
نوراللہ جاوید، کولکاتا
’’حملہ آوروں کا اصل ہدف ہندو سیاح نہیں تھے، انہیں ایک بڑی سازش کے لیے ہدف بنایا گیا‘‘
22 اپریل کو سیاحتی مقام پہلگام میں ہونے والی دہشت گرد کارروائی میں بے قصور 26 سیاحوں کا سفاکانہ قتل گزشتہ 35 برسوں سے جاری دہشت گرد کارروائیوں کا نہ صرف تسلسل ہے بلکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ظلم و زیادتی، سفاکیت اور بے رحمی کی چکی میں پس رہی کشمیری عوام کے لیے ایک بڑے المیہ کا پیش خیمہ بن گیا ہے۔ انہیں اس جرم کی سزا دینے کی تیاری کی جا رہی ہے جسے انہوں نے انجام ہی نہیں دیا ہے۔ جب کہ پہلگام دہشت گرد کارروائی کے بعد وادی کے عام کشمیری شہریوں سے لے کر مساجد کے ائمہ اور یہاں تک علیحدگی پسندوں کے پیشوا میر واعظ عمر فاروق تک نے جس رد عمل کا مظاہرہ کیا اور یک زبان اس انسانیت سوز کارروائی کی نہ صرف مذمت کی بلکہ اس حملے کو کشمیر اور کشمیریت پر حملہ قرار دیا۔ دہشت گرد کارروائی میں زخمی سیاحوں اور دیگر سیاحتی مقامات پر پھنسے سیاحوں کی مدد کے لیے عام کشمیریوں نے جس طرح فرش راہ بن کر مدد کی اور اپنے گھروں کے دروازے کے ساتھ دلوں کے دروازے بھی کھول دیے، اس سے نہ صرف دشمنوں کے ناپاک عزائم خاک میں ملے بلکہ یہ ثابت ہوا کہ تاریخ کے کسی بھی لمحے میں کشمیری عوام جارحیت اور تشدد پسند نہیں رہے ہیں۔ ان میں کشمیریت جو انسانیت، جمہوریت اور رواداری پر مبنی ہے، کے جذبات غالب رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کی حکومت اور عوام کے لیے بھی کشمیریوں کے جذبات کا فائدہ اٹھا کر ان میں بھارت کا اٹوٹ حصہ ہونے کا احساس جاں گزیں کرنے کا موقع بن کر آیا۔ مگر انتقام کے شور، ہائپر نیشنلزم اور ہندتوا کی بالادستی کی آڑ میں جارحیت پر آمادہ حکومت اور اشرافیہ نے نہ صرف اس موقع کو ضائع کردیا بلکہ پہلگام میں دہشت گرد حملے کے ذریعے ملک دشمنوں نے جو اہداف رکھے تھے، اس کو مکمل کرنے میں یہ اول دستہ کے طور پر معاون بن کر سامنے آئے۔ ملک بھر میں کشمیری طلبہ کے خلاف نفرت انگیز مہم، مسلمانوں پر حملے کے واقعات اور سوشل میڈیا پر جاری نفرت انگیز بیانیہ نے پاکستانی افواج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کے حالیہ تقریر کے اس حصے کو جس پر بھارت کی میڈیا اور حکم رانوں نے سخت اعتراض کیا تھا، سچ ثابت کر دیا۔ اس حملے کے بعد میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے دباؤ بنانے کی کوشش کی گئی کہ ’’اب کشمیر کا حتمی حل ہونا چاہیے‘‘ ’حتمی حل‘ کے نام پر بھارت کی حکومت سے مطالبہ کیا جانے لگا کہ جس طرح سے 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی کارروائی کے بعد اسرائیل نے غیض و غضب، جارحیت اور انتہائی سفاکانہ کارروائی کرتے ہوئے غزہ کو زمین بوس کر دیا اور نصف لاکھ سے زائد بے قصور شہریوں کا قتل کردیا۔ ان کارروائیوں سے مستعار لے کر بھارت بھی 22 اپریل 2025 کے دن کو یادگار بنا دے۔ حملہ آوروں کے ذریعے ہندو سیاحوں کی شناخت کے بعد قتل کرنے کی کارروائی کو بہت ہی چالاکی کے ساتھ سناتن اور اسلام کی جنگ بنا دیا گیا اور اس جنگ کے ایندھن میں کشمیر اور بھارت کے عام مسلم شہری جن کا اس کارروائی سے کوئی تعلق نہیں ہے، کو جھونکنے کا منصوبہ بنا لیا گیا تھا۔ انتقام کی گونج میں پاکستان کے خلاف کارروائی سے زیادہ نسلی تطہیر کی گونج غالب ہوگئی۔
