نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے جرائم اور ہماری ذمہ داریاں
جرائم کی روک تھام کے لیے والدین کی خصوصی توجہ ا ور حکومتی پیمانے پر منظم اصلاحات ضروری
محمد انور حسین،اودگیر
ایک لڑکے نے کالج کی ایک لڑکی کو محبت کا پیغام دیا،لڑکی کے انکار پر لڑکے نے بھرے بازار میں لڑکی کا گلا کاٹ دیا جس سے اس کی موت ہوگئی۔بعد میں لڑکے نے خود جھیل میں کود کر خود کشی کرلی۔یہ دل دوز واقعہ مہاراشٹر کے ضلع پال گھر میں پیش آیا۔ جھارکھنڈ میں چار نوجوان نے جن کی عمریں 15 سے 17 سال کے درمیان ہیں، ایک 19 سالہ لڑکی کی عصمت دری کرنے کے بعد اس کا ویڈیو بناکر اسے بلیک میل کیا۔ اسی طرح پچھلے دنوں کولکاتا کی ایک ریسیڈنٹ ڈاکٹر کے ساتھ عصمت دری اور قتل کا گھناؤنا واقعہ پیش آیا۔
یہ اور اس طرح کی خبریں آپ آئے دن اخبارات اور سوشل میڈیا پر پڑھتے، سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں جو نوجوانوں میں بڑھتے جرائم کی آئینہ دار ہیں۔اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو ہر سال تقریباً 30 افراد محبت کی ناکامی کی وجہ سے ایک دوسرے کا قتل کر رہے ہیں۔فکر مندی کی بات یہ ہے کہ عصمت دری کے واقعات کا گراف دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔جبکہ اغوا کے واقعات میں 5.1 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جیسے ملک میں قانون کا نہیں بلکہ جنگل راج ہو۔اتر پردیش،کیرالا،مہاراشٹر،دلی اور بہار میں جرائم کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔
نیشنل کرائم رپورٹ کے مطابق 16 تا 18 سال کی عمر کے نوجوانوں میں جرائم کا تناسب بڑھتا جارہا ہے جس میں چوری،لوٹ مار، توڑ پھوڑ،نشہ کی لت، عصمت دری اورجنسی بے راہ روی وغیرہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ محبت میں ناکامی کے بعد نوجوانوں کا رویہ انہی مجرم بنا رہا ہے۔
ملک میں نوجوانوں میں جرائم کی صورتحال نہایت تشویش ناک ہے اور خصوصی طور پر ملت اسلامیہ کے نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے جرائم کی تعداد اور بھی تشویش کا باعث ہے۔
ملک آزادی کی 77 سالگرہیں منا چکا ہے اور ملکی ایجنسیاں جو اعداد و شمار پیش کر رہی ہیں ان کے مطابق ملک میں روزانہ اوسطاً 87 عصمت دری کے واقعات ہوتے ہیں۔صرف دلی میں روزانہ کا اوسط 5 یا 6 واقعات کا ہے ۔NCRB کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق عصمت دری کے واقعات میں پچھلے سال کے مقابلے میں 13.2 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ان میں زیادہ تر کالج جانے والے لڑکیاں اور لڑکے شامل ہیں۔اس کے علاوہ نشہ کی عادت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔خاص طور پر بڑے شہروں میں کالجوں اور اسکولوں میں پڑھنے والے طلباء اس کا شکار ہو رہے ہیں ۔
اس طرح کی سماجی صورتحال کے لیے کون سے عوامل ذمہ دار ہیں اور اس کے حل کے لیے کیا کوششیں کی جا سکتی ہیں اس پر غور و فکر کرنا ہم سب کے لیے لازمی اور ضروری ہے۔
سماجی صورتحال
ملک میں بڑھتا ہوا معاشی عدم مساوات، غربت،تعلیم کی عدم رسائی، بیروزگاری جیسے عوامل ہیں جو نوجوانوں کو جرم کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنی معاشی ضروریات کو پورا کر سکیں ۔
خاندانی نظام
خاندانی نظام کا بکھراؤ،خاندان سے بزرگوں کے تعلق میں کمی،نیوکلیئر فیملی میں ماں باپ کا معاشی جدوجہد میں پریشان رہنا،خاندان کی تربیت میں کمی اور بعض اوقات ماں باپ کا ہی جرائم کی طرف رجحان نوجوانوں کو مجرم بنا رہا ہے۔
مثالی شخصیات یا رول ماڈلس کے شعور کا فقدان
