پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
8نومبر 2022کو نوٹ بندی کے چھ سال مکمل ہوگئے ہیں کیونکہ پی ایم مودی نے 2016کی رات آٹھ بجے اعلان کیا تھا کہ رات بارہ بجے سے ایک ہزار اور پانچ سو روپے کے نوٹ اب بازار کے قابل نہیں رہیں گے بلکہ وہ محض کاغذ کا ٹکرا بن جائیں گے۔ تاریخ کے اس بدترین فیصلہ کے بعد دو ہزار اور پانچ سو روپے کے نئے نوٹ جاری کیے گئے۔ انہوں نے بڑے طمطراق سے کہا تھا کہ ہمیں اس نوٹ بندی سے پانچ مقاصد حاصل ہوں گے۔ ملک سے سیاہ دھن (بلیک منی) اور نقلی نوٹوں کا صفایا ہوجائے گا۔ اس کے بعد ملک کو کیش لیس بنانا ہے۔ اس سے دہشت گردی کے خاتمہ کے ساتھ نکسلیوں کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ ساتھ ہی اس کا مقصد بڑے نوٹوں کے چلن کو محدود کرنا ہے تاکہ بلیک منی جمع نہ ہوسکے۔ مذکورہ پانچوں مقاصد کے حصول میں حکومت کو کتنی کامیابی ملی عوام جاننا چاہتے ہیں اور حزب اختلاف میں کانگریس نے حکومت سے قرطاس ابیض (White Paper) کی اشاعت کا مطالبہ بھی کیا ہے کیونکہ نوٹ بندی سے معیشت کی بڑی تباہی کے بعد حکومت کی معنی خیز خاموشی لوگوں کے اندر طرح طرح کے شبہات کو جنم دے رہی ہے ۔ نوٹ بندی کا سب سے بڑا اثر یہ ہوا کہ ایک ہی جھٹکے میں عام لوگوں کی بچت پونجی کالعدم ہوگئی اور غیر منظم شعبے جہاں سے اکثریت کو روزگار ملتا ہے وہ بالکل ہی بیٹھ گیا۔ اس طرح روزگار کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں لوگ خط افلاس کے نیچے چلے گئے پھر 2015میں منصوبہ بندی کے بغیر جی ایس ٹی کا نفاذ عمل میں آیا جس کی وجہ چھوٹے کاروباری بالکل تباہ و برباد ہوگئے۔ غیر منظم شعبہ سے وابستہ چند کاروباری ہمت کرکے منظم شعبہ میں شامل ہوگئے کیوں کہ چھوٹے کاروباریوں کا زیادہ تر روز مرہ کا لین دین نقدی میں ہوا کرتا تھا۔ حالات سفر میں بھی تقریباً ایک چوتھائی کمپنیوں نے نقدی کا استعمال کیا۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا کہ زیورات جیسے اثاثوں کی خریداری میں لوگوں نے نقدی کو ہی کام میں لگایا۔
واضح رہے کہ نوٹ بندی سے پہلے 4نومبر 2016کو عوام الناس کے پاس موجود نقدی 17.11 لاکھ کروڑ روپے تھی۔ مگر 21اکتوبر 2022کو یہ کیش ہولڈنگ بڑے اضافہ کے ساتھ 30.9لاکھ کروڑ روپے ہوگئی۔ اس طرح کیش ہولڈنگ میں 75فیصد کا بھاری اضافہ ہوا۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ڈیجیٹل لین دین میں اضافہ کے باوجود 342اضلاع کے ایک حالیہ سروے کے مطابق 76فیصد لوگ کرانہ، ریسٹورنٹ کا بل اور فوڈ ڈیلیوری کی ادائیگی نقد کرتے ہوئے پائے گئے۔ اس طرح کیش لیس لین دین کے بجائے کیش ہولڈنگ میں ڈیڑھ گنا اضافہ ہوا۔ چھ سال بعد بھی ڈیجیٹل اکانومی میں کیش کی دھنک برقرار ہے۔
