سمیہ بنت عامر خان
اِنَّ اللّٰہَ کَرِیْمٌ یُحِبُّ الْکُرَمَائَ، یُحِبُّ مَعَالِيَ الْأُمُوْرِ وَ یَکْرَہُ سَفَاسِفَھَا ’’اللہ عز وجل خود کریم ہے اور کریمانہ اخلاق والوں کو پسند فرماتا ہے۔ وہ اعلیٰ صفات کو پسند کرتا اور رذیل عادات کو ناپسند کرتا ہے۔ اسلام دین فطرت ہے جو ہمیں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا درس دیتا ہے۔ارشادِ باری تعالی ہے کہ: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (آل عمران: ۱۱۰) ’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے وجود میں لائی گئی ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
دین اسلام اعلیٰ اقدار و فضائل کا ضامن ہے۔ اسلام نے ہمیں اخلاق کریمانہ کا حکم دیا ہے اور اخلاق رذیلہ سے منع کیا ہے۔ اسلام ہمیں ظاہری کام کے ساتھ ساتھ باطنی حسن و جمال کا حکم دیتا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ انسانی معاشرہ اعلی اخلاق و کردار اور اچھے اعمال کا عملی نمونہ بنے، لوگ حیوانی فطرت اور قبیح عادتوں سے دور رہیں۔ غرض یہ کہ اخلاقِ حسنہ تمام بھلائیوں کا مجموعہ ہیں۔ حسنِ اخلاق، صاحبِ اخلاق کے لیے اور معاشرے کے لیے باعثِ خیر وبرکت اور ترقی کا سبب ہے۔ اسی بنیادی اغراض و مقاصد کے تحت قرآن کی سورہ النور آیت ٣٣ میں ارشاد باری تعالی ہے کہ: وَلْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لاَ یَجِدُوْنَ نِکَاحًا حَتّٰی یُغْنِیَھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ (النور: ۳۳) اور ان لوگوں کو پاک دامن رہنا چاہیے جو اپنا نکاح کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے مال دار بنا دے۔‘‘
سیدنا ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ ابو سفیان نے قیصر روم سے کہا تھا کہ: ’’محمدؐ ہمیں اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں اور ہمارے آبا و اجداد جن اشیا کی عبادت کیا کرتے تھے، آپؐ ہمیں ان کی عبادت سے منع کرتے ہیں۔ آپ ہمیں نماز قائم کرنے، صدقہ دینے، عفت و پاک دامنی اختیار کرنے، عہد و پیمان کو وفا کرنے اور امانتوں کے ادا کرنے کا حکم فرماتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری ٢٧٨٢)
ایک اور روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’میرے سامنے وہ تین آدمی پیش کیے گئے جو سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے: 1- شہید 2- عفت وپاک دامنی اختیار کرنے والا 3- وہ غلام جو اچھے طریقے سے اللہ کی عبادت کرے اور اپنے مالکوں کا خیر خواہ رہے۔‘‘
(سنن ترمذی١٦٤٢)
اسلام عفت وعصمت کے تحفظ کا خاص خیال کرتا ہے۔ نظام عفت و عصمت ہی وہ اہم دولت جس کی بدولت معاشرے میں طہارت و پاکیزگی جنم لیتی ہیں اور یہی وہ اہم جز ہے جس کے سبب انسانی اخلاق و کردار بری عادتوں اور شہوت پرستی سے محفوظ رہتے ہیں۔ اسلام کی پاکیزہ تہذیب اور نبی ﷺ کا صاف ستھرا بے داغ اسوہ حسنہ موجود رہنے کے باوجود آج ہمیں مغربی تہذیب کی چمک دمک میں ترقی اور اسلامی تہذیب و ثقافت میں فرسودہ پن نظر آتا ہے۔ عریانیت و برہنگی کو فیشن کا نام دیا جارہا ہے، مرد و زن کے بے محابا اختلاط کو مزاج شناسی کا شریفانہ عنوان دے کر عفت و عصمت کے جنازے نکالے جارہے ہیں۔ ابتداء سے آدم و ابلیس کی جنگ جاری ہے۔ اس جنگ میں ابلیس نے پہلا وار حیا کے لبادے پر ہی کیا تھا۔ مغربی تہذیب میں نہ عزت و آبرو کی پروا ہے نہ غیرت سے تعلق۔ مغربی کلچر میں بےحیائی اور بری عادتوں کا دور دوراں ہے۔
