نظام عدل پر حاوی ہونےکی کشمکش !

حکومت کا ججوں کی تقرری میں واضح کردار پر اصرار۔سپریم کورٹ کالجیئم کو برقرار رکھنے پر اٹل

نور اللہ جاوید، کولکاتا

مقننہ کو بے لگام اختیاراتاقلیتوں اور پسماندہ طبقہ کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے
عدالتوں میں سماجی نمائندگی کی مایوس کن صورتحال پر کوئی توجہ نہیں!
عجب اتفاق ہےایک طرف ملک نے 74واں یوم جمہوریہ بڑے ہی تزک و احتشام کے ساتھ منایا تو دوسری طرف حکومت جمہوریت کے نہایت اہم ستون عدلیہ کے ساتھ بالادستی کی جنگ میں برسر پیکار ہے ۔مقننہ و عدلیہ دونوں ایک دوسرے پر تنقیدیں کررہے ہیں ۔مرکزی حکومت ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری میں بہر صورت اپناکردار چاہتی ہے ۔اس لیے مرکزی وزیر قانون جن کی ذمہ داری عدلیہ اور ایگزیکٹیو کے درمیان رابطہ قائم کرنے ، انصاف کی راہیں ہموار کرنے اور عدالت کے سامنے جوابدہی کی تھی، وہ ’کالجئیم نظام‘ کو لے کر آخری جنگ لڑنے کے موڈ میں ہیں ۔’کالجیئم سسٹم‘ کے خلاف انہوں نے جس طرح کا لب و لہجہ اختیار کیا ہے وہ تعجب خیز ہے۔انہوں نے اپنے بیان میں کہا ’’2014میں سپریم کورٹ کےذریعہ نیشنل جوڈیشل اپائنٹمنٹ کمیشن ایکٹ 2014 کو رد کرنے کے فیصلے کومرکزی حکومت نے من و عن تسلیم کرلیا تھا جبکہ حکومت کے پاس متبادل راہ نکالنے اور مزید اقدامات کرنے کی گنجائش تھی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ’مرکزی حکومت ہمیشہ خاموش‘ رہے گی۔ دنیا بھر میں ججز، ججوں کی تقرری نہیں کرتے لیکن ہمارے ملک میں ایسا ہوتا ہے۔مرکزی وزیر قانون کے اس بیان کے بین السطور سے صاف دھمکی ظاہر ہو رہی ہے۔ وہ گویا وارننگ دے رہے ہیں کہ ججوں کی تقرری کے عمل سے زیادہ دنوں تک حکومت باہر نہیں رہ سکتی۔ اس کے معاً بعد ہی مرکزی وزیر قانون نے چیف جسٹس آف انڈیا کے نام خط لکھ کر ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری کے لیے ’’سرچ اینڈ ایویلیویشن کمیٹی‘‘کے قیام کی تجویز پیش کی اور اس میں حکومت کے نمائندے کو شامل کرنے سفارش کی ۔کرن رجیجوکے بیان اور خط پر تنازعات کی تپش ابھی باقی ہی تھی کہ ملک کے نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکرنے جو ماضی میں سپریم کورٹ کے سینئر وکیل بھی رہ چکے ہیں پارلیمنٹ کے ذریعہ پاس کیے گئے قوانین پر سپریم کورٹ کے ذریعہ نظرثانی کے اختیارات پر سوال کھڑا کرکے عدلیہ کے ساتھ تنازع کا ایک نیا باب کھول دیا ہے ۔ 83ویں آل انڈیا پریسائیڈنگ آفیسرز کانفرنس سے خطاب کے دوران نائب صدر جمہوریہ نے 1973میں کیسونندا بھارتی کیس پر عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیتے کہا کہ ’’اگر کوئی ادارہ کسی بنیاد پر پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون کو روکتا ہے تو یہ جمہوریت کے لیے اچھا نہیں ہے، اور یہ کہنا مشکل ہے کہ ہم ایک جمہوری قوم ہیں‘‘۔ عدلیہ کو پارلیمنٹ سے نکلنے والے آئینی قوانین کی تعمیل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ عدالت نیشنل جوڈیشل اپائنٹمنٹ کمیشن ایکٹ 2014 پر عمل کرنے کی پابند تھی مگر اس کو عدالت نے رد کردیاہے۔ جگدیپ دھنکر بین السطور میں مقننہ (پارلیمنٹ) کو بے لگام اختیارات کی وکالت کررہے ہیں۔