نوح تشدد: انتظامیہ صورت حال کا جائزہ لینے میں ناکام رہی، نائب وزیر اعلیٰ نے دشینت چوٹالہ نے کہا
نئی دہلی، اگست 9: ہریانہ کے نائب وزیر اعلیٰ دشینت چوٹالہ نے منگل کو کہا کہ انتظامیہ نوح کی صورت حال کا جائزہ لینے میں ناکام رہی، جہاں گذشتہ ہفتے فرقہ وارانہ تشدد ہوا تھا۔
31 جولائی کو بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے زیر اہتمام برج منڈل جل ابھشیک یاترا کے دوران ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ جھڑپیں ہوئیں، اور تیزی سے نوح سے آگے پھیل گئیں، جس میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔
گروگرام میں ہندو ہجوم نے ہنگامہ آرائی کی، سیکٹر 57 میں ایک مسجد کو آگ لگا دی، اس کے نائب امام کو قتل کر دیا اور اگلے دن سیکٹر 70 میں مسلمان مہاجر مزدوروں کی دکانوں اور جھونپڑیوں کو آگ لگا دی۔
چوٹالہ نے کہا ’’نوح پولیس کے سپرنٹنڈنٹ 22 جولائی سے چھٹی پر تھے۔ جس کے پاس اضافی چارج تھا وہ اس کا [صورت حال کا] ٹھیک سے اندازہ نہیں لگا سکا اور جن اہلکاروں سے [جلوس کے لیے] اجازت لی گئی تھی، وہ بھی اس کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکے۔‘‘
نائب وزیر اعلیٰ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ منتظمین جلوس میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کا صحیح اندازہ لگانے میں ناکام رہے۔ انھوں نے کہا کہ تقریباً 3200 لوگوں کے جلوس کی اجازت دی گئی تھی اور اسی کے مطابق پولیس فورس کو تعینات کیا گیا تھا۔
چوٹالہ نے کہا کہ اگر منتظمین زیادہ نمبر دیتے تو مزید فورس تعینات کی جا سکتی تھی۔ ’’یہ منتظمین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی تعداد کے بارے میں درست رہیں۔‘‘
تاہم نائب وزیر اعلیٰ نے ان الزامات کی بھی تردید کی ہے کہ ہریانہ میں تشدد کے بعد ’’یک طرفہ‘‘ کارروائی کی گئی ہے۔
چوٹالہ نے کہا کہ ملزم کی ذات، مذہب یا برادری سے قطع نظر کارروائی کی جا رہی ہے۔ ’’صرف ایک مخصوص کمیونٹی کے لوگ ہی نشانہ نہیں بنتے۔‘‘
معلوم ہو کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی والی ریاست میں شہری حکام مبینہ طور پر غیر قانونی مکانات اور دکانوں کو مسمار کر رہے ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق مسلمان مہاجر مزدوروں سے تھا۔ گرائی گئی کئی عمارتوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ انھیں شہری حکام کی جانب سے کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا تھا۔
پیر کو پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے انہدام کی مہم پر روک لگا دی تھی اور پوچھا تھا کہ کیا تشدد سے متاثرہ اضلاع میں یہ کارروائی ’’نسلی صفائی کی مشق‘‘ ہے۔