آج پھر نسل نَو کو کھوکھلی آزادی کے خوش نما نعروں سے بہلا کر ایک ایسے سراب کے پیچھے لگا دیا گیا ہے جس کے اختتام پر تنہائی، عدم تحفظ اور ناقدری کے سوا کچھ نہیں۔ آج معاشرتی ضمیر فروشی اور آسائشوں سے مزین پر لطف زندگی کے بے شمار پہلوؤں نے معاشرے کی بلند و بالا مضبوط فصیلوں کو کم زور بنا دیا ہے۔ ہمارا معاشرہ مغربی تہذیب کی پیروی کر کے ترقی کے منازل طے کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ ہم اپنی اسلامی تہذیب کو دنیوی ترقی میں رکاوٹ مان رہے ہیں۔
دین اسلام اور اسوہ رسول ہماری زندگی کا مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلامی تعلیمات ہی وہ واحد حل ہے جس کے ذریعے سے معاشرے میں بے حیائی اور عریانیت کے اس سیلاب پر سختی سے روک لگائی جاسکتی ہے۔ اسلامی شریعت میں بہت سے قوانین ایسے ہیں جن کے ذریعے مردوزن کے بے محابا اختلاط کو روکا جاسکتا ہے۔ اور معاشرے کو حیوانی طرز زندگی اور اخلاق رذیلہ سے پاک کیا جاسکتا ہے۔
پہلا قانون: نگاہوں اور شرم گاہوں کی حفاظت کرنا:
دین اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو اخلاقی اقدار کے تحفظ کا ذمہ دار ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے مردوں اور عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ارشاد فرمایا: قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوْجَھُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ اِِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا یَصْنَعُوْنَ .
وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِھِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ (النور: ۳۰، ۳۱) مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہی ان کے لیے پاکیزگی ہے۔ لوگ جو کچھ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے خبردار ہے اور مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔
اس طرح اللہ تعالی نے اس قانون پر عمل پیرا ہونے والے مردوں اور عورتوں کو فلاح و نجات کی خوش خبری دی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ: قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلاَتِھِمْ خَاشِعُوْنَ وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ .وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِلزَّکٰوۃِ فَاعِلُوْنَ وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حَافِظُوْنَ اِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِھِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ فَاِِنَّھُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآئَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْعَادُوْنَ (المؤمنون: ۱ تا ۷)
اسی طرح حدیث میں بھی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والوں کو جنت کی بشارت دی گئی ہیں۔
نبی ﷺ نے فرمایا کہ: ’’جو شخص مجھے اپنے جبڑوں کے درمیانی چیز (زبان) اور اپنی ٹانگوں کی درمیانی چیز (شرم گاہ) کی ضمانت دے، میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری ٦٤٧٤)
دوسرا قانون: زنا سے اجتناب کرنا
