
!پچاس سال بعد ایمرجنسی کی بازگشت۔ آئین ہند کا دیباچہ نشانے پر
بھارتی آئین سے ’سوشلسٹ’ اور ’سیکولر‘ الفاظ کو نکالنے کی کوشش: ایک فکری حملہ
زعیم الدین احمد ،حیدرآباد
جون 2025 میں بھارت میں ایمرجنسی کے پچاس برس مکمل ہونے پر جہاں جمہوریت کے سیاہ ترین باب کو یاد کیا گیا، وہیں ایک نئی فکری بحث نے سر اٹھایا کہ کیا بھارتی آئین میں موجود ’’سوشلسٹ‘‘ اور ’’سیکولر‘‘ جیسے الفاظ محض زبردستی ٹھونسے گئے ہیں؟ کیا ان الفاظ کا نکالا جانا ’’آئین سازی کی روح‘‘ کا احترام ہے یا اس کی صریح خلاف ورزی؟ ان سوالات نے ایک بار پھر بھارتی سیاست میں آئینی شناخت کے مسئلے کو مرکزی حیثیت دے دی ہے۔
1975 میں جب اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کی تو اس فیصلے نے نہ صرف بھارتی سیاست بلکہ آئینی ڈھانچے پر بھی گہرے اثرات ڈالے۔ 1976 میں 42 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے دو اہم الفاظ ’’سوشلسٹ‘‘ اور ’’سیکولر‘‘ بھارت کے آئینی دیباچے (Preamble) کا حصہ بنائے گئے۔ اندرا گاندھی نے اس ترمیم کے لیے بائیں بازو کی حمایت، سماجی برابری کے نعروں اور قومی اتحاد کی ضرورت کو جواز بنایا۔
ایمرجنسی کو بھارتی جمہوریت کا سیاہ باب قرار دیا جاتا ہے، مگر اسی دوران کی گئی آئینی ترمیمات کو آج کے سیاسی حالات میں دوبارہ کسوٹی پر پرکھا جا رہا ہے۔ خاص طور پر آر ایس ایس اور حکم راں جماعت بی جے پی کے بیانات اس سمت اشارہ کرتے ہیں کہ وہ آئین کے ’’از سر نو تعارف‘‘ کی مہم پر گامزن ہیں۔
آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوسابلے نے کھل کر مطالبہ کیا کہ ’’سوشلسٹ‘‘ اور ’’سیکولر‘‘ جیسے الفاظ کو بھارتی آئین سے نکال دیا جائے کیونکہ یہ آئین سازوں کی ’’روح سے غداری‘‘ اور ’’سناتن دھرم کی توہین‘‘ ہیں۔ یہ موقف محض ایک نظریاتی مؤقف نہیں، ہے بلکہ اسے آئینی ڈھانچے میں مداخلت کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ وہی سناتن دھرم جس کے تحت معاشرے کو ذات پات میں تقسیم اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کیا گیا ہے اور اس کو ’’روحانی ترتیب‘‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سیکولرزم جیسے نظریات کی مخالفت محض الفاظ کی حد تک محدود نہیں بلکہ ایک بڑے تہذیبی بیانیے کا حصہ ہے۔
نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکڑ نے اس بحث میں شدت لاتے ہوئے یہ بیان دیا کہ ’’سوشلسٹ‘‘ اور ’’سیکولر‘‘ وہ الفاظ ہیں جو ایمرجنسی کے دوران عوام پر زبردستی تھوپے گئے تھے اور ان کا بھارت کی اصل تہذیبی شناخت سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کے اس بیان کو آئینی دیباچے کے تقدس پر حملہ سمجھا جا رہا ہے، کیونکہ وہ اس وقت ایک آئینی عہدے پر فائز ہیں، یہ دیباچہ نہ صرف بھارتی ریاست کے بنیادی نظریات کا عکاس ہے بلکہ اس کی عالمی شناخت کی بنیاد بھی ہے۔ بھارت میں سیکولرزم کو مغربی ماڈل سے مختلف انداز میں برتا گیا ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر رتن لال کے مطابق، بھارت میں سیکولر ریاست کا مطلب تمام مذاہب کے لیے یکساں احترام ہے۔ ریاست نہ کسی مذہب کی حامی ہے نہ مخالف اور نہ ہی کسی شہری کو مذہبی شناخت اختیار کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ یہی اصول بھارتی آئین کو اقلیتوں کے لیے حفاظتی ڈھال بناتا ہے۔ آئین کی یہ روح ایک جمہوری، تکثیری اور مساوات پر مبنی معاشرے کی بنیاد ہے، جسے آج چیلنج کیا جا رہا ہے۔
