نظام تعلیم میں عقائد کے اثرات۔ ایک جائزہ

دینی و عصری تعلیم کی تفریق کے بغیر اسلامی اسکولوں کے نظام کا قیام ضروری

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

دنیا کی وہ قومیں جو کہتی ہیں کہ ہم سن رشد کو پہنچ چکے ہیں، جن کا شعور پختہ ہوچکا ہے اور جو غلامی اور اندھی تقلید کی زنجیروں سے آزاد ہوچکی ہیں، ان کی نظر میں تعلیم و تربیت اب اصل مقصد نہیں رہا بلکہ ان کی حیثیت اب اصل تک پہنچنے کا وسیلہ ہوگئی ہے۔ دنیا عقلی نابالغی کے دور میں بہت سی چیزوں کو اصل مقصد سمجھتی رہی لیکن طویل تجربات اور انسانی عقل کی ترقیوں کے بعداب وہ چیزیں بلند مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ قراردی جارہی ہیں۔لہٰذا یہ کوئی انہونی بات نہیں کہ تعلیم و تربیت، مدرسوں ،علم و فن کے مرکزوں، کتب خانوں اور نشرو اشاعت کے اداروں کو کسی زمانہ میں اصل مقصد کی حیثیت دی گئی ہو۔لیکن مشرق پر یہی نابالغ ذہنیت اب تک مسلط ہے ۔ ہم قوم کی ایک قابل لحاظ تعداد کو لکھنا پڑھنا سکھادیتے ہیں۔کسی علاقہ مین چند مدرسے ، اسکول اور کالجز قائم کردینے سے سمجھتے ہیں کہ گوہر مقصود حاصل کرلیا اور اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔لیکن مغرب جو تعلیم کا بہت شائق ہے اور اس آخری دور میں پوری دنیا میں اس کا جھنڈا لہرارہا ہے۔جس کے اکثر ممالک اور علاقے غیر جانبداری ،لامذہبیت بلکہ الحاد و بے دینی تک میں شہرت رکھتے ہیں، وہ بھی تعلیم کے نظام اور تربیت کے اصولوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کا بے جان آلہ نہیں سمجھتا اور نہ اسے ایسے منتشر اور بے جوڑ معلومات کو ایک سے دوسرے تک منتقل کرنے کا وسیلہ قراردیتا ہے۔ جن کو باہم مربوط کرنے والی کوئی وحدت اور ان سب کو ایک نقطہ پر جمع کرنے والا کوئی مقصد نہ ہو۔ ان پر ایمان و عقیدہ کی گہری چھاپ نہ ہو اور وہ نئی نسل کو اپنے اسلاف سے جوڑنے کا ذریعہ نہ بن سکے،بلکہ وہ بھی نظام تعلیم کو اسی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے کہ حاضر کو ماضی سے ، نئی نسل کو اسلاف سے اور معلومات کو عقائد سے ملانے والا پل ہے اور موروثی عقائد و خیالات کے لیے علم و منطق اور دلیل و برہان کا مضبوط سہارا فراہم کرتا ہے۔ مغرب جس نظام تعلیم پر بے پناہ دولت صرف کررہا ہے اس کو وہ انتشار و تخریب کا نہیں بلکہ تشکیل و تعمیر کا عمل سمجھتا ہے اور اپنی ذہنی و فکری خلجان و اضطراب اور باہم متصل کڑیوں کو توڑنے کا نہیں بلکہ اجتماعی زندگی میں باہمی تعلق و ارتباط اور افراد میں باہمی اعتمادکا وسیلہ قرار دیتا ہے۔
اسی ضمن میں موجودہ مغربی دنیا کے تین سربرآوردہ مفکرین اور ماہرین تعلیم کی آراء نقل کی جارہی ہیں۔ ملاحظہ کیجیے کہ سرپیری نن(Sir Bercy Linn) جو برطانیہ کے ماہرین تعلیم میں سب سے ممتاز مقام رکھتا ہے، ‘انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا’کے ایک مقالہ میں لکھتا ہے: "لوگوں نے تربیت کی تعریف متعین کرنے میں مختلف راہیں اختیار کی ہیں، لیکن ان تمام میں مشترک اصل اور بنیادی نقطہ یہ ہے کہ تربیت قوم کے بزرگوں اور تربیت دینے والوں کی اس کوشش کا نام ہے جو نئی نسل کو اپنے تسلیم و اختیار کردہ نظریہ زندگی کے مطابق ڈھالنے کے لیے کرتے ہیں اور ایک اسکول کی ذمہ داری ہے کہ وہ طالب علم میں نظریہ زندگی سے تعلق رکھنے والے روحانی عوامل کو اثر انداز ہونے کا موقع فراہم کرے اور طالب علم کی ایسی تربیت کرے کہ اس کے لیے اپنی قومی زندگی کی حفاظت اور اس کو آگے بڑھانا ممکن ہوسکے”۔