زنا تمام فحاشیوں کی جڑ ہے۔ اللہ کے قانون و قواعد میں اللہ تعالی نے اسے خباثت و نجاست قرار دیا ہے۔ یہ ایک بدترین قسم کا کبیرہ گناہ ہے۔ اس پھیلتی ہوئی فحاشی وبا کی بدولت خاندانی نظام تہس نہس ہو کر رہ گیا ہے۔ انسان اسی مہلک وبا کی بدولت آپسی عداوت و انتشار کا مریض بن کر رہ گیا ہے۔ جس کے انجام کار میں رب قہار کا غضب و غصہ نازل ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ بدنامی اور رسوائی ہاتھ آتی ہے۔
حضرت بریدہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جب کسی قوم میں عہد شکنی عام ہو جائے تو ان میں قتلِ عام کی وبا پھوٹ نکلتی ہے اور جب کسی قوم میں فحاشی پھیل جائے تو اللہ ان پر موت کو عام کر دیتا۔‘
اسی طرح مستدرک حاکم میں آپ نے فرمایا: ’’جب کسی قوم میں زنا کاری اور سود خوری پھیل جائے تو ان لوگوں پر اللہ کا عذاب نازل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے کہ : وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَّ سَآئَ سَبِیْلًا (الإسراء: ۳۴) ’’اور زنا کے قریب بھی نہ جاؤ، کیونکہ یہ فحش کام اور بہت ہی برا راستہ ہے۔‘‘
اللہ تعالی نے زنا کاری کو مومنوں اور متقیوں پر حرام قرار دیا ۔ ارشاد باری تعالی ہے: اَلزَّانِیْ لاَ یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً اَوْ مُشْرِکَۃً وَّالزَّانِیَۃُ لاَ یَنْکِحُھَا اِِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ (النور: ۳) ’’زانی مرد زانیہ یا مشرکہ عورت کے سوا کسی سے نکاح نہ کرے، اور زانیہ عورت سے بھی زانی یا مشرک مرد کے سوا کوئی نکاح نہ کرے، اور ایمان والوں پر یہ حرام کر دیا گیا ہے۔‘‘
سنن ابوداؤد میں نبی ﷺ سے مروی ہے کہ : ’’جب کوئی بندہ زنا کرتا ہے تو ایمان اس سے نکل کر چھتری کی طرح اس کے سر پر منڈلاتا رہتا ہے اور جب وہ اپنے اس فعلِ بد سے ہٹ جاتا ہے تو ایمان اس کی طرف لوٹ آتا ہے۔‘‘ (سنن ابوداؤد ٤٦٩٠)
ایک اور روایت میں نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: ’’کوئی زانی جب زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔‘‘ ( صحیح بخاری٢٤٧٥)
ہمیں چاہیے کہ ہم چند لمحات کی نفسانی خواہشات کا شکار نہ بنی اور اس حیوانی فعل سے اپنے دامن کو رسوائی اور بدنامی سے بچائیں۔ احکام الٰہی پر عمل پیرا ہو اور حدود اللہ سے تجاوز نہ کرے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سات قسم کے لوگوں کو اللہ اس دن اپنے سائے میں جگہ عنایت فرمائے گا جس دن اس کے عرش کے سائے کے سوا کوئی دوسرا سایہ نہیں ہوگا، ان میں سے ایک وہ شخص بھی ہے جسے کوئی جاہ و منصب اور حسن و جمال والی عورت بد کاری کی دعوت دے اور وہ اس کی دعوت کو یہ کہتا ہوا ٹھکرا دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری٦٦٠)
سوشل میڈیا اور اخلاقی انحطاط
سائنسی ترقی انسانوں کی بھلائی اور فلاح و بہبود کے لیے ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے دور جدید میں یہ تہذیب وثقافت کے ساتھ ساتھ اسلامی روایات اور اخلاق میں گراوٹ کی ایک اہم وجہ بھی ہے۔ دور حاضر میں فحاشی اور جنسی بے راہ روی کے طوفان نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ٹی وی، ڈش، انٹرنیٹ فیس بک، ٹویٹر اور بلاگر کے ذریعہ مرد و زن کا آپس میں دوستی کرنا اور آزادانہ خیالات کا تبادلہ کرنا نفس پرستی اور بے حیائی کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ سوشل میڈیا نیٹ ورکنگ یہ سائنسی ترقی کی دین ہے۔ سوشل میڈیا کے سحر نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جوں جوں دنیا انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے متعارف ہوئی نوجوانوں میں گویا خوشی کی لہر دوڑ گئی۔کسی بھی ملک کی ترقی میں ذرائع ابلاغ اہم کردار ادا کرتا ہیں مگر ہماری نوجوان نسل تیزی سے تنزلی کا شکار ہو رہی ہے۔ ترقی کے اس نئے دور میں نوجوانوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ گھر میں یا معاشرے میں کیا ہو رہا ہے۔ دنیا و مافیہا سے دور ہماری آج کی نوجوان نسل ریلز پر کتنے لائیکس، کتنے کمنٹس، کتنے شئیرز، کتنے ویووز کی گنتی میں الجھ کر اپنی حقیقی زندگی، اپنا قیمتی وقت سوشل میڈیا پر ضائع کر رہے ہیں اس کے علاوہ ہنسی ٹھٹھے بازی اور مغربی ملکوں کے نوجوانوں کی تقلید میں اپنی مشرقی روایات کو یکسر بھلا کر ہر وقت اپنی ہی دنیا میں گم ہے۔ اس کے ذریعے بے حیائی اور اخلاقی بگاڑ کا شکار بھی ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے اخلاقی بگاڑ کے علاوہ بچے مذہب سے بھی متنفر ہونے لگے ہیں۔ جدید ٹکنالوجی کی بدولت ظاہری علم اور مادی قوت میں تیز رفتار ترقی ہوئی ہے لیکن اخلاق واقدار میں اتنی ہی سرعت کے ساتھ زوال و انحطاط واقع ہوا ہے۔
حل: نکاح معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کا سدباب
اسلام وہ واحد مذہب ہے جو اخلاقی کریمہ کی دعوت دیتا ہے اور اخلاق رذیلہ سے انحراف کرتے ہوئے پاکیزہ معاشرے کی تعمیر کرتا ہے۔ یاد رکھیں ہم پاکیزہ معاشرے کی تعمیر میں اسی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں جب ہم خاندانی نظام کو مستحکم و مضبوط بنالیں۔ اس خاندانی نظام کی بنیاد ازدواجی تعلق پر منحصر ہوتی ہے۔ نکاح کرنا انسانی فطرت کا تقاضا ہے جو معاشرے اور خاندان کو برائیوں سے بچاتا ہے۔ نکاح عفت و پاک دامنی، نگاہوں اور شرم گاہوں کی حفاظت کا بہترین ذریعہ ہے، نکاح کے ذریعے نصف دین کی تکمیل ہو جاتی ہے، زنا، جنس پرستی، عریانیت اور بے حیائی جیسے اخلاقی بگاڑ سے روک اور نسل انسانی کا فروغ، زندگی کا سکون اور دل کی راحت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
نبی ﷺ نے امت محمدیہ کو نکاح کرنے اور پاکیزہ زندگی گزارنے کی تلقین کی ہے۔ آپ نے فرمایا: جو شخص استطاعت رکھتا ہو، شادی کرے؛ اس لیے کہ یہ نگاہ کی پاکیزگی اور شرم گاہ کی حفاظت کا ذریعہ ہے اور جس شخص کے پاس شادی کرنے کی قدرت و استطاعت نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ روزہ رکھے، کہ یہ اس کی شہوت کا توڑ ہوگا۔
جب اولاد سن بلوغت کو پہنچ جائے اور حقوق کی ادائیگی کی ذمہ دار ہوجائے تو والدین و سرپرست کو چاہیے بلا تاخیر صالح اور بہتر جوڑے کا انتخاب کرے نکاح کروادے۔ نکاح کے وقت جوڑے کے انتخاب میں نیک و صالح اور دین دار ی کا خیال رکھا جائے۔ کیونکہ صالح جوڑا ہی معاشرے کی بنیاد ہے۔
نکاح کے مقاصد و فوائد
١۔ نکاح اطاعت اور عبادت ہے اور نفل عبادت سے افضل ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةً“ (اے نبی) ہم نے تم سے پہلے یقینا رسول بھیجے اور انہیں بیویوں اور اولاد سے بھی نوازا۔
