!پہاڑی خطوں کا استحصال، تباہی کو دعوت

انسانی کرتوتوں کے باعث ہماچل پردیش اور اتر اکھنڈ میں مانسون قہر بن کر ٹوٹا

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

زمین پر عافیت سے رہنے کے لیے پہاڑوں اور جنگلات کا صفایا بند کرنا ہوگا
یوں تو ہر سال مانسون کے موسم میں تباہی کے نظارے دیکھنے کو مکتے ہیں مگر امسال مانسون ہماچل پردیش اور اتر اکھنڈ میں جس طرح قہر بن کر ٹوٹا وہ وہم و گمان سے پرے ہے اور انتہائی خطرناک بھی۔ اصل میں ذرائع ابلاغ اور ماہرین موسمیات گزشتہ کئی سالوں سے جس عالمی حدت (گلوبل وارمنگ) یا موسمیاتی قہر کے تئیں متنبہ کرتے آرے ہیں وہ اب ہمارے دروازہ پر دستک دے رہا ہے۔ شملہ سے لے کر منڈی تک جو خطرناک تباہی کے مناظر روایتی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آرہے ہیں اس نے لوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ 15؍ اگست کو ہماچل پردیش کے سمرہل سانحہ نے باشندگان ملک کو فکر مند کر دیا ہے۔ بڑی بڑی عمارتوں کے بتاشے کی طرح چرمرانے سے لوگوں کے دل دہل گئے ہیں۔ ان حادثات میں اب تک 330 لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور 38 لاپتہ ہیں جبکہ اتراکھنڈ میں 74 لوگ ہلاک ہوئے اور 19 لاپتہ ہیں۔ اموات کے بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ شملہ اور کانگڑہ میں لینڈ سلائیڈنگ میں پھنسے ہوئے 750 لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا ہے۔ گزشتہ 55 دنوں میں زمین کھسکنے کے 113 حادثات پیش آئے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس سانحہ کے باعث ریاست کو دس ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ جبکہ ریاست کے دور دراز علاقوں سے خبریں آنا ابھی باقی ہیں۔ دریاؤں میں طغیانی، ابلتے برساتی نالے، درکتے پہاڑ دراصل قدرت کے بدلتے تیور ہیں۔ کچھ ماہرین موسمیات کا ماننا ہے کہ پہلے بادل پھٹنے کے واقعات کم ہی ہوتے تھے۔ لینڈ سلائیڈنگ بھی کم ہی ہوتی تھی مگر جب سے ان علاقوں میں باندھ (Dam) تعمیر ہوئے ہیں ماحول میں غیر معمولی رطوبت(Humidity)پیدا ہوگئی ہے جو بادلوں کے پھٹنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بارش کے معمولات میں بڑی تبدیلی آرہی ہے اور فی الحال دیکھا جا رہا ہے کہ قلیل مدت میں زیادہ بارش پہاڑیوں کو کھوکھلا کرنے کی وجہ بن رہی ہے۔ آبادی کے ضروریات سے زیادہ بوجھ سے دبے پہاڑی علاقے اس کے متحمل نہیں ہو رہے ہیں۔ اس کے باوجود بڑی بڑی عمارات کوالیٹی سے سمجھوتہ کرکے اور جغرافیائی ضرورتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کی جا رہی ہیں۔ جبکہ انگریزوں کی تعمیرات پر موسمیاتی تغیر کا کسی طرح کا اثر نہیں ہو رہا ہے کیونکہ انگریزوں کے دور حکومت میں محدود منزلوں کی ہی اجازت دی جاتی تھی اور ان کی چھتیں بھی ہلکی پھلکی ہوتی تھیں۔ اب تو شملہ اور سوری جیسے ہل اسٹیشن ترقی کا نامناسب بوجھ اٹھانے میں ناکام ہیں۔ اس کے علاوہ درختوں کی کٹائی، تجارتی ہوس اور منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے بے ہنگم تعمیرات نے پہاڑوں کی تہوں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ یہی تہیں تیز بارشوں میں لینڈ سلائیڈنگ پر بند باندھتی تھیں۔ اب تو معاملہ اور بھی زیادہ گمبھیر ہوگیا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں فور لین ہائی وے اور ’آل ویدر روڈ‘ بنانے کا جو منصوبہ ہے وہ انتہائی احقمانہ ہے۔ دعویٰ تو یہ ہے کہ پہاڑوں کو سائنسی طور پر تراشا گیا ہے۔ کیونکہ منصوبہ ساز جو پہاڑوں کی ترقی کا منصوبہ ایرکنڈیشنڈ دفتروں میں بیٹھ کر بتاتے ہیں وہ تو میدانی علاقوں کے لیے تو مناسب ہوسکتے ہیں مگر پہاڑی علاقوں کے لیے ہرگز نہیں۔ اس لیے موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کے مد نظر کثیر منزلہ تعمیرات کی منظوری حساسیت کے ساتھ ماہر ارضیات کے مشورہ سے ہی ہو تو بہتر ہوگا۔
