نظام تعلیم میں جنس اور جنسیت کی ترویج اور اخلاقیات

اکثر و بیشتر جنسی جرائم کا سبب بچپن سے ہی مخلوط نظام تعلیم

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

ایل جی بی ٹی کیو پلس اور دیگر تحریکات سے معاشرے میں بے حیائی کا پھیلاؤ
دنیا کی تقریباً تمام تہذیبوں میں کسی نہ کسی شکل میں مذہب اور جنس کا تصور پایا جاتا ہے۔ مغرب کے مذہبی مفکرین اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ ترقی یافتہ مذاہب سے صدیوں قبل بھی انسان کسی نہ کسی ماورا ہستی کی طرف اپنے تحفظ اور اپنی ضروریات کے حصول کے لیے متوجہ ہوتا تھا۔ اسلام کے علاوہ تمام تہذیبوں اور مذاہب نے جنس کے بارے میں دو طرزِ فکر اختیار کیے ہوئے ہیں۔ کچھ تہذیبوں نے جنس کو نظرانداز کرنے کو روحانیت سے تعبیر کیا تو کچھ نے جنس کو قابلِ پرستش خیال کیا۔ کلاسیکل ہندوازم میں جنس پرستی اور جنسی میلانات کو نظرانداز کرنے کا تصور عام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں آج بھی ہندوازم میں تولیدی اعضاء کی پوجا کی جاتی ہے وہیں جین مذہب میں نروان جو کہ بدھ مت اور جین مت کا ایک اہم تصور ہے۔ (روح کی سمسار یعنی جنموں کے سلسلہ سے آزادی حاصل کرنے کو نروان حاصل کرنا کہتے ہیں) اس کے حصول کے لیے دنیا سے بے رغبتی، لذت مادی اور حواس خمسہ پر غلبہ اور تولیدی اعضاء پر تشدد کو مذہبی رنگ اور شخصی ارتقاء کی پہچان قرار دیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ اسی شدومد کے ساتھ ہندوازم میں ایسے واضح رجحانات بھی موجود رہے ہیں جن میں جنس کو دبا کر اور بالخصوص عائلی زندگی کو ترک کرکے جنگل، بیابان یا صحرا اور پہاڑوں میں جا کر تجرد اختیار کرنے کو روحانیت کی معراج قرار دیا گیا ہے۔ یہ افراط و تفریط اور جنس کے بارے میں دو انتہائیں دیگر مذاہب میں ہی نہیں، بلکہ منتشر الخیال مسلم معاشرے میں بھی نظرآتی رہی ہیں۔ وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنس کے موضوع پر بات کرنا اور وہ بھی کھلی محفل میں، مہذب معاشروں میں عموماً معیوب اور غیر اخلاقی تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنس کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے کسی بھی انسانی معاشرے کا وجود برقرار نہیں رہ سکتا، تو پھر انسان کیا کرے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام افراط و تفریط کی جگہ توازن و اعتدال کی راہ کو انسانیت کا منشور قرار دیتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کو ‘امت وسط’ کے لقب سے نوازا گیا ہے تاکہ وہ اپنے تمام معاملات میں عدل کی روش اختیار کرے۔ اسی بنا پر اسلام کا تصورِ جنس مشرق و مغرب کے مروجہ تصورات سے بنیادی طور پر مختلف ہونے کے سبب ایک الگ تشخص کا حامل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ: لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ قرآن حکیم کی سورۃ الحجرات کی اس ایک آیت میں بہت آسان انداز میں دنیا کے تمام انسانوں کو زمان و مکان کے قیود سے بالاتر یہ بات سمجھا دی گئی ہے کہ تمہارا آغاز ایک مرد اور عورت سے ہوا ہے۔ یہاں تک کہ آج تم پوری دنیا میں موجود ہو اور تمہاری جتنی نسلیں بھی پائی جاتی ہیں وہ در حقیقت ایک ابتدائی نسل کی شاخیں ہیں جو ایک ماں اور باپ سے شروع ہوئی تھیں۔ دوسری اہم بات اس آیت میں یہ واضح کی گئی ہے کہ ایک مرد اور عورت سے فی زمانہ پیدا ہونے والا انسان جنس کے اعتبار سے چاہے وہ مرد ہو یا عورت، ان میں اللہ کے نزدیک عزت فضیلت اور برتری کی بنیاد اگر ہے تو صرف اخلاقی فضیلت ہے۔ اس کے علاوہ کسی شخص کا کسی خاص ملک قوم یا برادری میں پیدا ہونا ایک اتفاقی امر ہے جس میں اس کے اپنے ارادہ و انتخاب اور اس کی اپنی سعی و جہد کا کوئی دخل نہیں ہے۔ لہٰذا کوئی معقول وجہ نہیں کہ اس لحاظ سے کسی کو کسی پر فضیلت حاصل ہو جائے۔ یہ وہ شاہ کلید ہے جو انسانوں کے درمیان جنس، خاندان، قبیلے، ملک،رنگ و نسل،معاشی حیثیت،زبان اور طرز بود، تمام حیثیتوں کی نفی کرتی ہے اور انسان کی تکریم کی بنیاد اگر کوئی قائم کرتی ہے تو یہ کہ وہ دوسروں سے بڑھ کر خدا سے ڈرنے والا، برائیوں سے بچنے والا اور نیکی و پاکیزگی کی راہ پر چلنے والا ہونا چاہیے۔ ایسا آدمی خواہ کسی نسل، کسی قوم اور کسی ملک سے تعلق رکھتا ہو، اپنی ذاتی خوبی کی بنا پر قابل قدر ہے۔ اور جس کا حال اس کے برعکس ہو وہ بہر حال ایک کمتر درجے کا انسان ہے چاہے وہ کالا ہو یا گورا، مشرق میں پیدا ہوا ہو یا مغرب میں یا دنیا کے کسی بھی خطے و مقام میں پیدا ہو۔
انسانی تخلیق کی حقیقت کو سمجھنے کے باوجود عصر حاضر میں جب ہم جنس کے موضوع پر مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ زمانے میں جنس کی اب تک بہتر یا اس سے کچھ زائد اقسام دریافت کرلی گئی ہیں یعنی انسان کی شناخت، اس کی پہچان اور شخصیت کو حد درجہ کنفیوژن میں مبتلا کرکے اسے امن و سکون اور اطمینان دلانے کی بے جا کوشش کی جارہی ہے۔ بالفاظ دیگر انسان کی حیثیت بطور شخصیت مجروح کی جا رہی ہے۔ پھر معاملہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا بلکہ مختلف جنس کے ساتھ جنسیت کے موضوع پر بھی بحث جاری ہے، ان کی آزادی اور ان کے حقوق کے تعلق سے تحریکیں برپا کی گئی ہیں۔ اسی میں ایک اصطلاح LGBTQAI+Plus کو بھی تخلیق کیا گیا ہے جس کے لیے بہت ہی منظم و منصوبہ بند انداز میں آج پوری دنیا میں شور برپا ہے۔ حکومتیں ان LGBTQAI+Plus تحریکات کی زد میں قوانین میں ترمیم کر رہی ہیں اور معاشرے پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ خود ہمارے ملک ہندوستان میں جنس اور جنسیت کے پیش نظر اسکولوں میں بچوں کے لیے جنسی تعلیم کو باقاعدہ ایک موضوع کے تحت پڑھایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم (UNESCO) کی سنہ2021 میں شائع رپورٹ بعنوان”جامعیت کی طرف سفر، جنسیت کی تعلیم،گلوبل اسٹیٹس رپورٹ” کے صفحہ نمبر دس میں واضح کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں جنسیت کی تعلیم کی ذمہ داری غیر مرکزیت پر مبنی ریاستی سطح پر کی گئی ہے۔ ریاستی حکومت کے عزم کے ساتھ ایک مضبوط سرکاری این جی او کی شراکت داری، جنسیت کی تعلیم کو بڑھانے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک نصاب کو اسکول کی نصابی کتابوں،اساتذہ کی خدمت میں اور رائج الوقت تعلیم میں ضم کردیا گیا ہے۔ عملے کے ایک مخصوص رکن کو پروگرام کو مربوط کرنے اور انتظامی تعاون فراہم کرنے کے لیے نامزد کیا گیا ہے اور اس کی شناخت ملک میں اپنی نوعیت کے واحد بڑے پیمانے پر سرکاری اقدام کے طور پر دیکھنے میں آرہی ہے۔