جان ڈیوی(John Dewey)موجودہ امریکی نظام تعلیم میں دوسرے ماہرین سے کہیں زیادہ اثر انداز ہوا ہے، اپنی کتاب’جمہوریت اور تعلیم’Democracy and Educationمیں لکھتا ہے:”قومیں تجدید کے سہارے زندہ رہتی ہیں اور تجدیدی کوششوں کی بنیاد بچوں کی تعلیم پر قائم کی جاتی ہے۔ قوم مختلف طریقوں سے ناخواندہ افراد میں سے اپنے وسائل اور اپنے نظریہ زندگی کے لیے صالح ورثہ مہیا کرتی ہے اور ان کو اپنے عقائد اور اصولوں کے سانچے میں ڈھالتی ہے”۔ اسی طرح پروفیسر کلارک(Prof. Clark)کہتا ہے "تربیت کی تعریف و تشریح میں جو کچھ بھی کہا جائے، لیکن جس سے مفر نہیں وہ یہ ہے کہ یہ نظریہ زندگی کی حفاظت ، اس کو مستحکم کرنے اور اگلی نسلوں تک پہنچانے کی جدوجہد کا نام ہے جس پر قوم پہلے سے ایمان لاچکی ہے اور جس کی بنیادوں پر قومی زندگی کی عمارت قائم ہے”۔ اسی نقطہ پر اسرائیل بھی سب سے زیادہ زوردیتا ہے۔ وہ اپنے تمام ترقی پسند رجحانات، ترقی یافتہ یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ چلنے کی خواہش اور غیر ملکی زبانوں اور جدید علوم کے ماہرین کی بڑی تعداد رکھنے کے باوجود اپنے مذہبی شعور اور ثقافتی سرمایہ رکھنے والی عبرانی زبان کو آگے بڑھانے میں تمام ممالک سے آگے ہے۔ ڈاکٹر راڈرک ماتھیوز Dr.Roderck Matheis اور ڈاکٹر متی عقراوی کی مرتب کردہ کتاب "التربیت فی الشرق العربی”میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ:”فلسطین کے اسرائیلی اسکولوں میں سب سے اہم اور قابل توجہ چیز یہ ہے کہ انگریزی، فرانسیسی اور عربی زبانوں کی تعلیم کے علاوہ تمام مضامین میں ذریعہ تعلیم عبرانی ہے اور تعلیم کے تمام مراحل میں مذہبی تعلیم اور اس کو صیہونیت کی بقا وترقی کی بنیاد بنانے پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے”۔اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کے تمام اسکولس اور تمام پارٹیاں اور طبقے جن طلباء کے سرپرست تعلق رکھتے ہیں، تعلیمی ،مذہبی اور سیاسی خیالات اور قدروں میں باہمی اختلافات کے باوجود اس بنیادی نقطہ پر سب متفق ہیں اور مذہبی تعلیم و تربیت کی طرف خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ یہود کی مذہبی روایتیں ہی روشنی کا مینار ہیں، جن سے نظام تعلیم کے لیے روشنی حاصل کرنی چاہیے۔دوسری طرف ماہنامہ”فلسطین”میں ‘اسرائیل میں اعلیٰ تعلیم’کے عنوان سے ایک مقالہ شائع ہوا ہے، اس کا مقالہ نگار(دائرۃ البحوث والدراسات فی الھیۃ العربیۃ العلیا لفلسطین)فلسطین کے اعلیٰ عربی ادارے کے شعبہ تحقیق و مطالعہ کی تحقیقاتی رپورٹ کے حوالہ سے لکھتا ہے:”اعلی تعلیم میں سیاست کارفرماہے، اس کا اصل مقصد ہے یہودی عقیدہ کی ترویج و اشاعت، اور اس کے ساتھ محبت و تعلق میں اضافہ ،ساتھ ہی اسرائیل کے لیے پروپیگنڈا اور اس کے لیے دوستوں کی تلاش”۔ اس مقالہ میں عبرانی زبان اور اس کی یونیورسٹیوں کی طرف غیر معمولی توجہ، ان کے بجٹ اور ان کے لیے یہود کی مساعی، ان پر خرچ ہونے والی بے حساب دولت اور ان کے لیے بہترین انتظامات کی حیرت انگیز تفصیلات بھی بیان کی گئی ہیں۔اس فکر و خیال کی اصل بنیاد جو تعلیم و تربیت کو قوم کے قبول کردہ عقائد ، خیالات اور اقدار کو مضبوط کرنے اور ان کو اجاگر کرنے کا وسیلہ قرار دیتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اصل معیار اور قابل لحاظ چیز والدین کا عقیدہ اور ان کا ارادہ ہے۔انہی کو اس کا حق پہنچتا ہے کہ اپنے جگر گوشے ، اپنے خوابوں اور خیالوں کے وارث اپنے بچے کے لیے نظام تعلیم منتخب کریں۔
فکر وخیال کی آزادی کے سلسلے میں اور تعلیمی نظام کو کنٹرول کرنے کے تعلق سے خود ہمارے ملک ہندوستان میں 1954کے ایک مقدمے کا تذکرہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ممبئی کی مسیحی تعلیمی اداروں کی انجمن نے ممبئی کی صوبائی حکومت کے خلاف وہاں کے ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا اور ہائی کورٹ سے درخواست کی تھی کہ صوبائی حکومت کو مسیحی بچوں کو ان کے والدین کی مرضی کے خلاف تعلیم دینے سے باز رکھا جائے، اس درخواست پر ممبئی کے چیف جسٹس اور ایک دوسرے جج نے فیصلہ صادر کرتے ہوئے لکھا "جمہوریت میں ایک شہری کا سب سے قیمتی حق فکر و خیال کی آزادی ہے اور اس میں اختلاف نہیں کیاجاسکتا کہ خیال پر کنٹرول کرنے کا سیدھا اور آسان طریقہ نوجوانوں کی تعلیم کو کنٹرول کرنا ہے۔ حکومت کسی بھی والدین کو مجبور نہیں کرسکتی کہ وہ اپنے بچوں کو وہی تعلیم دلائیں جسے حکومت مناسب سمجھتی ہو، انسانی حقوق کے چارٹر جس میں ہندوستان بھی شریک ہے، کے آرٹیکل6(3)میں کہا گیا ہے کہ والدین کا پہلا حق ہے کہ وہ اس کا انتخاب کریں کہ ان کے بچے کو کس قسم کی تعلیم دی جائے”(بحوالہ:All India Report 1954, S.C.561)۔یہ مغربی اقوام، جن کا مسیحی عقائد سے تعلق بہت کمزور ہوگیا ہے، حضرت مسیحؑ کے دیے ہوئے اخلاقی اقدار کی جن کی نظر میں کوئی وقعت نہیں رہی، جن میں مسلّم اصولوں اور حقائق کے بارے میں بے اعتمادی پھیل گئی ہے، جب یہ قومیں اپنے نظام تعلیم کو اس خاص نقطہ نظر سے دیکھتی ہیں اور اسے زندگی کے اصول و عقائد میں استحکام پیدا کرنے اور فردو اجتماعیت، عقل اور جذبات اور حاضر و ماضی کے درمیان ربط و تعلق اور ہم آہنگی پیداکرنے کا کام لیتی ہیں تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ مسلمان اور مسلم حکومتیں موجودہ زمانے میں اس فکر و نظریہ کے تحت اپنے تعلیمی نظام کو پروان چڑھانے میں کیوں ناکام ہیں؟اس کے باوجود کہ ان کی تاریخ میں کبھی علم و کلیسا اور مذہب و حکومت کے درمیان کشمکش پیدا نہیں ہوئی۔جہاں دین و سیاست میں فرق و امتیاز کا وجود نہیں۔جن کے نزدیک دین و مذہب افراد کی ذاتی زندگی تک محدود نہیں اور جو تاریخ کے کسی دور میں انتہا پسندانہ الحاد کا شکار بھی نہیں ہوئے۔وہ اسلامی اصولوں،عقائداورفکر و نظریہ کے تحت ایک ایسا تعلیمی نظام جہاں دینی و دنیوی تعلیم اور اس کا نصاب دو مختلف دائروں میں تقسیم نہ ہو،قائم کرنے میں کم زور کیوں کر ثابت ہوئے ہیں؟
