پاکستان کے انتخابات غیر شفاف اور غیر فیصلہ کن
غیر سرکاری نتائج کے مطابق تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی 93، نواز لیگ کو 75 اور پیپلز پارٹی کو 54 نشستیں
مسعود ابدالی
گزشتہ ماہ بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) میں انتخابات ہوئے اور 8 فروری کو پاکستان کے لوگوں نے قومی اور چاروں صوبوں کی اسمبلیوں کا انتخاب کیا۔ انتخابی نتائج پر تبصرے سے پہلے ملک کی سیاسی صورتحال کا ایک جائزہ پیش ہے۔
پاکستان گزشتہ 23 ماہ سے سیاسی بحران کا شکار ہے، اس کا آغاز 8؍ مارچ 2022 کو وزیر اعظم عمران خان کے خلاف حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد سے ہوا۔ اس تحریک کے روح رواں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان تھے۔جماعت اسلامی نے اس تحریک سے علیحدہ رہنے کا اعلان کیا۔ اسی طرح پشتون تحفظ موومنٹ اور مسلم لیگ ق نے بھی عدم اعتماد کی قرارداد پر دستخط نہیں کیے۔ 27؍ مارچ کو سابق وزیراعظم نے ایک کاغذ لہراتے ہوئے انکشاف کیا کہ امریکی وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر ڈانلڈ لو نے پاکستانی سفیر سے ایک ملاقات میں عمران خان کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے regime change کی فرمائش کی ہے۔ کپتان نے مزید کہا کہ سفیرِ پاکستان اسد مجید خان نے خفیہ سفارتی ٹیلی گرام یا Cypher کی شکل میں یہ بات وزیر خارجہ کو بتا دی ہے۔ خان صاحب نے انکشاف کیا کہ پاکستانی سفیر اور ڈانلڈ لو کی ملاقات 7؍ مارچ کو ہوئی اور اس کے دوسرے ہی روز قراردادِ عدم اعتماد پیش کردی گئی۔ کپتان نے دعویٰ کیا کہ یہ تحریک حکومت گرانے کے امریکی ’حکم‘ کی تعمیل کے لیے پیش کی گئی ہے۔ زعمائے پی ڈی ایم کا دعویٰ تھا کہ وہ کافی عرصے سے عدم اعتماد کی تحریک لانے کا سوچ رہے تھے لیکن منظوری کے لیے مطلوبہ ووٹ کو یقینی بنانے میں وقت لگا اور اس کا سائفر سے کوئی تعلق نہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سائفر ملنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس کا جواب امریکہ کو بھجوا دیا گیا ہے جسے سفارتی اصطلاح میں dé·marche کہتے ہیں۔
عمران خان نے پیشکش کی کہ اگر حزب اختلاف عدم اعتماد کی تحریک واپس لے لے تو وہ قومی اسمبلی تحلیل کرکے نئے انتخابات کرانے کے لیے تیار ہیں لیکن حزب اختلاف نہ مانی۔ تین اپریل کو جب عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش ہوئی تو ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے جو اجلاس کی صدارت کر رہے تھے، قرارداد کو خلاف ضابطہ قرار دیتے ہوئے مستر کردیا اور وزیر اعظم کی سفارش پر صدر عارف علوی نے قومی اسمبلی تحلیل کرکے ضابطے کے مطابق الیکشن کمیشن کو 90 دنوں کے اندر نئے انتخابات کرانے کا حکم دے دیا۔
ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے قرارداد مسترد کیے جانے پر حزبِ اختلاف سپریم کورٹ پہنچ گئی اور عدالت عظمیٰ نے اسپیکر کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ فیصلہ آتے ہی 10؍ مارچ کو حزب اختلاف نے قرارداد عدم اعتماد ایوان میں پیش کردی۔ اس روز اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر سمیت برسر اقتدار تحریک انصاف کے تمام ارکان نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا تاہم، وزیر مملکت علی محمد خان علامتی طور پر ایوان میں موجود تھے۔ سابق اسپیکر ایاز صادق نے اجلاس کی صدارت کی اور جب راے شماری کا وقت آیا تو صرف علی محمد خان، پشتون تحفظ موومنٹ کے محسن داوڑ اور جماعت اسلامی کے مولانا چترالی تحریک عدام اعتماد کے مخالف تھے۔ عدم اعتماد کے نتیجے میں حزب اختلاف کے شہباز شریف وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔
شدید مہنگائی اور سیاسی بحران کی وجہ سے شہباز حکومت عوام میں انتہائی غیر مقبول رہی۔ نو مئی کو بد عنوانی کے الزاام میں عمران خان کو گرفتار کرلیا گیا، جس پر تحریک انصاف کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا۔ مشتعل مظاہرین نے کئی شہروں میں فوجی تنصیبات اور کور کمانڈروں کے دفاتر پر توڑ پھوڑ کی۔اس دوران تحریک انصاف کے سینکڑوں رہنما اور کارکن گرفتار کر لیے گئے۔ عدالت کے حکم پر عمران خان رہا ہوگئے لیکن جلد ہی انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔ دورانِ حراست غیر ملکی دوروں پر ملنے والے تحائف فروخت کرنے کے الزام میں عمران کو تین سال کی سزا سنائی گئی۔ سزا پانے کے نتیجے میں عمران خان سیاست کے لیے نا اہل ہوگئے۔
مدت مکمل ہونے پر گزشتہ برس 13 اگست کو قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوگئیں۔ آئین کی رو سے انتخابات 90 دن مکمل ہونے پر 12 نومبر تک ہوجانے چاہیے تھے لیکن انتخاب کے لیے 8 فروری کی تاریخ طے کی گئی۔ اسی دوران الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو ایک انتباہی مکتوب لکھا جس میں نشاندہی کی گئی تھی کہ پارٹی نے جماعتی انتخابات نہیں کرائے اور اگر فوری طور پر انتخابات نہ کروائے گئے تو تحریک انصاف عام انتخابات میں اپنا انتخابی نشا ن ‘بلّا’ (bat) استعمال نہیں کرسکے گی۔ تحریک انصاف نے ہنگامی بنیادوں پر انتخاب منعقد کرکے بیرسٹر گوہر خان کو پارٹی کا چیئرمین چن لیا، لیکن الیکشن کمیشن نے ان انتخابات کو غیر شفاف اور خلاف ضابطہ قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی سےانتخابی نشان واپس لے لیا۔
اس سال 30 جنوری کو خصوصی عدالت نے سائفر کے افشا اور راز داری یا official secret act کی خلاف وزری پر عمران خان کو دس سال کی سزا سنا دی۔ اس کے چار دن بعد بشریٰ بی بی سے دوران عدت نکاح کرنے پر عمران خان اور ان کی اہلیہ کو سات سال قید کی سزا ہو گئی۔ رازداری ایکٹ کی تفصیلات کا ہمیں علم نہیں لیکن پارٹی انتخابات اور دوران عدت نکاح کے حوالے سے ہمارا خیال ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
سلطانی جمہور کو یقینی بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں کا جمہوری ہونا ضروری ہے جس کی بنیادی شرط پارٹی انتخابات ہیں۔ انتخابی ضابطے کے تحت ہر سیاسی جماعت Intra-Party انتخابات کرانے کی پابند ہے۔ تحریک انصاف سے انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ اس اعتبار سے تو درست ہے کہ عمران خان نے کافی عرصے سے پارٹی انتخابات نہیں کرائے لیکن یہ عدل و مساوت کی رو سے ایک امتیازی بلکہ انتقامی فیصلہ تھا کہ جماعت اسلامی کے سوا پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت میں انتخابات نہیں ہوتے۔ بلاول بھٹو کو تو ان کی والدہ مرحومہ کی وصیت کی بنیاد پر پارٹی قیادت سونپی گئی ہے۔ مسلم لیگ میں بھی انتخابات کے بجائے نامزدگیوں سے کام چلایا جا رہا ہے۔
