
پیغمبر محمد ﷺ انصاف کے علمبردار: کرناٹک کی ایک ہمہ گیر مہم
غیر مسلموں کا سیرت رسول کی عظمت کا دل سے اعتراف اور اس کے نفاذ کا مطالبہ لائق تحسین
محمد طلحہ صدی باپا
ہر فرد اپنی دعوتی ذمہ داری ادا کرے اور پیغام سیرت انسانیت تک پہنچائے
کرناٹک کی فضاؤں میں دس دن تک ایک ہی نغمہ گونجتا رہا، عدل، مساوات اور رحمت کا نغمہ۔ جماعت اسلامی ہند، حلقہ کرناٹک نے 3؍ تا 14 ستمبر 2025 تک ’’پیغمبر محمد ﷺ انساف کے علمبردار‘‘ کے عنوان سے ریاست گیر سیرت مہم منظم کی۔ یکم ستمبر کو ریاست کے ہر بڑے شہر اور قصبے میں بیک وقت پریس کانفرنسیں منعقد ہوئیں جن میں اعلان کیا گیا کہ آئندہ دس دنوں تک کرناٹک کی گلیوں، بستیوں، تعلیمی اداروں اور عوامی مراکز میں ایک ہی پیغام گونجے گا: محمد عربی ﷺ، پیامِ عدل۔یہ صرف ایک مہم نہیں تھی بلکہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے معاشرے میں نئی روح پھونک دی گئی ہو۔
محبت کا نیا رخ
ہمارے دل نبی کریم ﷺ کی محبت سے لبریز تو ہیں مگر جماعت اسلامی نے یہ طے کیا کہ اس محبت کو صرف اپنے دائرے تک محدود نہ رکھا جائے، بلکہ اسے برادرانِ وطن تک پہنچایا جائے کہ جو ہمارے نبی ﷺ کو نہیں جانتے انہیں بتایا جائے کہ وہ کون تھے، ان کو کیا تعلیمات دے کر بھیجا گیا تھا اور ہم انہیں اپنی جان سے بڑھ کر کیوں چاہتے ہیں۔
عدل کے عملی مناظر، روز مرہ کے ہیروز کو خراجِ تحسین
نوَ نگر میں کارکنان نے ایک انوکھا سوال اٹھایا کہ ہمارے درمیان عدل کہاں زندہ ہے؟ اس سوال کے جواب کی تلاش انہیں سرکاری ہسپتال کے زچہ و بچہ وارڈ لے گئی جہاں ڈاکٹرز اور نرسیں دن رات ماؤں کی خدمت کرتی ہیں۔ مقامی جماعت نے پورے عملے کو اعزاز دیا اور کہا کہ حق دار کی قدر کرنا بھی عدل کا ایک حصہ ہے۔
شیرالکوپّا میں مہم کا انوکھا اقدام
کارکنان نے مقامی مٹھ کی ایک سنیاسی خاتون سے رابطہ کیا اور انہیں کتاب ’”محمد ﷺ کون؟” نامی کتاب کی رونمائی کی دعوت دی۔ ساتھ ہی کالج کے پروفیسروں سے کہا کہ وہ صرف کتاب قبول نہ کریں بلکہ اسے پڑھ کر عوامی پروگرام میں اس کتاب کا حاصل مطالعہ پیش کریں۔ غیر مسلم سامعین اس جرأت مندانہ انداز پر حیران رہ گئے، یوں کتاب کی تقسیم ایک سچے فکری مکالمے میں بدل گئی۔
مہم میں راہگیروں کو کتابیں اور فولڈروں کے ساتھ میں مٹھائی بھی تقسیم کی گئی تاکہ نبی ﷺ کا پیغام دلوں میں نرمی کے ساتھ اترے۔ دیگر مقامات پر کارکنان ہسپتالوں میں گئے جہاں انہوں نے مریضوں اور عملے کو پھل پیش کیے اور یاد دلایا کہ بیماروں کی عیادت اور دلجوئی رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات میں شامل ہے۔ یتیم خانوں میں بچوں کو بتایا گیا کہ رسول اللہ ﷺ خود یتیم تھے اور انہوں نے یتیموں کی کفالت کو ایمان کا حصہ قرار دیا۔
مہم میں خون عطیہ کیمپ اور صفائی مہمات بھی شامل تھے۔ کارکنان نے اپنے عمل سے دکھا دیا کہ جان بچانا اور ماحول کو پاک رکھنا محض شہری ذمہ داری نہیں بلکہ ایمان کا حصہ ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’صفائی نصف ایمان ہے۔‘‘
فرد بہ فرد ملاقاتیں
اس مہم کا سب سے انوکھا پہلو یہ تھا کہ محض اجتماعات پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ تقریباً چوبیس ہزار بااثر شخصیات اور معززین تک انفرادی ملاقاتوں کے ذریعے سیرت کا پیغام پہنچایا گیا۔
کارکنان نے دفاتر کے دروازے کھٹکھٹائے، گھروں کے اندر گئے، ہاتھوں میں کتابیں اور دلوں میں اخلاص لے کر بڑوں اور دانشوروں سے ملاقات کی۔ ہر ملاقات ایک نئی دنیا کی طرف قدم بڑھانے جیسی تھی۔
