![](https://dawatnews.net/wp-content/uploads/2025/02/20250216-2.jpg)
پانچ برس بعد بھی دہلی فسادات 2020کے متاثرین انصاف کے منتظر
دہلی پولس کی جانچ قانون اورآئین کے ساتھ مذاق۔مسلم نوجوانوں کو جان بوجھ کر پھنسانے کی کوشش
نوراللہ جاوید
عام آدمی پارٹی نے پانچ برسوں کے دوران متاثرین کی داد رسی کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی
بی جے پی کی نئی حکومت بننے کے بعد فساد متاثرین اور جیلوں میں بند افراد کی راہیں مزید مشکل ہوسکتی ہیں
جمہوریت کی بقا اورحصول انصاف کے لیے جد و جہد جاری رہنی چاہیے
دہلی اسمبلی انتخابات کے نتائج حیران کن اور توقع کے خلاف ہیں۔ ان نتائج کی بیشتر ایگزٹ پولوں نے بھی پیشن گوئی کر دی تھی۔ بارہ برس قبل دہلی کے سیاسی افق پر نئے ایجنڈے کے نعرے کے ساتھ عام آدمی پارٹی وجود میں آئی تھی۔ دہلی کے عوام نے تمام تر اندیشوں اور امکانات کے باوجود ان نئے سیاسی نعروں پر بھروسہ کیا اور انتخابی سیاست میں عام آدمی پارٹی کو تاریخی جیت سے ہمکنار کیا۔ ایک نہیں بلکہ تین مرتبہ۔ مگر محض بارہ برس بعد دہلی کے عوام کا عام آدمی پارٹی سے دل بھر گیا اور وہ ایک بار پھر قوم پرستی کی سیاست کرنے والی جماعت کے سائے میں چلے گئے۔
عام آدمی پارٹی کی شکست کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے۔ اس کی شکست دراصل متبادل سیاست کے خواب کی موت بھی ہے۔ جن نعروں اور امیدوں کے ساتھ انتخابی سیاست میں عام آدمی پارٹی معرضِ وجود میں آئی تھی، وہ زیادہ دنوں تک ان پر قائم نہیں رہ سکی۔ اس کے لیڈر بہت جلد سیاسی آلودگیوں سے اپنے دامن کو داغ دار کر بیٹھے اور اسی منزل کے مسافر بن گئے جس پر لعن و طعن کرکے عام لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا سکے تھے۔
عام آدمی پارٹی کے سرپرست انا ہزارے تھے مگر اس کی منصوبہ بندی اور نقشہ سازی کہیں اور ہوئی تھی۔ اگرچہ تحریک کا ظاہری مقصد بدعنوانی کے خلاف عوامی شعور پیدا کرنا تھا لیکن درحقیقت اس کا ہدف عوام کی نظر میں سیکولر سیاسی جماعتوں کو بے وقعت کرنا اور سخت گیر ہندوتوا نظریے کے لیے راہ ہموار کرنا تھا۔
آزادی کے بعد آئین سازوں نے سیکولر، لبرل اور جمہوری نظریات کے ساتھ بھارت کی تعمیرِ نو کی بنیاد رکھی تھی مگر عام آدمی پارٹی نے بھارت میں نظریاتی سیاست کا خاتمہ کیا اور نظریات و آئیڈیالوجی کے لیے جگہ ختم کر دی۔ عام آدمی پارٹی ایک طرف سیکولر نظریات کو مسترد کرتی تھی تو دوسری طرف ہندوتوا اور آر ایس ایس کے نظریات کی مخالفت بھی کرتی تھی۔ چنانچہ 2020 میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف جب دہلی میں ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی عوامی تحریک شروع ہوئی تو اس وقت عام آدمی پارٹی اس کے ساتھ کھڑی ہوئی نظر نہیں آئی۔ اس تحریک کو ناکام اور بدنام کرنے کے لیے جب مشرقی دہلی میں 23 فروری سے 27 فروری کے درمیان منصوبہ بند سازش کے تحت فرقہ وارانہ فسادات بھڑکائے گئے تو اس وقت عام آدمی پارٹی ہی دہلی میں برسرِ اقتدار تھی لیکن نہ اس نے فساد کو رکوایا نہ مظلوموں کی داد رسی کی۔