کشمیر کی چار دہائیوں پر مبنی شورش، تشدد کی تاریخ سے پہلگام دہشت گرد واقعہ اس لیے بھی الگ ہے کہ اس میں عام سیاحوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ تشدد کی تاریخ میں ایسا ایک یا دو مرتبہ ہوا جس میں سیاحوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ عسکریت پسندوں کے نشانے پر ہمیشہ سیکیورٹی فورسز، حکومتی اہلکار اور حکومت حامی گروپ رہے ہیں۔ عسکریت پسندوں نے بھارت کے جمہوری نظام میں شمولیت کی جدوجہد کرنے والے سیاسی کارکنان کو نشانہ بنایا ہے، مگر اس مرتبہ مکمل طور پر مذہبی شناخت کی تصدیق کرکے عام سیاحوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس لیے 22 اپریل کو ہونے والے پہلگام دہشت گرد حملے نے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کی کہ دفعہ 370 کی منسوخی اور 2016 میں نوٹ بندی کے بعد کشمیر میں دہشت گردوں کے حوصلے پست ہو چکے ہیں۔ 2019 میں پلوامہ میں فوجی دستے پر حملے کے بعد سرجیکل اسٹرائیک کے بعد پاکستان کی سرپرستی میں کام کرنے والے دہشت گرد گروہ کے حوصلے پست ہو چکے ہیں تو پھر پاکستانی سرحد سے چار سو کلومیٹر دور یہ دہشت گرد گروپ پہلگام میں کیسے پہنچ گئے؟ لاکھوں کی تعداد میں موجود سیکیورٹی اہلکار، مرکزی فورسز انہیں پکڑنے میں ناکام کیوں رہے؟ خفیہ ایجنسیاں اس خطرے کو سمجھنے میں ناکام کیوں رہیں؟ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ پہلگام کے بایسران پارک میں جہاں اس سفاکیت کو انجام دیا گیا، وہاں سیکیورٹی اہلکار کیوں نہیں تھے؟ ظاہر ہے کہ سیاحوں پر ہونے والے ہلاکت خیز حملے نے کشمیر میں امن کے دہلی کے دعوؤں کو خاک میں ملا دیا ہے، سیکیورٹی کی اہم خامیوں کو بے نقاب کر دیا ہےاور پاکستان کی حمایت یافتہ دہشت گردی کے ایک خطرناک نئے مرحلے کا اشارہ بھی دے دیا ہے۔ چنانچہ آل پارٹی میٹنگ میں حکومت نے اپنی روش کے برخلاف غیر معمولی طور پر یہ اعتراف کیا کہ پہلگام دہشت گرد کارروائی بڑی ناکامی اور لاپروائی کا نتیجہ ہے کیوں کہ اس حملے کو جس طرح سے انجام دیا گیا ہے اس کی وجہ سے حکومت کے پاس اپنی ناکامی کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ ناکامی کس کی ہے اور کیا اس میں کردار ادا کرنے والے عناصر کی نشاندہی کی جائے گی اور انہیں احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا؟ ظاہر ہے کہ اس کی امید نہیں کی جا سکتی۔
انٹلیجنس بیورو کے ساتھ خدمات انجام دینے والے اور جموں و کشمیر کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے اویناش گوہا پہلگام دہشت گرد حملے پر سوال کرتے ہیں کہ کیا علاقے میں دہشت گردوں کی نقل و حرکت کے بارے میں کوئی قابل عمل انٹلیجنس دستیاب نہیں تھی؟ کیا زمینی صورت حال اور بھارت کے دشمن پڑوسی ملک پاکستان کے عزائم کی ناقص سمجھ تھی؟ یا اس سے بھی بدتر، کیا یہ سمجھنے میں ناکامی تھی کہ دہلی میں جو نسبتاً امن منایا جا رہا تھا، وہ کمزور اور فریب تھا، اس لیے کہ دراندازی جاری رہی، اگرچہ کم تعداد میں؟ اویناش گوہا اپنے تجزیاتی مضمون میں پہلگام حملے کے بعد حکومت کے طرز عمل کی تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’دہلی کے پاس کشمیریوں کی خیر سگالی کو ناراضگی اور مایوسی میں بدلنے کا ہنر ہے۔ پہلگام حملے کے بعد، مقامی لوگوں نے متاثرین مدد کی، سیاحوں کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے، پوری وادی میں امن مارچ کیے — بشمول سوپور میں، جو کبھی علیحدگی پسندی کا مرکز تھا — اور حملے کے اگلے دن وادی میں ہڑتال کی۔ یہ بے ساختہ اشارے امن اور دہشت گردی کو مسترد کرنے کی عوامی خواہش کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود حکومت نے وادی میں مشتبہ افراد کے گھروں کو مسمار کر کے خاندانوں کو بے گھر کر کے اور 2000 کے قریب کشمیریوں کو محض شک کی بنیاد پر گرفتار کر کے اور ملک بھر میں کشمیریوں پر حملوں پر حکومتی اہلکار کی خاموشی کے ذریعے کشمیریوں کے خیر سگالی جذبے کو سختی سے مسترد کر کے ایک بڑا موقع ضائع کر دیا ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ پہلگام دہشت گرد کارروائی کے پیچھے کون ہے اور اس کے اہداف کیا ہیں؟ اگرچہ حملے کے چند منٹوں بعد ہی میڈیا نے نہ صرف دہشت گردوں کی نشاندہی کر دی تھی بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ حملہ آور کہاں سے آئے تھے اور ان کے سہولت کار کون تھے۔ جو کام سیکیورٹی اور خفیہ ایجنسیاں نہیں کر سکیں وہ بھارتی میڈیا نے کر دیا۔ علاوہ ازیں اس حملے کا انتقام لینے کا روڈ میپ بھی میڈیا نے بھارتی حکومت کے سامنے پیش کر دیا۔ تاہم اس طرح کسی بھی قسم کی نشاندہی اور روڈ میپ کو پیش کرنے کے بجائے اگر دہشت گرد کارروائی کو انجام دینے کے طریقہ کار، دہشت گرد کارروائی کے لیے جگہ کا انتخاب اور وقت کے تعین کا جائزہ لیا جائے تو کئی حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں۔ بلاشبہ گزشتہ پانچ چھ برسوں میں کشمیری عوام کو جس طرح سے مودی حکومت کے جبر اور انتقامی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کی کوئی نظیر ماضی میں نہیں ملتی ہے۔ 2019 میں نہ صرف آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا گیا بلکہ کشمیر کو مرکز کا زیر انتظام علاقہ قرار دے کر دہلی کی براہ راست حکومت قائم کر دی گئی۔ مہینوں کی انٹرنیٹ بندش نے کشمیریوں کو مکمل طور کاٹ کر رکھ دیا۔ خصوصی اختیارات ختم کیے جانے کے بعد حکومت نے بڑے پیمانے پر کشمیر کی زمین کو کارپوریٹ گھرانوں کے حوالے کرنے کی کارروائی شروع کی۔ سری نگر کی تاریخی عیدگاہ کی زمین پر ہسپتال بنانے کے فیصلے پر کشمیریوں کے غصے کو ساتویں آسمان پر پہنچا دیا۔ وقف قوانین میں تبدیلی نے شک و شبہ کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ڈومیسائل کے قوانین میں تبدیلی نے کشمیری عوام میں ڈیموگرافی میں تبدیلی کے شک و شبہ کو تقویت بخشی ہے۔ ان حالات میں کشمیر میں امن و امان کے دشمنوں کو امید تھی کہ کشمیر میں مزاحمت میں اضافہ ہوگا اور نوجوان سڑکوں پر اتریں گے۔ تاہم تمام جبر کے باوجود گزشتہ اکتوبر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں کشمیری عوام نے بھرپور طریقے سے اس میں نہ صرف شرکت کی بلکہ اپنے ووٹوں کو مرکوز کرکے نیشنل کانفرنس کو وادی میں کلین سویپ دلایا اور اس کے ساتھ ہی کشمیر پر حکم رانی کرنے کے بی جے پی کی امیدوں اور منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔
مودی حکومت کے پانچ سالہ بے رحمانہ جبر اور وعدہ خلافی اور 35 برسوں پر محیط مسلسل تشدد کی وجہ سے ان پر مسلط کردہ مصائب کے باوجود کشمیری عوام بھارت کے آئین کے ذریعے فراہم کردہ حقوق اور وعدے سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ کشمیر تنازعہ کا ایسا حل چاہتے ہیں جو انہیں عزت و وقار کے ساتھ بھارت کا اٹوٹ حصہ بنے رہنے کا حق فراہم کرے۔ کشمیریوں کا یقین ہے کہ یہ نہ صرف کشمیریت کے تحفظ کا بہترین طریقہ ہے بلکہ ان کا یہ شعور بھی ہے کہ بھارت کے ساتھ وفاداری قائم کرکے اس کی بڑی منڈی تک ان کی رسائی ہو سکتی ہے۔ ظالمانہ جبر کے باوجود کشمیر آج بھی معاشی اعتبار سے مجموعی طور پر خوشحال ہے اور ان کا شمار ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں ہوتا ہے۔ ہیومن ڈیولپمنٹ کے ہر انڈیکس میں بھارت کے دیگر حصوں کے مقابلے کشمیر ہیومن ڈیولپمنٹ کے معاملے میں دس فیصد اوپر ہے۔ اس کا ہرگز مطلب نہیں ہے کہ حالیہ برسوں میں کشمیر کے عوام نے بہترین حکم رانی کا تجربہ کیا ہے بلکہ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ کشمیر نے پوری دنیا کے سیاحوں کو مسلسل اپنی طرف متوجہ کیا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کا وہ حصہ ہے جہاں ہر خاندان میں اچھی تعلیم سب سے زیادہ قیمتی ہدف ہے۔ کشمیری عوام ہمیشہ پرامن تعلقات اور بقائے باہمی کو اہمیت دیتے ہیں۔ نوآبادیاتی دور میں جب بھارت کے دیگر حصوں میں سماجی تانے بانے کو کمزور کیا جا رہا تھا اس دور میں بھی کشمیر میں سماجی تانا بانا قائم رہا اور کشمیر کی یہی ہم آہنگی صدیوں پرانی اقتصادی بنیاد ہے جو جموں و کشمیر کی پہچان رہی ہے۔ چنانچہ جب بھی کوئی نازک موقع آیا ہے کشمیریوں نے ہم آہنگی اور انسانی جذبے کی مثال پیش کی ہے۔ چاہے پہلگام دہشت گرد کارروائی کے بعد سیاحوں کی مدد ہو یا پھر 2014 میں کشمیر میں تباہ کن سیلاب۔ اس وقت سیکڑوں کشمیری اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر سیاحوں کو بچانے کے لیے نکلے جو اس سال جدید تاریخ کے بدترین سیلاب میں پھنسے تھے۔ MORI (اب IPSOS کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے) اور گیلپ کے ذریعے 2002 اور 2009-10 میں کرائے گئے دو رائے عامہ کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ وادی کے 90 فیصد عوام امن اور جمہوریت کی واپسی چاہتے ہیں اور 6 فیصد سے بھی کم پاکستان کا حصہ بننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کشمیری مکمل طور پر عسکریت پسندی کے خلاف رہے ہیں اور جمہوریت کی واپسی کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ اس حملے کے ذریعے کشمیر کے دشمنوں نے شعوری طور پر کوشش کی ہے کہ مودی حکومت ایک بار پھر کشمیریوں کے خلاف جارحانہ کارروائی اور ہندتوا و شدت پسند قوتیں کشمیریوں کے خلاف نفرت انگیز مہم اور کارروائی میں شدت لائیں۔ ملک بھر میں کشمیریوں کی تذلیل کرنے کے واقعات میں اضافہ ہو تاکہ کشمیریوں میں مزاحمت، ناراضگی اور علیحدگی کے جذبات کو فروغ دیا جا سکے۔
کشمیر میں امن کے قیام کے لیے جدوجہد کا حصہ رہنے والے مشہور سماجی شخصیت او پی شاہ ہفت روزہ دعوت سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس حملے نے کشمیر میں امن کے قیام کی کوششوں کو شدید دھکا پہنچایا ہے۔ حملہ آوروں کے اصل ہدف یہ ہندو سیاح نہیں تھے بلکہ انہوں نے ہندو سیاحوں پر حملے کو ایک ٹول کے طور پر استعمال کیا ہے تاکہ اکثریتی طبقے میں غم و غصہ بڑھے اور کشمیریوں کو ہدف بنایا جانے لگے۔ اس کارروائی سے کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ ملنے کی راہ بھی مسدود ہوگئی ہے۔ حکومت میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ وہ اس حملے کے لیے عمر عبداللہ کی قیادت والی حکومت کو مورد الزام ٹھیرا سکے کیونکہ کشمیر پولیس اور سیکورٹی فورسز لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا اور مرکزی وزارت داخلہ کے ماتحت کام کرتی ہیں۔ فوج وزارت دفاع کے تحت کام کرتی ہے۔ تاہم حکومت یہ تاثر دینے کی ضرور کوشش کرے گی کہ امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ ابھی کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام ہی رکھا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی سوچ سے کشمیر کے وہ عناصر جو بھارت کے جمہوری نظام، انتخابی عمل اور بھارت کے ساتھ رہ کر کشمیر کی ترقی کے خواہاں ہیں، ان میں مایوسی پھیلے گی۔ دفعہ 370 کو جس طرح سے ختم کیا گیا اس سے یہ طبقے پہلے ہی مایوس ہیں۔ اگر کشمیریت اور اس کے پیچھے کی سوچ کی حفاظت کرنی ہے تو پہلگام حملے کو انجام دینے والے افراد کے مقاصد کو ناکام بنانا ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت خود احتسابی سے کام لے۔ سیاسی کارروائیوں اور بیان بازیوں کی آڑ میں اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے بجائے سیکیورٹی انتظامات میں چوک اور خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی کا جائزہ لے اور تدارک کے لیے اقدامات کرے۔ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو بے اختیار کرنے جیسی حرکتیں یہ پیغام دیتی ہیں کہ مرکز عوام کے مینڈیٹ کا بہت کم احترام کرتا ہے۔ جب تک اس صورت حال کو تبدیل نہیں کیا جاتا، وادی میں مزید بیگانگی اور غصے کو ہوا ملے گی جس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
فرقہ واریت کا عروج! حکومت کی
خاموشی اور انصاف کا بحران!!
پہلگام حملے کے بعد ملک بھر میں مسلم فوبیا کے جو واقعات پیش آئے ہیں وہ نہ صرف تشویش ناک ہیں بلکہ حکم راں جماعت اور اس کے سینئر وزیروں کی خاموشی ملک میں قومی اتحاد و سلامتی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ مسلمانوں کو کچلنے، حقوق سے محروم کرنے اور دوسرے درجے کا شہری بنانے کی خواہش مند ہندو قوتیں اس المیہ کو ایک موقع کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ 1947 میں تقسیم کی خونریزی سے لے کر 2020 میں دہلی فسادات تک اگر تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات اسی وقت پروان چڑھتے ہیں جب حکم راں طبقہ اور میڈیا فرقہ واریت کی مذمت اور حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے فرقہ واریت کو جواز بخشنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 1984 میں سکھ مخالف فسادات میں حکومت کی رپورٹ سے کہیں زیادہ انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، جبکہ اس میں احتساب کا عمل انتہائی مضحکہ خیز رہا۔ فسادات میں ملوث ہزاروں افراد میں سے صرف مٹھی بھر نچلے درجے کے مجرموں کو ہی سزائیں سنائی گئیں، جن لوگوں پر قتل عام کو منظم کرنے کا الزام تھا وہ بے قصور قرار دیے گئے۔ اسی طرح کے نمونے 1992 میں بابری مسجد کی شہادت میں ملوث کردار، اس کے بعد ممبئی سمیت ملک بھر میں ہونے والے فسادات اور اس کے بعد 2002 میں گجرات فسادات جس میں دو ہزار سے زائد مسلمانوں کو ہلاک کر دیا گیا اور سیکڑوں کو بے گھر لیکن تفتیش روک دی گئی، اہم مشتبہ افراد آزاد ہو گئے اور زیادہ تر سینئر لوگ جانچ سے بچ گئے۔ اسی طرح گجرات فسادات کے 18 برس بعد فروری 2020 میں شمال مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد کے دوران پتھروں اور پٹرول بموں کے ساتھ لوگ ہجوم کی شکل میں محلوں میں گھومتے رہے، جس سے کم از کم 53 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ مگر انصاف فراہم کرنے والے اداروں کی نگاہوں سے سیاسی منتظمین اور نفرت انگیز تقاریر پر اکسانے والے بچ گئے۔ گزشتہ 77 برسوں میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ کا صحیح تجزیہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ سنگین ترین مظالم کسی حادثاتی واقعے کی وجہ سے شاید ہی ہوتے ہیں بلکہ سنگین ترین فسادات اور ہلاکتیں انتہا پسندانہ بیان بازی کے نتیجے میں ہی ہوتی ہیں اور وہ جنونی تماشائیوں کی ملی بھگت سے انجام دیے جاتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگار اور محقق نرمنیو چوہان ملک کے موجودہ حالات پر کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں بھارت میں ڈیجیٹل پلیٹ فارم اور مرکزی دھارے کے آؤٹ لیٹس (میڈیا) دونوں نے منظم طریقے سے فرقہ وارانہ پروپیگنڈا کرنے، اختلافی آوازوں کو خاموش کرنے اور کشمیر اور اس سے آگے کی ظالمانہ پالیسیوں کو جواز بخشا ہے۔ انتہا پسندانہ بیانیے کو معمول بنا کر، میڈیا نے شہنشاہ نیرو کی طرح شہر میں آتشزدگی کے واقعے کے لیے عیسائی اقلیت کو ذمہ دار ٹھیرا کر ظلم کا ننگا ناچ کرایا۔ سزا یافتہ قیدیوں کو شہنشاہ کے نئے تعمیر شدہ ڈومس میں زندہ مشعلوں کے طور پر جلایا گیا۔ اس پورے مظالم پر روم کے شہریوں کی اکثریت نے خوفناک خاموشی اختیار کی جبکہ ایک طبقہ اس کی تعریف کرتا رہا۔ اس وقت بھارت میں بھی نیرو کے الفاظ کی بازگشت سنائی جارہی ہے۔ ’’کشمیر کا حتمی حل‘‘ اور سناتن دھرم پر ظلم کرنے والوں سے انتقام کے الفاظ محض شدت پسندی اور ہائپر بول نہیں ہیں بلکہ جان بوجھ کر ہولوکاسٹ کی دعوت دی جا رہی ہے۔ چوہان کہتے ہیں کہ اگر ہم نے واقعی تقسیم کی اجتماعی قبروں یا 1984 کی جلی ہوئی باقیات سے کچھ نہیں سیکھا تو پھر ہم اپنے ہی زوال میں شریک ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ تماشائیوں کو انصاف کے علم برداروں میں تبدیل کیا جائے، ہر نسلی گندگی یا نسل کشی پر مبنی افواہوں کو سیاسی تھیٹر کے طور پر نہیں بلکہ اجتماعی مزاحمت کے لیے ایک واضح کال کے طور پر سمجھا جائے۔ فرقہ وارانہ نفرت کو جائز قرار دینے سے انکار کر کے ہی حتمی حل نکل سکتا ہے۔ ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ نسل کشی کے واقعات دوبارہ کبھی نہیں ہونے دیں گے۔ یہ صرف ایک کھوکھلا نعرہ نہیں ہے بلکہ ہر شہری کے لیے ایک زندہ حقیقت ہونی چاہیے۔ ہمیں تماشوں اور سازشوں کے اس چکر کو توڑنا چاہیے۔ صحافیوں، ایڈیٹروں اور براڈکاسٹروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف حقائق کو رپورٹ کریں بلکہ غیر انسانی بیان بازی کے اخلاقی داؤ کو سیاق و سباق میں ڈھالیں، اس سے پہلے کہ یہ تشدد میں بدل جائے۔ سیاست دانوں اور رائے سازوں کو اس زبان کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے جو کمزور کمیونٹیوں کو نشانہ بناتی ہے اور نفرت انگیز تقاریر کو سزا دینے کے لیے قانونی ڈھانچے کو نافذ کیا جانا چاہیے جو نسل کشی پر اکساتی ہے۔
آخری سوال یہ ہے کہ کیا پہلگام کے دہشت گرد حملے کے اصل مجرموں کو سزا مل پائے گی؟ دہشت گرد کارروائی کے بعد وزیر اعظم مودی نے جو سعودی عرب کے دورے پر تھے، اپنے دورہ کو مختصر کر کے دلی واپس لوٹ آئے اور ایرپورٹ پر ہی اعلیٰ سطحی میٹنگ کی، مگر کشمیر جا کر زخمیوں اور مظلوموں کے آنسوؤں کو خشک کرنے کے بجائے انہوں نے بہار میں ریلی کرنے کو ترجیح دی اور وہاں سے انہوں نے دہشت گردوں کو انجام تک پہنچانے کا سخت پیغام دیا۔ مگر یہ سوال نہیں کیا گیا کہ اس سے قبل کشمیر میں ہی جو دہشت گرد کارروائیاں ہوئی ہیں ان میں کتنے لوگوں کو سزائیں دی گئی ہیں؟ پلوامہ اور بالاکوٹ میں حملے تو مودی کے دور میں ہی ہوئے تھے، ان کے مقدمات کا کیا ہوا؟ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور میں ہی کشمیر کے چٹی سنگھ پورہ میں تین درجن سکھوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا مگر آج تک لشکر طیبہ کے دہشت گردوں تک نہیں پہنچ سکی۔ دو پاکستانیوں، سہیل ملک اور لشکر طیبہ کے وسیم احمد کو گرفتار کیا گیا اور مقدمہ چلایا گیا لیکن بری کر دیا گیا کیونکہ جانچ افسروں کے پاس ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھے۔ چٹی سنگھ پورہ کے واقعے کے بعد فوج اور پولیس نے اننت ناگ اور اس کے آس پاس سے پانچ شہریوں کو اٹھا کر قتل کر دیا۔ ان کی لاشوں کو جلا دیا گیا۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ سکھوں پر حملے کے اصل مجرموں کو سزا سنادی گئی، مگر شدید احتجاج کے بعد سی بی آئی جانچ کرائی گئی اور اس کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی کہ یہ تمام لوگ بے قصور تھے اور ان کا چٹی سنگھ پورہ واقعے سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ پہلگام حملے کے بعد اسی پیٹرن پر کارروائی کی گئی ہے۔ 200 نوجوانوں کی گرفتاری کی گئی ہے کئی افراد کے گھروں کو مسمار کر دیا گیا ہے اور اس پر میڈیا میں جشن بھی منایا گیا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کے گھروں کو مسمار کیا گیا ہے، کیا وہ واقعی مجرم تھے؟ دہشت گردی میں ملوث افراد کے ساتھ کوئی نرمی نہیں ہونی چاہیے، مگر اس سے قبل جرم کی تحقیقات ہونی چاہئیں، شواہد اکٹھے کیے جانے چاہئیں جس کے بعد ان پر مقدمہ چلایا جائے اور سزائیں دی جائیں۔ جب کوئی معاشرہ انسداد دہشت گردی کے مقابلے میں شفاف جانچ اور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے کھوکھلے ‘انصاف کے نعروں’ کا انتخاب کرتا ہے تو اس کا فائدہ دہشت گردوں اور ان کے ہینڈلرز کو ہی ہوتا ہے۔ جس طرح پہلگام واقعے کے بعد کھوکھلے نعروں کے ذریعے انتقامی جذبات کو بھڑکایا گیا اور اقلیتوں کی نسل کشی کے لیے ماحول سازگار کیا جا رہا ہے، وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ یہ صورت حال صرف اقلیتوں کے لیے نہیں بلکہ ملک کے ہر ایک باشعور شہری کے لیے چیلنج بن کر سامنے آئی ہے کہ کیا وہ ملک کو اس آگ سے بچا سکیں گے؟
***
سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کے گھروں کو مسمار کیا گیا ہے، کیا وہ واقعی مجرم تھے؟ دہشت گردی میں ملوث افراد کے ساتھ کوئی نرمی نہیں ہونی چاہیے، مگر اس سے قبل جرم کی تحقیقات ہونی چاہئیں، شواہد اکٹھے کیے جانے چاہئیں جس کے بعد ان پر مقدمہ چلایا جائے اور سزائیں دی جائیں۔ جب کوئی معاشرہ انسداد دہشت گردی کے مقابلے میں شفاف جانچ اور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے کھوکھلے ’انصاف کے نعروں‘ کا انتخاب کرتا ہے تو اس کا فائدہ دہشت گردوں اور ان کے ہینڈلرز کو ہی ہوتا ہے۔ جس طرح پہلگام واقعے کے بعد کھوکھلے نعروں کے ذریعے انتقامی جذبات کو بھڑکایا گیا اور اقلیتوں کی نسل کشی کے لیے ماحول سازگار کیا جا رہا ہے، وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ یہ صورت حال صرف اقلیتوں کے لیے نہیں بلکہ ملک کے ہر ایک باشعور شہری کے لیے چیلنج بن کر سامنے آئی ہے کہ کیا وہ ملک کو اس آگ سے بچا سکیں گے؟
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 مئی تا 10 مئی 2025