بین المذاہب مکالمہ
ہاس پیٹ میں ایک سوامی جی نے کتاب کی رونمائی کی اور امیر مقامی کو خطاب کی دعوت دی۔ منگلور، بیدر، گلبرگہ، ہبلی، دھارواڑ اور سلیّا میں سرکاری افسروں، اساتذہ اور مقامی لیڈروں تک پیغام پہنچایا گیا۔ یہ مناظر بتاتے ہیں کہ جب ہم ہمت کرنے لگتے ہیں تو دروازے خود بخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔
بنگلور کا یادگار سمپوزیم
مہم کا نقطہ عروج بنگلور کے بسوا سمیتی آڈیٹوریم میں منعقدہ بین المذاہب سمپوزیم تھا، جہاں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے نبی ﷺ کی تعلیمات پر گفتگو کی۔
جسٹس وی گوپال گوڈا نے کہا ’’ضرورت اس بات کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پیغمبر محمد ﷺ اور اسلام کے بارے میں بتایا جائے، کیونکہ ان کی زندگی اور تعلیمات معاشرے کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کا سب سے مؤثر جواب ہیں۔‘‘
ڈاکٹر چنا سوامی نے کہا ’’دینی حکمت کو بانٹے بغیر غلط فہمیاں دور نہیں ہو سکتیں اور کوئی بھی مذہب شمولیت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔‘‘
امیر حلقہ ڈاکٹر محمد سعد بیلگامی نے کہا ’’سیرت مہم ہماری کوشش ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ابدی قدریں، عدل، مساوات اور خدمتِ انسانیت، کو برادرانِ وطن کے سامنے رکھا جائے۔ یہی قدریں ایک پرامن اور ہم آہنگ معاشرہ تعمیر کر سکتی ہیں۔‘‘
برادرانِ وطن کے تاثرات
بھٹکل اور ہبلی میں منعقدہ سیرت پروچن پروگراموں میں برادرانِ وطن کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ ان پروگراموں کے بعد کئی غیر مسلم شرکاء نے اپنے تاثرات بھیجے اور اعتراف کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ عدل و مساوات نے ان کے دلوں کو چھو لیا ہے۔ بعض نے کہا کہ یہ پروگرام واقعی معنی خیز تھا اور دلوں کو جوڑنے کی ایک مخلصانہ کوشش ہے۔ کچھ نے لکھا کہ اس طرح کی محفلیں معاشرے میں اعتماد، محبت اور ہم آہنگی کو پروان چڑھاتی ہیں۔
ابلاغ کے نئے ذرائع
مقامی اخبارات میں مضامین شائع ہوئے، ایف ایم ریڈیو پر پیغامات نشر ہوئے اور سوشل میڈیا پر مہم نے نئی زندگی پائی۔ کنڑا اخبارات کے ذریعے لاکھوں قارئین تک پیغام پہنچا۔ بیلگاوی کے ایف ایم اسٹیشن اور منگلور کے ریڈیو سارنگ نے خصوصی نشریات پیش کیں اور اُڈپی کے جناب اکبر علی کی تقریر نے سوشل میڈیا پر کروڑوں لوگوں کے دلوں کو چھو لیا، تبصروں میں لوگوں نے لکھا: ’’ہم نے پہلی بار رسول اللہ ﷺ کی سیرت کو اس زاویے سے سنا، یہ پیغام دل کو بدلنے والا ہے۔‘‘
دعوتی ذمہ داری ہر فرد ادا کرے
یہ مہم بظاہر دس دن میں مکمل ہوگئی، لیکن اس کی بازگشت ابھی باقی ہے۔ ہر کتاب، ہر مصافحہ، ہر ملاقات، ہر تقریر اور ہر پوسٹ دراصل اس ذمہ داری کی یاد دہانی ہے کہ ہم نبی ﷺ کا پیغام پوری انسانیت تک پہنچائیں۔
اور یاد رہے کہ یہ مضمون محض چند جھلکیاں ہیں۔ اصل مہم تو ان ہزاروں کارکنان کی خاموش محنت میں پوشیدہ ہے جو گلی گلی، بستی بستی گئے اور محبت کے نغمے بکھیر آئے۔
یہ اختتام نہیں ایک آغاز ہے۔ آغاز اس عہد کا کہ ہم سب مل کر رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کو معاشرے کے ہر فرد تک پہنچائیں گے۔ یہی ہماری دینی ذمہ داری ہے اور یہی اصل دعوت ہے
وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 ستمبر تا 04 اکتوبر 2025