نوجوان رول ماڈلس تلاش کرتے ہیں۔نوجوانوں میں عموماً رول ماڈلس کے انتخاب کا شعور نہیں ہوتا۔غلط رول ماڈلس کے انتخاب کے نتیجہ میں جرائم بڑھتے جا رہے ہیں۔ملت کے نوجوانوں کے رول ماڈلس نبی کریم حضرت محمد ﷺ کی ذات گرامی اور صحابہؓ ہونے چاہئیں۔موجودہ دور میں علماء و مشائخین،مختلف تحریکوں اور جماعتوں میں سرگرم عمل قائدین،مصنفین اور دانشور ہونے چاہئیں۔جبکہ صورتحال یکسر مختلف ہے ۔
ذہنی صحت میں کمزوری
موجودہ دور میں امیر و غریب دونوں خاندانوں کے نوجوان تناؤ کا شکار ہیں۔امیروں کے بچے کریئر کے تناؤ میں ہیں اور غریبوں کے بچے بنیادی سہولیات کے لیے۔اس طرح کا تناؤ انہیں ڈپریشن کی طرف لے جاتا ہے۔ڈپریشن نشہ کی طرف اور نشہ جرائم کی طرف لے جاتا ہے، جبکہ اسلام محنت و مشقت کی تعلیم دیتا ہے۔ کرئیر بنانے اور پیسہ کمانے کی ترغیب بھی دیتا ہے لیکن ساتھ ہی اللہ کی مرضی پر راضی ہونا،توکل،صبر اور قناعت جیسی قدروں کی تعلیم بھی دیتا ہے جو نوجوانوں کو ذہنی تناؤ سے دور رکھتی ہیں۔
حد سے زیادہ ٹیکنالوجی کا استعمال
نوجوانوں میں ٹیکنالوجی کا استعمال لت کی حد کو پہنچ چکا ہے ۔موبائیل،انٹرنیٹ،ٹی وی،فلمیں اور ویڈیو گیمس نوجوانوں میں منفی ذہنیت کو فروغ دے رہے ہیں۔ان ذرائع سے نوجوان جرائم کی دنیا سے بہت جلد متعارف ہوجاتے ہیں۔اپنے تناؤ اور بے روزگاری کا حل جرائم کی دنیا میں تلاش کرتے ہیں۔ جبکہ اسلام ٹیکنالوجی کا استعمال اپنے اعلی مقاصد اور نصب العین کے حصول کے لیے کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
جرائم پیشہ نوجوانوں کی باز آباد کاری کا مسئلہ
ہمارے ملک میں جرائم میں ملوث نوجوانوں کی باز آباد کاری کے مراکز کا معیار بہت گرا ہوا ہے۔ حکومت کی لاپروائی کی وجہ سے وہاں نوجوان سدھرنے کے بجائے مزید بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ان کو ذہنی اور جذباتی سہارا نہ ملنے کی وجہ سے وہ مزید جرائم کرنے لگتےہیں۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ملت میں بھی ایسی مخصوص تربیت گاہیں موجود نہیں ہیں۔مختلف جماعتیں جو اس میدان میں کام کر رہی ہیں ان کی کوششیں بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو رہی ہیں۔ نوجوانوں کی یہ صورتحال چاہے وہ ملک کے ہوں یا ملت کے، کسی درجہ میں بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔
سب سے اولین ذمہ داری ماں باپ کی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت پر اپنی پوری توانائی صرف کر دیں، اسے ایک اہم اور انتہائی ضروری کام سمجھیں۔ اس کے بعد سماج،اسکول،ملت میں کام کرنے والی مختلف جماعتوں اور تحریکوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نوجوانوں میں اخلاق کے فروغ کی سنجیدہ کو ششیں کریں۔ان کی کوششوں کا دائرہ صرف ملت کے نوجوان نہ ہوں بلکہ پورے ملک کے نوجوان ہوں تاکہ پورے ملک کا ماحول جرائم سے پاک ہو۔کیونکہ ایک پاک اور صالح معاشرہ میں ہی اعلیٰ اقدار فروغ پا سکتے ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت ان نوجوانوں کو صرف اپنے سیاسی فائدہ کے لیے استعمال کر رہی ہے اور ان کے مستقبل اور صالح معاشرہ کے قیام کے سلسلے میں سنجیدہ نہیں ہے۔اگر صورتحال پر قابو نہیں پایا گیا تو یہ نوجوان نسل جو ملک کا مستقبل ہے ایک دن اس ملک کو تباہی و بربادی کے گڑھے میں اتار دے گی۔
***
سب سے اولین ذمہ داری ماں باپ کی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت پر اپنی پوری توانائی صرف کر دیں، اسے ایک اہم اور انتہائی ضروری کام سمجھیں۔ اس کے بعد سماج،اسکول،ملت میں کام کرنے والی مختلف جماعتوں اور تحریکوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نوجوانوں میں اخلاق کے فروغ کی سنجیدہ کو ششیں کریں۔ان کی کوششوں کا دائرہ صرف ملت کے نوجوان نہ ہوں بلکہ پورے ملک کے نوجوان ہوں تاکہ پورے ملک کا ماحول جرائم سے پاک ہو۔کیونکہ ایک پاک اور صالح معاشرہ میں ہی اعلیٰ اقدار فروغ پا سکتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 اگست تا 31 اگست 2024