نظام کی تبدیلی میں تعلیمی نظریات کا کردار

نفع بخش علم؛ یادداشت کی حدود سے پرے، عمل و اطلاق کا بھی سبب بنے

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

دنیا میں رائج تصورات کسی نہ کسی نظریہ سے وابستہ ہوتے ہیں جو معاشرے میں مختلف حیثیتوں سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان حالات میں افراد کا متاثر ہونا لازم ہے۔پھر یہ نظریات کہیں قابل قبول تو کہیں قابل ردہوتے ہیں۔اس کے برخلاف وہ تصورات اور سرگرمیاں جونظریہ سے خالی ہوں، نہ ان کی زندگی ہوتی ہے نہ ان کو بقا اور دوام ہوتا ہے۔پھر نئےنظریات افراد اور گروہوں میں اچانک نمودار نہیں ہو جاتے بلکہ ایک طویل مدتی جدوجہد اس کے پیچھے کارفرما ہوتی ہے۔پہلے اہل علم و فکر کے نظریہ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، انہیں ساتھ لیا جاتا ہے اور ان کو مختلف حیثیتوں سے ترقی بخشتے ہوئے عزت و تکریم دی اور دلوائی جاتی ہے۔پھر ان اہل علم کو نوجوانوں کی فکری اصلاح کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔اور بہت جلد نئی نسل ایک نئے آب و تاب کے ساتھ نئی سوچ،نئی فکر اور نئے زاوئیے کے ساتھ پروان چڑھتی ہے۔یہ نسل جب ذرا بالغ ہوتی ہے تو وہ اپنے بچوں کی جانب متوجہ ہوتی ہے۔ اس طرح بچوں سے لے کر نوجوانوں اور زندگی کے ہرعمر کے افراد اس مخصوص نظریہ کے فروغ میں ہمہ جہت پہلوؤں سے سرگرم عمل ہو جاتے ہیں۔یہاں تک کہ بعض اوقات نظریہ کو بالادستی حاصل ہوجاتی ہے۔اور قدیم روایات،قدیم اقدار اور قدیم نظریات کے افراد بظاہر اپنی ناکامی کو محسوس کرتے ہوئے نفسیاتی کمزوریوں کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں۔ ایسے افراد کی آہستہ آہستہ شناخت بھی باقی نہیں رہتی اور اگر رہتی بھی ہے تو ظاہر نہیں ہوتی۔ اس طرح وہ اپنی حیثیت کھوچکے ہوتےہیں اور ان کی کوئی قدر و قیمت باقی نہیں رہتی۔
اس تناظر میں نظریہ کے فروغ کے لیے جو سب سے مؤثر طریقہ اختیار کیاجاتا ہے وہ تعلیمی نظام ہے۔تعلیمی نظام نظریات کو فروغ دینے کا آسان ذریعہ ہے اور تصورات کو ایک خاص رنگ میں ڈھالنے میں معاون و مددگار ہے۔ ماضی قریب میں یہ احساس بھی شدت سے پیدا ہوا ہے کہ تعلیم کے تصور کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے سماجی نقطہ نظر سے اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیم جو اپنے تئیں سماجی مظاہر میں سے ایک ہے، اس کا مکمل احاطہ اسی نقطہ نظر سے ممکن ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ تعلیمی کاوشیں انفرادی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ نہ صرف بہت حد تک نظریات سے متاثر ہیں بلکہ اکثر اوقات نظریات ہی ان کی بنیاد ہوتے ہیں۔ تعلیمی سرگرمیوں (Educational Practices) کے تجزیے کے لیے تعلیم اور نظریات کے تعلق کو سمجھنا بھی ضروری ہے اور یہ بھی کہ نظریات تعلیم کے تصور اور عمل میں کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ سماجی عمل میں نظریے کی اہمیت کا مزید تجزیہ کرنے سے قبل ضروری ہے کہ لفظ نظریہ Ideology کی وضاحت ہو جائے۔ نظریہ کو عام طور پر منفی معنی میں بیان کیا جاتا ہے اور لوگوں کو باور بھی کرایا جاتا ہے کہ فلاں نظریہ غالب آنے والا ہے، فلاں کے غلبہ کے لیے یہ کوششیں ہو رہی ہیں اور فلاں نظریات کے حاملین کو مخصوص نظریہ کے فروغ کے نتیجہ میں نقصانات کا اندیشہ ہے۔لیکن موجودہ زمانے میں نظریہ کو فلاسفی کا نعم البدل لفظ گردانا جانے لگا ہے۔ نظریے کو سادہ لفظوں میں عقائد کا مجموعہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایسے عقائد جو انفرادی نہیں بلکہ گروہی طور پر اپنائے گئے ہوں۔
