نوبل امن انعام کی خواہش پھر ادھوری رہ گئی۔۔۔

پوتن نے الاسکا میں بھی فتح کا پرچم لہرایا!

0

ڈاکٹر سلیم خان

یورپی یونین کو اندیشہ: ٹرمپ یوکرین پر معاہدہ نہ تھوپ دیں
چشم گیتی نے یہ حسین منظر بھی دیکھا کہ فروری 2022 میں یوکرین پر حملے کے بعد پہلی مرتبہ جب کسی مغربی سرزمین پرپوتن نے قدم رکھا تو ٹرمپ نے سرخ قالین بچھا کراستقبال کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس ملاقات سے کس نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان الاسکا میں ہونے والی اہم ترین ملاقات تین گھنٹے تو چلی مگراس طویل مذاکرات کے باوجود یوکرین کے مسئلے پر کوئی واضح پیش رفت نہیں ہوسکی۔ امن معاہدہ تو دور معمولی جنگ بندی کے حوالے سے بھی کوئی اعلان نہ ہو سکا۔ دونوں رہنماؤں نے تعلقات کی بحالی اور چند نکات پر اتفاق رائے کا عندیہ دینے پر اکتفا کیا۔ اس اہم ترین چوٹی کانفرنس کے بعد صرف بارہ منٹ کے لیے ایک مختصرمشترکہ پریس کانفرنس ہوئی ۔ اس میں بھی ٹرمپ نے خلافِ معمول صحافیوں کے سوالات لینے سے گریز کیا ۔ ٹرمپ نے ویسے تو ملاقات کو ’انتہائی نتیجہ خیز‘ قرار دیا مگر یہ اعتراف بھی کیا کہ” ہنوز دلی دور است “وہ بولے: ’ہم ابھی وہاں نہیں پہنچے لیکن پیش رفت ہوئی ہے‘‘ ۔
ان کا یہ کہنا کہ’جب تک اتفاق نہ ہو کوئی معاہدہ نہیں ہوتا‘ بلاواسطہ اعتراف تھا کہ ابھی اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں کو یقین نہیں ہے کہ جو معاہدہ یہ لوگ کرنا چاہتے ہیں اسے یوکرین قبول کرے گا یا ٹھکرا دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ تین دن بعد صدر ٹرمپ نے اس زیلنسکی کو پھر سے ملاقات کے لیے بلالیا جس نے پچھلی بار ان کی بات ماننے سے انکار کرکے جھگڑا کرلیا تھا۔ امریکہ اور روس کے صدور کی ملاقات اس لیے اہم ہے کیونکہ دن بہ دن یوکرین میں انسانی حالات بگڑتے چلے جا رہے ہیں۔ روس نے گزشتہ دو ماہ کے دوران جنگ کے آٹھ سب سے بڑے حملے کیے، جب کہ جون 2025ء میں روسی ڈرون اور میزائل حملے جون 2024 ءکے مقابلے میں دس گنا زیادہ تھے۔ عام شہریوں پر ان حملوں کا اثر انتہائی تباہ کن تھا۔ اقوام متحدہ کے مطابق، اس جنگ میں شہریوں کا بھاری نقصان ہو رہا ہے، گھر اور شہری تنصیبات تباہ ہو رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہورہے ہیں۔ پچھلے دنوں جبکہ دونوں رہنما ملنے کی تیاری کررہے تھے یوکرین کے علاقے دونیسک میں محاذ جنگ کے قریب چھ ہزار سے زیادہ لوگوں نے گھربار چھوڑ دیا تھا ۔ گزشتہ ماہ جنگ میں انسانی نقصان تین سال کی ریکارڈ سطح پر پہنچا جب 286 شہری ہلاک اور 1,388 زخمی ہوئے۔فروری 2022 میں یوکرین پر روس کا حملہ شروع ہونے کے بعد ملک میں 726 بچوں سمیت کم از کم 13,883 شہری ہلاک اور 35,548 زخمی ہو چکے ہیں جن میں بچوں کی تعداد 2,234 ہے۔
