عمرخالد : جرمِ بے گناہی کا اسیر

تہاڑ جیل میں قید بیٹے سے ایک بے بس و دل گرفتہ ماں کی ملاقات کی روداد

صبیحہ خانم

پچھلے دو ہفتوں سے عمر کی کوئی ویڈیو کال موصول نہیں ہوئی۔ معلوم ہوا کہ تکنیکی خرابی کی وجہ سے ملاقات ممکن نہیں ہو رہی۔ دل بے چین ہونے لگا کیونکہ یہی آدھی ادھوری ملاقات کا واحد سہارا تھا۔ دل بوجھل تھا، آنکھوں سے آنسو بہتے رہے۔ پھر اچانک خدا کے فضل سے بالمشافہ ملاقات کا خیال دل میں آیا۔
شوہر سے ذکر کیا تو انہوں نے مصروفیت کا عذر کیا لیکن میں نے ہمت نہ ہاری اور اکیلی ہی جیل روانہ ہو گئی۔ عمر کے اس مرحلے میں جیل جانا کوئی آسان کام نہیں ہے مگر جب انسان خدا پر بھروسا کر لے تو مشکل راستے بھی آسان ہو جاتے ہیں۔
آج کئی مہینوں بعد بیٹے سے آمنے سامنے ملنے جا رہی تھی۔ دل میں ایک عجیب سی گھبراہٹ تھی۔ اگرچہ اسے بالمشافہ ملاقات کہا جاتا ہے مگر حقیقت میں یہ بھی عجیب ہی تجربہ ہے—ہمارے درمیان دو شیشے کی دیواریں۔ ایک طرف ہم، دوسری طرف عمر۔ نہ چھو سکتے ہیں نہ صاف دیکھ سکتے ہیں۔ بس دھندلی سی شبیہ دکھائی دیتی ہے اور بات چیت بھی صرف انٹركام کے ذریعے ہوتی ہے۔
جمعہ کے دن صبح نو بجے گھر سے نکلی۔ تہاڑ جیل جامعہ سے خاصی دور ہے اور راستہ بھی مصروف ہوتا ہے۔ تقریباً ایک گھنٹے میں وہاں پہنچ پائی۔ عمر کے لیے چمڑے کی چپل ساتھ لائی تھی مگر سیکیورٹی چیکنگ پر روک لگا دی گئی۔ بڑی منت سماجت کی مگر اجازت نہ ملی، اور چپلیں وہیں چھوڑنی پڑیں۔
اندر عزیزوں سے ملاقات کرنے والوں کی لمبی قطاریں لگی تھیں—عورتیں، مرد، بچے۔ آج ہجوم کچھ زیادہ ہی تھا۔ میں بھی ایک قطار میں لگ گئی۔ میرے پیچھے دو عورتیں اپنے قیدی رشتہ داروں کا ذکر کر رہی تھیں—ایک کا بیٹا زیادتی کے مقدمے میں، دوسری کا دیور بھی اسی الزام میں۔ میں خاموش رہی۔ دل میں سوچا: کیسے بتاؤں کہ میرا بیٹا تو بغیر کسی جرم کے ہی پانچ سال سے جیل میں سڑ رہا ہے؟
ذہن میں عمر کو ملی دو بارہ پیرول کی یاد تازہ ہوئی—بہن اور چچا زاد بھائی کی شادی کے موقع پر سات سات دن کی اجازت۔ وہ خوشی کے لمحے کتنی جلدی بیت گئے۔ انہی خیالات میں کھوئی تھی کہ میری باری آ گئی۔
پھر عمر کے اخراجات جمع کرانے کی ایک اور لمبی قطار! قطاروں میں جتنا وقت گزرا، عمر سے بات چیت کا وقت اس سے کہیں کم تھا۔ اس کے بعد جیل کے اندر داخل ہونے کی قطار لگی۔
پہلے جوتوں کو ایکس رے مشین سے گزارا گیا، پھر جسمانی تلاشی ہوئی۔ پھر جیل نمبر 2 تک پیدل جانا پڑا۔
ملاقات کی جگہ پر ایک خاتون اہلکار نے پرچی دیکھ کر محبت سے کہا: ’’اوہ! آپ عمر کی امّی ہیں؟ اس کے دوستوں کو تو دیکھا ہے، آپ کو پہلی بار دیکھ رہی ہوں۔‘‘ انہوں نے انگوٹھے کا نشان لگوایا اور ویٹنگ روم میں بٹھا دیا۔ ان کے لہجے میں عمر کے لیے عزت جھلک رہی تھی۔
