اونٹ کے منہ میں زیرہ

بارہ سال بعد صرف پانچ سو روپیوں کا اضافہ ؟

شبانہ اعجاز،کولکاتہ

حکومت ِبنگال کی جانب سے مقامی ائمہ و مؤذنین کے ساتھ نہایت ہی بھدّا مذاق
ممتا بنرجی کے اعلان پر جلسہ گاہ میں ہی پرزور مخالفت ،کئی نشستیں خالی کردی گئیں اور نعرے بھی لگائے گئے
مشہور کہاوت ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ بھارت کی سیاست میں یہ کہاوت بالکل صحیح ثابت ہوتی ہوئی نظر آتی ہے، خاص طور پر مسلمانوں کے معاملے میں۔
حکومتوں و سیاسی پارٹیوں کے پاس اقلیتوں کے نام پر ان گنت اسکیمیں تو ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی ملک میں اقلیتی طبقہ پس ماندہ نظر آتا ہے۔ ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے بنگال میں اقلیتوں کی صورتحال بہت زیادہ خراب ہے، حالانکہ بنگال میں بائیں بازو کے طویل اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ شور اٹھایا گیا تھا کہ تبدیلی حکومت کے بعد جہاں بنگال کو ترقی ملی وہیں ریاست کی اقلیتی طبقے کی حالت میں بھی سدھار آیا ہے لیکن زمینی سطح پر اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو یہ دعوے کئی معاملوں میں غلط ثابت ہوتے ہیں۔
مغربی بنگال کے لوگ اپنی تہذیب و ثقافت اور ذہانت کے لیے جانے جاتے ہیں۔ آزادی سے پہلے وہاں کا مسلم طبقہ بھی ہر میدان میں مضبوط تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر بھی خوش حال نظر آتا تھا لیکن بٹوارے کے زخم اور پھر بنگلہ دیش کے وجود نے یہاں کے مسلمانوں کی تصویر بدل کر رکھ دی ہے اور اب حال یہ ہے کہ غریب اور کم تعلیم یافتہ مسلمان یہاں کی پہچان بن گئے ہیں۔ بائیں بازو کے دور اقتدار میں یہی رونا رویا گیا کہ بنگال میں مسلمانوں کی پس ماندگی اتنی زیادہ ہے کہ اسے دور کرنا برسوں کا کام ہے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ان کے 33 سالہ دور اقتدار میں بھی یہ حالت جوں کی توں ہی بنی رہی۔ سچر کمیٹی نے بھی مسلمانوں کی پس ماندگی کی تصویر واضح طور پر سامنے لاکر رکھ دی۔ ملک بھر میں کیے گئے سروے میں بتایا گیا کہ سب سے زیادہ بد حال بنگال کے مسلمان ہیں۔ یہ رپورٹ بائیں بازو کے لیے سیاسی طور پر نقصان دہ ثابت ہوئی اور ممتا بنرجی کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ جس وقت ممتا بنرجی جب بنگال کی سیاست میں اپنی جگہ بنانے کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں اس وقت سچر کمیٹی کی رپورٹ نے ان کے لیے مسلمانوں پر ڈورے ڈالنے کا کام کیا۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد مسلمان بائیں بازو سے ناراض ہوئے اور تھامنے کے لیے انہیں ممتا بنرجی کا ہاتھ ملا۔ 2011ء کے اسمبلی انتخابات میں اقلیتی طبقے نے بھرپور طریقے سے ممتا بنرجی کو ووٹ دیا نتیجے میں ممتا بنرجی نے شان دار جیت کے ساتھ بنگال کی سیاست میں نئی تاریخ بناتے ہوئے اقتدار پر اپنا قبضہ جمالیا۔ اقتدار سنبھالنے کے ممتا بنرجی نے کولکاتا کے نیتاجی انڈور اسٹیڈیم میں مسلمانوں کی پہلی میٹنگ بلائی، اس پروگرام میں ریاست بھر کی مسلم تنظیموں اور ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں نے شرکت کی جن میں علماء کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہوئی اور دیدی کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھنے لگی۔ ممتا بنرجی، جنہوں نے انتخابات سے قبل کیمپئین کے دوران مسلمانوں کے ساتھ کئی وعدے کیے تھے جن میں وقف کے مسائل کو حل کرنے، تعلیم کے مواقع فراہم کرنے اور معاشی طور پر مسلمانوں کو مضبوط کرنے جیسے وعدے شامل تھے۔ انہوں نے اس میٹنگ میں اپنے وعدوں کو پورا کرنے کا یقین دلاتے ہوئے ائمہ و موذن کے لیے وظیفے کا اعلان کیا۔ اماموں کو ڈھائی ہزار جبکہ مؤذنین کے لیے ایک ہزار روپے دینے کا اعلان کیا گیا۔ ممتا بنرجی کے اس اعلان سے بنگال کے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ یہ پہلا موقع تھا جب ریاست کے اماموں اور موذنین کے بارے میں سرکاری طور پر کسی وزیر اعلی نے وظیفے کا اعلان کیا تھا، ساتھ ہی ان کی پس ماندگی کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی حالت سدھارنے کے لیے اماموں اور مؤذنین کے لیے علیحدہ وظیفے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن ممتا بنرجی کے اس اعلان پر کلکتہ ہائی کورٹ نے یہ کہہ کر روک لگا دی کہ حکومت اس طرح کے وظیفے کا اعلان نہیں کر سکتی۔ جس کے بعد ممتا بنرجی نے وقف بورڈ کو ہدایت دی کے بورڈ وظیفے کی رقم ادا کرے گا جس کے لیے سرکار بورڈ کو فنڈ فراہم کرے گی۔ ریاست کے لگ بھگ 60 ہزار اماموں و موذنین کو بورڈ کی جانب سے وظیفہ فراہم کیا جاتا ہے۔ اس وظیفے کی بعد ممتا بنرجی نے مندر کے پروہتوں کے لیے بھی وظیفے کا اعلان کیا۔ اگرچہ وظیفے کی رقم کو لے کر ائمہ کی ایک بڑی تعداد میں مایوسی بھی دیکھی گئی تھی لیکن پھر بھی انہوں نے خود کو مطمئن کر لیا کہ رقم بھلے ہی کم ہو لیکن ان کے بارے میں سوچا تو گیا اور اسی امید پر انہوں نے وظیفے کو قبول بھی کر لیا۔ وظیفے کے اعلان کے کچھ مہینوں کے بعد اعلیٰ سطح پر یہ کہا گیا کہ امام اور موذن حضرات اپنے اپنے علاقے میں سرکاری کاموں کا پرچار کریں۔ چنانچہ اس کام میں بھی ائمہ و مؤذنین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 2012ء کہ اس ایک میٹنگ کے بعد 2016ء اور 2019ء کے اسمبلی انتخابات میں جیت کے باوجود وزیر اعلی ممتا
بنرجی نے ائمہ و مؤذنین کے ساتھ عوامی سطح پر کسی میٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ ہر سال عيدالفطر اور عیدالاضحی کے موقع پر کولکاتا کے ریڈ روڈ میں ہونے والی نماز میں ممتا بنرجی ضرور شامل ہوتی ہیں اور مسلمانوں کو ان پر ہی بھروسہ کرنے کی اپیل کرتی ہیں۔ ایسے ہی ایک موقع پر ممتا بنرجی نے دعویٰ کیا مسلمانوں کے 99 فیصد مسائل انہوں نے حل کر دیے ہیں۔ اِس دعویٰ پر مسلمانوں نے حیرانی کا اظہار کیا جبکہ نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین کی تنظیم PRATICHI INSTITUTE نے اپنے سروے میں دعویٰ کیا کہ بنگال میں مسلمان معاشی طور پر دوسری ریاستوں کے مقابلے زیادہ پس ماندہ ہیں کیونکہ دیگر ریاستوں کے مقابلے میں بنگال کے دیہی علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے۔ رپورٹ میں چونکا دینے والے انکشاف میں بتایا گیا کہ صرف ایک فیصد مسلم گھرانے ہی نجی شعبے میں کام کرتے ہیں جبکہ تقریبا 47 فیصد آبادی کھیتی باڑی پر منحصر ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ تقریبا 80 فیصد مسلم گھرانے محض پانچ ہزار روپے کماتے ہیں۔ اِس رپورٹ کے بعد ممتا حکومت کے خلاف بھی مسلمانوں میں ناراضگی دیکھنے کو ملی۔ یہی وجہ ہے کہ 2016ء کے اسمبلی الیکشن میں ایک طرف جہاں بی جے پی مضبوط اپوزیشن کے طور پر سامنے آ رہی تھی تو وہیں فرفرہ شریف کی پیرزادہ عباس صدیقی نے آئی ایس ایف (انڈین سیکولر فرنٹ) کے نام سے ایک نئی سیاسی پارٹی بنا کر ممتا سرکار کو ایک بڑا چیلنج دیا ہے۔ حالانکہ 2016ء کے اسمبلی انتخابات میں آئی ایس ایف کو صرف ایک ہی سیٹ پر کامیابی ملی جبکہ بی جے پی مضبوط اپوزیشن کے طور پر سامنے آئی جبکہ بنگال اسمبلی میں کانگریس اور بائیں بازو کا بالکل صفایا ہو گیا۔ 2016ء کے بعد سے آئی ایس ایف لگاتار اپنی سیاسی طاقت مضبوط بنانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے جو بنگال میں ترنمول کانگریس کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ ممتا.بنرجی اور ان کی پارٹی کو آئی ایس ایف کے بڑھتے ہوئے سیاسی قدم سے مسلم ووٹوں کے بکھر جانے کا اندیشہ ہے۔ حالیہ پنچایت انتخابات میں بھی جہاں ترنمول کانگریس نے زبردست کامیابی حاصل کی ہے، وہیں آئی ایس ایف نے بھی ریاست میں 336 سیٹیں جیت لیں ان میں 325 گرام پنچایت سیٹیں 10 پنچایت سمیتی اور ایک ضلع پریشد کی سیٹ شامل ہے۔ آئی ایس ایف کی یہ جیت ترنمول کانگرس کے لیے مشکلیں بڑھا سکتی ہے۔ کیونکہ اگر آئی ایس ایف سیاسی طور پر مضبوط ہوتی ہے تو اس کا کہیں نہ کہیں سیاسی نقصان ترنمول کانگریس کا ہی ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بار پھر ممتا بنرجی نے اماموں اور مؤذنین کے پروگرام میں شرکت کر کے مسلمانوں کو ان پر بھروسہ کرنے کی اپیل کی۔ ایک بار پھر وہی منظر تھا، یعنی 2011ء کے الیکشن کے بعد نیتاجی انڈور اسٹیڈیم میں منعقد ہونے والے مسلم میٹنگ کی طرح اسٹیڈیم لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، لیکن اس بار یہ میٹنگ آل انڈیا امام ایسوسی ایشن کی جانب سے نیتاجی ان ڈور اسٹیڈیم میں منعقد کی گئی تھی۔ اس جلسے میں ممتا بنرجی شامل ہوئیں۔ امید کی جا رہی تھی کہ اس جلسے سے ممتا بنرجی ائمہ اور مؤذنین کے وظیفے کے لیے کوئی بڑا اعلان کریں گی۔ ممتا بنرجی جب اسٹیج پر سامنے آئیں تو ایک بار پھر لوگوں نے بھرپور طریقے سے ان کا استقبال کیا۔ اس جلسے میں ریاست بھر کے ائمہ و مؤذنین شریک ہوئے اور انہیں بولنے کا موقع بھی دیا گیا۔ جلسے میں آسنسول کے فسادات میں اپنے بیٹے کو کھونے والے مولانا امداد الرشیدی بھی شامل تھے جنہوں نے ممتا بنرجی کے سامنے اماموں کی مالی پریشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے اپیل کی کہ ائمہ کے بچوں کی تعلیم کے لیے مضبوط اقدامات کیے جائیں۔ سول سروسز کے مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے ہونے والے کوچنگ میں ائمہ کے بچوں کو بھی شامل کیا جائے۔ اسی طرح مختلف تنظیموں کی جانب سے ممتا بنرجی کے سامنے کئی مسائل رکھے گئے۔ ممتا بنر جی نے بھی مائک سنبھالا اور مسلمانوں سے ایک بار پھر ان کے ساتھ رہنے کی اپیل کی۔ انہوں نے بائیں بازو اور کانگریس پر بی جے پی کے لیے کام کرنے کا الزام لگاتے ہوئے آئی ایس ایف کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو منتشر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن مسلمان سوجھ بوجھ سے کام لیں اور ان کی حکومت پر اور ان کی پارٹی پر بھروسہ کریں۔ نیز ممتا بنرجی نے سرکاری طور پر اقلیتوں کے لیے چلائی جانے والی اسکیموں کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت نے اقلیتی فنڈ میں اضافہ کیا ہے جو 2011ء سے آٹھ گنا زیادہ ہے۔ انہوں نے خارجی مدرسے کو بھی منظوری دینے کی بات کہی، ساتھ ہی انہوں نے حکومت کی طرف دیے جانے والے اسکالرشپ، کنیا شری و دیگر سرکاری اسکیموں سے مسلمانوں کو فائدہ ملنے کا دعوی کرتے ہوئے کہا کہ ان کے حکومت نے 2023-24 مالی سال میں ریاستی اقلیتی امور کے محکمے کے لیےمختص کردہ اخراجات 4,233 کروڑ روپے ہے جبکہ 2010-11 میں یہ بجٹ 472 کروڑ روپے تھا۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتی فنڈ میں اضافہ ہوا ہے جس سے مسلمانوں کی حالت میں سدھار آیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے ائمہ اور مؤذنین کے وظیفے میں بھی اضافے کا اعلان کیا۔ لیکن بارہ برسوں بعد وظیفے میں صرف پانچ سو روپے کے اضافے سے امام ایسوسی ایشن بھی حیران رہ گیا۔ جلسے میں ہی اماموں نے احتجاج کیا اور وظیفے نہ لینے کا نعرہ لگایا۔ آل انڈیا اقلیتی فورم کے چیرمین قمرالزماں نے وظیفے میں محض پانچ سو روپے کے اضافے کو حیران کن بتاتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ممتا بنرجی کے سامنے ہی کرسیاں خالی ہو گئیں۔ لوگ احتجاجاً اسٹیڈیم سے باہر نکل گئے اور نعرے بازی کرنے لگے۔ جلسے میں شامل فرفرا شریف کے پیرزادہ طلحہ صدیقی جو ممتا بنرجی کے حامی سمجھے جاتے ہیں انہوں نے بھی وظیفے میں پانچ سو روپیوں کے اضافے کو کم بتاتے ہوئے کہا کہ کسی بھی حکومت نے اماموں و مؤذنین کے لیے اب تک کچھ نہیں کیا ہے۔ ممتا سرکار کے وظیفے کی شروعات کی رقم بھلے ہی کم ہے لیکن اس نے ائمہ اور مؤذنین کے بارے میں کم از کم سوچا تو ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ حکومت وظیفے کی رقم میں ضرور اضافہ کرے گی۔ وہیں آل انڈیا امام ایسوسی ایشن کے مولانا شفیق نے کہا کہ ائمہ کو کسی بھی سرکاری مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے بھی امید ظاہر کی کہ ممتا بنرجی مسلمانوں کے دیگر مسائل کو حل کریں گی۔ جماعت اسلامی ہند کے رکن عبدالعزیز نے ممتا بنرجی پر مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کا الزام لگایا۔ وہیں ریاستی وزیر فرہاد حکیم نے وظیفے میں اضافے کے تعلق سے کچھ کہنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے دیگر ریاستوں کے مقابلے میں بنگال میں مسلمانوں کی صورتحال نسبتا بہتر ہے۔ وظیفے میں معمولی اضافے سے ائمہ میں ناراضگی تو ہے لیکن سیاسی ماہرین کے مطابق سرکاری ملازمین کی جانب سے ڈی اے میں اضافہ کے مطالبے کو نظر انداز کرنے والی ممتا حکومت کے لیے وظیفے میں اضافہ کرنا آسان نہیں تھا، کیونکہ یہ اکثریتی طبقے کے ووٹ بینک کو بھی مضبوط کر سکتا ہے۔ ایسے میں مسلمان بھلے ہی اس معاملے پر احتجاج کریں لیکن بی جے پی کو اکثریتی ووٹ بینک پر اثر انداز ہونے کا موقع نہیں ملے گا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 ستمبر تا 09 ستمبر 2023