نوجوانوں میں بڑھتی بےروزگاری کی شرح اور حالیہ بجٹ، ایک جائزہ
2047تک ترقی یافتہ ملک بننے کے لئے روزگار پرخصوصی توجہ ضروری
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
بھارت کے 90 فیصدملازم غیر منظم شعبہ سے وابستہ ۔حکومت کے لیے لمحۂ فکریہ
2024کے عام بجٹ میں خاص فوکس نوکریوں پر دیا گیا ہے۔ گزشتہ دو سالوں سے ہمارے ملک کی جی ڈی پی کی حالت قدرے بہتر رہی ہے۔ حالانکہ ملک میں نا برابری حد سے زیادہ ہے۔ نوکریاں نہیں ہیں اور بے روزگاری آسمان سے باتیں کررہی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ جی ڈی پی میں اضافے کا بڑا حصہ امیروں کے ہاتھوں میں جارہا ہے۔ آرٹیفیشل انٹلیجنس اور ڈیجیٹل ٹکنالوجی کی وجہ سے دنیا بھر میں معمول کے کاموں میں کمی آئی ہے۔ خصوصاً ترقی یافتہ معیشت میں جہاں تنخواہ بڑی اچھی ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ یہ جزوی طور سے عالمی مسئلہ ہے مگر ہمارے جیسے متوسط آمدنی والے ملک میں بھارت کو اپنے مظاہرہ میں بہتر ہونا چاہیے کیونکہ یہاں تنخواہ زیادہ ہیں۔وہ اس لیے کہ گزشتہ ہفتہ آر بی آئی کے ایم ایس ایل ای ڈیٹا سے پتہ چلا کہ 2023-24میں شرح روزگار میں چھ فیصد کا اضافہ دکھایا گیا ہے اور شرح بے روزگاری ملک میں سات فیصد کم ہوگئی۔ جو بیس ماہ میں سب سے کم ہے۔ ایسے حالات کے تجزیہ سے بات سامنے آئی ہے کہ روزگار کا ہونا اور نوکری کا ہونا دونوں یکساں نہیں ہے وہ آدمی جو سڑک کنارے چھوٹا موٹا سامان فروخت کرکے معمولی روزی کماتا ہے اس کے پاس نوکری نہیں ہے مگر وہ روزگار سے منسلک ہے۔ ایسے تمام ثبوتوں سے واضح ہوتا ہے کہ اس طرح کا غیر مستقل روزگار ملک میں بڑھ گیا ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ مینوفیکچرنگ کے شعبے کی وسعت اور زیادہ کام کے مواقع فراہم کرنے میں حوصلہ افزائی کی جائے جس کے لیے ہمارے ملک میں لیبر لاز میں ترمیم کی فوری ضرورت ہے۔ مینوفیکچرنگ شعبوں کی حوصلہ افزائی کے لیے مختلف طرح کی مائیکرو منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ کسی وجہ سے فیزیکل ڈیفیسٹ کے بڑھنے کی زیادہ فکر ہے تو امراء کے ٹیکس میں اضافے سے کترانا نہیں چاہیے۔ گزشتہ ستمبر 2019اور 2020میں 1.8لاکھ کروڑ روپے کا خسارہ ہوا، اگر اس کٹوتی کا نصف ہی بحال کردیا گیا تو اس شرح کو 26فیصد کردیے جانے پر چھوٹی مینوفیکچرنگ اکائیوں کی وسعت سے اور مزید لوگوں کو روزگار کے لیے حوصلہ افزائی کے لیے زیادہ سرمایہ کاری حاصل کرنے میں معاون ہوگا جس کا بڑے فارمس پر اثر بہت کم ہوگا۔ عالمی بینک نے مشترکہ خوشحالی (Shared Prosperity) کے اسٹینڈرڈ کی وکالت کی ہے جسے گاندھی جی نے پیش کیا تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ قوموں کے مقابلے کے وقت ہمیں پورے ملک کی جی ڈی پی کو نہیں بلکہ سماج کے سب سے غریب چالیس فیصد حصہ کو رکھنا چاہیے تاکہ ترقی کا فائدہ نچلی سطح تک پہنچے۔
معاشی سروے میں خصوصیت سے روزگار اور ہنر مندی (Skill) کے حالات پر خصوصی طور سے غور و خوض ہوا۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے باہم مربوط ہیں۔ مرکزی بجٹ میں بھی روزگار کے مواقع بڑھانے کو اولیت دی گئی ہے ۔ اس سے متعلق مختلف منصوبوں اور ترغیبات کا اعلان کیا گیا ہے لیکن عبوری بجٹ میں اس سے متعلق جس تقسیم کا اعلان تھا وہی تقسیم اس بجٹ میں بھی ہے۔ کوئی الگ سے کسی طرح کی اضافی رقم کا اعلان نہیں ہوا ہے۔ گزشتہ سال کے بجٹ میں انفراسٹرکچر کو درست کرتے ہوئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی بات کی گئی تھی۔ اس بار حکومت نے ان پہلووں کے ذریعے پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ روزگار میں اضافہ اس کی اہم ترجیحات میں ہے۔ معاشی سروے میں کہا گیا کہ روزگار کے زیادہ مواقع پیدا کرنے کے لیے نجی شعبوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے وزیر مالیات نے کمپنیوں کو مختلف طرح کی مالی و دیگر راحتوں کا اعلان کیا ہے۔ اسکل ڈیولپمنٹ اور ٹریننگ کے لیے ملک کی پانچ سو بڑی کمپنیوں میں سالانہ بیس لاکھ نوجوانوں کو انٹرنشپ فراہم کرنے کا منصوبہ ہے جس میں کل ملا کر ایک کروڑ نوجوان ٹرینگ حاصل کرسکیں گے۔ تربیت حاصل کرنے والوں کو حکومت نے وظیفہ دے گی جبکہ ٹریننگ کا خرچ کمپنیاں اٹھائیں گی۔ حالانکہ معیشت میں بہتری کے ساتھ ساتھ کچھ مواقع ضرور پیدا ہورہے ہیں مگر لیبر فورس میں ہر سال بڑی تعداد میں نوجوانوں کی آمد کی وجہ سے بےروزگاری بالخصوص تعلیم یافتہ بیروزگاری ایک تشویشناک مسئلہ بن گئی ہے۔ اس کی ایک وجہ ہنر مند لوگوں کی بڑی تعداد میں شدید ضرورت ہے مگر ملک میں ایسے لوگوں کا فقدان ہے۔ 2015میں وزیراعظم مودی نے اسکل انڈیا مشن کی شروعات کی تھی۔ وقت کے رہتے ہوئے اس مشن کی اچھائیوں اور کمیوں کا تجزیہ بھی کیا جائے تاکہ اس کی بنیاد پر مستقبل کا منصوبہ بنے۔ گزشتہ اسکل انڈیا مشن کے علی الرغم اضافہ ممکن ہے۔ حکومت کے لیے کمپنیوں کو تیار کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ یہ ٹیڑھی کھیر ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ نجی سیکٹر کو دوہری ذمہ داری سرمایہ کاری کے ساتھ روزگار کی فراہمی کی اٹھانی ہوگی۔ اس سے قبل حکومت نے نجی شعبوں کو کئی اقسام کے ٹیکسوں میں ریلیف دی تاکہ وہ روزگار پیدا کرنےکے لیے سرمایہ کاری کریں، جسے کارپوریٹس نے نظر انداز کیا۔ محض ٹیکس پر رعایت لیتے رہے اور تجوریاں بھرتے رہے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ روزگار کے دو ذرائع ہیں، ایک ملازمت اوردوسرا خود روزگاری (Self-Employment) خود روزگاری کا فائدہ یہ ہے کہ عوام روزگار خود پیدا کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں بجٹ میں دو بڑے اعلانات ہیں۔ ایک بغیر گارنٹی والا قرض۔ جس کی حد دس لاکھ روپے سے بڑھا کر بیس لاکھ روپے کردی گئی ہے۔ دوسرا منصوبہ روزگار سے متعلق منظم شعبے میں اس کے لیے تین منصوبے شروع کیے گئے ہیں: پہلا اپرنٹس شپ منصوبہ ہے جس کے تحت ایک اپرنٹس کو پانچ ہزار روپے بطور وظیفہ دیا جائے گا۔ اس منصوبہ کی سرمایہ کاری کے لیے کارپوریٹ سی ایس آر فنڈ کا استعمال کرسکتا ہے۔ یہ بہت اہم منصوبہ ہے، اس سے ایک طرف بے روزگاری کا مسئلہ حل ہوگا تو دوسری طرف کاروباریوں کے لیے بہتر ملازمتیں بھی دستیاب ہوں گی۔ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوتا ہے تو اسے آگے بھی منتقل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد چھوٹے صنعت کاروں کو شامل کیا جائے گا۔ فی الحال حکومت نے بڑے صنعت کاروں کو اس میں شامل کیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سی ایس آر کے ذریعہ جو پیسہ آتا ہے وہ اس کام کے لیے بحسن و خوبی استعمال ہوپائے گا۔ اس کے علاوہ کمپنیوں میں روزگار دلانے کے نقطہ نظر سے پہلی ملازمت کی تنخواہ پندرہ ہزار روپے حکومت نے دینے کا وعدہ کیا ہے جو منظم سیکٹر میں ہوگا۔ اس کے علاوہ ملازمت کو EPFO میں پرویڈنٹ فنڈ جمع کرنے میں تعاون بھی کیا جائے گا۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ انٹرن شپ کے بعد مستقل روزگار کی دستیابی کے لیے حکومت کے پاس کوئی واضح لائحہ عمل نہیں ہے، اس لیے اس ٹریننگ سے مستقبل میں بےروزگاری کا خاتمہ کیسے ہوگا؟ اس پر موجودہ بجٹ میں کوئی وضاحت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کیا دیہاتوں اور قصبوں کا نوجوان بڑے شہروں کی کمپنیوں میں انٹرنشپ کے لیے اپنی جگہ بآسانی بناپائے گا؟ اس لیے کہ ان کمپنیوں تک اس کی رسائی دشوار ہوگی۔