اگرچہ دہلی پولیس براہِ راست مرکزی حکومت کے تحت کام کرتی ہے اور لا اینڈ آرڈر کی ناکامی کے لیے کیجریوال براہ راست ذمہ دار نہیں تھے۔ دہلی فسادات کے اصل ذمہ دار مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اور دہلی پولیس تھی۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ریاست کا وزیرِ اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے مظلوموں کی داد رسی کیجریوال کی ذمہ داری نہیں تھی؟
دہلی فسادات کے فوری بعد 2020 میں ہی اسمبلی انتخابات ہوئے۔ انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم مودی، امیت شاہ، مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر، ممبر پارلیمنٹ پریش ورما اور کپل مشرا نے جو زبان استعمال کی اور جس طریقے سے مسلمانوں کو دھمکیاں دیں، وہ کسی بھی مہذب سماج میں قابل قبول نہیں ہے۔ دہلی کے عوام نے پانچ برس قبل اس نفرت انگیز سیاست کو مسترد کر دیا اور عام آدمی پارٹی کو تیسری مرتبہ بڑی جیت سے ہمکنار کرایا تھا۔ مگر پانچ برسوں بعد دہلی کی سیاسی فضا تبدیل ہو گئی اور نفرت کے تمام پرچارک، جن میں کپل مشرا اور پریش ورما شامل ہیں، انتخاب جیتنے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔ جبکہ دہلی کے فساد متاثرین کی زندگی بدستور جہنم بنی ہوئی ہے۔ فسادات کے متاثرین، جیلوں میں بند درجنوں بے گناہ قیدی اور سیکڑوں افراد جن کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں، ان سب کے مستقبل پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ ان کے ساتھ ناانصافی میں دہلی پولیس، مرکزی حکومت اور کیجریوال سب برابر کے حصہ دار ہیں۔
ہندی نیوز چینل انڈیا ٹی وی کے معروف پروگرام "آپ کی عدالت” میں رجت شرما کے ساتھ انٹرویو میں کیجریوال نے شرجیل امام کی گرفتاری میں تاخیر پر جس طرح ناراضگی ظاہر کی تھی، وہ کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے۔ لیکن اگر شرجیل امام کی متنازعہ تقریر اور بی جے پی کے کپل مشرا اور پریش ورما کی تقریروں کا موازنہ کیا جائے تو شرجیل امام کی تقریر کے مقابلے میں بی جے پی لیڈروں کی تقاریر ہزاروں گنا زیادہ نفرت انگیز تھیں۔
کپل مشرا، جسے سیاست میں لانے کا سہرا کیجریوال کے سر جاتا ہے، اس نے ایک ہجوم کی قیادت کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکائی اور حملے کے لیے اکسانے کی کوشش کی تھی۔ مگر عام آدمی پارٹی نے حکومت میں ہونے کے باوجود اس کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ اس تقریر کے بعد بھڑکنے والے فسادات میں 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے جن میں 38 مسلمان اور 12 ہندو شامل تھے، جبکہ 700 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ سیکڑوں مکانات، دکانیں اور مساجد تباہ کر دی گئیں۔
فسادات کے دوران اور اس کے بعد بھی حکومت اور اس کا میڈیا یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ یہ فسادات شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف جاری احتجاج کا حصہ تھے اور اس کے پیچھے وہی عناصر تھے جنہوں نے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف تحریک برپا کی تھی۔ مگر پانچ سال بعد بھی دہلی پولیس اس تھیوری کو سچ ثابت کرنے میں ناکام رہی۔
