آپریشن سیندور سے انتخابی سیاست تک

بھارتی فضائیہ کے حالیہ جوابات پر سرکار سے لازمی سوالات!

0

ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی

آپریشن سیندور پر سرکاری خاموشی؛ حقائق چھپانے یا تاخیر سے بتانے کا فائدہ کس کو؟
پاکستان کے 6 طیارے گرانے کا دعویٰ۔تین ماہ بعد انکشاف کیوں؟
سیاسی الزام تراشی کے شور میں حقائق دب گئے، حکومت کو سیاسی فوائد کے لیے فوج کے پیچھے چھپنا پڑا؟
ہندوستانی فضائیہ کے سربراہ امر پریت سنگھ کے آپریشن سیندور پر بیانات نے مودی سرکارکی مشکلات بڑھا دیں کیونکہ ان کے جوابات نے سرکار کے سامنے نئے سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ موصوف نے یہ دھماکہ خیز انکشاف کیا کہ آپریشن سیندور کے دوران ہندوستانی فوج نے پاکستان کے چھ طیارے تباہ کیے۔ان مار گرائے جانے والے طیاروں میں پانچ پاکستانی لڑاکا طیارے اور ایک جاسوس طیارہ اواکس شامل تھا۔ ملک کے لوگوں کی خاطر یہ ایک بہت بڑی خوش خبری ہے مگر سوال یہ ہے کہ اسے بتانے کی خاطر اس قدر طویل انتظار کیوں کروایا گیا؟ پاکستانی فوج اور حکومت نے تو اگلے ہی دن سے اپنے دعووں کی جھڑی لگا دی مگر ہمارے اہلکاروں سے پوچھا جاتا تو جواب دینے کے بجائے بات کو گول کردیتے ۔اس خوشخبری کا انکشاف کم ازکم آپریشن سیندورپر بحث کے دوران ایوان پارلیمنٹ میں بھی تو ہوسکتا تھا جب راہل گاندھی یہ پوچھ رہے تھے کہ ہمارے فوجیوں کے ہاتھ باندھ کر انہیں پاکستانی حملہ آوروں کے سامنے کیوں بھیجا گیا۔ امیت شاہ نے اگلے دن جواب دینے کا وعدہ تو کیا مگر کشمیر کے حالات میں بہتری اورپہلگام حملے کا راگ الاپنے لگے ۔ اسی وقت یہ جواب آجاتا تو فضائیہ کے سربراہ کو زحمت نہ کرنی پڑتی یا ان کا بیان سرکار کی تائید میں ہوتا۔
لوک سبھا میں سرکار کی جانب سے بحث کا آغاز کرتے ہوئے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے آپریشن سیندور پر سوال اٹھانے والے اپوزیشن رہنماوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے آگ بگولا ہوکرجو تقریر کی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔انہوں نے کہا کہ اس آپریشن میں کتنے ہندوستانی طیارے مار گرائے گئے، یہ پوچھنے کے بجائے کہ یہ پوچھا جانا چاہیے کہ دشمن کے کتنے طیاروں کو ملکی افواج نے مار گرایا؟ یہ اچھا سوال ہے۔ اپوزیشن نے اسے نہیں پوچھا تب بھی وزیر دفاع سے لے کر وزیر داخلہ اور وزیر اعظم تک نے اس کا جواب کیوں نہیں دیا؟ انہوں نے حزب اختلاف کو یہ نصیحت تو کی کہ انہیں کیا کیا پوچھنا چاہیے لیکن آگے بڑھ کر ان سوالات کے جوابات نہیں دیے۔ مثلاً راجناتھ سنگھ نے کہا اگر آپ سوال پوچھنا چاہتے ہیں تو پوچھیں کہ کیا بہادر سپاہیوں کا کوئی نقصان ہوا؟ چلیے حزب اختلاف نے نہیں پوچھا پھر بھی اس اہم سوال کا جواب دینے سے راجناتھ سنگھ یا امرپریت سنگھ کو کس نے روکا؟
وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے بنیادی سوالات کا جواب دینے کے بجائے یہ کہہ کر معاملہ رفع دفع کیا کہ اگر کوئی بچہ امتحان میں اچھے نمبر لے رہا ہو، تو اس کے نمبر اہم ہیں۔ ہمیں اس بات پر توجہ نہیں دینی چاہیے کہ امتحان میں اس کی پنسل ٹوٹ گئی یا اس کا قلم ضائع ہو گیا۔ اس کے بعد حزب اختلاف کی جانب سے جو سوالات کی بمباری ہوئی تو وزیر دفاع سمیت سرکار اس کا جواب نہیں دے سکی ۔ اسے اپنی مدافعت کی خاطر ائیر چیف کو میدان میں اتارنا پڑا۔ انہوں نے اپنی گفتگو کا آغاز اس بڑی خبر سے نہیں کیا بلکہ اختتامیہ میں دشمن کے قلم اور پنسل کا حساب تو دے دیا مگر اپنا نہیں دیا۔دشمن کے نقصان کی تعداد اگراہم ہے تو اپنے خسارے کی اہمیت کیسے کم ہوجاتی ہے؟ فضائیہ کے سربراہ نےپاکستان کے بہاولپور میں جیش محمد کے ہیڈکوارٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تصاویر سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں کوئی اضافی نقصان نہیں ہوااور ارد گرد کی عمارتیں تقریباً مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ یہی بات 13 مئی (2025) کو حکومتِ ہند کی جانب سے پہلی وضاحت میں ایئر مارشل اودھیش کمار بھارتی نے قوم سے خطاب میں کہی تھی۔
جنرل اے کے بھارتی نے میڈیا کوبتایا تھاکہ کس طرح پاکستانی افواج اور عام شہریوں کے جانی نقصان کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ۔ کیا پاکستانی افواج کا نقصان کم کرنے کی کوشش کا دعویٰ اور ہینگر سے لٹکے جہازوں کو تباہ کرنا باہم متضاد دعوے نہیں ہیں؟ ایئر مارشل اے کے بھارتی نے بھی راجناتھ سنگھ کی طرح اعتراف کیا تھا کہ نقصانات جنگ کا حصہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھااگر میں رافیل کے گرنے کا اعتراف کرلوں تو اس کا فائدہ پاکستان کو ہوگا۔اس بیان کے بعد رافیل جہاز بنانے والی فرانسیسی کمپنی ’ڈاسو ایوی ایشن‘ کے شیئرز 10.33 فیصد گرگئے تھے۔ آگے چل کر رافیل والوں نے بھی اونچی اڑان کے سبب جہاز گرنے کا اعتراف کرکےالٹا ہندوستانی فوجیوں کو موردِ الزام ٹھیرادیا۔اس بابت ایوان پارلیمنٹ میں ایک رکن نے بھٹنڈا کے قریب ملبے کا ذکر کیا مگر حکومت اور فضائیہ خاموش ہے۔پاکستان کے ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد نےاسی وقت 0-6 سے کامیابی کا اعلان کیا اور ہندوستانی فضائیہ کے سربراہ نے تقریباً تین ماہ بعد جواب دیا۔ایسے میں دنیا کس کی بات کا اعتبار کرے گی؟
راہل گاندھی آج کل مودی سرکار پر ووٹ چوری کا الزام لگا کر بمباری کررہے ہیں۔ انہوں نے دہلی میں پریس کانفرنس کے بعد بنگلورو جاکر اس کے ثبوت پیش کیے۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ فضائیہ کے سربراہ امر پریت سنگھ نے بھی انکشافات کے لیے بنگلورو کا انتخاب کیا مگر اس سے حکومتِ وقت شکوک و شبہات میں گھرتی ضرور ہے۔ حکومتِ ہند کی جانب سے اس بیان کو دینے میں تاخیر کروانے کے سبب درمیانی وقفے میں مختلف عالمی خبر رساں اداروں نے پاکستانی بیانیہ کی توثیق کردی کیونکہ ان کے پاس اسے چیلنج کرنے والا موادنہیں تھا ۔ اس کوتاہی کے لیے مودی سرکار پوری طرح ذمہ دار ہے۔ ابھی حال میں 2 اگست 2025کو معروف برطانوی خبررساں ایجنسی رائٹرز نے انکشاف کیا کہ 7 مئی کو پاکستان اورہندوستان کے درمیان ہونے والی فضائی جھڑپ جدید دور کی سب سے بڑی فضائی جنگ تھی کیونکہ اس میں 110 کے قریب طیاروں نے حصہ لیا تھا۔ رائٹرز کے مطابق اس معرکے میں پاکستان کے پاس موجودچینی جے-10 سی طیارے اورہندوستان کے فرانسیسی رافیل کے درمیان امتحان تھا یعنی ایک طرح سے یہ جنگ فرانس و چینی اسلحہ فروشوں کی تجربہ گاہ بن گئی تھی جس میں دونوں اپنی برتری ثابت کرکے کاروبار چمکانا چاہتے تھے۔
مذکورہ بالارپورٹ کے مطابق پاکستانی ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابرپہلے کئی دنوں (پہلگام حملے کے بعد)سے ممکنہ بھارتی حملے کی توقع کررہےتھے۔ ویسے ہندوستانی وزیر خارجہ جئے شنکرنے خودپاکستان کو اطلاع دینے کا اعتراف بھی کیا ہے۔ اس لیے جیسے ہی ہندوستانی طیارے ریڈار پر نمودار ہوئے ایئر چیف نے فوری طور پر جے-10 سی طیاروں کو رافیل گرانے کا حکم دیا۔چینی جے-10 سی طیارے PL-15 میزائل نظام سے متعلق ہندوستانی پائلٹس کو یقین تھا کہ وہ ان کی رینج (150 کلومیٹر) سے باہر ہیں مگر وہ اندازہ غلط تھا۔ یہ میزائل تقریباً 200 کلومیٹر دور ایک رافیل طیارے کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہا۔رائٹرز نے امریکی حکام کے حوالے سے تصدیق کی کہ ایک رافیل واقعی گرایا گیا اور اس کے بعد انڈونیشیانے رافیل کے بجائے چینی جے-10 خریدنے پر غوروخوض شروع کردیا۔رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ پاکستان نے’کِل چین‘ سٹیلائیٹ سسٹم کے ’’لائیو فیڈ‘‘کااستعمال کرکے معلومات حاصل کی نیز’ڈیٹا لنک 17‘( چینی اور سویڈش ٹیکنالوجی) کی مدد سے طیاروں کو بغیر ریڈار آن کیے خود کو پوشیدہ رکھا۔رپورٹ کہتی ہے مختلف ممالک سے لیے گئے آلات کی وجہ سے ہندوستانی نظام پیچیدہ اور غیر مربوط ثابت ہوا جس کی بہتری پراب کام ہوگا۔ دنیا کے ماہرینِ حرب ائیر چیف امرپریت سنگھ کے دعویٰ کو اس تناظر میں بھی دیکھیں گے۔
میدان جنگ میں برسرِ پیکار ممالک کا میڈیا غیر جانب دار نہیں ہوسکتا مگرہند پاک تصادم میں رائٹرز یا بی بی سی پر جانب داری کا الزام لگانا مشکل ہے۔بی بی سی ویریفائی نے 9 مئی 2025 کو ہی تین ایسی ویڈیوز کی تصدیق کردی تھی کہ ان میں سے ایک کا ملبہ فرانسیسی رافیل طیارے کا تھا ۔بی بی سی کے مطابق وہ ویڈیو پنجاب میں بھٹنڈہ کاتھا۔ برطانوی فوج کے سابق افسر جسٹن کرمپ نے بی بی سی ویرفائی کو بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والا یہ ملبہ فرانسیسی میزائل کا لگتا ہے جو میراج اور رافیل لڑاکا طیاروں میں ہی استعمال ہوتا ہے۔ ایک اور تصویر میں ایک لڑاکا طیارے پر بی ایس زیرو زیرو ون اور رفال لکھا ہوا تھا۔ بی بی سی پنجابی کے نامہ نگار راجیش کمار جب جائے حادثہ پر پہنچے تو انتظامیہ نے میڈیا کو تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر روک دیا۔ پاکستانی ڈی جی آئی ایس پی جنرل احمد شریف نےاسی وقت پریس کانفرنس کے دوران دعویٰ کردیا تھا کہ فضائیہ نے’تین رافیل طیارے ، ایک مگ 29 لڑاکا طیارہ اور ایک ایس یو گرایا ہے۔ پاکستانی فوج کے ترجمان نے کہا تھا ’یہ طیاروں کو عمومی طور پر بھٹنڈہ، جموں ، اونتی پور ، اکھنور اور سری نگر میں مار گرایا گیا۔‘ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ان میں لڑاکا ڈرون بھی شامل ہے۔سوال یہ ہے کہ ہندوستانی فضائیہ کے سربراہ کو ایسا کرنے سے کس نے اور کیوں روکا؟
حکومتِ ہندنے چونکہ اس وقت تک کسی قسم کی تصدیق یا تردید نہیں کی تھی اس لیے بی بی سی نامہ نگار نے پلوامہ کے قصبے پام پور میں گرنے والے ایک طیارے کے ملبے کو بلڈوزر کی مدد سے منتقل ہوتے ہوئے دیکھنےکی خبر دی۔بی بی سی کےایک نامہ نگار نے جموں کے ضلع رام بن سے بھی ایک طیارہ تباہ ہونے کی تصدیق کردی۔ اخبار ’دی ہندو‘ اوررائٹرز کو کشمیر سے چار سرکاری حکام نے بتایا کہ تین طیارے الگ الگ علاقوں میں گرے ہیں۔ اس وقت چونکہ ساری دنیا میں طرح طرح کی افواہوں کا بازار گرم تھا اس لیے حزب اختلاف نے ایوانِ پارلیمنٹ کے ایک خصوصی اجلاس کا مطالبہ کیا ۔ مودی سرکار حقائق کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھی اس لیے پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں عجلت کرکےاس مطالبہ کو دبایا گیا۔ ایوان کے باہر کھڑے ہوکر پارلیمانی اجلاس کو وزیر اعظم نےآپریشن سیندور کا جشن قرار دیامگراندر صرف چھ منٹ بیٹھ کر غیر ملکی دورے پر نکل گئے ۔ اس طرح جشن میں ان کی دلچسپی واضح ہوگئی۔ لوٹنے کے بعد بھی موصوف اپنی تقریر کے علاوہ ایوان میں شاذ و نادرہی نظر آئے۔ حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی تو دور پرینکا گاندھی تک کی تقریر سننے کی زحمت گوارہ نہیں کی تو ان کے سوالات کا جواب کیا دیتے؟
وزیر دفاع نےبحث کی ابتدا کرتے ہوئے سوالات کے جوابات دینے کے بجائے یہ نصیحت لگائی کہ حزب اختلاف کو کیا پوچھنا چاہیے؟ یہ کہنے کا انہیں اختیار ہی نہیں ہے۔ لوگ وہ کیوں پوچھیں جو سرکار چاہتی ہے؟ کانگریس کے ڈپٹی لیڈر گورو گوگوئی نے حکومت سے پوچھا کہ آپریشن سیندور کیوں روکا گیا اور پہلگام کے دہشت گرد ابھی تک فرار کیوں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ راج ناتھ سنگھ نے یہ نہیں بتایا کہ دہشت گرد پہلگام تک کیسے پہنچے؟ اور قتل عام کیا؟ راجناتھ سنگھ بتائیں کہ کتنے طیارے مار گرائے؟ حکومت کو سچائی سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ کو پہلگام دہشت گردانہ حملے میں سیکورٹی کوتاہی کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے ۔ کانگریس لیڈر نےپوچھا ہمارا مقصد جنگ کیوں نہیں تھا؟ پی او کے کیوں نہیں لیا؟ ان سوالات سے گھبرا کر امیت شاہ کی تقریر کے پہلے آپریشن مہاد یو کے نام پر تین عسکریت پسندوں کو مار کر کہہ دیا کہ وہی پلوامہ کے حملہ آور تھے حالانکہ مقامی انتظامیہ نے اس وقت تک شناخت بھی نہیں کی تھی۔