بھارت کی زیرو ٹالرنس پالیسی ،کثیر جماعتی وفود کا شراکت دار ممالک کا دورہ ممکن
محمد ارشد ادیب
مدھیہ پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ نے کروائی فضیحت، فوج کو وزیر اعظم کے سامنے سرنگوں بتایا۔ بعد میں دی صفائی
پنجاب و ہریانہ میں جاسوسی کے ریکٹ کا پردہ فاش، یوٹیوبر جیوتی ملہوترا سمیت چھ ملزموں کی گرفتاری کئی سوالات کے گھیرے میں
راہل گاندھی سماجی انصاف کی لڑائی پر قائم، بہار میں حکمِ امتناعی کے باوجود طلبہ سے خطاب پر ایف آئی آر درج
بہار کے ضلع سارن میں ماب لنچنگ، ایک بھائی فوت دوسرا زخمی
حب الوطنی کے جذبے سے سرشار مدھیہ پردیش کا قاضی بسئی گاؤں جہاں ہر گھر میں ہے فوجی جوان
بھارت-پاک جنگ بندی کے بعد شمالی ہند میں حالات تیزی سے معمول پر آرہے ہیں لیکن ماحول میں تلخی ابھی بھی باقی ہے۔ دونوں ملکوں کے امن پسند شہری اس بات سے خوش ہیں کہ جنگ ٹل گئی جبکہ میڈیا کا ایک طبقہ اور سابق فوجیوں کا ایک جتھا اس سے ناخوش ہے۔ دراصل قومی میڈیا نے جنگ اور فوجی آپریشن کے فرق کو نظر انداز کرتے ہوئے اس طرح رپورٹنگ کی گویا دونوں ملکوں کے درمیان مکمل جنگ چھڑ گئی ہو جبکہ وزارت خارجہ اور فوج کی بریفنگ میں بار بار یہ بات واضح کی گئی کہ آپریشن سندور ایک فوجی ایکشن ہے جو پہلگام حملے کے قصورواروں کو نیست و نابود کرنے کے لیے شروع کیا گیا ہے، اس کے ٹارگٹ اور مقاصد محدود ہیں۔ اس سلسلے میں وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا ایک بیان وائرل ہوا جس پر تنازعہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوجی آپریشن سے پہلے پاکستان کو اس کی اطلاع دی گئی تھی۔ اپوزیشن نے وزیر خارجہ کے اس بیان پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔ راہل گاندھی نے کہا کہ حملے کے آغاز میں پاکستان کو مطلع کرنا ایک جرم تھا۔ یہ کس کی اجازت سے کیا گیا۔ وزیر خارجہ نے عوامی طور پر اس کا اعتراف کیا یہ حکومت ہند نے کیا ہے انہیں اس بات کا اختیار کس نے دیا اور اس کے نتیجے میں ہماری فضائیہ نے کتنے طیارے کھوئے؟ اس کا جواب کون دے گا وزیر خارجہ اس سے پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان سے صرف دہشت گردی اور پاک مقبوضہ کشمیر پر بات ہوگی۔ انہوں نے سندھ آبی معاہدے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ معطل ہے اور اس وقت تک معطل رہے گا جب تک پاکستان کی جانب سے سرحد پار دہشت گردی کو قابل اعتبار اور ناقابل واپسی روکا نہیں جاتا جبکہ حکومت پاکستان نے سندھ آبی معاہدہ ختم نہ کرنے کے لیے بھارت کی وزارت آبی وسائل کو ایک مکتوب لکھا ہے جس میں اس مسئلے پر نظر ثانی کی درخواست کی گئی ہے۔
دہشت گردی پر پاکستان کو بے نقاب کرنے کے لیے کثیر جماعتی وفود بھیجنے کا فیصلہ
بھارت سرکار نے پہلگام حملے کے بعد پیدا شدہ حالات میں دہشت گردی کے عنوان پر پاکستان کو بے نقاب کرنے کے لیے شراکت دار ممالک میں کثیر جماعتی سفارتی وفود بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی اس پر سیاست گرم ہو گئی ہے۔ مرکزی حکومت نے کانگریس کے سینئر رہنما ششی تھروور کو سر فہرست رکھا ہے جبکہ کانگریس کی جانب سے بھیجے گئے چار ناموں میں ششی تھروور کا نام شامل نہیں ہے۔ کانگریس کے کمیونیکیشن انچارج جے رام رمیش نے تھروور پر بالواسطہ طنز کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس میں ہونے اور کانگریس کا ہونے میں فرق ہے۔ تاہم ششی تھروور نے اس انتخاب کو اپنے لیے باعث اعزاز بتایا ہے۔ ششی تھروور کے علاوہ ایم آئی ایم سربراہ اسد الدین اویسی اور کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد کے ناموں کو وفود میں شامل کیا گیا ہے۔ سینئر صحافی ایم جے اکبر کے علاوہ حکومت نے دیگر سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو بھی شامل کیا ہے تاکہ پہلگام حملے کے بعد شروع کیے گئے آپریشن سندور پر اتفاق رائے سے دنیا کے سامنے اپنا موقف پیش کیا جا سکے۔ جملہ سات وفود بھیجے جائیں گے جس کا آغاز 23 مئی سے ہونے کی امید ہے ان وفود میں تقریباً چالیس ارکان پارلیمنٹ اور سفارت کاروں کو شامل کیا گیا ہے جو دس دن تک پوری دنیا کے لوگوں کو دہشت گردی کے خلاف بھارت کی زیرو ٹالرنس پالیسی سے آگاہ کریں گے۔
بی جے پی کے بڑ بولے لیڈر وزیر اعظم کی کروا رہے ہیں فضیحت
ایک طرف بھارت سرکار بیرونی محاذ پر ملک کی شبیہ بہتر کرنے کے لیے سفارتی وفود بھیج رہی ہے، دوسری طرف حکم راں جماعت کے بڑ بولے لیڈر وزیر اعظم کے ساتھ ملک کی بھی فضیحت کروا رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے وزیر وجے شاہ کے متنازعہ بیان کے بعد نائب وزیر اعلیٰ جگدیش دیوڑا آپریشن سندور کے بارے میں بولتے بولتے اتنا جوش میں آگئے کہ ہوش ہی کھو بیٹھے۔ چنانچہ انہوں نے کہہ دیا کہ آج پوری فوج اور قوم وزیر اعظم کے قدموں پر جھکی ہوئی ہے۔ ان کے اس بیان پر پورے ملک میں تھو تھو ہو رہی ہے۔ ایکس پر انکر تیواری نام کے ایک صارف نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا” بی جے پی لیڈر لگاتار فوج کو بدنام کر رہے ہیں۔ کیا فوج بھی پولیس کی طرح واقعی بی جے پی کے قدموں میں جھک گئی ہے؟
انکر تیواری نے فوج کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا "جواب دو آرمی چیف سر؟” بی جے پی کو غدار وطن پارٹی ڈیکلیئر کیا جائے.” کانگریس کی ترجمان سپریہ سرینیت نے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے ایکس پوسٹ میں لکھا یہ فوج کی بہادری اور ناموری کی بدنامی ہے۔ صرف معافی سے کام نہیں چلے گا بلکہ اس آدمی کو تو آپ کو برخاست ہی کرنا پڑے گا۔ مودی جی! یہ بے حد گھٹیا اور گھناونی سوچ ہے۔ اس خبر پر کئی صارفین نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر جگدیش دیوڑا کو برطرف نہیں کیا گیا تو وزیر اعظم کی خاموشی کو رضا مندی سمجھا جائے گا۔ دوسری طرف جگدیش دیوڑا نے معافی مانگنے کے بجائے میڈیا پر ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا الزام لگا دیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ میں نے فوج کے قدموں میں سر نگوں ہونے کی بات نہیں کہی، ٹی وی چینلوں نے میرے بیان کو غلط انداز سے پیش کیا ہے جس سے میرے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ جگدیش دیوڑا نے جبل پور میں پارٹی کارکنوں اور صحافیوں کی موجودگی میں یہ بیان دیا تھا جس میں وہ صاف طور پر وزیر اعظم کو آپریشن سندور کا کریڈٹ دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔لیکن ابھی تک ان پر پارٹی کی جانب سے یا مدھیہ پردیش سرکار کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
شنکر آچاریہ نے پھر اٹھائے سوالات