دہلی فسادات میں ماخوذ افراد کے معاملے میں سماعت کے دوران عدالتوں نے جو تبصرے کیے وہ ملک کے عدالتی نظام میں ناانصافی، تعصب اور مسلم دشمنی کی گہری جڑوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پورا نظام کرپٹ اور مسلم دشمنی میں اندھا ہو چکا ہے۔ اور یہ روش نہ جمہوریت کے لیے اچھی ہے اور نہ ہی قوم کے لیے۔ عدل و انصاف سے عاری قومیں مادی ترقی کرنے کے باوجود پیچھے رہ جاتی ہیں۔
حالیہ برسوں میں انصاف و قانون کا شعبہ تیزی سے رو بہ زوال ہے۔ عدالتیں مظلوموں کو انصاف دلانے میں ناکام نظر آ رہی ہیں۔ وہ طاقتور طبقات اور میڈیا کے پروپیگنڈے کا شکار بن چکی ہیں۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جج کی وشو ہندو پریشد کے پروگرام میں شرکت، مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیان اور سپریم کورٹ کی سرزنش کے باوجود اپنے بیان پر قائم رہنے کی ضد عدالتی نظام کے زوال کی علامت ہے۔
اگر دہلی فرقہ وارانہ فسادات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ عدالتی نظام ایک دو نہیں بلکہ درجنوں مرتبہ اقتدار کے آگے اپنی بے بسی، مسلم دشمنی اور تعصب کو کھل کر ظاہر کر چکا ہے۔
اڈیشہ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس ایس مرلی دھر کے حوالے سے مشہور انگریزی اخبار انڈیا ٹو ڈے نے 8 اکتوبر 2023 کو ایک رپورٹ شائع کی تھی، جس کا عنوان تھا:
"Judge Shunted after Delhi Riots Verdict Says ‘Don’t Know What Upset Government”
اس رپورٹ میں جسٹس مرلی دھر کا بیان شامل ہے جس میں وہ کہتے ہیں:
"میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب میں دہلی فسادات سے متعلق اہم مقدمات کی شنوائی کر رہا تھا تو مرکزی حکومت کو کیا پریشانی لاحق ہو گئی تھی کہ مجھے راتوں رات پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کر دیا گیا؟”
دراصل فروری 2020 میں جسٹس مرلی دھر نے دہلی فسادات کے دوران پولیس کی عدم فعالیت سے متعلق درخواستوں پر اپنے گھر پر تین اہم سماعتیں کیں۔ ان میں ایک معاملے میں انہوں نے دہلی پولیس کو ہدایت دی کہ وہ فساد متاثرین کی حفاظت اور علاج کو یقینی بنائے۔ انہوں نے حکومت کو ہدایت دی کہ فسادات کی وجہ سے بے گھر ہونے والوں کے لیے عارضی پناہ گاہیں بنائی جائیں اور ان کے علاج کا بندوبست کیا جائے۔
جسٹس مرلی دھر کے ان احکامات کے فوری بعد انہیں پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ ٹرانسفر کر دیا گیا۔ اگرچہ حکومت نے کہا کہ یہ کارروائی معمول کے مطابق ہے مگر سوال یہ ہے کہ جسٹس مرلی دھر کے احکامات سے حکومت کو کیوں پریشانی لاحق ہوئی؟
دہلی فسادات کے بعد دہلی پولیس نے 757 مقدمات درج کیے جن میں سے زیادہ تر مقدمات مسلمانوں کے خلاف تھے۔ دہلی کی کئی سیشن عدالتوں کے ججوں نے مختلف اوقات میں دہلی فسادات کی سازش کیس کی تحقیقات کو "غفلت پر مبنی”، "بے وقوفانہ”، "مضحکہ خیز کارروائی” اور "عدالتی نظام کا غلط استعمال” قرار دیا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں ججوں نے دہلی فسادات کے کم از کم 60 مقدمات کو مسترد کیا ہے۔ ایک جج نے تو یہاں تک کہ دیا کہ پولیس نے مصنوعی بیانات کی بنیاد پر مقدمات قائم کیے ہیں۔ پولیس کی بنیادی ذمہ داریوں میں امن و قانون کو بحال کرنا، مجرمین کو کٹہرے میں کھڑا کرنا اور انصاف و قانون کے وقار کو بلند کرنا شامل ہے، مگر دہلی فسادات کے معاملے میں اس کا کردار انتہائی شرمناک اور مسلم دشمنی پر مبنی رہا ہے۔