دوران عدت نکاح کا مقدمہ انتہائی بھونڈا اور اسلامی شریعت سے مذاق ہے۔ معاملہ بس اتنا سا ہے کہ بشریٰ بی بی نے عدت اس دن سے گِنی جس روز سابق شوہر نے انہیں زبانی طلاق دی تھی۔ انہیں تحریری طلاق نامہ نومبر کے آخر میں ملا جس کی رو سے نکاح والے دن عدت مکمل نہیں ہوئی۔ خان صاحب نے دوباہ نکاح منعقد کرکے اس غلطی کی تلافی کر دی۔ اس میں نہ کوئی ملکی قانوں ٹوٹا نہ شریعت کے کسی ضابطے کی خلاف ورزی ہوئی، بس ایک سہو تھا جس کا ازالہ کردیا گیا۔ سچی بات یہ ہے کہ عدت کی مدت زبانی طلاق کے دن سے ہی گنی جانی چاہیے اور اس اعتبار سے دوسرا نکاح بھی ضروری نہ تھا۔
آب آتے ہیں انتخابات کی طرف اور سب سے پہلے فارم 45 اور 47 پر مختصر گفتگو کہ آجکل اس کا بڑا شور ہے۔ ہر پولنگ اسٹیشن پر گنتی کے بعد تمام امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کی تفصیل فارم 45 پر درج کی جاتی ہے۔ یہ فارم وہاں موجود پولنگ ایجنٹوں کی تصدیقی دستخط کے بعد پریسائیڈنگ افسران حلقہ کے Returning Officer یا آر او کو بھیج دیتے ہیں۔ ساتھ ہی اس کی مستند نقول بطور سند ایجنٹوں کے حوالہ کر دی جاتی ہیں۔ تمام پولنگ اسٹیشنوں سے حاصل ہونے والے فارم 45 پر درج ووٹوں کو جمع کرکے حلقے یا constituency سے ہر امیدوار کو ملنے والے ووٹوں کی مجموعی تعداد فارم 47 پر لکھ کرکے ضلعی اور صوبائی الیکشن کمشنر کو بھیجی جاتی ہے۔ فارم 47 دراصل حلقے کے غیر سرکاری نتیجے کا اعلان ہے۔ فارم 47 کے اعداد وشمار پر اعتراض کی صورت میں پولنگ اسٹیشنوں سے ملنے والے فارم 45 دکھا کر تصحیح کی درخواست دائر کی جاسکتی ہے۔
حالیہ انتخابات میں ووٹنگ اور گنتی کے مرحلوں پر تو کسی بڑی شکایت کی اطلاع نہیں ملی البتہ بعض پولنگ اسٹیشنوں پر عملہ دیر سے پہنچا، کچھ مقامات پر سیاسی کارکنوں کے درمیان دھول دھپے کی وارادت بھی ہو گئی تاہم یہ واقعات اکا دکا تھے۔گنتی کے بعد دستخط شدہ فارم 45 بھی بالکل درست جاری کیے گئے تھے۔ دھاندلی بلکہ کھلی بے ایمانی کا مظاہرہ فارم 47 کی تدوین کے وقت کیا گیا۔ کراچی میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کو ملنے والے اکثر فارم 47 خود ساختہ ہیں یعنی وہ فارم 45 کا مجموعہ نہیں۔ تحریک انصاف کے افراد کا کہنا ہے کہ پنجاب میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ کراچی میں فارم 45 کی رو سے صوبائی اسمبلی کے تیرہ حلقوں میں جماعت اسلامی کے امیدوار جیت چکے ہیں لیکن فارم 47 کے مطابق ان نشستوں پر ایم کیو ایم کے ووٹ زیادہ ہیں۔ دیکھنا ہے کہ ان انتخابی بے ضابطگیوں پر داد رسی کے لیے کیا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔
غیر سرکاری نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کی 93 نشستیں تحریک انصاف، 75 نواز لیگ اور 54 پیپلز پارٹی کے حصے میں آئی ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ نے 17 نشتوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی جمیعت علمائے اسلام اور مسلم لیگ ق کو تین تین نشستیں ملیں۔ مولانا صاحب ڈیرہ اسماعیل خان کی آبائی نشست ہار گئے لیکن انہوں نے پشین (بلوچستان) سے کامیابی حاصل کرلی۔ ان انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ پارلیمانی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے جب قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کی نمائندگی صفر ہوگی۔