اس موقع پر یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ ماضی قریب کی دو تباہ کن جنگیں اور گزشتہ چند دہائیوں میں ہونے والی انسانی جان کی حد درجہ ہلاکتیں، جن کی قیادت بظاہرعلم اور تہذیب و تمدن کے چوٹی کے لوگوں نے کی،یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ نام نہاد ترقی یافتہ تعلیم صالح اخلاق، انسانیت کا احترام اور کمزور اقوام کے ساتھ عدل کا جذبہ پیدا کرنے میں قطعی ناکام رہی ہے۔
امریکہ،یورپ،ہندوستان اور دوسرے متعدد مشرقی ممالک میں یونیورسٹیوں کے نوجوانوں کا اخلاقی بگاڑ، طلباء کی قانون اور نظم و انصرام میں دست درازیاں اور طفلانہ خواہشات و پست اغراض کی پیروی، یہ سب صاف بتارہے ہیں کہ تعلیم فی نفسہ مقصد نہیں بلکہ وہ صرف ایک ذریعہ ہے، جو کامیاب بھی ہوسکتا ہے اور ناکام بھی، اسی طرح نفع بخش بھی ثابت ہوسکتا ہے اور مضرت رساں بھی ۔ اس کی کامیابی وناکامی کی بنیاد وہ اخلاقی،مذہبی اورتصوراتی عقائد ہیں جو ایک جانب گھر سے حاصل ہوتے ہیں تو دوسرا وہ ماحول بھی ہے جو اسکول اور معاشرے میں رائج ہے۔لہٰذا یہی نظام تعلیم تعمیر کا سامان بن سکتا ہے تو تخریب کا ذریعہ بھی بننے کے امکانات رہتے ہیں لہٰذا جب ماحول اخلاق کی عفت، صالح ذہنیت، صحیح عقیدہ اور مذہبی رجحان جیسے عناصر سے خالی ہوگا تو نقصان کا پہلو نفع سے کہیں زیادہ ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی مفکرین اور ماہرین تعلیم کی نظر میں بھی تعلیم و تربیت یا لکھنا پڑھنا سکھانے کی فی نفسہٖ کوئی قیمت نہیں رہی بلکہ اس کی قیمت کا اندازہ اس کے نتائج، تعلیم یافتہ افراد کے اخلاق اور معاشرہ کی تعمیر و ترقی میں ان کے کردار کے اعتبار سے کیا جانے لگا ہے۔
اس سلسلے میں عرب ممالک میں رائج نظام تعلیم کو جب ہم دیکھتے ہیں،جہاں اللہ تعالیٰ نے بے شمار وسائل اور قوت و اقتدار سے انہیں نوازا ہے اس کے باوجود دنیا میں بے وقعتی سے دوچار ہیں، غور کرتے ہوئے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان ممالک میں چلنے والے اسکول، اس میں پڑھایا جانے والا نصاب اور نصاب کی تشریح و توضیح کرنے والے اساتذہ دو قسم کے ہیں۔ایک، ان عجمی افراد کے لیے جو ان ممالک میں معاش کی تلاش میں قیام پذیر ہیں، ان ممالک سے وابستہ اسکول،نصاب تعلیم اور اساتذہ عموماً متعلقہ عجمی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں،یہ الگ بات ہے کہ غیر ملکی زبانوں کے سیکھنے کے مواقع ان اسکولوں میں بھی موجود ہیں جن میں عربی اور فرانسیسی وغیرہ زبان بچوں کو لینے کا اختیار ہے۔دوسرے، عرب بچوں کے لیے عموماً امریکی اور یورپی ممالک کے اساتذہ اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، اُنہیں ممالک سے وابستہ نصاب انہیں پڑھایا جاتا ہے اس کے علاوہ عرب بچوں کو اسلامیات بطور سبجیکٹ لینے کے بھی مواقع ہیں۔غالباً اُسی طرح جس طرح ہندوستان میں اگر مسلمانوں کو مسلم معاشرہ کے بگاڑ کی فکر لاحق ہوتی ہے تو وہ ملک میں رائج نصاب کے علاوہ اسلامیات ایک اختیاری سبجیکٹ مزید جوڑ دیتے ہیں۔نتیجہ میں مخصوص طرز فکر اور نظریہ سے وابستہ افراد اسکولوں میں رائج نصاب کو پڑھاتے ہیں، متعلقہ فکر و نظریہ سے وابستہ استاد اسی روشنی میں نصاب کی تشریح و توضیح کرتے ہیں تو نتیجہ وہی نکلتا ہے جو عرب نہیں بلکہ امریکن و یورپی اساتذہ چاہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ان امریکن اور یورپی ممالک کے اساتذہ کو آپ عیسائیت اور یہودیت پر مبنی فکر سے جوڑ کے دیکھ سکتے ہیں۔ ان حالات میں ایک اختیاری سبجیکٹ اسلامیات کس حد تک کارگر ہوسکتا ہے؟یہ خود غوروفکر کا موضوع ہے۔
