نوح کا فساد اچانک نہیں بلکہ منصوبہ بند تھا

مسلمانوں کی معیشت تباہ کی گئی۔ اے پی سی آر کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ

نئی دلی: (دعوت نیوز ڈیسک)

گھروں اور دکانوں پر فسادیوں کے حملے کے بعد انتظامیہ کی بلڈوزر کارروائی
جلوسوں کی آڑ میں تشدد کی تیاریوں کے پس پردہ انتظامیہ ملوث : پروفیسر اپوروانند
ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (APCR) نے 9؍ اگست کو دارلحکومت دلی میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ 31 جولائی کو ہریانہ کے ضلع نوح میں ہونے والے پرتشدد واقعات کے بعد پورے علاقہ میں خوف وہراس کی لہر پائی جارہی ہے، لوگ اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور زیادتیوں کی شکایتیں پولیس تھانہ میں درج کرانے میں بھی خوف محسوس کر رہے ہیں۔ ایک طرف جہاں شرپسندوں نے غریبوں پر ظلم ڈھایا اور مکانوں اور دکانوں کے علاوہ ایک مسجد کو بھی نذرآتش کرتے ہوئے مسجد کے امام کو شہید کر دیا وہیں شرپسندوں کی غندہ گردیوں کے بعد مقامی انتظامیہ نے غریبوں کی جھونپڑیوں اور سڑک کنارے تعمیر سینکڑوں باکڑوں کو بلڈوزر کے ذریعے منہدم کر دیا۔
تشدد سے متاثرہ علاقہ کے عوام کے دلوں میں بیٹھے ہوئے خوف کو دور کرنے، عوام میں اعتماد بحال کرنے کے علاوہ تشدد کے واقعات کے اسباب، اس کے پیچھے چھپے سازشی ذہنوں کا پتہ لگانے اور سچائی سے پردہ اٹھانے کی غرص سے شہری حقوق کے لیے قائم ادارہ اسوسی ایشن فور پروٹیکشن آف سیول رائٹس (اے پی سی آر) نے کمیونٹی لیڈروں، سماجی کارکنون، صحافیوں اور وکلاء پر مشتمل ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی ترتیب دی، متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور مکمل تحقیق، متاثرہ لوگوں کے انٹرویوز اور شہادتیں جمع کرتے ہوئے جامع رپورٹ ترتیب دی ہے۔ 44 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ کو میڈیا کے لیے جاری کردیا گیا ہے جس میں نوح میں ہونے والے فساد کو منصوبہ بند تشدد قرار دیا گیا ہے اوراس میں پولیس کی ملی بھگت کو بھی ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اے پی سی آرنیشنل سکریٹری ندیم خان نے کہا کہ نوح میں ہونے والے فسادات اچانک نہیں تھے بلکہ انہیں منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دیا گیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کو معاشی طور پر کمزور کرنے کے لیے پہلے یہاں مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں میں فسادیوں نے حملے کیے، بعد میں مقامی انتظامیہ نے سڑک کے کنارے تعمیر کردہ مکانات، پان کی دکانیں، باکڑے، گاڑیوں کی مرمت کرنے کے کارخانے، ٹائر پنکچر ریپیرنگ کی دکانیں اور ٹھیلے والوں کی دکانوں کو بلڈوزر کے ذریعے مسمار کر دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ متعصبانہ ویڈیو کلپس کو سوشل میڈیا پر وائرل کرکے تشدد کے لیے عام لوگوں کو اکسایا گیا تھا، جب منصوبے کے مطابق تشدد برپا ہوا تو مسلمانوں اور غریب لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ تشدد کے واقعات میں چھ لوگوں کی موت واقع ہوچکی ہے، پولیس نے زیادہ تر غریب اور بے قصور لوگوں کو حراست میں لیا ہے یہی وجہ ہے کہ علاقہ کے غریب اور مظلوم لوگ بے حد پریشان ہیں۔ ندیم خان نے پولیس پر زور دیا کہ وہ مظلوم عوام کو انصاف دلانے کے لیے ان کی شکایتوں کو درج کریں۔ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں تباہ حال لوگوں کے بیانات درج کیے گئے ہیں اور ساتھ میں فساد سے متاثرہ علاقوں میں ہونے والی توڑ پھوڑ اور انتظامیہ کے ذریعے باکڑوں کی مسماری کی تصاویر منسلک کی گئی ہیں۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایڈووکیٹ رمضان چودھری نے کہا کہ آزادی کے بعد خطے میں ترقیاتی کاموں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق حالیہ تشدد کو بٹو بجرنگی اور مونو مانیسر جیسے شر پسندوں نے خوب بھڑکایا جو امن میں خلل ڈالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ضلع نوح کے بار کونسل کے ضلعی صدر ایڈووکیٹ طاہر حسین دیولا نے بتایا کہ کس طرح انتظامیہ نے پرتشدد جھڑپوں کے لیے اکسانے والوں کو گرفتار کرنے کے بجائے علاقہ کے عام اور غریب لوگوں کو من مانی طریقہ سے گرفتار کیا، انہوں نے کہا کہ گرفتار شدگان میں تشدد کے دن تاج محل کی سیر کرنے کے لیے جانے والے لوگ بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے میوات میں خوف ناک مناظر دیکھے ہیں جس میں عورتوں اور بچوں کو تک نہیں بخشا گیا ہے۔ تشدد میں شہید ہونے والے مسجد کے امام سعد کے بھائی شاداب انوار نے اپنے بھائی کے قتل پر انصاف کا مطالبہ کیا اور حملہ آوروں کو گرفتار کرنے اور ان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا اور حکومت ہریانہ سے معاوضہ اور حکومت بہار سے ان کے پسماندگان کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی اپیل کی۔ آزاد صحافی صباح گرمت نے فساد سے متاثرہ علاقوں میں خواتین اور بچوں کی تشویش ناک حالت زار، خواتین کے ساتھ پولیس کے ناروا سلوک ز عصمت دری اور انٹرنیٹ بندی کی تفصیلات بتائیں اور کہا کہ حالات اتنے خوف ناک ہیں کہ لوگ ایف آئی آر درج کرنے میں بھی خوف محسوس کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر اوم پرکاش دھنکر، کوآرڈینیٹر آل انڈیا کھاپ پنچایت نے کہا کہ حالیہ واقعات حکومتی سازش کی عکاسی کرتے ہیں۔انہوں نے شرپسندوں کے خلاف درج مقدمات میں سیاست کے کردار پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پر تشدد واقعات کو روکنے کے لیے معاشرے کے اندر اتحاد اور خود احتسابی کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ وہ مظلوموں کو انصاف دلانے کے لیے ہائی کورٹ و سپریم کورٹ میں درخواست دائر کریں گے۔ پروفیسر اپوروانند، دہلی یونیورسٹی نے نوح میں فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی رپورٹ کے لیے اے پی سی آر کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے مین اسٹریم میڈیا پر جھوٹ پھیلانے کے لیے تنقید کی اور حقائق کی تلاش کی اہمیت پر زور دیا۔ پروفیسر اپوروانند نے جلوسوں کی آڑ میں تشدد کی تیاریوں کے پس پردہ انتظامیہ کے ملوث ہونے کا ذکر کیا۔ محمد ادیب، سابق ممبر پارلیمنٹ، راجیہ سبھا نے انصاف کے لیے لڑنے کی ضرورت پر زور دیا اور عدالتوں میں نا انصافیوں کے لیے کھڑے ہونے کا وعدہ کیا۔ انہوں نے ظلم سہنے والی خاموش آوازوں کے ساتھ مل کر چیلنجز کا مقابلہ کرنے پر زور دیا۔
پریس کانفرنس میں شریک جہدکاروں نے بھی انصاف، اتحاد اور احتساب کی ضرورت پر زور دیا اور حکومت سے مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا اور مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنے کے لیے تجاویز پیش کیں۔
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اگست تا 26 اگست 2023