میں نے سوچا—یقیناً یہ عمر کے اچھے اخلاق کا اثر ہے۔ جیل میں جہاں گالیاں عام بات ہیں، وہاں شائستگی سے پیش آنے والا قیدی دل جیت لیتا ہے۔ عمر کو تو غصہ بھی بہت کم آتا ہے۔ اب تو جیل کے اندر سب کو معلوم ہو گیا کہ عمر بے گناہ ہے، صرف سرکاری ظلم کا شکار ہے۔
ویٹنگ ایریا میں پرندوں کی چہچہاہٹ سن کر دل خوش ہو گیا۔ شہروں میں ہم ان فطری نعمتوں سے محروم رہ گئے ہیں۔ یوں محسوس ہوا جیسے جیل کی دیواروں کے اندر اڑنے والی چڑیاں کہہ رہی ہوں: ’’ہم یہاں بھی آزاد ہیں۔‘‘ میں نے سوچا—اس دیوار کے اِس طرف ہم خود کو آزاد سمجھتے ہیں، اور اس طرف عمر جیسے بے شمار لوگ بے بسی کی قید میں ہیں۔
عمر جیسے نوجوان کے لیے، جو جنتر منتر پر انصاف کے نعرے بلند کرتا تھا، جو ملک بھر میں حق کی آواز بلند کرتا پھرتا تھا، یہ قید ایک سخت آزمائش ہے۔ پانچ طویل سال… اگر اسے کتابوں سے شغف نہ ہوتا تو شاید وقت گزارنا ناممکن ہوتا۔ اس نے ان پانچ برسوں میں تین سو سے زائد کتابیں پڑھ ڈالی ہیں۔
اتنے میں لاؤڈ اسپیکر پر عمر خالد کا نام پکارا گیا۔ میں بھاگ کر کھڑکی کے پاس پہنچی۔ عمر جیل کے اندر موجود درخت سے ایک چھوٹا سا پھول توڑ کر میرے لیے لایا تھا۔ وہ پھول میرے لیے کسی قیمتی تحفے سے کم نہ تھا۔
شیشے اور سلاخوں کے پیچھے انٹركام سے بات ہوئی:
’’امّی، آپ نے بہت دیر لگا دی۔ میں تو کافی دیر سے انتظار کر رہا تھا۔‘‘
میں نے کہا: ’’بیٹا، قطاریں بہت لمبی تھیں۔‘‘
اس نے گھر کے ہر فرد کا حال پوچھا—ابو کی طبیعت، بہنوں کی خیریت، بچوں کا حال۔ جیل کے اندر کی زندگی کے قصے سنائے۔ میں ہمیشہ کی طرح اس کی صحت اور خوراک کے بارے میں فکر مند رہی:
’’طبیعت تو ٹھیک ہے؟ کیا پڑھ رہے ہو؟ گرمی زیادہ تو نہیں لگ رہی؟‘‘
اس نے ہر سوال کا جواب دیا اور سب کی خیریت دریافت کی۔ بولا:
’’اخباروں میں ابو کے پروگرام پڑھتا ہوں۔ ان سے کہنا کہ زیادہ سفر نہ کریں، اپنی صحت کا خیال رکھیں۔‘‘

 

***

 پانچ برسوں سے ایک ماں کا دل دن رات سلاخوں کے پیچھے قید اپنے بیٹے کی خیر کی دعا مانگتا رہا۔
عمر خالد جو دہلی فسادات کے الزام میں گرفتار ہوا اور جس پر یو اے پی اے جیسے سخت قانون کا اطلاق کیا گیا، آج بھی تہاڑ جیل میں قید ہے۔یہ تحریر اس ماں کی ہے جس نے ان برسوں کو صبر اور دعا کے ساتھ گزارا ہے۔
اور جب ملاقات کا موقع ملا تو اس نے لکھا:
’’اپنے بیٹے عمر سے مل کر میری روح کو نئی طاقت ملی‘‘
یہ صرف ملاقات کا ذکر نہیں ہے بلکہ ایک ماں کے دل کی وہ آہ ہے جسے نہ عدالت سن پاتی ہے، نہ حکومت دیکھ پاتی ہے۔یہ سطور درد سے لبریز ہیں۔یہ ماں کی وہ گواہی ہے جو وقت کے اندھے نظام کے خلاف تاریخ کا ایک زندہ صفحہ بن جاتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 جولائی تا 27 جولائی 2025