گفتگو کے پس منظر میں ایک اور حقیقت کو سامنے رکھنا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ جو قومیں مخصوص نظریہ پر مبنی گروہ، ذرائع کو مقاصد کا درجہ دے دیتی ہیں ،علوم و فنون کو تعیش کا ذریعہ اور ماحصل سمجھتی ہیں، ان میں اخلاقی محاسن و اعمال کے مقابلے میں بحث و نظر کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔جمالیات سے دلچسپی اگرچہ کہ برائی نہیں ہے لیکن جمالیات کی تسکین میں اس حد تک اضافہ ہونے لگتا ہے کہ قوت ارادی کمزور پڑجاتی ہے،غیرت و حمیت کا جذبہ ختم ہونے لگتا ہے اور عقائد میں شکوک وشبہات پیداہونے لگتے ہیں۔ قدیم روایات کا مذاق اڑایا جاتا ہے ،ساتھ ہی شکوک وشبہات کا دائرہ مذہبی مآخد،تاریخی مراجع، تاریخی شخصیات اور رسوم وروایات تک بڑھ جاتا ہے۔ نیز اس قوم کی قیادت محققین،ماہرادباء اور انشاء پرداز صحافی کرنے لگتے ہیں،یہاں تک کہ اہل علم اور جہلا تمام لوگ ذرائع کو مقاصد کا درجہ دینے کے نتیجہ میں ان کی فکر و عمل سب متاثر ہوتے ہیں اورفی زمانہ قوم کا نوجوان اور مستقبل کا سرخیل طبقے کی عقل وخرد اورضمیر میں یہ غلط فکر سرایت کرجاتی ہے۔ نتیجہ میں اس گروہ یا قوم میں کسی مخالف طاقت اور حملہ آور دشمن کے مقابلہ میں ٹھیرنے کی صلاحیت کمزور پڑجاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ حالات ہوں یا گزشتہ تاریخ کے اوراق میں درج واقعات، یہ سب ثابت کرتے ہیں کہ مسلم ممالک اور مسلم امت اور وہ لوگ جن کے پاس ‘عقیدہ ‘ہی منتشرالخیالات کا مجموعہ ہے اور آج وہ اِنہیں حالات سے دوچار ہیں کہ ان کی فکر و نظر کا کوئی مرکز و محور باقی نہیں رہا یا باقی ہے بھی تو شکوک وشبہات اور قوت ارادی سے متاثر ہے۔
***

 

***

 امریکہ،یورپ،ہندوستان اور دوسرے متعدد مشرقی ممالک میں یونیورسٹیوں کے نوجوانوں کا اخلاقی بگاڑ، طلباء کی قانون اور نظم و انصرام میں دست درازیاں اور طفلانہ خواہشات و پست اغراض کی پیروی، یہ سب صاف بتارہے ہیں کہ تعلیم فی نفسہ مقصد نہیں بلکہ وہ صرف ایک ذریعہ ہے، جو کامیاب بھی ہوسکتا ہے اور ناکام بھی، اسی طرح نفع بخش بھی ثابت ہوسکتا ہے اور مضرت رساں بھی ۔ اس کی کامیابی وناکامی کی بنیاد وہ اخلاقی،مذہبی اورتصوراتی عقائد ہیں جو ایک جانب گھر سے حاصل ہوتے ہیں تو دوسرا وہ ماحول بھی ہے جو اسکول اور معاشرے میں رائج ہے۔لہٰذا یہی نظام تعلیم تعمیر کا سامان بن سکتا ہے تو تخریب کا ذریعہ بھی بننے کے امکانات رہتے ہیں لہٰذا جب ماحول اخلاق کی عفت، صالح ذہنیت، صحیح عقیدہ اور مذہبی رجحان جیسے عناصر سے خالی ہوگا تو نقصان کا پہلو نفع سے کہیں زیادہ ہوجائے گا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 ستمبر تا 14 ستمبر 2024