دوسری جانب حال ہی میں صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت نے راجیہ سبھا کو راشٹریہ کشور سوستھیا کاریاکرم (RKSK) کے تعلق سے ملک میں نو عمر بچوں کی صحت اور بہبود پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے اسکیم کے کلیدی نکات کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ :(i)صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت (MoHFW) نے سنہ 2014 میں راشٹریہ کشور سوستھیا کاریکرم (RKSK) کا آغاز کیا تھا۔(ii)اس کا ارادہ نوجوانوں کی مجموعی ترقی کو یقینی بنانا ہے۔(iii)RKSK پروگرام شہری اور دیہی علاقوں میں 10 تا 19 سال کے عمر کے نوجوان لڑکے،لڑکیوں، شادی شدہ اور غیر شادی شدہ، غریب اور امیر، اسکول میں ہوں یا اسکول سے باہر تمام نوجوانوں کے لیے ہے۔(iv)یہ پروگرام تمام نوعمروں تک پہنچنے پر اپنی توجہ مرکوز کرتا ہے جن میں LGBTQAI+Plus سب شامل ہیں۔ اس میں جو لوگ شامل ہوتے ہیں اُن میں Lesbians یعنی ہم جنس پرست خواتین بھی ہیں جو دوسری خواتین کی طرف راغب ہوتی ہیں۔ Gay ایسے ہم جنس پرست مرد ہوتے ہیں جو دوسرے مردوں کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ Bisexual ایسے مرد اور عورتیں جو دونوں طرف راغب ہوتے ہیں۔Transgender یہ اصطلاح پہلی بار 1960 کی دہائی میں وضع کی گئی اور اس سے مراد ہر وہ شخص ہے جس کی صنفی شناخت اس جنس سے مماثل نہیں ہے جو پیدائش کے وقت تھی۔ اس میں ٹرانس ویمن (وہ عورتیں جن کو پیدائش کے وقت مرد بنایا گیا تھا) ٹرانس مین (وہ مرد جنہیں پیدائش کے وقت عورت بنایا گیا تھا) اور نان بائنری لوگ (جن کو پیدائش کے وقت مرد یا عورت بنایا گیا ہو) شامل ہو سکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آج قابل لحاظ تعداد ہارمون تھراپی یا سرجری کے ذریعہ اپنی جنس تبدیل کروارہے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو صرف لباس تبدیل کرکے اپنی شناخت بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ Intersex ایسے افراد جو نر اور مادہ کروموزوم یا جنسی خصوصیات کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، جنہیں مخنث بھی کہا جاتا ہے۔ Asexual غیر جنسی، یعنی ایسے لوگ جو جنسی کشش بالکل محسوس نہیں کرتے ہیں۔اور +Plus یعنی کوئی بھی جو درج شدہ اصلاحات میں نہیں آتے لیکن پھر بھی کمیونٹی کے حصے کے طور پر شناخت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ (v) اس پروگرام کے نفاذ میں رہنمائی کے لیے MoHFW نے اقوام متحدہ کا پاپولیشن فنڈ (UNFPA) کے ساتھ مل کر ایک قومی بالغ صحت کی حکمت عملی (National Adult Health Strategy)تیار کی ہے۔ (iv) ساتھ ہی RKSK کے ساتھ ساتھ حکمت عملی کے چھ موضوعاتی شعبے غذائیت، جنسی تولیدی صحت، مادے کا غلط استعمال، غیر متعدی امراض، دماغی صحت اور چوٹیں اور تشدد ہیں۔اور آخری (vii) یہ کہ یہ پروگرام کلینک پر مبنی خدمات کو فروغ دینے اور روک تھام کرنے اور نو عمروں تک ان کے اپنے ماحول، جیسا کہ اسکولوں، خاندانوں اور کمیونٹیوں تک پہنچنے کے لیے ایک مثالی تبدیلی کا تصور رکھتا ہے۔ یعنی اس مکمل RKSK پروگرام کے ذریعہ سماجی اور معاشرتی تصورات کو بدلنے کی نہ صرف منظم و منصوبہ بند کوششیں ہیں بلکہ نئے افکار و نظریات اور نیا سماجی تانا بانا بننے کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔بالفاظ دیگر ہندوستانی عقائد و نظریات اور تصورات و طرز عمل سب کچھ متاثر وتبدیل ہو رہا ہے۔ مزید یہ کہ سماجی انصاف کے نام پر جنسی تعلیم کو سماجی انصاف کی تعلیم کا ایک لازمی حصہ قرار دیا گیا ہے۔ کہا یہ گیا ہے کہ یہ تولید کے حیاتیاتی پہلوؤں سے بالاتر ہے اور اس میں صنفی شناخت کا احترام کرنے اور صحت مند باہمی تعلقات کو فروغ دینے کی تعلیمات شامل ہیں۔ دوسری جانب جو لوگ جنسی تعلیم کے لیے منظم جدوجہد کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جنسی تعلیم کے فروغ میں قدامت پسندانہ رویہ رکاوٹ پیدا کرتا ہے، نصاب محدود ہے اور بہت سے اسکول معیاری جنسی تعلیم فراہم نہیں کرتے، علاقائی زبانوں میں الفاظ کی عدم موجودگی کی وجہ سے رکاوٹ ہے، سیاسی جماعتیں اور راہنما اکثر جنسی تعلیم کے فروغ میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر جنسی تعلیم ابھی بھی ہندوستان میں عام نہیں ہوسکی ہے، اگر یہ رکاوٹیں دور ہوجائیں تو جنسی تعلیم کا بڑے پیمانے پر فروغ ممکن ہے۔یہ ہے ہماری موجودہ تعلیمی پالیسی کا ایک نکتہ اور عصر حاضر میں تعلیمی نیز، ثقافتی و معاشرتی اداروں اور مفکرین کی صورت حال جسے گفتگو کے پس منظر میں سمجھنا آسان ہے۔ اور اگر اس پالیسی اور پروگرام کی اساس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اس کے پیچھے وہی جنس کی شناخت اور جنسیت کا ابھرتا ہوا رجحان ہے جس کے بہاؤ میں خاندان، خاندانی نظام اور خاندانی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی حق تلفی کی مثالیں چہار جانب پروان چڑھ رہی ہیں اور نتیجہ میں فرد واحد، گھر، خاندان اور معاشرے میں فساد برپا ہے۔
اس پس منظر میں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ نہ صرف گھر،خاندان اور کام کے مقامات پر جنسیت کی منفی سوچ کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور خواتین کے ساتھ جنسی جبری تعلقات اور ان کی عفت و عصمت کے مسائل سامنے آرہے ہیں بلکہ تعلیمی اداروں میں بھی یہ بات اب عام ہوچکی ہے۔اسوسی ایشن آف امریکن یونیورسٹیز کے ایک سروے کے مطابق، تقریباً 23 فیصد انڈر گریجویٹ طالبات نے کالجوں میں اپنی تعلیم کے دوران زبردستی یا معذوری کے ذریعہ غیر متفقہ جنسی تعلق کا سامنا کیا۔ 2019 کے پیو ریسرچ سنٹر کے سروے سے پتہ چلتاہے کہ 56 فیصد امریکی بالغوں کا خیال ہے کہ ہائر سیکنڈری اسکولوں میں جنسی طور پر ہراساں کرنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یورپین انسٹیٹیوٹ فار جینڈر ایکیولٹی کے سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ یورپی یونین میں پندرہ تا ستر سال کی عمر کی پینتیس فیصد خواتین کو پندرہ سال کی عمر سے ہی کسی نہ کسی قسم کے جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یورپین یونین ایجنسی فار فنڈامینٹل رائٹس کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پندرہ تا سترہ سال کی عمر کے 59 فیصد طلباء نے اسکول میں لڑکیوں یا خواتین کے بارے میں جنس پرستانہ تبصرے سنے تھے، اور 14 فیصد نے غیر مطلوبہ جنسی حوالے سے چھونے یا جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کی اطلاع دی تھی۔ جب کہ ایکشن ایڈ انڈیا کے 2018 میں کرائے گئے ایک سروے سے پتا چلتا ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں 52 فیصد لڑکیوں نے جنسی ہراسانی کا سامنا کیا۔ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ جنسی بے راہ روی کا آغاز بچوں میں اسکولوں کے اندر مخلوط تعلیمی نظام اور اخلاق باختہ افکار و نظریات کا نتیجہ ہیں نیز، تعلیمی اداروں میں جو جنسیت کی تعلیم دی جارہی ہے اور لڑکپن میں جنسی رجحان،جو ایک فطری عمل ہے، اس میں بے جا آزادی نے یہ ماحول پروان چڑھانے میں حددرجہ تعاون کیا ہے۔خواتین اور بچوں کی ترقی سے متعلقہ بھارتی وزارت کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً 54 فیصد فیصد طلباء کو کسی نہ کسی شکل میں جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسی طرح ورلڈ بینک اینڈ اکنامک کمیشن فار افریقہ کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ افریقی یونیورسٹیوں میں جنسی طور پر ہراساں کرنا ایک اہم مسئلہ ہے، جس کے واقعات مختلف ممالک میں 25 سے 67 کے درمیان ہیں۔ یہاں یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ یہ اعداد و شمار مکمل نہیں ہیں اور انڈر رپورٹنگ اور ثقافتی عوامل کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کا پھیلاؤ زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔
موجودہ حالات کے تناظر میں جنس اور جنسیت کے موضوع کو اسلام عدل پر مبنی تصورات اور مضبوط خاندانی نظام کے تحت پیش کرتا ہے۔لہٰذا اسلام یہ چاہتا ہے کہ وہ رشتہ جو جنس کے ذریعے قائم ہونے جا رہا ہے، اس سے قبل ایک اخلاقی تعلق بھی پیدا کیا جائے جو سکون، رحمت اور مؤدت کا ہو، جس کے نتیجے میں انسانیت کو بھلائی حاصل ہو۔ اس فریم ورک میں رہتے ہوئے اسلام نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر حلال و حرام کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے لذت کا حصول ہو تو وہ بری چیز نہیں ہے، بلکہ ایک اچھی اور مطلوب چیز ہے جو آنکھوں کو ٹھنڈک فراہم کرتی ہے، لیکن اس لذت کے حصول میں بھی اصل مقصد سامنے رہنا چاہیے۔ اسلام چاہتا ہے جنس پر اخلاقی اور معاشرتی نقطہ نظر سے گفتگو ہو اور خاندان کے تناظر میں جنس کو زیر بحث لایا جائے۔ وہ اسے اللہ تعالیٰ کے ایک انعام کے طور پر، ایک امانت کے طور پر اور ایک احسان کے طور پر بیان کرتا ہے۔ اسی لیے قرآن میں فرمایا گیا "اور اللہ ہی نے تمہارے گھروں کو تمہارے لیے سکون کی جگہ بنایا” (النحل:80)۔ مزید فرمایا گیا "اور اسی کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے (ایک یہ بھی) ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت و ہمدردی پیدا کردی۔ بلاشبہ اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر سے کام لیتے ہیں” (الروم:21)۔ قرآن کریم جنسی جذبے کو حلال و حرام اور پاکیزگی اور نجاست کے تناظر میں بیان کرتا ہے تاکہ حصولِ لذت ایک اخلاقی ضابطے کے تحت ہو نہ کہ فکری اور جسمانی آوارگی کے ذریعے؟ چنانچہ عقدِ نکاح کو ایمان کی تکمیل اور انکار کو اسلام سے بغاوت سے تعبیر کیا گیا ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 ستمبر تا 21 ستمبر 2024