ہائی کورٹ نے ایک مسلمان کی ماب لنچنگ کے ملزم کو قبل از حراست ضمانت دینے سے انکار کیا

نئی دہلی، اکتوبر 13: تریپورہ ہائی کورٹ نے ایک ایسے شخص کو گرفتاری سے قبل ضمانت دینے کی درخواست مسترد کر دی جو مبینہ طور پر ایک ایسے ہجوم کا حصہ تھا جس نے جون میں 18 سالہ سیف الاسلام کو اس شبہ میں قتل کر دیا تھا کہ وہ مویشیوں کی اسمگلنگ کر رہا تھا۔

گذشتہ ہفتے ملزم نے جسٹس ایس جی چٹوپادھیائے کی بنچ کے سامنے یہ دلیل دی تھی کہ سیف کے قتل کے مقدمے میں درج پہلی معلوماتی رپورٹ میں اس کا نام نہیں ہے۔ اس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس کے خلاف قتل کا کوئی ابتدائی الزام نہیں لگایا گیا۔

وہیں ریاست کے سرکاری وکیل نے کہا کہ عینی شاہدین کے بیانات میں بتایا گیا ہے کہ ضمانت کا درخواست گزار اس ہجوم کا حصہ تھا جس نے اس ’’18 سالہ نوجوان کا پیچھا کیا اور اسے قتل کر دیا‘‘۔ عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ پولیس نے ملزم کو ہجوم کا حصہ پایا ہے۔

اس کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعات 341 اور 302 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا جو غلط پابندی اور قتل کی سزا پر مبنی ہیں۔

عدالت نے کہا ’’کچھ گواہوں کے، جن کے بیانات پولیس نے تفتیش کے دوران ریکارڈ کیے ہیں، بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ درخواست گزار ہجوم کے ارکان میں سے ایک تھا۔‘‘ پھر عدالت نے ’’جرم کی شدت‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے ملزم کو ضمانت دینے سے انکار کردیا۔

جون میں ایک ہجوم کے ذریعے تریپورہ کے کھووائی ضلع میں زید حسین اور بلال میاں کے ساتھ سیف الاسلام کو قتل کیا گیا تھا۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب گاؤں نمانجوپیرا کے باشندوں نے انھیں پانچ مویشیوں کو گاڑی میں لاتے ہوئے پایا۔ ایک ہجوم نے تقریباً 10 کلومیٹر دور اتر مہارانی پور گاؤں کے قریب ان کی گاڑی کو روکا اور تینوں افراد پر حملہ کیا۔ سیف الاسلام شروع میں بھاگنے میں کامیاب ہو گیا تھا لیکن منگیاکامی گاؤں میں پکڑا گیا۔

تینوں افراد کو مقامی پرائمری ہیلتھ سنٹر اور بعد میں اگرتلہ کے گووند بلبھ پنت اسپتال لے جایا گیا، جہاں انھیں مردہ قرار دیا گیا۔