نظام تعلیم کے بحران کو حل کرنے کی ضرورت

کثیر طلبہ اور کم اساتذہ سے تعلیم کا معیار شدید متاثر

0

عرفان شاہد

حالیہ برسوں میں بھارت میں اسکولی تعلیم شدید تنقید کی زد میں ہے۔ نہ صرف تعلیمی اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے بلکہ تعلیم کا معیار بھی دن بہ دن گرتا جا رہا ہے۔ ایک تشویش ناک رجحان یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے نجی اسکولوں نے تعلیم دینے کے بجائے والدین کا مالی استحصال کرنے کو اپنا مقصد بنا لیا ہے۔ اسکول، جو کہ علم اور تربیت کے مراکز ہونے چاہئیں، اب منافع خوری کے مراکز بن چکے ہیں۔
تعلیم کے بجائے منافع خوری کا رجحان۔ سب سے زیادہ پریشان کن مسئلہ اسکول فیس میں مسلسل اضافہ ہے۔ نرسری اور لوئر کے جی (LKG) کی سطح پر ہی والدین سے سالانہ ایک لاکھ سے ڈھائی لاکھ روپے تک فیس وصول کی جاتی ہے۔ یہ ایک تشویش ناک صورتِ حال ہے، خاص طور پر ایسے ملک میں جہاں ایک بڑی آبادی اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں دشواریوں کا سامنا کرتی ہے۔
حالیہ اعداد و شمار کے مطابق بھارت کا متوسط طبقہ گزشتہ چند برسوں میں شدید اقتصادی دباؤ کا شکار ہو کر تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ نجی اسکول والدین سے پیسے نکالنے کے لیے نت نئے طریقے تلاش کرتے ہیں۔ اکثر والدین کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ یونیفارم، جوتے، کتابیں اور اسٹیشنری اسکول ہی سے خریدیں جو مارکیٹ ریٹ سے 30 تا 45 فیصد مہنگی ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اسکول بنیادی ادویات بھی زائد قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔ اگر اسکولوں کو تعلیم اور راشن کے درمیان کوئی تعلق میسر آ جائے تو وہ والدین کو اناج بھی خریدنے پر مجبور کر دیں۔ اسی طرح اگر اسکول کے پاس کوئی پیٹرول پمپ ہوتا تو وہ والدین کو یہ کہنے سے نہ چوکتے کہ صرف اسکول کے پیٹرول پمپ سے ہی ایندھن بھروایا جائے۔
یہ ہے تعلیمی معیار کی زبوں حالی۔ بد قسمتی سے اسکولوں کی ترجیح اب تعلیم نہیں رہی۔ کئی اسکول والدین کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو مہنگے پرائیویٹ ٹیوشنز میں داخل کریں۔ یہ رجحان خود اس بات کی علامت ہے کہ اسکولز اپنا بنیادی فرض نبھانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ نتیجتاً والدین کو نہ صرف ہوم ورک میں بچوں کی مدد کرنی پڑتی ہے بلکہ بعض اوقات خود پڑھائی کرنی پڑتی ہے۔ بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بچے نہیں، بلکہ والدین تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
اصل مسئلہ اسکولوں کی ناقص انتظامیہ میں ہے۔ عموماً ایک کلاس میں 40 سے 50 بچے ہوتے ہیں جنہیں ایک ہی استاد پڑھاتا ہے۔ 30 سے 40 منٹ کی کلاس میں ایک استاد کا تمام طلبہ پر توجہ دینا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔
تعلیمی تحقیق بتاتی ہے کہ مؤثر تدریس کے لیے فی استاد 15 سے 20 طلبہ کا ہونا زیادہ بہتر ہے۔ زیادہ بھیڑ والی کلاسوں میں طلبہ کو معیاری تعلیم ملنا محال ہوتا ہے جس کا نتیجہ سطحی معلومات اور رٹنے کی عادت کی صورت میں نکلتا ہے۔
تعلیم انسان کا ایک بنیادی حق ہے۔ معاشیات کی زبان میں اسے merit goods کہا جاتا ہے اور اس کا ہر شہری کو دستیاب ہونا نہایت ضروری ہے — چاہے وہ امیر ہو یا غریب۔ مگر بدقسمتی سے اب یہ دولت مند طبقے کی کٹھ پتلی بنتی جا رہی ہے۔
اگر فوری اصلاحات نہ کی گئیں تو شرحِ خواندگی میں اضافہ رک جائے گا اور شرحِ ناخواندگی دوبارہ بڑھنے لگے گی۔ ناخواندگی کے بڑھنے سے بے روزگاری، غربت اور جرائم میں اضافہ ہوگا۔ بے روزگاری پہلے ہی بھارت میں ایک سنگین مسئلہ ہے اور معیاری تعلیم کے بغیر نوجوانوں کے لیے نوکری حاصل کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔ تعلیمی سطح میں کمی اور جرائم کی شرح میں اضافے کے درمیان براہِ راست تعلق پایا جاتا ہے۔
حکومتی غفلت اور میڈیا کا کردار
بد قسمتی سے حکومت اور میڈیا اس سنگین مسئلے کی طرف توجہ دینے کے بجائے نوجوانوں کو غیر ضروری اور غیر صحت مند سرگرمیوں میں مشغول کر رہے ہیں۔ اگر حکومت نے فوری طور پر ٹھوس اقدامات نہ کیے تو تعلیم کا شعبہ مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سرکاری تعلیمی اداروں میں سرمایہ کاری کرے، نجی اسکولوں کے بے لگام رویّے کو کنٹرول کرے اور تعلیم کو ہر شہری کی دسترس میں لائے۔
اسلام کا تعلیمی ماڈل اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں
اسلام نے تعلیم کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
"علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے” (ابن ماجہ)
تعلیم محض دنیاوی ترقی کا ذریعہ نہیں بلکہ شخصی نشوونما، معاشرتی فلاح اور روحانی ارتقاء کا وسیلہ بھی ہے۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کو اس پہلو پر ازسرنو غور کرنا ہوگا۔ آج بہت سے مسلمان اپنی دولت فضول رسومات، شادیوں پر بے جا اخراجات اور غیر ضروری جھگڑوں میں ضائع کر رہے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنی توانائی اور وسائل کو معیاری تعلیمی ادارے قائم کرنے میں صرف کریں۔ ایسے اسکول بنائے جائیں جہاں نفع خوری کے بجائے حقیقی علم اور تربیت پر توجہ دی جائے۔ مسلمانوں کو ماضی کی روایات کو زندہ کرنا ہوگا، جب انہوں نے القروین (مراقش) اور الازہر (مصر) جیسے عظیم ادارے قائم کیے تھے، جو نہ
صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کے لیے بھی علم کے مراکز تھے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 جولائی تا 12 جولائی 2025