جب بھارتی آئین 1950 میں نافذ ہوا تو اس وقت ’’سوشلسٹ‘‘ اور ’’سیکولر‘‘ الفاظ دیباچے میں شامل نہیں تھے، لیکن آئین کے بنیادی اصول—آزادی، مساوات، انصاف اور بھائی چارہ—واضح طور پر ان تصورات کو عملی بنیاد فراہم کرتے تھے۔ بعد کی دہائیوں میں، خصوصاً 1971 کی بھارت-پاک جنگ، اقتصادی پالیسیوں کی سوشلسٹ جھلک اور اقلیتوں کے تحفظ کی ضروریات نے ان الفاظ کی آئینی شمولیت کو جواز فراہم کیا۔ سیاسی تجزیہ کار رشید قدوائی کے مطابق، 1970 کی دہائی کے بھارتی مسلم نوجوانوں کو یہ احساس ہو چکا تھا کہ ان کی سلامتی مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک سیکولر اور غیر جانبدار ریاستی ڈھانچے میں ہی ممکن ہے۔ 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی نے کئی اہم اقدامات سے آر ایس ایس کے دیرینہ خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کیا جیسے، جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنا، ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر، شہریت ترمیمی قانون کی منظوری، یکساں سِول کوڈ کی راہ ہموار کرنا وغیرہ۔
2024 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل بی جے پی نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ اگر اسے 400 نشستیں حاصل ہوئیں تو وہ آئین میں بڑی ترمیم کرے گی لیکن اسے صرف 240 سیٹوں پر ہی کامیابی ملی اور ’’آئین بچاؤ‘‘ مہم نے حزبِ اختلاف خاص طور پر کانگریس کو ایک مضبوط بیانیہ فراہم کیا۔ آئین میں تبدیلی کی یہ کوشش محض قانونی یا الفاظ کی تبدیلی نہیں بلکہ ایک بڑے نظریاتی ڈھانچے کی تشکیل نو ہے۔ جس کا مقصد بھارت کو ایک واضح ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا ہے، جہاں ریاست کی غیر جانبداری کو ختم کر کے مذہب کی بنیاد پر قومی شناخت کو از سرنو متعین کیا جائے۔ کانگریس کی ترجمان سپریہ شرینیت کے بقول ’’یہ سب بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ بیروزگاری، مہنگائی، کسانوں کی بدحالی، اور معیشت کی سست رفتاری پر بات کرنے کے بجائے، بی جے پی اس وقت مذہبی و نظریاتی تقسیم کو بڑھاوا دے رہی ہے۔‘‘ لیکن یہ اتنی سادہ بات بھی نہیں ہے، بی جے پی اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کے طور پر یہ سب کر رہی ہے بلکہ یہ تو آر ایس ایس اور بی جے پی والوں کا دیرینہ خواب ہے جسے وہ پورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
یہ بحث اس بات کا اشارہ ہے کہ آئندہ دنوں میں بھارت کی سیاست محض انتخابی جلسوں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ آئینی ڈھانچے، قومی شناخت اور شہری آزادیوں جیسے بنیادی مسائل پر مرکوز ہوگی۔ ’’سوشلسٹ‘‘ اور ’’سیکولر‘‘ جیسے الفاظ کی آئینی حیثیت، دراصل بھارت کے جمہوری ڈھانچے کی صحت کی جانچ ہے۔ اگر ان الفاظ کو آئین سے نکال دیا گیا تو یہ صرف ایک ترمیم نہیں بلکہ نظریاتی انقلاب ہوگا—جو بھارت کو اس کی سیکولر، جمہوری اور فلاحی ریاست کی بنیادوں سے ہٹا سکتا ہے۔
ایسے وقت میں جب معاشی بحران گہرا ہو رہا ہے، کسان اور مزدور احتجاج کر رہے ہیں، نوجوان روزگار کی تلاش میں در در بھٹک رہے ہیں اور عالمی سطح پر بھارت کی ساکھ پر سوالات اٹھ رہے ہیں—یہ آئینی ترمیمی مہم قوم کی توانائی کو اصل مسائل سے ہٹانے کے ساتھ ساتھ ملک کے سیکولر کردار کو ختم کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔
***
***
آئندہ دنوں میں بھارت کی سیاست محض انتخابی جلسوں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ آئینی ڈھانچے، قومی شناخت اور شہری آزادیوں جیسے بنیادی مسائل پر مرکوز ہوگی۔ ’’سوشلسٹ‘‘ اور ’’سیکولر‘‘ جیسے الفاظ کی آئینی حیثیت، دراصل بھارت کے جمہوری ڈھانچے کی صحت کی جانچ ہے۔ اگر ان الفاظ کو آئین سے نکال دیا گیا تو یہ صرف ایک ترمیم نہیں بلکہ نظریاتی انقلاب ہوگا—جو بھارت کو اس کی سیکولر، جمہوری اور فلاحی ریاست کی بنیادوں سے ہٹا سکتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 جولائی تا 27 جولائی 2025