دی پرنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق اب تک 757 مقدمات میں 183 افراد کو بری قرار دیا گیا ہے اور 75 افراد کے خلاف الزامات کو خارج کر دیا گیا ہے۔ نومبر 2023 میں دہلی کی ایک عدالت نے 7 افراد کو بری کرتے ہوئے کہا کہ دہلی پولیس کی تحقیقات ناقص ہیں۔ عدالت نے تحقیقات کے دوران ثبوتوں میں ہیرا پھیری کرنے پر پولیس پر تنقید کی۔ جون 2023 میں دی ہندو میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق دہلی کی کڑکڑڈوما عدالت نے نو دنوں میں چار مسلم ملزمین کو بری کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف بغیر کسی ثبوت کے مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔
21 جنوری 2025 کو دہلی ہائی کورٹ نے یو اے پی اے کے تحت فروری 2020 کے فسادات کے معاملے میں عمر خالد، شرجیل امام اور دیگر کی درخواستِ ضمانت پر سماعت کی۔ جسٹس نوین چاولا اور جسٹس شلیندر کور کی بنچ نے دہلی پولیس کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "ان کے خلاف کچھ نہیں” ہے۔ عدالت نے کہا کہ اگر ان افراد نے دہلی فسادات کی سازش رچی ہے تو ہر ایک کے کردار سے منسوب ثبوت پیش کیے جائیں۔ بنچ نے پولیس وکیل سے کہا کہ ان لوگوں کے خلاف لامتناہی مقدمات نہیں چل سکتے۔ یہ اس طرح نہیں چل سکتا، اسے اب ختم ہونے کی ضرورت ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر امیت پرساد کے پاس ہر ایک کردار کے خلاف وضاحتی نوٹ موجود نہیں تھا، اس لیے انہوں نے عدالت سے وقت مانگا۔ اب اس معاملے میں 21 فروری کو سماعت ہونی ہے۔
21 جنوری کو ہونے والی سماعت میں حکومت اور پولیس کی جانب سے جو بھی بحثیں ہوئیں ان میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔ شرجیل امام کی وہی پرانی تقریروں کے الفاظ کو دہرایا گیا۔
شاہین باغ کا احتجاج ایک جمہوری اور غیر معمولی تحریک تھی۔ یہ تحریک بھارت کے جمہوری نظام اور آئین پر ایمان و یقین کا بھرپور اظہار تھا جس میں حکومت کے غیر آئینی اقدام کے خلاف جمہوری احتجاج کیا گیا تھا۔ اس تحریک کی قیادت مسلمانوں کی روایتی تنظیمیں اور جماعتیں نہیں کر رہی تھیں، بلکہ اس کے پیچھے مسلمانوں کا نوجوان طبقہ شامل تھا، جنہوں نے 70ء کے بعد آنکھیں کھولی ہیں۔ مگر دہلی فسادات کے ذریعے اس غیر معمولی تحریک کو بدنام کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ اور اب پانچ سال گزر جانے کے باوجود دہلی پولیس اس تھیوری کو سچ ثابت کرنے میں ناکام ہو چکی ہے اور اس پر شرمندگی کے بجائے اختیارات اور عدالت کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