معاشرتی اداروں میں تعلیم کاسماجی عمل Socialization اہم کردارادا کرتا ہے۔چونکہ تعلیمی ادارے مخصوص نظریات کی تشکیل اورتسلسل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور مخصوص نظریات کی بنیاد پر معاشرے کے بااثر اور ممتاز افراد کے مفادات کی نگہبانی کا کام انجام دیتے ہیں لہٰذا عموماً نظریات پر مبنی تعلیمی اداروں سے ایک خاص گروہ اپنی دوری بنائے رکھتا آیا ہے۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ گروہ اور اس سے وابستہ افراد خود اپنے آپ میں چند نظریات سے وابستہ ہوتے ہیں اور اپنی مخصوص شناخت بھی رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی مخصوص شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے اور جن نظریات سے وہ وابستہ ہیں اس کے فروغ کے لیے مخالف نظریات کے حاملین و اداروں سے دوری بنائے رکھتے ہیں اور بظاہر یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ کسی مخصوص نظریہ سے تعلق نہیں رکھتے۔آزاد بھارت کا تذکرہ ہو یا آزادی سے قبل انگریز کے بھارت کا، ہر دو ادوار میں تعلیمی نظریات کو بنیاد بنا کر مخصوص نظریات کو فروغ دینے کی منظم ومنصوبہ بند کوششیں کی گئی ہیں۔ وہیں مخالف نظریات کو کمزور کرنے کی بھی بھر پور اور منظم و منصوبہ بند کوشش کی جاچکی ہیں اور یہ کوششیں آج 2024 کے بھارت میں بھی پوری آن بان اور شان کے ساتھ جاری ہیں۔
موجودہ تعلیمی نظام میں جہاں بہت ساری خوبیاں ہیں تو وہیں بڑی تعداد میں خامیاں بھی موجود ہیں جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے ۔ٹھیک یہی معاملہ تعلیمی نظریات کا بھی ہے۔موجودہ تعلیمی نظریات میں استاد ممتاز ہے اور علم کا سر چشمہ ہے، جبکہ شاگرد کا کام صرف وصول کرنا ہے۔ ماہرین تعلیم مخصوص نظریات کے تناظر میں نصاب مرتب دیتے ہیں، تاریخ لکھتے ہیں جو ان سے بہت ساری تبدیلیوں کے ساتھ لکھوائی جاتی ہے اور ان معاشرتی اصولوں کو مرتب کرتے ہیں جن کی بنیاد پر ایک نئے معاشرہ کی تشکیل پیش نظر ہوتی ہے۔پھر اسی تبدیل شدہ نصاب کے تحت تعلیمی اداروں میں مخصوص ماحول پروان چڑھایا جاتا ہے جو ان تعلیمی نظریات کے فروغ میں معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔اس طرح آغاز تا اختتام طلبہ کو مخصوص نہج پر تعلیمی ادارے محسوس تو کبھی غیر محسوس انداز میں ایک نیا تعلیمی نظام مہیا کرتے ہیں۔نتیجہ میں مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے جن نوجوانوں کو ہم پروان چڑھاتے ہیں وہ عموماً کسی اور نظریہ، فکریا تصور کو قبول کرنے کے لائق ہی نہیں رہتے۔نیز، جب وہ اپنی معاشی زندگی سے دوچار ہوتے ہیں تو انہیں روز مرہ کی بھاگ دوڑ اور تگ ودو کی تکان کسی اور جانب سوچنے سمجھنے اور غور وفکر کے مواقع ہی میسر نہیں ہونے دیتی۔کیونکہ اب ان کی زندگی کا عموماً صرف ایک مقصد باقی رہ جاتا ہے اور وہ ہے زندگی میں زیادہ سے زیادہ آرام و آسائش اور دنیا کی لذتوں کا حصول۔