نکاح سنتِ انبیا ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: چار چیزیں انبیاء کی سنت میں سے ہیں: حیا، خوشبو لگانا، مسواک کرنا اور نکاح کرنا‘‘۔ (ترمذی۲۰۶) چنانچہ آپ نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیا ہے۔
٢. نکاح کا ایک بڑا مقصد پرہیزگاری اور تقویٰ ہے۔
٣. نکاح ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ سکون و راحت کا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری اللہ تعالیٰ ہے کہ :’خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ أَزْوَاجاً لِّتَسْکُنُوْا إِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً (سورہ روم٢١). "اللہ نے تمہارے لیے تم میں سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان سے آرام حاصل کرو اور تم میں محبت اور نرمی رکھ دی۔
ارشاد باری تعالی ہے کہ: ھوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ اِلَیْھا“ یعنی ‘‘وہی اللہ ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور پھر اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنا دیا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے’’(اعراف:۱۸۹)
۳۔ جنسی تسکین کا ذریعہ: نکاح نہ کرنے سے کئی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ فطرتی طور پر مرد و عورت میں جنسی خواہشات کا مادہ پایا جاتا ہے۔ اس فطری جذبے کو پورا کرنے کا حلال راستہ نکاح ہی ہے۔
٤۔ نکاح عفت و پاک دامنی کو قائم رکھنے اور بری نگاہوں سے محفوظ رہنے کا ذریعہ ہے۔
٥۔ نکاح تقرب الٰہی کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صالح اور مہذب معاشرہ کی تشکیل کا ذریعہ بھی ہے۔
٦۔ اللہ تعالی نے نکاح میں انسان کے لیے بہت سےبدینی وبدنیاوی فائدے رکھے ہیں، مثلاً معاشرتی فائدے، خاندانی فائدے، اخلاقی فائدے، سماجی فائدے، نفسیاتی فائدے وغیرہ۔
خلاصہ کلام یہ کہ دنیا کی رنگینیاں اور شہوت ہلاکت کے پھندے ہیں۔ دنیا کی بے محابا آزادی میں سب سے زیادہ زبان اور آنکھوں کو کنٹرول کی ضرورت ہے۔ نگاہوں کو حرام کردہ چیزوں کے لیے کھلا چھوڑ دینا اور اپنی عزت و آبرو کو گناہوں کی ذلت کے بدلے بیچنا، سعادت و نیک بختی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ یاد رکھیں دنیا اک امتحان گاہ ہے جس نے اپنے نفس کی پر قابو پالیا وہ کامیاب ہوگیا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس پر فتن دور میں اللہ اور ہمارے نبی ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل پیرا ہوکر ان تمام باتوں سے اجتناب کریں جن سے ہماری عزت و ناموس پر داغ لگنے کا اندیشہ ہو۔ غرض یہ کہ اطاعت اللہ و اطاعت رسول کے ذریعے اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کریں کیونکہ یہی وہ تعلیمات ہیں جو گم راہی کے اندھیرے کو نور ہدایت سے روشن کر سکتی ہیں۔ صرف اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو پاکیزہ زندگی اور پاکیزہ معاشرے کی خوشی کا ضامن ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے۔
صِبْغَةَ اللَهِ وَ مَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَهِ صِبْغَةً وَ نَحْنُ لَهُ عَبدُونَ (البقرة : ١٣٨)
اللہ کا رنگ اختیار کرو اور اللہ کے رنگ (دین اسلام) سے اچھا کس کا رنگ ہو سکتا ہے اور ہم سب اسی کی عبادت کرنے والے ہیں
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 ستمبر تا 28 ستمبر 2024