پانی کے اسراف سے بچیں۔ پانی ہی زندگی ہے

2030 تک ملک میں پانی کی طلب موجودہ ضرورت کے مقابلے میں دگنی ہو جائے گی: نیتی آیوگ

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

بارش کے پانی کو ضائع کرنے، زیر زمین پانی کا بے جا استعمال کرنے اور پانی کو صاف کرکے دوبارہ کام میں لانے (Recycle) کی مہم میں کوتاہی کی وجہ سے ملک میں مستقبل میں پانی کی بڑی مصیبت آسکتی ہے۔
پانی ہی زندگی ہے اس کے بغیر کسی جاندار کے وجود کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ جتنی تہذیبیں بھی دنیا میں پروان چڑھیں اور پلی بڑھی ہیں وہ سب دریاؤں اور سمندروں کے کنارے ہی ہوئی ہیں۔ گزشتہ ہفتہ اقوام متحدہ کی طرف سے منعقدہ آبی کانفرنس کو سب کے لیے پانی اور صفائی مہیا کرانے کی سمت میں ایک اہم قدم تصور کیا جا رہا ہے۔ پانی روئے زمین کے بقاء کے لیے انتہائی اہم ہے۔ ادھر آبادی میں اضافہ کے ساتھ پانی کی کھپت میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ ساتھ ہی روئے زمین پر صاف پانی کے مقدار میں اسی تناسب سے کمی آرہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ درجہ حرارت میں اضافہ نے اس مشکل کو اور بھی تشویش ناک بنا دیا ہے۔ دنیا کی آبادی 8 ارب سے تجاوز کر چکی ہے جس میں سے نصف آبادی کو سال میں کم از کم ایک ماہ پانی کی قلت کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے 2000ء سے سیلابی صورتحال میں 134 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے اور قحط کی مدت میں 29 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ واضح رہے کہ دنیا میں 220 کروڑ یعنی ایک چوتھائی سے زائد لوگوں کو صاف پینے کا پانی میسر نہیں ہوتا اور 2050 تک پانی کی طلب میں 50 فیصد سے زیادہ اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں اچھال اور گلیشیر کے تودوں کے پگھلنے کی وجہ سے سیلاب، جھلسانے والی لو کے ساتھ گرم موسم اور قحط نیز طوفانوں کا مسلسل آنا ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک ادارہ نے کہا ہے کہ 2001-18 کے درمیان آنے والے مجموعی آفات میں سیلاب اور قحط کا حصہ 74 فیصد رہا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تغیر پذیر موسم کے مزاج کے مد نظر ہمارے اندر بیداری آئے۔ نیتی آیوگ کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق 2030 تک ملک میں پانی کی طلب موجودہ ضرورت کے مقابلے دگنی ہو جائے گی۔ معاشی ترقی، تیز رفتاری سے بڑھتے شہروں کی تعداد اس کے ساتھ آبادی میں اضافہ سے پانی کی طلب ہر شعبے میں بڑھے گی۔ ویسے ہمارے ملک کا کچھ حصہ عرصہ دراز سے پانی کی قلت سے متاثر ہوتا ہے مگر اب وہ قلت مصیبت بن جائے گی۔ اس لیے مرکزی حکومت نے ریاستی حکومتوں کے تعاون سے آبی تحفظ، کھارے پانی کو پینے کے قابل بنانے، پانی کے ضیاع کو روکنے اور استعمال شدہ پانی کو اسے ری سائیکل کے ذریعے کام میں لانے کی تکنیک پر زور دیا گیا ہے۔ اس طرح ہمارا ملک موجودہ آبی خطوں کے انتظام میں بڑی بنیادی تبدیلی لارہا ہے تاکہ حسب ضرورت لوگوں کو پانی دستیاب ہو سکے۔ ہمارے میں 70فیصد پانی کا استعمال زراعت میں ہوتا ہے مگر ہماری آبی وسائل کی صلاحیت اقوام متحدہ کے اسٹینڈرڈ کے مطابق محض 30 تا 35 فیصد ہی ہے۔ اگر پانی کے حصول کی صلاحیت میں تیزی سے اضافہ کرکے پانی کو بچایا جائے تو یہی پانی صنعتی اور گھریلو شعبوں کو فراہم کیا جاسکے گا۔ مرکزی حکومت جل جیون مشن اور صنعتوں کے میک ان انڈیا پروگرام کے تحت پانی کی ترسیل کے مضبوط نظام کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے اس آبی ادارے نے 2030 تک ہر فرد کے لیے صاف پانی کی حصولیابی کو یقینی بنانے کے لیے اقدام کرنے جا رہا ہے۔ اس لیے اس کانفرنس میں حکومتوں، صنعتکاروں اور بین الاقوامی اداروں کے لیے ہدف طے کیا جائے گا اور بڑے پیمانے پر عوام الناس کو پانی کی بچت کی تلقین کرتے ہوئے مہم چلانی ہوگی جیسا کہ حدیث پاک میں ہے ’’پانی میں فضول خرچی نہ کرو چاہے تم نہر کے کنارے پر ہو‘‘(ابن ماجہ)۔
عالم انسانیت کے بڑی آبادی پانی کی قلت سے دو چار ہے۔ ہمارا ملک بھی پانی کی مصائب سے دوچار ہے۔ عالمی آبادی کا 18 فیصد اسی ملک میں رہائش پذیر ہے مگر اتنے بڑے جغرافیائی خطہ کے لیے محض 4 فیصد ہی پانی کا ذخیرہ ہے۔ بارش کے پانی کو ضائع کرنے، زیر زمین پانی کے بے جا استعمال کرنے اور پانی کو صاف کرکے دوبارہ کام میں لانے (Recycle) کی مہم میں کوتاہی کی وجہ سے ملک میں مستقبل میں پانی کی بڑی مصیبت آسکتی ہے۔ نہروں اور آبشاروں پر غیر قانونی قبضے اور دریاؤں کا معدنیات کی دریافت کے لیے بڑے پیمانے پر استحصال، ساتھ ہی صنعتی کارخانوں سے نکلنے والے فضلے کے انبار نے دریاؤں کے لیے بڑے مسائل پیدا کردیے ہیں۔ حالیہ دنوں میں حکومت اس سمت میں پانی کے تحفظ کے لیے ملک گیر پیمانے پر ہر گھر نل سے جل پہنچانے کا بھی دعویٰ کر رہی ہے لیکن اس کی رفتار بہت سست ہے اور بعض ریاستوں سے اس شعبہ میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کی بھی خبریں ہیں۔ اس رفتار کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ملک کے سات ریاستوں کے 6220 گرام پنچایتوں میں زیر زمین پانی کی ذخیرہ اندوزی کے لیے اٹل زمینی پانی منصوبہ کام کر رہا ہے۔ ساتھ ہی نل سے جل، دریاؤں کی صفائی اور انہیں مافیاوں کے قبضوں سے آزاد کرانے کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ مرکزی جل شکتی وزارت نے امسال پانی کے تحفظ کی بابت ایک بڑا قدام اٹھایا ہے۔ اس کے ساتھ ہی گزشتہ ماہ ریاستی وزارت جل شکتی کے وزراء کے کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ریاستوں کو پانی کے تحفظ کے لیے سر جوڑ کر کام کرنا ہوگا اور استعمال کیے گئے پانی کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کی ترکیب کرنا ہوگا۔
حالانکہ ہمارا ملک دریاؤں کا ملک کہلاتا ہے مگر اس میں دستیاب پانی، پینے کے قابل تو کجا غسل کے قابل بھی نہیں بچا ہے۔ کارخانوں کی غلاظت اور آلودگی کی وجہ سے اس کی کیفیت انتہائی خراب ہو چکی ہے۔ مرکزی حکومت کا ماننا ہے کہ پانی کی ترسیل میں کمی کی وجہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ پانی کی فی کس حصولیابی میں مسلسل گراوٹ کی اصل وجہ موجود آبی زیر زمین ذخیرہ کا بے جا استعمال ہے۔ اس کے علاوہ پانی کے ذخیروں کے لیے ذرائع کا نہ ہونا اور لوگوں کا تالابوں کو پاٹ کر خود غرضی سے وہاں بڑی عمارتوں کی تعمیر کر لینا بھی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بھارت دنیا کے ان ممالک میں سے ہے جہاں زیر زمین آبی ذخائر کا ضرورت سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ آبی مصائب سے نبرد آزما دنیا کے 400 شہروں کے منجملہ 20 سر فہرست شہروں میں بھارت کے چار شہر کولکاتہ، ممبئی، دلی اور چینئی شامل ہیں جہاں مجموعی آبی انتظامیہ کے اشاریے کے مطابق ملک کے 21 شہر زیرو گراونڈ واٹر لیول پر پہنچ جائیں گے۔ یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان شہروں میں پانی کی بھی قلت ہوجائے گی جس کی وجہ سے 10 کروڑ لوگوں کی زندگی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ پہلے سے ہی ملک کے دیہی علاقوں میں پانی کے بڑے مسائل ہیں اس لیے لوگ شہروں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہیں جس سے شہروں کے عوامی سہولیات متاثر ہو رہی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک کی بڑی آبادی ایسے علاقوں میں رہتی ہے جہاں ہر سال قحط جیسی صورت حال رہتی ہے۔ ہمارے ملک کا مسئلہ بارش کی قلت کا نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ جب بارش ہوتی ہے تب ہم پانی کا ذخیرہ کرکے محفوظ نہیں رکھ پاتے۔ ہم نے اپنی خود غرضی کی وجہ سے تالابوں کو پاٹنا شروع کر دیا ہے۔ شہروں میں انہیں پاٹ کر عالیشان کنکریٹ کا جنگل تیار کرتے جا رہے ہیں ملک کے اکثر علاقوں میں بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے ذخائر کا نظم ہو جائے تو اس سے سال بھر کاشتکاری بھی ہو سکے گی اور پینے کے مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔ بعض ماہرین آب کا ماننا ہے کہ پانی کی مصیبت قدرتی نہیں بلکہ انسانی ہے۔ روایتی طور پر ہر بستی میں تالاب حسب ضرورت بنائے جاتے تھے اور پانی کے ذخائر میں پانی کی ذخیرہ اندوزی کی جاتی تھی مگر ہم نے تالاب کے سسٹم کو ناپید کر دیا ہے اور پانی کی ذخیرہ اندوزی کے فطری نظم کو ختم کر دیا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ حکومت تالابوں کے نظم کو دوبارہ بحال کرے، اگر وہ نہیں کرتی ہے تو لوگوں کو خود آگے آنا ہوگا۔ پانی کے تحفظ کے لیے امت مسلمہ کو بھی بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ زیر زمین سطح آب کی قلت کو روکنے کا واحد ذریعہ تحفظ آب ہے۔
***

 

***

 بعض ماہرین آب کا ماننا ہے کہ پانی کی مصیبت قدرتی نہیں بلکہ انسانی ہے ۔ روایتی طور پر ہر بستی میں تالاب حسب ضرورت بنائے جاتے تھے اور پانی کے ذخائر میں پانی کی ذخیرہ اندوزی کی جاتی تھی مگر ہم نے تالاب کے سسٹم کو ناپید کر دیا ہے اور پانی کی ذخیرہ اندوزی کے فطری نظم کو ختم کر دیا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ حکومت تالابوں کے نظم کو دوبارہ بحال کرے۔ اگر وہ نہیں کرتی ہے تو لوگوں کو خود آگے آنا ہوگا۔ پانی کے تحفظ کے لیے امت مسلمہ کو بھی بیدار ہونے کی ضرورت ہے ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 اپریل تا 22 اپریل 2023