اس طرح اچھے خاصے خاندانوں کے بچوں کی زندگیاں مقصدیت سے عاری ہو جاتی ہیں اور اس کی بنیادی وجہ ہمارا یہ تعلیمی نظام ہے جو آج مروج ہے اور اس میں بھی ہمارا وہ موجودہ امتحانی نظام جو غیر مربوط قسم کی زبانی یاد کی گئی چیزوں پرمرکوز ہے جن میں ایسے سوالات سرے سے امتحانی پرچے میں شامل ہی نہیں ہوتے جن کا تعلق حاصل شدہ علم کے اطلاق Application of Knowledge سے ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ صورتحال ہمیں اس بات کی طرف راغب کرتی ہے کہ ہم اس تعلیمی نظام کی آئیڈیالوجی کا از سر نو جائزہ لیں جس کی بنیاد پر معاشرے کے طاقتور گروہ مزید طاقتور بنتے جا رہے ہیں اور غریب مزید غربت میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے مروجہ تعلیمی نظام میں جس طرح کی تعلیم دی جا رہی ہے اس کے مطابق تعلیمی ادارے موجودہ طاقتور افراد، گروہ اور برسر اقتدار لوگوں کے معاون بنے ہوئے ہیں اور اس طرح امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
موجودہ مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ ایک جانب ان تعلیمی نظریات کو فروغ دیا جائے جو صرف مادیت پر مبنی نہ ہوں بلکہ ان کے اندر عدل و قسط کے پیمانے بھی موجود ہوں۔نیز، انسان خود شناسی، خدا شناسی، کائنات کی حقیقت، نسل انسانی کی حقیقت اور وسائل دنیا کی حقیقتوں سے صحیح معنوں میں واقف ہو۔ وہیں مسائل کے حل کے لیے یہ بھی ضرری ہے کہ موجودہ امتحانی نظام کو بدلا جائے۔ موجودہ تعلیمی نظام طالب علم کی یادداشت کا صرف امتحان لیتا ہے نتیجہ میں ایک طالب علم اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں ناکام رہتا ہے۔ لہٰذا ہمیں ایک ایسا نظام چاہیے جہاں طالب علم تخلیقی اور تنقیدی سوچ کا استعمال کرتے ہوئے مختلف صورتوں میں علم کو استعمال کر سکیں اور اگر اس علم میں حقیقی علم بھی شامل ہوجائے تو مزید بہتری کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ یہ بات عیاں ہے کہ تحقیق کے نام پر ایم اے اور پی ایچ ڈی کرنے والے طلبہ بھی قبل از وقت موجود علم ہی کو الفاظ کے الٹ پھیر کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے لفظ ‘تحقیق’ سے کھلواڑ کرتے ہیں۔ ہمیں ٹرانسمیشن Transmission کے ماڈل سے ٹرانسفارمیشن Transformation کے ماڈل کی طرف جانا ہو گا۔ کیونکہ موجودہ ٹرانسمیشن Transmission ماڈل صرف نظریات اور تصورات کی نسل در نسل منتقلی کو ممکن بناتا ہے۔تعلیم کو بامعنی بنانے کے لیے ہمیں اب مکمل تبدیلی کے انداز کی طرف رجوع کرنا ہوگا جہاں تعلیم کا مقصد سماجی،معاشرتی،معاشی اور سیاسی نظام کی اصلاح اور عدل و انصاف کا حصول ہونا چاہیے۔
مولانا مودویؒ دور جدید کے ایک اہم ترین مجدد گزرے ہیں۔ وہ ایک مشہور عالم دین اور مفسر قرآن بھی ہیں۔ ان کا لٹریچر زمانہ حال میں اسلامی نظام حیات کو سمجھنے اور اس کے قیام و استحکام میں حد درجہ معاون ہے۔ساتھ ہی انہوں نے دور جدید کے فتنوں کا احاطہ کیا ہے اور نوجوانان ملت کو حوصلہ بخشا ہے کہ وہ اسلام کو مکمل طور پر اپنی زندگی میں اختیار کریں۔اس کے لیے انہوں نے نہ صرف ایک خاکہ پیش کیا بلکہ علمی و تحقیقی بنیادوں پر ایک ضخیم لٹریچر بھی فراہم کیا ہے۔ساتھ ہی ایک جماعت قائم کی ہے جو برصغیر ہندوپاک کی معروف ترین جماعت ہے۔
علم کے تعلق سے وہ بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دنیا میں جتنے بھی علوم و فنون ہیں وہ سب درحقیقت دو حصوں پر مشتمل ہیں۔ایک حصہ تو خالص ان معلومات پر مشتمل ہے جو انسان کو دنیا اور اس کی زندگی اور خود اس کی اپنی زندگی کے متعلق مختلف زمانوں میں حاصل ہوتی ہیں اور دوسرا حصہ یہ ہے کہ حاصل شدہ معلومات کو ہر گروہ اور ہر قوم اپنے ذہن اور اپنے طرز فکر اور اپنے نقطۂ نظر کے مطابق مرتب کرتی ہے۔اس کی مثال یوں سمجھیے کہ روئے زمین پر جو کھانے پینے کا سامان پھیلا ہوا ہے، قریب قریب سب میں مشترک ہے، بجز ان فرقوں کے جو جغرافیائی اعتبار سے بٹ گئے ہیں ورنہ ایک ہی قسم کا مواد انسان کی خوراک کے لیے اس زمین پر موجود ہے لیکن ہر قوم کے لوگ اپنے اپنے ذوق کے مطابق،اسی مواد کو اپنے مخصوص طریقوں سے پکاتے اور کھاتے ہیں۔