ہماچل پردیش اور اتر اکھنڈ، پہاڑوں پر واقع ریاستیں ہیں جہاں ہندوؤں کے مقدس مقامات کی بڑی تعداد ہے۔ اب پہاڑ بارش اور سیلاب کی وجہ سے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں اور بڑی قدرتی آفتوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس سے قبل کلو کا علاقہ سیلاب کی تاب نہ لاکر بری طرح تباہ ہوچکا ہے۔ اب تو شملہ بھی محفوظ نہیں ہے۔ شملہ کاگڑہ، سولن میں ایک ایک اور منڈی میں دو مقامات پر بادل پھٹنے کی وجہ سے کئی لوگ ہلاک ہوگئے ہیں اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 36 افراد بہہ گئے جبکہ میدانی علاقوں میں بادل پھٹنے کے کم ہی واقعات ہوتے ہیں۔ بادل پھٹنے سے لوگوں کو سنبھلنے کا موقع بھی نہیں ملتا۔ اچانک سیلاب آجاتا ہے جس میں سب کچھ بہہ جاتا ہے۔ ان علاقوں میں پہلے بھی بارشیں ہوتی رہی ہیں مگر جان ومال کا اتنا ضیاع کبھی نہیں ہوا کیونکہ سڑکیں، پل، بجلی اور سرکاری عمارتیں تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئے۔ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ ہم نے دریاؤں میں مکانوں کی تعمیر کی۔ اس لیے دریاؤں کو مجبوراً راستہ بدلنا پڑا اور پہاڑوں کی قدرتی خوبصورتی اور استحکام کو انسانی ہوس نے بتاہ و برباد کر دیا۔ پہاڑوں کی کٹاو سے آنے والا پانی نیچے آکر سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔ انسانوں نے خود اپنی نادانی سے یہ سب تباہی اور آفت مول لی ہے۔ لوگوں نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے خشکی و تری میں فساد برپا کر رکھا ہے۔ (قرآن)۔
پہاڑوں کے بے جا کٹاو اور جنگلات کی تباہی نے یہ دن دکھائے ہیں۔ کیونکہ جنگلات بڑی مقدار میں پانی اپنے اندر جذب کرتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ استحکام کا بھی ذریعہ ہوتے ہیں۔ جب تک دریاؤں کا راستہ روک کر انہیں راستہ بدلنے پر مجبور کیا جاتا رہے گا اور پہاڑوں کو کاٹا جاتا رہے گا ایسے قدرتی آفات معمول بن جائیں گے۔ یہ محض انسانی ہوس، لالچ اور نام نہاد ترقی کے نام پر ہو رہا ہے۔ اگر ہم دریاؤں اور پہاڑوں کی حفاظت کریں گے تبھی ہم محفوظ رہ سکیں گے ورنہ ایسے مصائب کا سامنا ہمیں کرنا ہی ہوگا۔
یاد رہے کہ مانسون ایک موسمی ہوائی نظم (Aerial Systems) ہے جس سے برصغیر ہند میں بھاری بارش ہوتی ہے۔ اس وقت زمینی خطہ کے پاس سمندروں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے گرم ہو جاتے ہیں جس سے وہ کم دباو کا خطہ بن جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے بحر ہند سے مرطوب ہوا کرہ ارض کی طرف پلٹتی ہے جس سے بھارت، نیپال، بنگلہ دیش اور آس پاس کے ممالک میں زور دار بارشیں ہوتی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے مانسون اور ہی زیادہ طاقت ور ہوجاتا ہے۔ ان کا وقت سے پہلے اندازہ لگانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ شہروں کے پھیلاو اور ترقی سے قدرتی مقامات پر کنکریٹ، ایسفالٹ اور عمارتوں کی زیادتی ہوتی جا رہی ہے۔ بارش کے وقت پانی ٹھوس سطحوں پر تیز رفتار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ شہروں کا درجہ حرارت آس پاس کے علاقوں سے چند ڈگری زیادہ ہی رہتا ہے۔ شہری علاقوں میں پارٹیکل اور ایرسول بھی بنتے ہیں اور وہ اوپر اٹھ کر بادلوں سے مل کر تاب کاری سے بارش کو متاثر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بارش کا پانی نالوں کے ذریعہ پانی سے مل کر آبی ذخیروں کو آلودہ کرتا ہے۔ نتیجتاً بہت سارے طبی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ماہرین اراضیات کے مطابق دو سالوں میں لینڈ سلائیڈنگ کا معاملہ چھ گنا بڑھا ہے۔ سرکاری سطح پر ہمالیائی خطے ہماچل پردیش میں 68 سرنگیں بنائی جا رہی ہیں ان میں سے 11 مکمل ہوچکی ہیں۔ 27 زیر تعمیر ہیں اور 20 کی پروجیکٹ رپورٹ تیار کی جا رہی ہے۔ اگر پہاڑی خطوں کا استحصال جاری رہا تو بڑی تباہی و بربادی ہمارا مقدر ہوگا۔
***

 

***

 ان علاقوں میں پہلے بھی بارشیں ہوتی رہی ہیں۔ مگر جان ومال کا اتنا ضیاع کبھی نہیں ہوا کیونکہ سڑکیں، پل، بجلی اور سرکاری عمارتیں تاش کے پتوں کی طرح بکھرگئیں۔ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ ہم نے دریاؤں میں مکانوں کی تعمیر کی۔ اس لیے دریاؤں کو مجبوراً راستہ بدلنا پڑا اور پہاڑوں کی قدرتی خوبصورتی اور استحکام کو انسانی ہوس نے بتاہ و برباد کر دیا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 ستمبر تا 09 ستمبر 2023