عمر خالد اور شرجیل امام کے معاملے میں ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں جو کچھ ہوا وہ بھارت کے عدالتی نظام کی تاریخ کا سیاہ ترین باب رہے گا۔ 9مہینے تک سماعت التوا کا شکار رہی، جج تاریخ پر تاریخ دیتے رہے اور کئی مرتبہ ججوں نے سماعت، بلکہ حقیقی معنوں میں انصاف فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ سب اس وقت ہو رہا تھا جب سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس چندرچوڑ انسانی حقوق اور فرد کی آزادی پر ملک بھر میں زوردار تقریریں کرتے پھر رہے تھے۔ چیف جسٹس جو روسٹر کی تقسیم کا انچارج ہوتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے کہ کس مقدمے کی سماعت کون سا جج کرے گا، وہ بھی عمر خالد کی درخواست ضمانت پر سماعت کے لیے کسی جج کو پابند نہ کر سکا۔
دہلی فسادات کی سازش کیس کی ایف آئی آر 6 مارچ 2020 کو پہلی مرتبہ درج کی گئی اور یو اے پی اے کی دفعات 19 اپریل 2020 کو لگائی گئیں۔ پہلی چارج شیٹ 16 ستمبر 2020 کو داخل کی گئی تھی اور اس کے بعد چار مزید چارج شیٹس 22 اکتوبر 2020، 23 فروری 2021، 2 مارچ 2022 اور 7 جون 2023 کو داخل کی گئیں۔ ایف آئی آر کی تاریخ سے تین سال اور تین ماہ بعد بھی چارج شیٹ داخل کی جا رہی ہے، مگر یہ تمام چارج شیٹس مکمل نہیں ہیں۔ پانچ سال بعد بھی چارج شیٹ داخل کرنے کا عمل نامکمل ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ سب جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تشدد کے معاملے میں جب مقدمات کی کارروائی کا آغاز ہوا تو دفاعی وکلا نے چارج شیٹ کی خامیوں اور عدم ثبوت کی نشان دہی کی کہ ایک بھی عینی شاہد کا ذکر نہیں ہے۔ اس پر دہلی پولیس نے فوری طور پر ایک اور سپلیمنٹری چارج شیٹ داخل کر کے اس کمی کو دور کرنے کی کوشش کی۔ یہ الگ بات ہے کہ سپلیمنٹری چارج شیٹ میں جن گواہوں کا ذکر تھا، وہ بھی ناکافی تھے۔ مگر اصولی طور پر چارج شیٹ کے بعد جب مقدمے کی سماعت شروع ہو جاتی ہے تو پھر علیحدہ چارج شیٹ داخل کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
انصاف کا تقاضا ہے کہ ملزمین کو چارج شیٹ کی مکمل کاپی فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا دفاع کر سکیں، مگر دہلی پولیس نے ملزمین کو 17,000 صفحات پر مشتمل چارج شیٹ کی ہارڈ کاپیاں فراہم کرنے سے انکار کر دیا، یہ کہتے ہوئے کہ انہوں نے پین ڈرائیوز پر سافٹ کاپیاں دے کر اپنا فرض ادا کر دیا ہے اور ان کے پاس ہزاروں صفحات پرنٹ کرنے کے پیسے نہیں ہیں۔
دہلی فسادات میں گرفتار شدہ افراد کے خلاف یو اے پی اے لگانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ مقدمات کو زیادہ سے زیادہ پیچیدہ بنا دیا جائے اور مظلوموں کے لیے انصاف کا حصول مشکل ہو جائے۔ یہ قانون 2008 میں کانگریس پارٹی نے متعارف کرایا تھا اور اس کے بعد 2019 میں بی جے پی کی حکومت نے اس میں کئی تبدیلیاں کیں۔ یہ تبدیلیاں حکم رانوں کو تنظیموں اور افراد کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات چلانے کے وسیع اختیارات فراہم کرتی ہیں۔
یو اے پی اے کے تحت سزا سنانے کی شرح محض دو فیصد ہے، کیونکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2016 سے 2019 کے درمیان اس قانون کے تحت گرفتار کیے گئے 5,922 افراد میں سے صرف 132 کو سزا سنائی گئی۔ اس طرح ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قانون ہراساں کرنے کے ایک آسان آلے کے طور پر زیادہ کام کرتا ہے جس سے حکومت کو اپنی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے افراد کو ڈرانے، قید کرنے اور نشانہ بنانے کی اجازت ملتی ہے۔ تفتیشی عمل میں جان بوجھ کر سست روی اختیار کی جاتی ہے اور غیر قانونی قید کو طول دیا جاتا ہے۔
