پہلگام کے بعد، ہندوستان کا اصل امتحان

دہشت گردی کے سائے میں سیاسی فائدوں کے حصول کی دوڑ

0

زعیم الدین احمد ،حیدرآباد

کیا ملک "خفیہ اور علانیہ دہشت گردوں” کے گیم پلان کا شکار ہوگیا؟
پہلگام میں دہشت گرد حملے کے بعد ملک کا منظر نامہ اچانک تبدیل ہوگیا ہے۔ مذہبی جنون ہر سو رقصاں ہے، کسی مقام سے مسلمانوں کو قتل کرنے کا نعرہ بلند ہو رہا ہے، تو کہیں سے ان کا سماجی بائیکاٹ کیے جانے کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ اس دہشت گرد حملے نے انتقام اور ہندو قوم پرستانہ جذبات کو پھر سے ہوا دی ہے، اس ہنگامہ خیز شور کے پس پردہ ایک خطرناک چیلنج بھی چھپا ہوا ہے، وہ یہ کہ کیا ملک میں فرقہ پرست طاقتیں نفرت کی کھائی کو مزید گہری تو نہیں کر رہی ہیں؟
یہ بات اس لیے کہی جا رہی ہے کیوں کہ فرقہ پرست طاقتیں، واٹس ایپ گروپس میں پہلگام دہشت گرد حملے کو اپنی سیاسی مقصد براری کے لیے خوب بھنا رہے ہیں، عوام کو اس کے ردعمل کے طور پر انتقام لینے کی طرف اکسایا جا رہا ہے۔ یہ حکومت کے لیے ایک زبردست چیلنج ہے کہ ہندو مسلم کی خلیج اور خاص طور پر کشمیری مسلمانوں کے خلاف نفرت کہیں ایک مکمل خانہ جنگی کے فتنہ کو جنم نہ دے دے۔ اس اشتعال انگیزی اور نفرت بھرے ماحول سے کس کو فائدہ ہوگا یہ بات ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ واٹس ایپ گروپوں میں پھیلائے جانے والے میسیجوں کا نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
شردھانجلی
آج سے شروع کرو جو انہوں نے کیا،
نام پوچھو، پیٹ پر لات مارو،
نام پوچھو، کام سے نکالو،
نام پوچو، سامان مت خریدو،
نام پوچھو، ٹیکسی کینسل کرو،
نام پوچھو، اور پوری طرح سے بہشکار کرو۔
ایک سے دو ہفتوں کی پریشانی ہوگی، لیکن نیتجے بہت اچھے آئیں گے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ اس طرح کی اشتعال انگیزی ہوئی ہے، بلکہ اس سے پہلے بھی ملک میں اسی طرح کے نفرتی بیانات حکم راں جماعت کے لیڈروں نے دیے ہیں۔ لیکن آج کا یہ چیلنج پچھلے چیلنجوں سے کہیں زیادہ بڑا ہے، کیوں کہ موجودہ حکومت کے مکھیا جی جو خود کو چھپن انچ کی چھاتی والے کہتے ہیں، وہ پچھلی حکومتوں کو کشمیر کے مسئلے پر الزام عائد کرتے رہے ہیں، کہتے تھے کہ بارڈر پر ہماری سینا ہوتی ہے لیکن پھر بھی آتنک وادی کیسے گھس آتے ہیں، یہ تو مرکز بیٹھی نکمی سرکار کی ناکامی ہے، وہ پاکستان کو صحیح جواب نہیں دے رہی ہے، لیکن اب وہ خود دباؤ کا شکار ہوچکے ہیں۔ پچھلی بار پلوامہ حملہ ہوا تھا تو مودی حکومت نے ’’سرجیکل اسٹرائیک‘‘ کیا تھا، لیکن اب عوام اس سے مطمئن ہونے والے نہیں ہیں۔ اب آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں اور کشمیر کو آزاد کرلیا جائے۔ یہ باتیں ریاستی حکومت کے وزراء تک کہنے لگے ہیں۔ اس طرح کی بیان بازی سے صرف ملک میں جنگی جنون میں ہی اضافہ ہوگا، جس کا خمیازہ بالآخر معصوم عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔
اگر مودی حکومت اس جنون کے آگے جھک جاتی ہے تو ملک کو پھر ایک بار جنگ کی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے، وہ یہ کہ دہشت گرد حملوں سے حکم راں جماعت اور ہندتوادیوں کو سیاسی فائدہ ضرور ملا ہے، کیوں کہ پاکستان، ہندو مسلم ان کی سیاست کا سب سے اہم موضوع رہا ہے۔ یہ بات اس لیے اہم ہے کہ کارگل جنگ کے بعد سے بی جے پی نے معمول کے مطابق فوجی شہادتوں کو اپنے انتخابی مہم کے لیے استعمال کیا تھا۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ ملک میں جب بھی انتخابات درپیش ہوتے ہیں، دہشت گرد حملے ہوجاتے ییں اور بھاجپا ان حملوں کو اپنے انتخابات کا موضوع بنا لیتی ہے، بھاجپا اسی وجہ سے دہشت گردی کو ختم کرنے کے "عزم” میں "غیر سنجیدہ” نظر آتی ہے۔