دوسری طرف بلیک منی کی برآمد، نہیں کے برابر ہوئی ہے۔ فروری 2019 میں اس وقت کے وزیر مالیات پیوش گوئل نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ نوٹ بندی و دیگر ذرائع سے سیاہ دھن کی بازیابی 1.3لاکھ کروڑ روپے تک ہوئی ہے۔ آر بی آئی کے سابق گورنر پروفیسر رگھو رام راجن نے اپنی کتاب ’’آئی ڈو وہاٹ آئی ڈو‘‘ میں وضاحت کرتے ہیں کہ نوٹ بندی ملک کے لیے کسی طرح مفید نہیں ہے۔ اس لیے اس کی حمایت کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ جہاں تک نوٹ بندی کے مقاصد کے حصول کا معاملہ ہے اس میں حکومت کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ آر بی آئی کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 99 فیصد سے زائد رقم جو غیر قانونی ہو گئی تھی وہ بینکنگ سسٹم میں واپس آگئی ہے۔ اس طرح 15.40لاکھ کروڑ روپے کی بیکار نوٹوں میں سے 15.30لاکھ کروڑ روپے کے نوٹ واپس آگئے۔ حکومت کو توقع تھی کہ بینکنگ سسٹم کے باہر تقریباً 3تا4لاکھ روپے کا کالادھن ہے۔ حکومت نے یہ بھی دعویٰ کا تھا کہ بلیک منی کو ختم کرنے کے لیے بڑے نوٹوں کے چلن کو محدود کرنا ہوگا۔ مگر حکومت ہزار کے نوٹوں کی جگہ دو ہزار کے نوٹوں کو بازار میں لے آئی۔ آر بی آئی نے 2016سے اب تک پانچ سو اور دو ہزار کے کل 6849کروڑ کرنسی نوٹوں کی چھپائی کی جس میں 1680کروڑ سے زائد کرنسی نوٹ سرکولیشن سے غائب ہیں۔ ان غائب شدہ نوٹوں کی قیمت 9.21لاکھ کروڑ روپے ہوتی ہے حالانکہ 2017-18میں دو ہزار کے نوٹوں کا چلن سب سے زیادہ رہا ہے مگر اب وہ نوٹ بازار میں نہیں ہیں۔ ماہرین مانتے ہیں کہ بلیک منی جمع کرنے میں سب سے زیادہ استعمال پانچ سو اور دو ہزار کے نوٹوں کا ہوتا ہے کیونکہ اس طرح بلیک منی کو بڑے ڈینومینیشن کے نوٹوں میں محفوظ رکھنا آسان ہوتا ہے۔
وزیراعظم نے عاجلانہ فیصلہ کرتے وقت یہ بھی کہا تھا کہ اس سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ مگر شمال مشرق ریاستوں میں دہشت گردی میں ڈیڑھ گنا اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری رپورٹس کے مطابق دہشت گردانہ کارروائیوں میں کسی طرح کی کمی ہوئی اور نہ ہی ٹیرر فنڈنگ میں روک لگی جب کہ معیشت مزید غیر مستحکم ہوگئی۔ نوٹ بندی کے بعد ملکی اور غیر ملکی ماہرین اقتصادیات نے اسے غیر دانشمندانہ اور عاجلانہ فیصلہ قرار دیا۔ اس فیصلہ کے بعد شہریوں کی بڑی تعداد اپنی محدود رقم نکالنے کے لیے قطاروں میں لگ گئی اور اس افراتفری کے عالم میں کم از کم ڈیڑھ سو لوگوں کی جانیں گئیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس سال نومبر میں طے شدہ تقریباً پندرہ لاکھ شادیوں کو منسوخ کرنا پڑا۔ اور جو لوگ دواخانوں میں زیر علاج تھے وہ علاج کرائے بغیر رہ گئے۔ اس طرح مطلق العنانیت کی سوچ کے ساتھ لیا گیا یہ فیصلہ انتہائی غیر دانشمندانہ اور غلط ثابت ہوا جسے وزیراعظم نے بھارتی عوام پر تھوپا۔