دراصل 2014 میں مرکز میں اقتدار میں آنے کے بعد اظہارِ رائے کی آزادی، فکر و نظر کی آزادی اور مذہب کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کی گئی۔ 2019 میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے پاس ہونے کے بعد ملک بھر میں این آر سی کے نفاذ کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ امیت شاہ نے بذاتِ خود پارلیمنٹ کے فلور پر اس کا اعلان کیا۔ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف بہت ساری آوازیں بلند ہوئیں۔ خالد عمر، شرجیل امام اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان مسلم مخالف بنیاد پرستی اور اسلاموفوبیا کے خلاف مزاحمت کی علامت کے طور پر ابھرے اور یہی فاشسٹ قوتوں کو برداشت نہیں ہوا۔
حکومتِ دہلی کے تحت کام کرنے والی دہلی اقلیتی کمیشن نے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی تشکیل کی جس میں اعلیٰ عدالت کے جج، سابق بیوروکریٹ اور ملک کے نامور وکلا شامل تھے۔ 134 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا کہ تشدد "منصوبہ بند اور نشانہ بنایا گیا” تھا۔ رپورٹ کی تمہید میں کہا گیا تھا کہ "فرقہ وارانہ فسادات میں دونوں طرف سے تشدد ہوتا ہے اور دونوں طرف سے جان و مال کا نقصان ہوتا ہے۔ حملے اور جوابی حملے ہوتے ہیں، مگر دہلی فسادات زیادہ تر یکطرفہ حملے تھے۔ مثال کے طور پر شیو وہار میں ایک گلی میں 30 گھر تھے جن میں سے 27 مسلمانوں کے تھے اور صرف 3 غیر مسلموں کے۔ تمام 27 مکانات جو مسلمانوں کے تھے وہ جلا دیے گئے، لوٹ مار کی گئی، حملہ کیا گیا نتیجے میں لوگوں کو وہ علاقہ چھوڑنا پڑا، جبکہ باقی تین گھر جو غیر مسلموں کے تھے وہ محفوظ رہے۔
مونگا نگر میں چار گھر مسلمانوں کے تھے، صرف ان چار گھروں کو لوٹا اور جلا دیا گیا جبکہ باقی تمام گھر محفوظ رہے۔ منگا نگر میں مسلمانوں کی بہت کم دکانیں تھیں پھر بھی جئے شری رام کے نعرے لگانے والے ہجوم نے صرف انہیں کو جلایا اور لوٹ لیا۔ یہی کہانی شیو وہار میں دہرائی گئی جہاں صرف مسلمانوں کے گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔ کراول نگر میں چونا بھٹی کے نام سے ایک بازار ہے جہاں صرف پانچ دکانیں مسلمانوں کی تھیں، اور وہی پانچ دکانیں جلا دی گئیں۔
بھجن پورہ کے علاقے میں دہلی دربار کے نام سے ایک بازار ہے جس میں 40 دکانیں ہیں۔ ان میں سے صرف دو دکانیں مسلمانوں کی تھیں اور صرف انہی دکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان میں سے ایک دکان جو ایک مسلمان کی ملکیت تھی لوٹ کر جلا دی گئی جبکہ دوسری دکان جہاں ایک مسلمان کرایہ دار تھا صرف لوٹی گئی مگر جلائی نہیں گئی۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ان دکانوں کے بالکل ساتھ میں واقع کرشنا ڈیجیٹل اسٹوڈیو اور دینا بینک کا ایک اے ٹی ایم محفوظ رہا۔
ایک اور علاقے میں ایک کاسمیٹکس کی دکان لوٹ لی گئی جبکہ اس کے ساتھ موجود ایک غیر مسلم کی زیورات کی دکان محفوظ رہی۔ کھجوری خاص میں گلی نمبر 4 میں 80 سے 90 مکانات ہیں جن میں سے 44 مسلمانوں کی ملکیت تھے۔ ان تمام 44 گھروں کو جلا دیا گیا اور لوٹ لیا گیا جبکہ باقی گھروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