ضابطے کے تحت انتخابات کے 20 دن کے اندر نئی اسمبلی حلف اٹھائے گی جس کے بعد خواتین کی 60 اور اقلیتوں کی 10 مخصوص نشستیں ہر جماعت کو اس کے پارلیمانی حجم کے مطابق ملیں گی۔ تحریک انصاف نے انتخابات میں بطور پارٹی حصہ نہیں لیا لہٰذا اس کوٹے میں اسکو کوئی حصہ نہیں مل سکتا۔ افواہ ہے کہ حلف اٹھانے کے بعد ان کے تمام ارکان مجلس وحدت المسلمین (MWM) میں شامل ہوجائیں گے تاکہ مخصوص نشستوں سے اپنا حصہ حاصل کیا جاسکے۔
تحریک انصاف کے لیے سب سے بڑی آزمائش اپنے ارکانِ پارلیمنٹ کی وفا داری قائم رکھنا ہے، یہ تمام لوگ آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے ہیں اس لیے ان پر آئین کی شق 63-A المعروف فلور کراسنگ ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ آزاد ارکان اپنی مرضی سے وزیر اعظم و وزیر اعلیٰ کے لیے ووٹ دے سکتے ہیں۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں تحریک انصاف کے آزاد ارکان کو ساتھ ملا کر اپنا پارلیمانی حجم بڑھانا چاہتے ہیں۔ یا یوں کہیے کہ ضمیر خریدنے کے لیے بولیاں دی جا رہی ہیں۔ آزاد پنچھیوں کے لیے ن لیگ کی رفاقت زیادہ پرکشش ہے کہ ان کے پاس پہلے ہی 74 نشستیں ہیں اور کم ازکم 10 آزاد ارکان ان سے آملے ہیں۔ ایم کیو ایم اور بلوچ عناصر نے بھی مسلم لیگ سے اتحاد کا عندیہ دیا ہے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ بی بی مقتدرہ ان پر مہربان لگ رہی ہیں اور یہاں لیلیٰ اقتدار اسی دیوانے کو فرحتِ وصال بخشتی ہے جو بی بی کے سایہ الطاف میں ہو۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کی عوامی حمایت کو نظر انداز کرنا مقتدر حلقے کے لیے آسان نہیں ہے۔ اگر عمران خان نے MWM سے الحاق کی اجازت دے دی تو پیپلز پارٹی سے شرکت اقتدار بھی آسان ہوجائے گا کہ شیعہ مکتبہ فکر کی بنا پر MWM کے پیپلز پارٹی اور زرداری خاندان سے اچھے مراسم ہیں۔ پی ٹی ائی کے قائد بیرسٹر گوہر دو سال پہلے تک پیپلز پارٹی میں تھے اور وہ جناب آصف زرداری کے بہت قریب ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو وفاق اور چاروں صوبوں میں MWM (تحریک انصاف) کی حکومت قائم ہوسکتی ہے۔ آصف زرداری اپنے بیٹے کو وزیر اعظم بنانا چاہتے ہیں جبکہ بیرسٹر صاحب بھی وزرت عظمیٰ کا ارمان رکھتے ہیں۔ پارلیمانی نظام حکومت میں منصب وزارت عظمیٰ کی شمع باری باری عشاقان اقتدار کے سامنے رکھنے کی نظیر بھی موجود ہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
***
***
تحریک انصاف کے لیے سب سے بڑی آزمائش اپنے ارکانِ پارلیمان کی وفا داری قائم رکھنا ہے، یہ تمام لوگ آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے ہیں اس لیے ان پر آئین کی شق 63-A المعروف فلور کراسنگ ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ آزاد ارکان اپنی مرضی سے وزیر اعظم و وزیر اعلیٰ کے لیے ووٹ دے سکتے ہیں۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں تحریک انصاف کے آزاد ارکان کو ساتھ ملا کر اپنا پارلیمانی حجم بڑھانا چاہتے ہیں۔ یا یوں کہیے کہ ضمیر خریدنے کے لیے بولیاں دی جا رہی ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 فروری تا 24 فروری 2024