
پہلگام سانحہ کے بعد کے اثرات
شہید کی بیوہ، فوجی افسر اور خارجہ سکریٹری پر حملے اور حکومت کی پر اسرار خاموشی
مسیح الزماں انصاری
پہلگام کے حالیہ دہشت گر حملے کے بعد ہندوستان نے ایک اور تشویشناک محاذ پر آنکھ کھولی ہے—وہ ہے منظم نفرت انگیزی کی نئی لہر، جس کا ہدف مسلمان، ایک شہید کی بیوہ، ایک ممتاز خاتون فوجی افسر اور ملک کے خارجہ سکریٹری بنے ہیں۔ یہ حملے ان عناصر کی جانب سے کیے جا رہے ہیں جنہیں حکومت کی خاموشی سے گویا تقویت ملی ہو۔
ابتدا جس کی صرف فرقہ وارانہ کشیدگی سے ہوئی تھی، اب وہ وسیع نظریاتی جارحیت میں تبدیل ہو چکی ہے۔ سوشل میڈیا پر حکومتِ وقت سے وابستہ سمجھے جانے والے افراد اور حلقے بلا خوف و خطر گالم گلوچ، بدزبانی اور جھوٹا پروپیگنڈا پھیلا رہے ہیں۔ عوامی غم و غصہ اور عدالتوں کی مداخلت کے باوجود مرکزی حکومت کی مجرمانہ خاموشی معنی خیز ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم "اے پی سی آر” (APCR) کی ایک رپورٹ کے مطابق پہلگام حملے کے بعد سے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی کم و بیش دو سو واقعات سامنے آ چکے ہیں—جن میں آن لائن ہراسانی اور جسمانی حملے شامل ہیں۔
اس لہر کا سب سے افسوسناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب شہید لیفٹیننٹ ونے نروال کی بیوہ، ہمنشی نروال نے صبر و سکون اور امن کی اپیل کی۔ جواباً انہیں ’پاکستان نواز‘ کہہ کر بدنام کیا گیا۔ یہ حملہ محض شخصی نہ تھا بلکہ علامتی تھا—امن و مکالمے کی داعی ایک بیوہ کو ملک دشمن قرار دینا، دراصل جنگ پسندی کے بیانیے کو مقدس اور اختلاف کو غداری ٹھیرانے کی کوشش ہے۔
مزید شدت اس وقت پیدا ہوئی جب مدھیہ پردیش کے بی جے پی وزیر، وجے شاہ نے کرنل صوفیہ قریشی کو ‘دہشت گردوں کی بہن’ قرار دیا۔ ملک بھر میں اس بیان پر شدید ردعمل سامنے آیا، کیونکہ کرنل قریشی نہ صرف ایک سینئر افسر ہیں بلکہ "آپریشن سندور” کی قیادت کر چکی ہیں اور فوجی خدمات کے ایک معتبر خانوادے سے تعلق رکھتی ہیں۔
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے اس بیان کا از خود نوٹس لیتے ہوئے چار گھنٹوں کے اندر ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا، مگر بعد میں پولیس کی درج کردہ ایف آئی آر کو "انتہائی ناقص” اور "فریب پر مبنی” قرار دیتے ہوئے شدید نکتہ چینی کی۔
اگرچہ بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے وجے شاہ کو دہلی طلب کر کے ان سے معافی منگوائی لیکن تجزیہ نگار اسے صرف سیاسی نقصان کی تلافی (damage control) قرار دے رہے ہیں، نہ کہ حقیقی احتساب!