جب کسی کمیونٹی پر منصوبہ بند حملہ کیا جاتا ہے تو ان کے پاس صرف دو راستے بچتے ہیں: یا تو وہ مر جائیں یا اپنے گھروں سے بھاگ جائیں۔ یہ کوئی معمولی فرقہ وارانہ فساد نہیں تھا اور اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ نہ تو پولیس نے فساد کو روکنے کے لیے کچھ کیا اور نہ ہی فسادیوں کے خلاف کوئی کارروائی کی۔ دہلی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ ایک چشم کشا دستاویز تھی۔ اگر دہلی حکومت چاہتی تو اس رپورٹ کی بنیاد پر عدالت میں اپیل دائر کر کے دہلی فسادات کی اعلیٰ سطحی جانچ کا مطالبہ کر سکتی تھی مگر کیجریوال کی حکومت نے اس رپورٹ کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔
رپورٹ میں یہ بھی تحریر تھا کہ مرکزی اور دہلی، دونوں ہی حکومتوں کا ردِ عمل مایوس کن تھا۔ ان میں سے کوئی بھی مدد کے لیے آگے نہیں آیا۔ مرکزی حکومت نے نہ تو کوئی امدادی کیمپ لگایا اور نہ ہی کوئی معاوضہ دیا۔ دہلی حکومت نے متاثرہ علاقوں میں کوئی امدادی کیمپ قائم نہیں کیے اور جو عبوری معاوضہ دیا گیا وہ بھی ناکافی تھا۔ سیکڑوں متاثرین کو اب تک وہ عبوری معاوضہ بھی نہیں ملا، جن میں سے زیادہ تر غریب ہیں اور ان کے پاس کچھ بھی باقی نہیں بچا ہے۔
آج جبکہ کیجریوال اقتدار سے باہر ہو چکے ہیں تو کہا جا رہا ہے کہ مسلم ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے یہ بدترین نتیجہ سامنے آیا۔ جنگ پورہ کی سیٹ جہاں سے سابق نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا شکست کھا گئے، اسی علاقے میں مرکز نظام الدین بھی واقع ہے۔
کورونا کے دوران کیجریوال میڈیا کے سامنے آئے اور کہا کہ انہوں نے دہلی میں کورونا کو کنٹرول کر لیا تھا مگر مرکز نظام الدین کی وجہ سے حالات بگڑ گئے اور اس کا الزام بھی انہوں نے مسلمانوں پر ڈال دیا۔ اس مرتبہ بھی دہلی انتخابات کی مہم کا آغاز کرتے ہوئے دہلی کی وزیر اعلیٰ آتشی نے روہنگیا اور بنگلہ دیشی مہاجرین کا مسئلہ جس انداز میں اٹھایا اس سے عام آدمی پارٹی کی مسلم دشمنی واضح طور پر جھلکتی ہے۔ اس کے باوجود دہلی کے مسلمان ان کے ساتھ کھڑے ہوئے نظر آئے۔
کانگریس کے ووٹ فیصد میں محض دو فیصد کا اضافہ ہوا، جبکہ بیشتر مسلم اکثریتی حلقوں سے عام آدمی پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ اگر دہلی کے مسلم ووٹرز مکمل طور پر شفٹ ہو جاتے تو آج عام آدمی پارٹی صفر پر ہوتی اور کانگریس 10 سے 15 سیٹوں کے ساتھ اپوزیشن میں ہوتی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن میں رہ کر عام آدمی پارٹی دہلی فسادات کے مظلومین کے حق میں آواز اٹھائے گی یا نہیں؟ یہی سب سے بڑا سوال ہے۔
***
’’میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب میں دہلی فسادات سے متعلق اہم مقدمات کی شنوائی کر رہا تھا تو مرکزی حکومت کو کیا پریشانی لاحق ہو گئی تھی کہ مجھے راتوں رات پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کر دیا گیا؟‘‘
جسٹس مرلی دھر
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 فروری تا 22 فروری 2025