آج ہماری معیشت پٹری سے اتر کر بے راہ روی کا شکار ہے۔ ملکی معیشت میں بے روزگاری آسمان پر ہے اور مہنگائی نت نئے ریکارڈس قائم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر گھٹ کر 83روپے فی ڈالر کے پار چلی گئی۔ تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ بیرونی زر مبادلہ کا ذخیرہ بڑی تیزی سے کم ہورہا ہے۔ کرنٹ اکاونٹ خسارہ میں برابر اضافہ ہورہاہے یعنی درآمدات بڑھ رہی ہیں اور برآمدات کم ہورہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ موجودہ معاشی حالات محض نوٹ بندی کا نتیجہ نہیں ہیں۔ عجلت میں نافذ کیے گئے جی ایس ٹی سے بڑا نقصان ہوا ہے اور جو رہی سہی کسر تھی اسے کورونا وبا کے دوران سختی سے جلدبازی میں نافذ کردہ لاک ڈاون نے پورا کردیا۔ مگرافسوس کہ مودی جی نے اپنی انا کی تسکین کے لیے بھارتی معیشت کو بھنور میں ڈال دیا۔ مگر مودی پرست تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ نوٹ بندی کا کوئی خاص منفی اثر بھارتی معیشت پر نہیں پڑا ہے کیونکہ جی ڈی پی میں مالی سال 2017 میں 8.3فیصد کے حساب سے بہتری ہوئی ہے۔ نوٹ بندی کا اعلان مالی سال 2017کی تیسری سہ ماہ کے وسط میں ہوا ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ حقیقی جی ڈی پی چوتھی سہ ماہی میں گزشتہ سال کے 9.1فیصد سے کم ہوکر 6.3فیصد ہوگئی اور مالی سال 2018 میں جی ڈی پی تیزی سے گر کر 8.3فیصد سے 6.8فیصد پر آگئی۔ اس طرح یا بعد نوٹ بندی ملکی معیشت کو دو لاکھ کروڑ روپے کا خسارہ جھیلنا پڑا۔ یہ بڑی بدیانتی ہوگی جو یہ کہے کہ نوٹ بندی سے ملک کا کسی طرح کا نقصان نہیں ہوا۔ نوٹ بندی کے پانچ دنوں بعد مودی جی نے بڑے جوش میں کہا تھا کہ مجھے پچاس دنوں کا وقت دیں ہم سبھی کالے دھن کو واپس لائیں گے اگر ہم ایسا نہ کرسکیں تو لوگ جو چاہیں ہمیں سزا دیں۔ ہمیں منظور ہوگا۔ مگر آج چھ سالوں بعد بھی کالا دھن واپس نہیں آیا اور حققیقتاً نوٹ بندی کا فیصلہ بھارتی معیشت کی تاریخ کا سیاہ باب بن کر رہ گیا۔
***
***
نوٹ بندی کے بعد شہریوں کی بڑی تعداد اپنی محدود رقم نکالنے کے لیے قطاروں میں لگ گئی اور اس افراتفری کے عالم میں کم از کم ڈیڑھ سو لوگوں کی جانیں گئیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً پندرہ لاکھ شادیوں کو منسوخ کرنا پڑا۔ اور جو لوگ دواخانوں میں زیر علاج تھے وہ علاج کرائے بغیر رہ گئے۔ اس طرح مطلق العنانیت کی سوچ کے ساتھ لیا گیا یہ فیصلہ انتہائی غیر دانشمندانہ اور غلط ثابت ہوا جسے وزیراعظم نے بھارتی عوام پر تھوپا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 نومبر تا 03 نومبر 2022