ہندوستان و پاکستان اس وقت جنگ کے متحمل ہیں یا نہیں، یا کس کو کیا فائدہ یا نقصان ہوگا، اس کا تجزیہ ہم نہیں کر سکتے، یہ تو دفاعی تجزیہ کار ہی بہتر بتا سکتے ہیں، لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک اس وقت اندورنی مسائل، جیسے اقتصادی چیلنجس، بے روزگاری، مہنگائی وغیرہ سے دو چار ہیں، البتہ اگر یہ ایک چھوٹی سی بھی جنگ کریں گے تو یہ دونوں ممالک اپنے اندرونی مسائل سے عوام کی توجہ ضرور ہٹانے میں کامیاب ہوں گے۔ ہمارا اندورنی اتحاد اس قدر کمزور ہے کہ تین چار دہشت گردوں نے پورے ملک کو فرقہ وارانہ کشیدگی میں دھکیل دیا ہے۔ گاؤں گاؤں، قریہ قریہ اس وقت فرقہ وارانہ کشیدگی کا میدان بن چکا ہے اور اس کو مزید ہوا دینے میں بھاجپا اور ملک کا گودی میڈیا لگا ہوا ہے۔ اس پرفتن ماحول کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گرد اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ یاد رکھیں سماجی طور پر بکھری ہوئی قوم کبھی وشو گرو نہیں بن سکتی۔
ویسے بھی ہمارے ملک کے عام حالات اور ہماری سماجی ہم آہنگی غیر یقینی صورتحال کا شکار رہتی ہے اور خاص طور پر یہ گزشتہ دہائی کے دورانیے میں مسلسل کمزور ہوتی گئی ہے۔ آر ایس ایس کی مسلسل یہ کوشش رہی ہے کہ ملک کو ہندو راشٹر بنایا جائے، وہ اسی نہج پر کام بھی کرتی رہی ہے، حال ہی میں اس نے "ہندو استحکام” کی مہم چھیڑ رکھی ہے، جس میں اس نے مختلف ذاتوں سے پر زور اپیل کی ہے کہ وہ ہندو قومی اتحاد کو مضبوط کریں، موہن بھاگوت نے واضح الفاظ میں ہندوؤں سے کہا کہ "ایک مندر، ایک کنواں اور ایک شمشان گھاٹ” کو اپنائیں۔ موہن بھاگوت کی بات بظاہر بے ضرر معلوم ہوتی ہے لیکن اس طرح کے بیانات بین السطور میں بہت کچھ پیغام دیتے ہیں، اس میں غیر محسوس طریقے سے مسلمانوں کو بطور "دشمن” پیش کرتے ہوئے ان کے خلاف اتحاد کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ لیکن مسلمانوں نے بڑی حکمت و دانش مندی کا مظاہرہ کیا ہے، ان کے خلاف اٹھنے والے فرقہ پرست مظاہروں کا بڑے صبر و تحمل سے جواب دیا اور اتحاد قومی کا مظاہرہ پیش کیا۔ اس معاملے میں کشمیریوں کا صبر بھی قابل تحسین ہے، انہوں نے پہلگام میں ہونے والے خوف ناک واقعہ کے خلاف متحد ہو کر پر زور آواز اٹھائی ہے۔ مسلمانوں کی سرکردہ جماعتوں و رہنماؤں نے صاف موقوف اختیار کرتے ہوئے حملہ آوروں اور ان کے ایجنڈے کی کھل کر مذمت کی ہے۔ پھر بھی ہم اس امکان کو مکمل طور پر رد نہیں کر سکتے کہ گودی میڈیا جو کہ غیر ذمہ دار میڈیا بھی ہے، ایک یا دو خود ساختہ مولاؤں کو اپنے اسکرین کی زینت بنا کر پھر سے فرقہ وارانہ رنگ دینے کے لیے کھڑا کر سکتا ہے۔
دریں اثنا، بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی خاص طور پر اتر پردیش میں یہ رہی کہ مسلمانوں کو سیاسی طور پر دیوار سے لگا دیا جائے۔ وہ ہندوؤں کو متحد کرنے کے لیے "بٹیں گے تو کٹیں گے” جیسے نفرت انگیز نعرے بھی دیتے رہے ہیں. یہ سیاسی حربہ انہیں انتخابی طور پر فائدہ تو پہنچا سکتا ہے، لیکن دونوں طبقات کے درمیان نفسیاتی اور سماجی تقسیم کو مزید گہرا کردے گا۔ پاکھنڈی قسم کے باباؤں اور خود ساختہ مذہبی رہنماؤں نے ہندوؤں کو تعصب کے گڑھے میں مزید گہرائی میں پہنچا دیا ہے، "شربت جہاد” جیسی فضول و بے ہودہ باتوں کے ذریعے ہندو مسلم کی کھائی کو مزید گہرا کر دیا گیا ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ بھاجپا پہلگام کے واقعے کو اپنے سیاسی مقصد براری کے لیے ضرور استعمال کرے گی، اس کی تازہ مثال وزیر اعظم مودی کی بہار میں کی گئی تقریر ہے۔ پہلگام کے تناظر میں ملک کو اندرونی طور پر فرقہ پرستی کا چیلنج درپیش ہے، اگر اس پر قابو نہیں پایا گیا تو دہشت گردوں کا جو مقصد تھا وہ پورا ہو جائے گا، ہمارے سیاست دانوں کا یہی اصل امتحان ہے، دیکھتے ہیں کہ ہماری قیادت دہشت گردوں کے گیم پلان کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔
***

 

***

 یہ بات یقینی ہے کہ بھاجپا پہلگام کے واقعے کو اپنے سیاسی مقصد براری کے لیے ضرور استعمال کرے گی، اس کی تازہ مثال وزیر اعظم مودی کی بہار میں کی گئی تقریر ہے۔ پہلگام کے تناظر میں ملک کو اندرونی طور پر فرقہ پرستی کا چیلنج درپیش ہے، اگر اس پر قابو نہیں پایا گیا تو دہشت گردوں کا جو مقصد تھا وہ پورا ہو جائے گا، ہمارے سیاست دانوں کا یہی اصل امتحان ہے، دیکھتے ہیں کہ ہماری قیادت دہشت گردوں کے گیم پلان کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 مئی تا 10 مئی 2025