اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد اپنے اثرات مرتب کر رہا ہے

بی جے پی ہندو۔مسلمان کی پرانی پچ پر واپس لوٹی

عرفان الٰہی ندوی

وزیر اعظم کے پارلیمانی حلقے وارانسی میں ایک سرکاری ڈاکٹر کی بھوک ہڑتال۔ توجہ طلب!
شمالی ہند میں عام انتخابات کے چھ مرحلے مکمل ہونے کے بعد متوقع نتائج پر قیاس آرائیاں تیز ہو گئی ہیں۔ جنوبی اور مغربی ہند میں پارلیمانی انتخابات کے تمام مراحل پہلے ہی مکمل ہو چکے ہیں اور اب صرف شمال اور شمال مشرق میں پولنگ کا ایک مرحلہ باقی بچا ہے ۔سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ یہ انتخابات سابقہ دو انتخابات سے مختلف ثابت ہوسکتے ہیں۔ انتخابی عمل شروع ہونے سے پہلے اپوزیشن جماعتیں بکھری ہوئی دکھائی دے رہی تھیں اور بی جے پی کی سربراہی میں این ڈی اے کی جماعتیں متحد نظر آرہی تھیں۔ این ڈی اے نے اسی گمان میں اب کی بار چار سو پار کا نعرہ اچھال دیا تاہم کانگریس نے نہایت ہی دوراندیشی کے ساتھ اس نعرے کو دستور بدلنے سے جوڑ کر پیش کیا۔ اس سلسلے میں بی جے پی کے کچھ لیڈروں کے بیانات نے کانگریس اور انڈیا گٹھ بندھن کی حلیف جماعتوں کا کام آسان بنا دیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے بی جے پی لیڈروں کے حوالے سے عوام میں کہنا شروع کیا کہ بی جے پی چار سو سیٹیں ملنے کے بعد آئین بدل دے گی۔ دانشور طبقہ پہلے ہی سے کہ رہا تھا کہ بی جے پی ملک کے دستور کو بدلنا چاہتی ہے۔ بی جے پی لیڈروں کے بیانات کے ساتھ سرکار کے کچھ اقدامات نے اس بیانیے کو عوام میں عام کر دیا جس سے اپوزیشن کا کام آسان ہو گیا اور وہ انڈیا اتحاد کی منتشر حلیف جماعتوں کو دستور بچانے کے پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
چھ مراحل کے انتخابات کے بعد سیاسی تجزیہ نگار بھی کہنے لگے ہیں کہ بی جے پی کے لیے چار سو پار کا نعرہ بیک فائر کر چکا ہے وہ سنگل لارجسٹ پارٹی تو بن سکتی ہے لیکن تنہا اپنے دم پر اکثریت کے جادوئی ہندسے تک پہنچنا مشکل ہے۔ ایسے میں پارلیمنٹ کے نتائج معلق ہو سکتے ہیں۔ بعض تجزیہ نگار انڈیا اتحاد کی اکثریت حاصل کرنے کی پیش قیاسی کر رہے ہیں۔ چار جون سے پہلے نتائج کے بارے میں کوئی حتمی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا، البتہ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی بیانیہ بدل چکا ہے۔
چھٹے مرحلے میں سب سے دلچسپ مقابلہ دارالحکومت دلی میں ہوا جب دلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے جیل سے باہر آتے ہی دلی اور این سی آر کی انتخابی فضا بدل دی۔ کیجریوال نے وزیر اعظم نریندر مودی کے دائیں ہاتھ وزیر داخلہ امیت شاہ کو سیدھا نشانے پر لے کر حکم راں جماعت کو بیک فٹ پر جانے کے لیے مجبور کر دیا۔ یو پی بہار اور ہریانہ میں بھی انڈیا اتحاد کی حلیف جماعتوں نے حکم راں محاز کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ وزیر اعظم نے اپنے بیانات اور آزمودہ حربوں سے اس بیانیوں کو توڑنے مروڑنے کی بھرپور کوشش کی۔ تاہم، پولنگ فیصد کے اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ انہیں اس میں کوئی خاص کامیابی نہیں مل سکی۔ اس کے برعکس بی جے پی کے اندرونی ذرائع اور دیگر حوالوں سے اطلاعات مل رہی ہیں کہ حکم راں جماعت میں دراڑیں پڑنے لگی ہیں۔ بی جی پی کے قومی صدر جے پی نڈا نے انتخابات کے درمیان یہ بیان دے کر کہ آر ایس ایس کا بی جے پی کے اندرونی معاملوں میں کوئی دخل نہیں ہے، اس بات کا اشارہ دے دیا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس میں سب کچھ معمول کے مطابق نہیں ہے۔چھٹے مرحلے کی پولنگ کے دوران پریاگ راج میں انڈیا اتحاد کے امیدوار کے والد ریوتی رمن سنگھ کو تھانے میں بٹھا لیا، جبکہ اعظم گڑھ میں لاٹھی چارج کی خبر آنے کے علاوہ اس مرحلے کا انتخاب پر امن رہا۔
انتخابی تجزیہ نگار ابھے دبے نے دعویٰ کیا ہے کہ آر ایس ایس کا ایک طبقہ مودی سے خوش نہیں ہے اور ان کے خلاف موقع کی تلاش میں ہے۔ سیاسی مبصرین ساتویں مرحلے کی باقی سیٹوں پر نظر جمائے بیٹھے ہیں ان میں اتر پردیش کی تیرہ بہار کی آٹھ اور مغربی بنگال کی نو سیٹوں کے علاوہ پنجاب اور ہماچل پردیش سمیت بقیہ ستاون پارلیمانی حلقوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے پارلیمانی حلقے وارانسی میں بھی دلچسپ مقابلہ ہونے کا امکان ہے۔ ان سیٹوں پر یکم جون کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ انتخابات کے آخری مرحلے میں وزیر اعظم نریندر مودی سمیت بی جے پی کے اہم لیڈر ہندو مسلم پیج پر واپس آگئے ہیں۔ مودی نے چھٹے مرحلے کی تشہیر کے آخری دن ہماچل پردیش کی انتخابی ریلی میں کلکتہ ہائی کورٹ کے بہانے مسلم او بی سی ریزرویشن پر تنقید کی۔ انہوں نے رام مندر کی تعمیر کا ذکر کرتے ہوئے ہماچل پردیش کے ووٹروں کو رجھانے کی کوشش کی۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو بھی موقع مل گیا، انہوں نے اعلان کر دیا کہ یو پی میں او بی سی کی فہرست میں شامل مسلم پسماندہ ذاتوں پر نظر ثانی کی جائے گی۔ یاد رہے کہ بی جے پی کے بڑے لیڈر مسلم او بی سی کے سوال پر پسماندہ مسلمانوں کو رجھانے کی کوشش کر چکے ہیں۔ تاہم، کلکتہ ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ان لیڈروں کی مسلم پسماندہ ہمدردی ختم ہو گئی ہے۔
یو پی میں سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے ان انتخابات میں پی ڈی اے کا فارمولا اپنا کر بی جی پی کو بیک فٹ پر دھکیل دیا تھا لیکن کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلے نے بی جے پی کی امیدوں کو پر لگا دیے ہیں۔ وہ مسلم او بی سی کو کچھ دینے کے بجائے انہیں پہلے سے ملنے والے ریزویشن پر نظر ثانی کی بات کر رہے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق پسماندہ مسلمانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔
یو پی میں انتخابی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنے والے صحافی آس محمد کیف نے چھٹے مرحلے کے انتخابات سے قبل ایکس پر لکھا کہ ’چھٹے مرحلے کا انتخاب ہونے والا ہے جہاں این ڈی اے اب تک کی سب سے کمزور حالت میں ہے، اس کے باوجود اس مرتبہ بی جے پی کارکنوں میں کچھ زیادہ ہی جوش ہے جو پچھلے پانچ مرحلوں میں نظر نہیں آیا تھا۔ اور اب ایسا کیا ہوا کہ ان کی زبان بدل گئی ہے۔‘
میرٹھ سردھنا کے رہنے والے مدثر رانا کہتے ہیں کہ بی جے پی مغربی یو پی کے تین مرحلوں میں ووٹروں کا اعتماد جیتنے میں ناکام رہی ہے لیکن چوتھے مرحلے کے بعد سے اس کے کارکن جاگنے لگے ہیں۔ بقیہ مرحلوں میں اسے اس کا فائدہ ملنے کی امید ہے۔ للیانہ کے باشندے اور مدثر رانا کے دوست رضوان احمد کہتے ہیں کہ پسماندہ مسلمانوں کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔ بی پی لیڈر جس طریقے کے بیانات دے رہے ہیں اس سے وہ بھی پی ڈی اے میں واپس آرہے ہیں۔ وہ سمجھ چکے ہیں کہ بی جے پی صرف ان کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے پسماندہ مسلمانوں سے ہمدردی کا اظہار کر رہی ہے۔
یو پی کے صحافی جیکی یادو نے ایکس پر لکھا ہے،’ نریندر مودی اپنے انٹرویوز میں دعویٰ کر رہے ہیں کہ مجھے پرماتما نے کسی خاص مقصد کے لیے اس دنیا میں بھیجا ہے، میں خود ہی کنونس ہو چکا ہوں کہ پرماتما نے مجھے بھیجا ہے۔ ڈیوائن رائٹس آف کنگ کے اصول میں راجا اپنے آپ کو بھگوان کا اوتار بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ جو بھی کر رہا ہے بھگوان کی مرضی سے کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھگوان کے علاوہ کسی کو جواب دہ نہیں ہے۔ دراصل وزیر اعظم نریندر مودی کو احساس ہو چکا ہے کہ ان کی مقبولیت کا گراف گرنے لگا ہے جسے روکنے کے لیے وہ بھگوان کا سہارا لے رہے ہیں، جبکہ انہیں بھی معلوم ہے کہ جمہوریت میں عوام کبھی بھی حساب مانگ سکتی ہے۔ وزیر اعظم کے پارلیمانی حلقے وارانسی کے ایک سرکاری ہسپتال میں دھرنے پر بیٹھنے والے ڈاکٹر اوم اس کی بہترین مثال پیش کر رہے ہیں۔
شیام میرا سنگھ نے ایکس پوسٹ پر لکھا کہ بنارس میں ایمس کا درجہ حاصل کرنے والے سندر لال ہسپتال میں دو سال میں 35 ہزار مریضوں کو واپس لوٹا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ہسپتال کے اندر پھیلے ہوئے کرپشن کے خلاف بنارس کے مشہور کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر اوم شنکر 11 مئی سے بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی اس حلقے کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن انہیں اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ ڈاکٹر اوم شنکر نے وزیر اعظم کو ایک مکتوب بھی لکھا جس میں انہوں نے بی ایچ یو کے وائس چانسلر پر کرپشن کے سنگین الزامات لگاتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ہسپتال سے بدعنوانیوں کو ختم کیا جائے۔ انہوں نے وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ’’اب آخری امید آپ سے ہے، آپ اس حوالے سے وی سی کو فوراً کارروائی کا حکم دیں جس سے الیکشن میں آپ کو سیاسی نقصان نہ جھیلنا پڑے‘‘
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال۔ اگلے ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 جون تا 08 جون 2024