برطانیہ کے وزیر دفاع جون ہیلی نے برطانوی پارلیمنٹ میں روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس تنازع کو ساڑھے تین برس گزر چکے ہیں ۔برطانوی وزیر دفاع کے مطابق پچھلے ماہ تک روسی فوجیوں کی ہلاکتوں اور زخمیوں کی مجموعی تعداد دس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، جب کہ صرف رواں سال میں روس کو دو لاکھ چالیس ہزار کے لگ بھگ جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔جون ہیلی نے یوکرین کا فوجی نقصان کا ذکر نہیں کیا مگر وہ بھی کم نہیں ہے۔ انہوں نے یوکرین کی مکمل حمایت کو دہرا کر اس پر فخر کے احساس کا اظہار کیا۔ سوال یہ ہے کہ ان سنگین حالات کے تناظر میں آخر امریکی اور روسی صدور واشنگٹن یا ماسکو کے بجائے الاسکا میں کیوں ملے؟ الاسکا دراصل 1867 تک روس کا حصہ تھا مگر پھر امریکہ نے یہ وسیع و عریض برفانی خطہ 72 لاکھ ڈالر میں خرید لیا۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ امریکہ کایہ دوسرا سب سے بڑا صوبہ روس سے صرف 88 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے جبکہ مین لینڈ امریکہ سے اس کا فاصلہ 800 کلومیٹرہے۔ اس اتر پردیش سے بڑے علاقے کی آبادی صرف سات لاکھ چالیس ہزار ہے۔ الاسکا سے امریکی الحاق کے 158 سال بعد روسی سربراہ ولادیمیر پوتن وہاں امریکہ کے ساتھ یوکرین پر سودے بازی کرنے کے لیے پہنچے۔
یوکرین کے مسئلہ پر عالمی عدالت انصاف نے جنگی جرائم کے تحت صدر پوتن کےخلاف وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھاہے۔ امریکہ چونکہ عالمی عدالت کو تسلیم نہیں کرتا اس لیے پوتن کو وہاں گرفتاری کا خطرہ نہیں نیز الاسکا آنے کے لیے صدر پوتن کو کسی مخالف ملک کی فضا کے اوپر سے پرواز کرنے کی ضرورت بھی نہیں پیش آئی۔ ویسے یہ ملاقات اگر واشنگٹن میں ہوتی تو پوتن کے خلاف ہونے والے احتجاج سے فضا مکدرّ ہوسکتی تھی۔ الاسکا میں یہ خطرہ بھی نہیں تھا۔ صدر ٹرمپ کا ہدف چونکہ عالمی امن انعام ہے اس کے حصول کی خاطر انہوں نے جنگیں بند کروانے کا شوق پال رکھا ہے۔ انہوں نےایک ہفتہ قبل آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان قصر ابیض میں جنگ بندی معاہدہ پر دستخط کرواکے اپنی پیٹھ تھپتھپائی۔ وہ بار بار ہندو پاک جنگ بند کروانےکا دعویٰ کرتے ہیں مگر ہندوستان اس کی توثیق نہیں کرتا اور یہی انکار دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی وجہ بن گیا ہے۔ پاکستان اسے تسلیم کرکے ٹرمپ کی خاطر نوبل امن انعام کی سفارش کرتا ہے اس لیے جنرل عاصم منیر کو قلیل عرصے میں دوبار امریکہ بلا کر پذیرائی کی گئی ہے۔
ٹرمپ منفرد شاہانہ مزاج کے حامل حکم راں ہیں۔ وہ اختلاف ہضم نہیں کر پاتے اس لیے ہندوستان اور یوکرین سے ناراض ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان اور روس ان کی تعریف کرکے اپنا الو سیدھا کر لیتے ہیں۔ پاکستان کی طرح پوتن نے بھی یہ کہہ کر ٹرمپ کو خوش کر دیا کہ اگر وہ پچھلا انتخاب جیت جاتے تو 2022 میں جنگ نہ ہوتی حالانکہ یہ تنازع 2014سے جاری ہے ساڑھے تین سال قبل تو بس اس میں شدت آئی۔ صدر بننے سے قبل ٹرمپ چوبیس گھنٹوں کے اندر جنگ بند کروانے کا دعویٰ کر رہے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے پوتن کو 8؍ اگست تک جنگ بند کرنے کی ڈیڈ لائن بھی دی تھی مگر جنگ کی آگ تو بھڑکتی ہی چلی گئی۔ ٹرمپ پوتن کے درمیان حالیہ مذاکرات میں بظاہر پوتن فائدے میں نظر آتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی کامیابی تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اولین دشمن یوروپ اور امریکہ کے درمیان دراڑ ڈال دی۔ ان کا دوسرا ہدف امریکہ کو یوکرین کی پشت پناہی سے محروم کرنا ہے۔ اس ہفتہ ٹرمپ سے زیلنسکی کی ملاقات ہونی ہے۔ وہاں ان کے سامنے نہایت مشکل شرائط رکھی جائیں گی ۔ وہ اگر ان کو قبول کریں گے تو ایسا کرنا نو سالہ جنگ میں شکست کے مترادف ہوگا اور اگر انکار کریں گے تو امریکہ اس کے سر سے اپنا ہاتھ کھینچ لے گا۔
امریکہ کی جانب سے یوکرین کے سامنے جو تجاویز رکھی جائیں گی ان کا اندازہ ٹرمپ کے اس بیان سے ہوتا ہے کہ ’روس نے یوکرین کے بہت سے علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ہم اس میں سے کچھ علاقہ یوکرین کو واپس کروانے کی کوشش کریں گے۔‘ اس جملے میں ’کچھ‘ اور ’کوشش‘ اہم الفاظ ہیں۔ ’کچھ علاقہ‘ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت روس نے یوکرین کے جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے، ٹرمپ اس کا ایک بڑا حصہ روس کو دینے کے حامی ہیں اور ’کوشش‘ عدم اعتماد کی چغلی کھاتا ہے۔ ٹرمپ کا اعلان کچھ علاقوں کا لین دین ہوگا اشارہ کرتا ہے کہ مستقبل قریب میں طے ہونے والے معاہدے کے تحت یوکرین کو جملہ پانچ صوبے روس کے حوالے کرنے پڑیں گے۔ یہ پانچ مشرقی صوبے یوکرین کے تقریباً بیس فیصد حصے پر محیط ہیں۔ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے یوکرین کی سرزمین کے حصے بخرے کے تمام منصوبوں کو مسترد کر دیا تھا۔ یورپی یونین بھی علاقوں کے ’تبادلے‘ کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس معاملے میں ٹرمپ کی اب تک کوئی بڑی سفارتی کامیابی نہیں ملی اور امن کے نوبل انعام کا راستہ صاف نہیں ہوسکا۔
یوکرین کے حوالے ٹرمپ اور پوتن کے بیانات کو غور سے دیکھا جائے ان میں ایک خاص قسم کا فرق دکھائی دیتا ہے۔ٹرمپ کا کہنا ہے کہ چند چھوٹے نکات کے سوا ایک اہم نکتہ باقی ہے۔اس سے مراد ظاہر ہے علاقوں کا لین دین ہوگا۔ اس کے بالمقابل پوتن امید ظاہر کی کہ ’ہم جس سمجھوتے پر پہنچے ہیں وہ یوکرین میں امن کی راہ ہموار کرے گا۔‘ اس سے قبل قصرِ ابیض میں یوکرین کے صدر ولادیمیر میر زیلینسکی سے ملاقات کے دوران ٹرمپ نے نہایت سخت لب و لہجہ اختیار کیا تھا لیکن الاسکا چوٹی کانفرنس میں ان کا رویہ یکسر مختلف تھا۔ امریکہ اور یوکرین کے درمیان وائٹ ہاؤس کی مجوزہ ملاقات میں ٹرمپ نے پھر سے یہ گیند صدر زیلینسکی کے پالے میں اچھال دی ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ’اب یہ زیلنسکی پر منحصر ہے کہ وہ معاملے کو تکمیل تک پہنچائیں۔‘ چوٹی کانفرنس کے بعد پوتن تو خیر ٹرمپ کو اپنے کام میں لگا کر لوٹ گئے مگر اس ملاقات کے بعد امریکی صدر کو واپسی پر واشنگٹن میں تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کو ہدفِ تنقید بنانے کی اہم وجہ یہ تھی کہ وہ مسئلہ کا حل تلاش کرنے میں کوئی خاص پیش رفت نہیں کر سکے اور اگر اندرون خانہ کچھ طے بھی ہوا ہو تو اسے اعلان کے قابل نہیں سمجھا گیا۔