ایک اور افسوسناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب خارجہ سکریٹری وکرم مسری نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کیا۔ اس کے بعد انہیں اور ان کے خاندان کو شدید آن لائن حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی بیٹی کی ذاتی تفصیلات افشاء کی گئیں اور سوشل میڈیا پر ان کے اہلِ خانہ کے خلاف فحش اور جنسی نوعیت کی زبان استعمال کی گئی۔
خواتین کے قومی کمیشن (NCW) اور آئی اے ایس افسران کی انجمن نے ان حملوں کی مذمت تو کی مگر اب تک نہ تو کسی کے خلاف کوئی قانونی کارروائی ہوئی اور نہ ہی کسی کو گرفتار کیا گیا۔ کمیشن نے اسے "رازداری کی سنگین خلاف ورزی” قرار دیا، مگر محض سخت الفاظ تک محدود رہ کر قانونی اقدام سے گریز کیا۔
ان تمام واقعات میں ایک بات مشترک ہے: حملہ آور نظریاتی طور پر ہم آہنگ دکھائی دیتے ہیں، جن کی اکثریت یا تو بی جے پی کی حامی ہے یا اس کے قریب سمجھی جاتی ہے۔ یہ محض نفرت نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت اختلاف کرنے والوں کو خوفزدہ کر کے خاموش کیا جاتا ہے، اقلیتوں اور اعتدال پسندوں کو غدار بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
مزید برآں، پہلگام حملے کے بعد حکومت نے ’سیکیورٹی وجوہات‘ کا بہانہ بنا کر آٹھ ہزار سے زائد ٹوئٹر اکاؤنٹس بند کر دیے—جن میں زیادہ تر صحافی، انسانی حقوق کے کارکن اور آزاد میڈیا ادارے شامل تھے۔ مگر دائیں بازو کے وہ اکاؤنٹس جو کھلے عام نفرت پھیلا رہے تھے جوں کے توں موجود رہے۔ اس امتیازی سنسرشپ نے اس شک کو مزید پختہ کر دیا کہ حکومت تنقید دبانے میں تو دلچسپی رکھتی ہے مگر نفرت کی بیخ کنی میں نہیں۔
خواتین کے حقوق کی محافظ ادارے، قومی کمیشن برائے خواتین کو تنقید کا سامنا ہے کہ وہ محض بیانات تک محدود رہا جب کہ اسے قانوناً ٹھوس قدم اٹھانا چاہیے تھا۔ اگر یہ ادارے صرف زبانی مذمت پر اکتفا کریں گے تو نہ صرف مجرموں کو شہ ملے گی بلکہ ان اداروں کی ساکھ بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔
یہ قوم پرستی ہے یا انتہا پسندی کی پشت پناہی؟
بی جے پی خود کو ہندوستانی قوم پرستی کا محافظ قرار دیتی ہے مگر اس کے حامیوں کی حرکتوں پر قیادت کی خاموشی کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔
کیا شہید کی بیوہ کو غدار کہنا، فوجی افسر کو دہشت گردوں کی رشتہ دار کہنا، یا اعلیٰ سفارت کار کے گھر والوں کی توہین کرنا حب الوطنی ہے؟
نقادوں کا کہنا ہے کہ یہ قوم پرستی نہیں بلکہ خوف، دھمکی اور تقسیم کے ذریعے بیانیہ پر قبضہ جمانے کی حکمتِ عملی ہے۔
ایسے وقت میں جب عدلیہ نے نفرت انگیز بیانات پر از خود نوٹس لے کر کارروائی کا آغاز کیا اور پولیس کی تفتیش پر نظر رکھنی شروع کی، انتظامیہ کا رویّہ مجموعی طور پر سرد مہری کا شکار رہا۔ نہ کوئی وزیر برطرف ہوا، نہ کسی معروف ٹرول کے خلاف کارروائی کی گئی نہ کسی کو گرفتار کیا گیا۔ اس کے برعکس حکومتی توجہ ان افراد کو خاموش کرانے پر مرکوز رہی جو سلامتی سے متعلق حکمت عملی پر سوال اٹھا رہے تھے۔
اب مرکزی حکومت ایک اخلاقی دوراہے پر کھڑی ہے۔ اسے وضاحت کرنی ہوگی کہ کیا وہ شہداء کے اہلِ خانہ کی پشت پناہی کرے گی یا ان کی توہین کرنے والوں کی؟ کیا وہ ملک کی خدمت کرنے والے افسروں کے ساتھ کھڑی ہے یا ان وزیروں کے ساتھ جو انہیں رسوا کرتے ہیں؟ کیا وہ اپنے خارجہ سکریٹری کا ساتھ دے گی یا ان عناصر کی پردہ پوشی کرے گی جو اس کے خاندان کو ہراساں کرتے ہیں؟
اس سے بھی بڑھ کر حکومت کو یہ واضح کرنا ہوگا کہ اس کی "قوم پرستی” آخر کن قدروں پر مبنی ہے — قومی اتحاد اور ایثار پر یا سوشل میڈیا کی بھیڑ اور فکری جبریت پر؟
جب تک یہ سوالات بے جواب رہیں گے، یہ تاثر پختہ ہوتا جائے گا کہ انتہا پسند عناصر کو سیاسی سرپرستی حاصل ہے، اور یہی تاثر ان جمہوری اقدار کو مجروح کرتا رہے گا جن کا بھارت دعویدار ہے۔
(بشکریہ انڈیا ٹوماروڈاٹ نیٹ)
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 مئی تا 31 مئی 2025