بی جے پی، آپریشن سندور کی کامیابی پر پورے ملک میں ترنگا یاترا نکال رہی ہے اور یہ دکھانے کی کوشش کر رہی ہے کہ عوام میں خوشی اور جوش کا ماحول ہے۔لیکن شنکراچاریہ ابھیمکتیکشورانند نے اس پر سوالات کھڑے کیے ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ عوام میں کہاں جوش و ولولہ ہے؟ چاروں طرف تو سناٹا چھایا ہوا ہے لوگ صدمے میں ہیں کہ کیا سوچا تھا اور کیا ہو گیا؟ انہوں نے آپریشن سندور کی کامیابی پر سوال اٹھاتے ہوئے پوچھا کیا حملہ کرنے والوں کی پہچان ہو گئی؟ کیا انہیں پکڑ لیا گیا یا ختم کر دیا گیا؟ انہوں نے کہا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے، بھارت کے سامنے بہت ہی شرم ناک صورت حال ہے ہم ان حالات سے کیسے نکلیں یہی سوچ رہے ہیں جشن منانا تو بہت دور کی بات ہے۔”
ہریانہ کی مشہور یوٹیوبر نکلی پاکستانی جاسوس
بھارت کے آپریشن سندور کے بعد سیکیورٹی ایجنسیوں نے پنجاب اور ہریانہ میں ایک جاسوسی ریکیٹ کا پردہ فاش کیا ہے۔ اس ریکٹ کے چھ جاسوس پکڑے گئے ہیں ان میں ہریانہ کی مشہور یوٹیوبر جیوتی ملہوترا کا نام بھی شامل ہے۔ اس ریکیٹ پر بھارت کی خفیہ فوجی اطلاعات پاکستان بھیجنے کا الزام ہے ۔یہ جاسوس پاکستانی ہائی کمیشن کے افسر احسان الرحیم عرف دانش کے رابطے میں تھے۔ بھارت سرکار نے پچھلے ہفتے ہی دانش کو 24 گھنٹے کے الٹی میٹم پر ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ گرفتار ہونے والے جاسوسوں میں سے جیوتی ملہوترا دوبار پاکستان جا چکی ہے۔ جیوتی ملہوترا نے گرفتاری کے بعد کئی اہم انکشافات کیے ہیں۔ وہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز سے بھی مل چکی ہے۔ اسے پانچ دن کی عدالتی تحویل میں بھیج دیا گیا ہے۔ اس کے انسٹاگرام پر ایک لاکھ سے زیادہ فالوورز ہیں۔ میمے مشین نام کے ایکس ہینڈل نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے جوتی ملہوترا کے کیس میں جو باتیں سامنے آرہی ہیں وہ واقعی چونکا دینے والی ہیں۔ لاکھوں فالوورز اور اچھا کنٹینٹ بنا کر وہ کامیابی کی راہ پر تھی۔ اگر الزامات صحیح ہیں تو اتنا بڑا خطرہ مول لینے بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔ دانش سے مبینہ رشتے کی بات ہو یا پیسوں کا لالچ یہ سب سنگین سوالات ہیں۔ جانچ مکمل ہونے کے بعد سچائی سامنے آجائے گی لیکن یہ معاملہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ سوشل میڈیا کی چمک کے پیچھے کتنی احتیاط برتنی ضروری ہے۔
راہل گاندھی کا بہار کا دورہ اور سماجی انصاف کی لڑائی
اپوزیشن لیڈر اور کانگریس کے سینئر لیڈر راہل گاندھی کے خلاف بہار کے دربھنگہ میں یہ ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔ ان پر ضلع انتظامیہ کی جانب سے نافذ حکم امتناعی کو توڑنے کا الزام ہے۔ راہل گاندھی دربھنگہ کے امبیڈکر ہاسٹل میں طلبہ سے تعلیم اور سماجی انصاف پر مکالمہ کرنے جا رہے تھے۔ مقامی انتظامیہ نے پروگرام کی اجازت دینے کے بجائے دفعہ 144 نافذ کر دی، لیکن راہل گاندھی پابندی کے باوجود ہاسٹل پہنچ گئے۔ ضلع انتظامیہ کے افسر نے انہیں روکنے کی بھی کوشش کی لیکن انہوں نے پروا نہیں کی اور سیدھا طلبہ کے درمیان پہنچ کر مختصر سے وقت میں صرف تین باتیں کہیں کہ حکومت تعلیم پر بجٹ کا پیسہ خرچ کرے، ریزرویشن کے لیے 50 فیصد کی رکاوٹ ختم کرے اور نجی شعبے میں ریزرویشن پالیسی نافذ کرے۔ انہوں نے سماجی انصاف کے لیے ذات پات پر مبنی مردم شماری کو درست طریقے سے کرانے کا مطالبہ کیا۔ واضح رہے کہ بہار میں اس سال کے آخر میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ بی جی پی، این ڈی اے کی حلیف جماعتوں جنتا دل یو اور لوک جن شکتی پارٹی کے ساتھ مل کر انتخاب لڑ رہی ہے جبکہ کانگریس آر جے ڈی کے ساتھ اتحاد میں ہے۔ بہار سماجی انصاف کی لڑائی میں پورے ملک میں ایک خاص پہچان رکھتا ہے۔ بی جے پی قوم پرستی کے نام پر پہلگام حملے کے بعد آپریشن سندور کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی جبکہ انڈیا اتحاد ذات پات پر مبنی مردم شماری اور سماجی انصاف کی بنیاد پر میدان میں اترے گا۔ راہل گاندھی کے تیور بتا رہے ہیں کہ اس بار بہار میں انتخابات کانٹے کے ہونے کی امید ہے۔
گئو کشی کے شک میں ماب لنچنگ
بہار کے ضلع سارن میں ایک مسلم نوجوان کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا گیا جبکہ اس کے بھائی کو زخمی کر کے چھوڑ دیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق 11 مئی کو چھپرا کے کریم چک کا باشندہ ذاکر قریشی چھوٹا تیلپا علاقے میں گیا تھا جہاں پر کچھ لوگوں نے اسے پکڑ کر مارنا پیٹنا شروع کر دیا جس سے اس کی موت ہو گئی۔ پولیس کے مطابق دو تین دن پہلے اس علاقے سے ایک بچھڑا چوری ہو گیا تھا جو بعد میں مل بھی گیا۔ اسی معاملے میں مار پیٹ ہوئی ہے۔ قاتلوں میں سے چار کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ذاکر قریشی کے والد ننھے قریشی نے گئوکشی کے الزام کو مسترد کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کا بیٹا باڈی بلڈر تھا۔ ان کو جب اس کے ساتھ مار پیٹ کی اطلاع ملی تو وہ اپنے چھوٹے بیٹے کو لے کر ذاکر کو ڈھونڈنے نکلے جو موقع پر پہنچ گیا لیکن بھیڑ نے اسے بھی پکڑ لیا اور اسے بھی مار پیٹ کر کے شدید زخمی کر دیا۔ اس واقعے کے بعد پورے علاقے میں دہشت طاری ہے۔ اس علاقے میں اس سے پہلے بھی اظہر الدین نام کے ٹرک ڈرائیور کی ماب لنچنگ ہو چکی ہے۔ بہار اور جھارکھنڈ میں اس طرح کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کا ایک سبب الیکشن بھی ہو سکتا ہے۔
قاضی بسئی یعنی فوجیوں کا گاؤں
مدھیہ پردیش کی مورینا پنچایت میں واقع قاضی بسئی گاؤں کو فوجیوں کا گاؤں کہا جاتا ہے۔ اس گاؤں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ مسلم اکثریتی ابادی ہونے کے باوجود اس گاؤں کے ہر گھر میں فوجی جوان موجود ہے۔ کئی گھرانے تو ایسے ہیں جن کی چار چار پیڑھیاں سرحد پر اپنی خدمات انجام دے چکی ہیں۔ سابق فوجی حاجی محمد رفیع کے مطابق 1914 سے لے کر 2025 تک گاؤں کے جوان ہر ہندوستانی مورچے پر اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ آج بھی اس گاؤں کے تقریباُ تین سو جوان حاضرِ سروس ہیں۔ رحیم الدین کے چار بیٹے چار الگ الگ مورچوں پر تعینات ہیں لیکن گاؤں کے کچھ لوگوں کو اس بات کا شکوہ ہے کہ آزادی کی لڑائی سے لے کر ہر مورچے پر اپنی جانیں نچھاور کرنے والے مسلمانوں کو آخر کب تک اپنی وفا داری کے ثبوت دینے ہوں گے؟
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال، آئندہ ہفتہ پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ، تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 مئی تا 31 مئی 2025