ایسا ہی معاملہ علمی معلومات کا بھی ہے کہ جہاں تک حقائقِ اشیاء یا اس کے بارے میں معلومات کا تعلق ہے،ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔فرق اس صورت میں ہے کہ ان معلومات کو جمع اور مرتب کرنے والا ذہن جس طرز پر سوچتا ہے اور جو نظریہ رکھتا ہے اس کے مطابق ان کو مرتب کرکے کون سا فلسفۂ زندگی بناتا اور کیسا نظام فکر و عمل مرتب کرتا ہے۔ اور اسی وجہ سے تہذیبوں کی شکلیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ چناں چہ تمام دنیا میں جتنی بھی تہذیبیں ہیں وہ ان معلومات ہی پر مبنی ہیں جو اس کائنات کے متعلق انسانوں کو حاصل ہیں۔لیکن ہر تہذیب نے اپنے نقطہ نظر کے مطابق ان معلومات کو مرتب کیا ہے اور اس سے ایک نظام فکر و عمل بنایا ہے اور اسی نظام فکر وعمل کا نام ایک خاص تہذیب ہے۔ ہر تہذیب کے امتیازی خطوط اور امتیازی خدو خال اسی چیز کی بدولت پائے جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو قوم سوچنا، تحقیق کرنا، معلومات جمع کرنا اور نئی نئی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرنا چھوڑ دیتی ہے تو وہ جمود میں مبتلا ہوجاتی ہے۔جمود کا نتیجہ انحطاط ہوتا ہے اور انحطاط کے نتیجہ میں اس پر کسی دوسری قوم کو غلبہ حاصل ہو جاتا ہے۔اور جب کسی دوسری قوم کا غلبہ ہوتا ہے تو لامحالہ وہ محض سیاسی اور معاشی حیثیت ہی سے غالب نہیں ہوتی بلکہ فکری حیثیت سے بھی غالب ہوتی ہے۔اب اس کے بعد دوسرا مرحلہ اس مغلوب قوم کا شروع ہوتا ہے جب وہ دوسروں کی تقلید کرنا شروع کردیتی ہے۔دوسروں کا پس خوردہ کھانا شروع کردیتی ہے۔تحقیقات دوسرے کرتے ہیں، ان کو جمع دوسرے لوگ کرتے ہیں،ان کو مرتب کرکے ایک فلسفہ حیات دوسرے لوگ بناتے ہیں،ایک نظام فکر و عمل دوسرے لوگ تیار کرتے ہیں اور یہ ان کے پیچھے پیچھے چلتی ہے اور ان کی ہر چیز کو قبول کرتی چلی جاتی ہے۔یہ عمل جس قدر بڑھتا جائے گا اور اسی قدر تکمیل تک پہنچتا جائے گا، اس مغلوب قوم کی انفرادیت ختم ہوتی چلی جائے گی۔یہاں تک کہ یہ فنابھی ہوسکتی ہے بلکہ ہوتی رہی ہے۔ ایسی قومیں دنیا میں گزری ہیں جو اس طرح مٹیں کہ اب ان کی تہذیب صرف تاریخ کا سرمایہ ہے اور دنیا میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی تحریک جب دنیا میں اٹھی تھی اس وقت مسلمانوں نے دوسری قوموں پر محض سیاسی یا فوجی غلبہ ہی حاصل نہیں کیا بلکہ اس سے بڑی بات یہ تھی کہ مسلمان بھی اس وقت ایسے تھے جو تحقیقی کاموں میں پیش پیش تھے،جنہوں نے نہ صرف یہ کہ زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی بلکہ ان معلومات کو اپنے نقطہ نظر، اپنے طرز فکر اور اپنے عقیدے کے مطابق مرتب بھی کیا۔ چناں چہ ایک ایسی غالب تہذیب اس کی بدولت وجود میں آئی جس کے رنگ میں دنیا رنگتی چلی گئی۔

 

***

 اسلامی تحریک جب دنیا میں اٹھی تھی اس وقت مسلمانوں نے دوسری قوموں پر محض سیاسی یا فوجی غلبہ ہی حاصل نہیں کیا بلکہ اس سے بڑی بات یہ تھی کہ مسلمان بھی اس وقت ایسے تھے جو تحقیقی کاموں میں پیش پیش تھے،جنہوں نے نہ صرف یہ کہ زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی بلکہ ان معلومات کو اپنے نقطہ نظر، اپنے طرز فکر اور اپنے عقیدے کے مطابق مرتب بھی کیا۔ چناں چہ ایک ایسی غالب تہذیب اس کی بدولت وجود میں آئی جس کے رنگ میں دنیا رنگتی چلی گئی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اکتوبر تا 2 نومبر 2024