الاسکا میں تقریباً تین گھنٹے تک جاری رہنے والی طویل ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے میڈیا کو ایک مشترکہ بیان دیا ۔ وہائٹ ہاؤس کی روایت کے مطابق امریکی صدر گفتگو پر حاوی ہوتے ہیں اور غیر ملکی رہنما خاموشی سے سنتے ہیں لیکن الاسکا میں پوتن نے ’نا مکمل پریس کانفرنس‘ کا آغاز لمبی تقریر سے کیا اور امریکی صدر خاموش کھڑے سنتے رہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پوتن وہاں زیادہ پُر اعتماد تھے۔ پریس کانفرنس میں اگر سوال و جواب نہ ہوں تو وہ مودی کا بھاشن ہو جاتی ہے مگر اس بار تو صدر پوتن اور صدر ٹرمپ نے بھی اپنے بیانات کے فوراً بعد راہِ فرار اختیار کرلی۔ یہ اس بات کا صاف اشارہ تھا کہ یوکرین کی جنگ کے معاملے پر ولادیمیر پوتن اور ڈونالڈ ٹرمپ کے درمیان اب بھی بنیادی اختلافات موجود ہیں۔ نامہ نگار ٹرمپ سے پوچھنا چاہتے تھے کہ کیا واقعی اب بھی روس پر نئی پابندیاں لگائی جائیں گی جن کی وہ بار بار دھمکی دیتے رہے ہیں؟ اسی ایک سوال سے بچنے کے لیے دیگر سوالات بھی نہیں لیے گئے۔ ٹرمپ بغیر سوالات لیے رخصت تو ہوگئے لیکن ان کی روانگی کے ساتھ وہ دھمکی بھی ہوا ہوگئی کہ اگر روس جنگ بندی کی طرف نہ بڑھا تو اسے ’سنگین نتائج‘ بھگتنے ہوں گے۔
امریکی دورے کے دوران پوتن نے روسی صحافیوں سے ہلکے پھلکے انداز میں گفتگو کر کے ماحول کو خوش گوار بنانے کی کوشش کی۔ وہاں موجود نامہ نگاروں میں سے ایک نے جب چیخ کر پوتن سے سوال کیا کہ ’کیا آپ عام شہریوں کو مارنا بند کریں گے؟‘ تو وہ اس پر بالکل بھی مشتعل نہیں ہوئے کیونکہ وہ ان کی توقع کے خلاف نہیں تھا۔ روسی صدر اس پر مسکرائے اور ٹرمپ انہیں اپنی محفوظ لیموزین میں بٹھا کر مذاکراتی ہال تک لے گئے، جہاں دیوار پر انگریزی میں ’امن کی تلاش‘ کے الفاظ درج تھے۔پوتن نے بات چیت کو دوستانہ قرار دیا اور اگلی ملاقات ماسکو میں ہونے کا امکان ظاہر کیا۔ پوتن نے ممکن ہے مذاقاً اگلی ملاقات ماسکو میں کرنے کی بات کہی ہو، مگر یوکرینی صدر زیلنسکی کے اس اجلاس میں شرکت کا امکان مفقود ہے۔ پوتن کو اپنے عزائم کی تکمیل میں صدر ٹرمپ سے تو تعاون مل رہا ہے کیونکہ وہ ان دونوں کی دوستی بہت پرانی ہے مگر یوروپی ممالک سے اندیشہ لاحق ہے کہ کہیں وہ رنگ میں بھنگ نہ ڈال دیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جہاں ایک طرف صدر ٹرمپ کی خوب دل کھول کر تعریف کی وہیں دوسری جانب یورپی ممالک کو دھمکی دی کہ وہ کسی طرح کی رکاوٹ یا پس پردہ سازش کے ذریعے ممکنہ پیش رفت کو سبوتاژ نہ کریں۔ صدر ٹرمپ کا یہ کہہ کر کہ ’ہم کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے‘ سیکڑوں صحافیوں کے کسی کا سوال کا جواب دیے بغیر نکل جانا مذاکرات کے ناکامی کی علامت نہیں تو اور کیا ہے؟ حالانکہ موصوف نے پہلے اس ملاقات کے ناکام ہونے کا امکان صرف 25 فیصد بتایا تھا۔
