اترپردیش میں این ایس اے کے تحت درج ایک تہائی مقدمات گائے کے ذبیحہ سے متعلق: رپورٹ
اترپردیش، اپریل 6: دی انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق جنوری 2018 اور دسمبر 2020 کے درمیان اتر پردیش میں حکام کے ذریعے قومی سلامتی ایکٹ کے تحت لگائے گئے 120 الزامات میں سے ایک تہائی کا ایسے لوگوں کے خلاف ہیں جو ذاتی طور پر گائے کے ذبیحہ کے کام سے تعلق رکھتے ہیں۔ رپورٹ میں مزید یہ بھی بتایا گیا ہے کہ این ایس اے کے تحت درج تمام ملزموں کا تعقل ایک اقلیتی برادری سے ہے۔
اخبار کے ذریعہ کی جانے والی پولیس اور عدالتی ریکارڈوں کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ جنوری 2018 اور دسمبر 2020 کے درمیان الہ آباد ہائی کورٹ نے قومی سلامتی ایکٹ کے تحت حراست کو چیلنج کرنے والی 120 ہیبیس کارپس درخواستوں میں فیصلہ سنایا۔
این ایس اے کے تحت نظربندی کے 94 مقدمات میں ہائی کورٹ نے اترپردیش کے 32 اضلاع کے ضلعی مجسٹریٹوں کے احکامات کو منسوخ کرتے ہوئے نظربندوں کو رہا کیا۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق زیادہ سے زیادہ مقدمات 41 افراد کے خلاف گائے کے ذبیحہ سے متعلق تھے، جن میں ایک خاص اقلیتی برادری کے افراد کو ضلعی مجسٹریٹ کے حکم پر ان کے خلاف درج ایف آئی آر کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا تھا۔
ان 41 مقدمات میں سے 30 مقدمات میں ہائی کورٹ نے اتر پردیش حکومت پر سخت تنقید کی اور ملزمان کے خلاف این ایس اے کے حکم کو منسوخ کردیا۔
دی انڈین ایکسپریس کے مطابق باقی 11 واقعات میں جہاں الہ آباد ہائی کورٹ نے گائے کے ذبیحہ کے الزام میں ملزمان کی نظربندی برقرار رکھی ہے، ان میں سے بالآخر 10 کو نچلی عدالت نے یا خود ہائی کورٹ نے ہی ضمانت دے دی۔
معلوم ہو کہ اکتوبر میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اترپردیش کے گائے کے ذبیحے سے متعلق قانون1955 کی دفعات کے ’’کثرت سے غلط استعمال‘‘ کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ اس کا استعمال بے گناہ لوگوں کو پھنسانے کے لیے کیا جارہا ہے۔ جس کے جواب میں آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ ان کی حکومت ’’کسی بھی قیمت پر گائے کی حفاظت کرے گی۔‘‘