پچھلے دنوں پیش کیا گیا بجٹ محض چھ ماہ کے لیے ہی ہے۔ پھر بھی اس بجٹ نے واضح کردیا ہے کہ حکومت کے لیے روزگار کی فراہمی کے لیے اسکل ڈیولپمنٹ، ٹریننگ، نوجوانوں کے لیے اپرنٹس شپ کو ترجیحات میں رکھا ہے۔ چھوٹے کاروبار کی ترقی کے لیے آسان قرض مہیا کرنے اور برآمدات بازار تک رسائی کو سہل کرنے کا منصوبہ ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے حکومت حمل ونقل، ہوائی اڈے، ریل روڈ کے انفراسٹرکچر کے ساتھ شعبہ صحت کو اولیت دے رہی تھی۔ ملک میں روزگار کی حالت خستہ تر ہوگئی۔ دیہی علاقوں میں آمدنی سکڑ گئی ہے۔ اس کے باوجود منریگا کے اخراجات کے لیے بجٹ میں بہت کم رقم مختص کی گئی ہے۔ روزگار پیدا کرنے والے غیر منظم شعبہ نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور کووڈ وبا سے زیر بار ہیں۔ ایسے حالات میں صارف اخراجات میں اضافہ جی ڈی پی سے بہت کم ہے جو تشویشناک ہے۔ محض پیداوار میں ترغیب دینے کے بجائے حکومت نے اپنی توجہ روزگار اور اس کی ترغیب پر مرتکز کیا ہے۔ ملک کو ہمہ جہتی ترقی کے لیے انسانی اثاثہ (Human Capital)میں زبردست سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ یہ سرمایہ کاری کم از کم جی ڈی پی کا چھ فیصد ہونا چاہیے جو موجودہ اخراجات سے دوگنا ہے۔ روزگار کی حالت ہمارے ملک میں بہت ابتر ہے۔ ہمارے پاس روزگار کا ڈیٹا نہیں ہے۔ 2017میں نیتی آیوگ کے وائس چیرمین اروند پنگھڑیا نے وزیراعظم کو ڈیٹا سونپا تھا جسے ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا۔ 2018میں وزیراعظم نے بے روزگاری کو لے کر ایک ٹکنیکل کمیٹی بنائی تھی جو کہیں گم ہوگئی ہے۔ پروفیسر ارون کمار نے کہا کہ روزگار کو لے کر ٹھوس ڈیٹا کہیں بھی نہیں ہے۔ تو ایسے میں بے روزگاری کے خاتمہ کو لے کر بہتر منصوبہ سازی ممکن ہی نہیں۔
ہماری اکنامی بے سمتی کا شکار ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے India Employment paper کی رپورٹ کے مطابق ملک میں 83فیصد نوجوان بیروزگار ہیں ۔ 2000 میں نوجوانوں کی شرح بیروزگاری 35.2 فیصد تھی جو 2022میں 65.2فیصد ہوگئی اور 2024میں یہ بڑھ کر 83 فیصد ہوگئی۔ یہ اچانک نہیں ہوا کیونکہ ہماری معیشت منجمد ہوکر رہ گئی ہے۔ بے روزگاری پر مختلف عوامل کے اثرات ہوتے ہیں۔ اس میں تعلیم اول ہے جس کا انفراسٹرکچر انتہائی بدحال ہے۔ اسی کے ذریعے اسکل ڈیولپمنٹ اور پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ نتیجتاً جی ڈی پی میں بہتری آتی ہے۔ آج 90فیصد لوگ غیر منظم سیکٹر سے جڑے ہوئے ہیں جس کی حالت اچھی نہیں ہے۔ صرف دس فیصد منظم سیکٹرس میں ہیں۔ CMIESکے ڈیٹا کے مطاابق 79فیصد یعنی 111کروڑ آبادی کے پاس ڈھنگ کا کام نہیں ہے۔ مگر ہماری وزیر مالیات سالانہ سات تا آٹھ فیصد لوگوں کے لیے روزگار کی باتیں کرتی ہیں۔ اس سے کیا ہم 2047تک ترقی یافتہ ملک بن پائیں گے؟
***
***
بے روزگاری پر مختلف عوامل کے اثرات ہوتے ہیں۔ ان میں تعلیم اول ہے جس کا انفراسٹرکچر انتہائی بدحال ہے۔ اسی کے ذریعے اسکل ڈیولپمنٹ اور پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ نتیجتاً جی ڈی پی میں بہتری آتی ہے۔ آج 90فیصد لوگ غیر منظم سیکٹر سے جڑے ہوئے ہیں جس کی حالت اچھی نہیں ہے۔ صرف دس فیصد منظم سیکٹرس میں ہیں۔ CMIESکے ڈیٹا کے مطاابق 79فیصد یعنی 111کروڑ آبادی کے پاس ڈھنگ کا کام نہیں ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 اگست تا 10 اگست 2024