حکومت چاہتی تھی راہل گاندھی اس کی مخالفت کریں تو انہیں ملک اور فوج کا دشمن قرار دے گھیرا جائے لیکن انہوں نے ساری توجہ ٹرمپ کے جنگ بندی والے دعویٰ پر مرکوز کرکے مودی کو گھیر لیا بلکہ نام لینے کا چیلنج کردیا ۔ مودی چونکہ ٹرمپ کا نام نہیں لے سکے اس لیے ان کی بزدلی پر مہر لگ گئی۔ مودی نےپنڈت نہرو کو موردِ الزام ٹھیرایا تو سنجے راوت نے پوچھا کیا وہ آکر استعفیٰ دیں گے؟
وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے جب ٹرمپ کا نام لیے بغیر ان کے دعویٰ کو مسترد کیا تو حزب اختلاف نے شور کیا۔ یہ دیکھ کر امیت شاہ آگ بگولا ہوگئے۔ امیت شاہ غصے میں اپوزیشن پر اعتراض کیا کہ وہ اپنے وزیر خارجہ پر بھروسا کرنے کے بجائے کسی اور ملک پر اعتبار کیوں کرتا ہے؟انہوں نے تہمت باندھتے ہوئے کہا’’ میں ان کی پارٹی میں بیرونی ممالک کی اہمیت کو سمجھ سکتا ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی تمام چیزیں یہاں ایوان میں تھوپ دی جائیں۔ کسی کی بات پر اعتماد اس کی شہریت یا حلف برداری پر منحصرنہیں ہوتی بلکہ اس کے بیان میں موجود سچائی پر ہوتی ہے۔ وہ خود حلف لے کر دن رات جھوٹ بولتے ہیں اور یہی کام وزیرخارجہ کرنےلگیں تو ان پر بھروسا کیسے کیا جائے؟ جے ڈی یو کے للن سنگھ نے سوالات کا جواب دینے کے بجائےیہ الزام لگا دیا کہ یو پی اے کے دور حکومت میں (2004 سے 2014 تک) ملک میں دہشت گردی پروان چڑھی۔ اس میں دہشت گردی سے لڑنے کی نہ ہمت ہے اور نہ ہی طاقت۔ وہ مگرمچھ کے آنسو بہاتی ہے۔ دراصل مشتعل للن سنگھ کو یہ بتانا چاہیے تھا کہ آئین کی دفعہ 370کی منسوخی کے بعد بھی پہلگام کیوں ہوا ؟اورفی الحال جاری و ساری آپریشن مہا دیو کے نویں دن بھی دو فوجی اہلکار کیوں ہلاک ہوئے؟
بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ انوراگ ٹھاکر نے آپریشن سیندور پر گفتگو کرنے کے بجائے راہل گاندھی پر ذاتی نوعیت کے رکیک حملے شروع کردیے۔ وہ بولے راہل گاندھی ’ایل او پی‘ (لیڈر آف اپوزیشن) سے ’ایل او بی‘ (ہندوستان کے مخالف لیڈر) بن گئے ہیں۔ ان کا ایجنڈا صرف ہندوستانی فوج اور وزیراعظم کی مخالفت ہے۔ ٹھاکر نے ایوان میں قائد حزب اختلاف کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ (راہل) کانگریس کے پوسٹر بوائے بن سکتے ہیں یا نہیں، لیکن وہ پاکستان کے ’پروپیگنڈہ کے پوسٹر بوائے‘ ضرور بن گئے ہیں۔ انوراگ ٹھاکر نے کہا کہ جب ہندوستانی فوج پاکستان کو منہ توڑ جواب دے رہی تھی تو راہول گاندھی کیا کر رہے تھے؟ انوراگ ٹھاکر بھول گئے آپریشن سیندور پاکستان نے نہیں ہندوستان نے شروع کیا اس لیے جواب تو پاکستان دے رہا تھا۔ وہ بولے ہندوستان ’ڈھائی محاذوں‘ پر لڑ رہا ہے۔ دو محاذوں کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے یعنی پاکستان اور چین۔ ’راہل کےزیر قیادت کانگریس‘ کو دشمن کانصف محاذ کہنے والے انوار گ ٹھاکر کو بتانا چاہیے کہ پاکستان کی کھلی پشت پناہی کے باوجود راجناتھ سنگھ چین کیوں گئے؟ جئے شنکر نے یہ کیوں کہا کہ چین سے تعلقات بہتر ہورہے ہیں اور سات سال بعد خود مودی کیوں جارہے ہیں؟ ٹھاکر نے کہا INC (انڈین نیشنل کانگریس) ‘اسلام آباد نیشنل کانگریس‘ بن چکی ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ بی جے پی چین و امریکہ کا دُم چھلا بنی ہوئی ہے۔