ٹرمپ کی روسی جنگ بندی کے دباؤ کا پوتن پر کوئی اثر نہیں ہوا اور انہوں نے رعایت دینے سے انکار کر دیا۔ ٹرمپ کے سارے الٹی میٹم، ڈیڈ لائنیں اور مزید پابندیوں کی دھمکیاں دھری کہ دھری رہ گئیں۔ یوکرینی عوام کے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ میڈیا کے سامنے مشترکہ آمد کے دوران پوتن نے ایک بار پھر تنازع کی بنیادی وجوہات کا ذکر کیا اور کہا کہ صرف ان کے خاتمے سے ہی پائیدار امن قائم ہوسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اب بھی اپنے خصوصی فوجی آپریشن کا اصل مقصد یوکرین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر ختم کرنا ہے۔ مغرب کی ساڑھے تین سالہ کوششیں بھی ان کے ارادے کو بدل نہیں سکیں اور اب اس فہرست میں الاسکا اجلاس بھی شامل ہوگیا ہے۔
ٹرمپ اتنی دور کا سفر کر کے اپنی مہم کا خلاصہ اس طرح بیان کیا کہ ’ہم کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے‘۔ اس مبہم جملے پر بھی ان کے یورپی اتحادیوں اور یوکرینی حکام کو اطمینان ہے کہ انہوں نے کوئی یک طرفہ رعایت یا معاہدہ نہیں کر دیا کیونکہ اگر ویسا ہو جاتا تو وہ اس کو نافذ کرنے پر تل جاتے جس سے مستقبل کی مذاکرات کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔ یوکرین نے بھی عارضی طور پر اطمینان کا سانس تو لیا مگر مستقبل کا اندیشہ سر پر منڈلا رہاہے۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں ٹرمپ کوئی ایسا یکطرفہ ’معاہدہ‘ اس پر نہ تھوپ دیں جس کے نتیجے میں یوکرین کو اپنی زمین سے محروم ہونا پڑ جائے۔ مگر الاسکا کے ان مذاکرات سے ساری دنیا کو کم از کم یہ توقع تھی کہ جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن الاسکا میں ملاقات کریں گے تو یوکرین میں جنگ بندی پر کوئی معاہدہ ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوسکا اس لیے سارے کھیل تماشے کا اختتام مایوسی پر ہوا۔ ہندی فلموں کی مانند آخر میں خوشی کے شادیانے نہیں بجے اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ڈرامہ اودے پور فائلس کی طرح فلاپ ہوگیا۔ اسے کولی یا سانوریہ جیسی کامیابی نصیب نہیں ہوئی بلکہ ٹرمپ کی ’امن کے سوداگر‘ والی شبیہ ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گئی۔ اس لیے الاسکا چوٹی کانفرنس پر آتش کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 اگست تا 30 اگست 2025

hacklink panel |
casino siteleri |
deneme bonusu |
betorder |
güncel bahis siteleri |
cratosbet |
hititbet |
casinolevant |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |
betsat |
ronabet giriş |
truvabet |
venüsbet giriş |
truvabet |
hacklink panel |
casino siteleri |
deneme bonusu |
betorder |
güncel bahis siteleri |
cratosbet |
hititbet |
casinolevant |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |
betsat |
ronabet giriş |
truvabet |
venüsbet giriş |
truvabet |