ہندوستان کے ایوان پارلیمنٹ میں تو یہ سب ہوتا رہا مگرپاکستان کے وزیراعظم نے تو ایوان کے اندر اور باہر پاک فضائیہ کے ذریعہ چھ جہاز گرانے کا اعلان کردیا۔ اس کے مقابلہ وزیراعظم نریندر مودی نے بیکانیر میں اپنی شیخی بگھارتے ہوئے کہا پاکستان یہ بھول گیا کہ اب بھارت ماتا کا خادم مودی سر اونچا کیے یہاں کھڑا ہے، مودی کا دماغ ٹھنڈا ہے لیکن خون گرم ہے، اب تومودی کی رگوں میں خون کے بجائے گرم سیندور دوڑ رہا ہے، پاکستان کو ہر دہشت گرد حملے کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی اور یہ قیمت پاکستانی فوج ادا کرے گی۔ پی ایم مودی نےیہ بھی کہا تھاکہ آپ کے آشیرواد اور فوج کی بہادری سے، ہم نے عہد پورا کر دیا ہے۔ یہاں فوج کے بجائے خودستائی کرکے بہارالیکشن کی راہ آسان کی گئی تھی ۔ راہل گاندھی نے جب مودی سرکار کو ووٹ چور ثابت کرکےمدافعت پر مجبور کردیا ہے تو اسے فوج کے پیچھے چھپنا پڑاکیونکہ مودی کے ڈائیلاگ پر کہ ’’اس سرزمین پر قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اس ملک کو جھکنے نہیں دوں گا‘‘ کوئی یقین نہیں کررہا ہے۔ بی بی سی اور رائیٹرس کی خبر کو پاکستانی بیانیہ کی ترجمانی کہہ کر مسترد کرنا شتر مرغ کی مانند ریت میں منہ چھپانے کے مترادف ہے۔فضائیہ کے سربراہ کا بیان ملک کی عوام کو تو خوش کرنے والاہے مگرکیا دنیااسے مانے گی؟ یہ بات واقعی قابل غور ہے ۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)

 

***

 راہل گاندھی نے جب مودی سرکار کو ووٹ چور ثابت کرکےمدافعت پر مجبور کردیا ہے تو اسے فوج کے پیچھے چھپنا پڑاکیونکہ مودی کے ڈائیلاگ پر کہ ’’اس سرزمین پر قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اس ملک کو جھکنے نہیں دوں گا‘‘ کوئی یقین نہیں کررہا ہے۔ بی بی سی اور رائیٹرس کی خبر کو پاکستانی بیانیہ کی ترجمانی کہہ کر مسترد کرنا شتر مرغ کی مانند ریت میں منہ چھپانے کے مترادف ہے۔فضائیہ کے سربراہ کا بیان ملک کی عوام کو تو خوش کرنے والاہے مگرکیا دنیااسے مانے گی؟ یہ بات واقعی قابل غور ہے ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 جولائی تا 23 اگست 2025

HacklinkHair Transplant istanbul
hacklink
istanbul evden eve nakliyat
hair transplant
istanbul anl?k haberler
extrabet
cratosroyalbet
casibom
romabet
romabet
romabet
casibom
holiganbet
casibom
marsbahis
casibom
deneme bonusu veren siteler
Betpas
Adana Escort
?sparta escort?sparta escort?sparta escort?sparta escortantalya escort