گویااس وقت جمہوریت کے تین اہم ستون مقننہ، عاملہ اور عدلیہ ایک دوسرے سے سربگریباں ہیں۔آئین کے نفاذ کے 73سال بعد بھی جمہوریت کے تین ستون اگر اپنے حقوق و اختیارات کی باتیں کررہے ہیں تو اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہوسکتا ہے؟ سات دہائیاں گزرگئیں مگر جمہوری ادارے اب تک اپنے اختیارات کے دائرہ کار کو طے نہیں کرسکے ہیں ۔ سوال یہ بھی اہم ہے کہ آخرنائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکر ایک ایسے وقت جب کالجیئم پر عدلیہ اور ایگزیکٹیو کے درمیان رسہ کشی جارہی تھی، مقننہ کی بالادستی کا ایشو چھیڑ کر عدالت کے خلاف جاری مہم کو مزید تقویت کیوں دینا چاہتے ہیں؟ عدالتی نظام کے خلاف دو محاذوں پر جنگ کیوں چھیڑی گئی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیانائب صدر جمہوریہ چاہتے ہیں کہ مقننہ آئین کی روح اور بنیادی کردار کے خلاف صرف اکثریت کی بنیاد قانون سازی کرتی رہے اور عدالت خاموش تماشائی بنی رہے؟کیا سپریم کورٹ کا کام صرف قانون کے مطابق صرف فیصلے کرنا ہے؟ قوانین کی تشریح اور آئین کے بنیادی حقوق سے متعلق قوانین کے جانچ پڑتال کی ذمہ داری کس کی ہے؟
عدالت کے متعلق اس وقت جو تنازعات چل رہے ہیں اگرچہ وہ نئے نہیں ہیں مگر اس وقت جس شدت کے ساتھ اس تنازع کو آگے بڑھایا گیاہے وہ معمولی نہیں ہے اور اس کے اثرات صرف عدالت اور ایگزیکٹیوکے درمیان محدود نہیں رہنے والے ہیں بلکہ اس سے ملک اور اس کے عام شہری براہ راست متاثر ہونے والے ہیں۔ان خدشات کا اظہار اس لیے کیا جارہا ہے کہ اس وقت تمام آئینی اداروں کی خود مختاری خطرے میں ہے۔طاقت اور اکثریت کے زعم میں مبتلا مرکزی حکومت نے اپنے آہنی بنچوں سے تمام اداروں پر قابو پالیا ہے۔ ایسے میں اگر عدالت بھی آزادی کھو دیتی ہے تویقینا ملک کے لیے تاریک دور کا آغاز ہوگا۔ عدلیہ کی آزادی صرف ججوں کی نہیں ہے بلکہ یہ ملک کے عوام اور ملک کی ضرورت ہے۔ایسے میں مقننہ، عاملہ اور عدلیہ کے اختیارات کی بحث میں الجھنے کے بجائے ضروری ہے کہ ملک کے آئین کی بالادستی سے متعلق بات کی جائے اور اس کی بقا کےلیے جدو جہد کی جائے۔ ہر اس اقدام کی مخالفت کی جائے جو آئین کی روح اور اس کے تقاضے و منشا کے خلاف اٹھائی جاتے ہیں۔ ملک کا آئین سپریم ہےاور آئین میں چیک اینڈ بیلنس کا اصول ہے۔ یہ مقننہ کو بے لگام اختیارات نہیں دیتا۔ مقننہ کے اختیارات کی حدود ہیں اور آئین اس کا تعین کرتا ہے۔ہر ادارہ چاہے وہ مقننہ ہی کیوں نہیں ہو اس کو اپنے اصولوں پر عمل کرنالازمی ہے، اورجمہوریت میں آئین ہی اصل ہے۔ اگر مقننہ یا حکومت یا کوئی اور اس پر عمل کرنے میں ناکام رہتا ہے یا آئین کی مخالفت میں کام کرتا ہے یا اس کی خلاف ورزی کرتا ہے، تو عدلیہ کا کام ہے کہ وہ اس طرح کی خلاف ورزی، زیادتی یا ظلم کے خلاف ڈھال کے طور پر کام کرے۔ اگر مقننہ سے منظور کیا گیا قانون آئین کی روح کے خلاف ہے تویہ سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے کہ اس قانون کی جانچ پڑتال کرے۔ ایمرجنسی کے دور میں آئین کے ساتھ چھیڑ خانی اور من پسندججوں کی تقرری کے نتائج اور واقعات سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔
ججوں کی تقرری کے اختیارات کے ضوابط
جمہوریہ ہند کی پہلی چار دہائیوں تک ججوں کی تقرری میں ایگزیکٹیو کو برتری حاصل تھی۔ اگرچہ اس دور کے زیادہ ترججز آزاد، راست باز اور بے خوفی کے لیے مشہور تھے مگر ایمرجنسی اور اس کے بعد عدالت کی کارروائیوں پر اثرا نداز ہونے کا دور شروع ہوگیا ۔آرٹیکل 124کے مطابق صدر جمہوریہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے صلاح و مشورہ کے بعدججوں کی تقرری کریں گے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ججوں کے صلا ح و مشورہ کو نظراندز کیا جانے لگا۔1981میں سپریم کورٹ کے نوججوں کی بڑی بنچ نے واضح طور پر کہا کہ ججوں کی تقرری کا مکمل اختیار ایگزیکٹیو کو ہے ۔تاہم ایمرجنسی کے بعد جس طریقے سے عدالتی کارروائی پراثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی اور ججوں کے من مانے طریقے سے تبادلے ہونے لگے تو ایگزیکٹیو کی بالادستی سوالوں کی زد میں آگئی۔چنانچہ1993میں سیکنڈ ججز کیس میں ججوں کی تقرری میں حکومت کی بالادستی ختم کرتے ہوئے ججوں کی تقرری کے اختیارات کالجیئم کے پاس چلے گئے ۔سوال یہ ہے کہ آزادی کے چار دہائیوں کے بعد ججوں کی تقرری میں حکومت کی بالادستی اور کالجیئم کے نظام کے نفاذکی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔مشہور قانون داں فالی نریمن عدالتی معاملات کی رپورٹنگ کرنے والی ویب سائٹ’’بار اینڈ بنچ‘‘کی چیف ایڈیٹر پلوی سلوجا سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سیکنڈججز کیس میں ان کا کردار کافی اہم تھا اور اس کے نتیجے میں ہی کالجیئم سسٹم نافذ ہوا مگر تیس سال بعد ہمیں یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں ہے کہ ہم نے اس معاملے میں کوئی غلطی نہیں کی ہے کیوں کہ آزادی کے پہلے بیس سال میں ججوں کی تقرری میں کوئی تنازع نہیں ہوا مگر بعد کے تیس سالوں میں ججوں کی تقرری کو لے کر تنازع پیدا ہونے لگا۔ایمرجنسی اور اس کے بعد کے دور میں بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے صلاح و مشورہ کے بغیر ججوں کا تبادلہ کیا جانے لگا ۔عارضی ججوں کی تقرری ہونے لگی اور عدالتی معاملات میں حکومت کی مداخلت بڑھنے لگی ۔ایسے میں ہم نےفرسٹ ججز کیس کے خلاف اپیل کی اور سیکنڈججز کیس میں کالجئیم سسٹم نافذ ہوا۔میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ اس میں بھی کئی خامیاں ہیں اور میں اس نظام سے مکمل طور پر خوش نہیں ہوں مگر خراب ترین طریقوں میں یہ ایک بہتر طریقہ ہے۔
مرکزی وزیر قانون اور حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ کلجیئم سسٹم میں حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے لیکن یہ مکمل سچ نہیں ہے ۔سابق چیف جسٹس این وی رمنا نے کالجیئم سسٹم کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ملک میں یہ تاثر ہے کہ جج ہی ججوں کی تقرری کرتے ہیں‘‘۔ یہ ایک غلط تاثر ہے اور میں اسے درست کرنا چاہتا ہوں۔ تقرری ایک طویل مشاورتی عمل کے ذریعے کی جاتی ہے اور بہت سے متعلقین سے مشورہ کیا جاتا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ عمل اس سے زیادہ جمہوری ہو سکتا ہے۔ کالجیئم نظام میں بھی حکومت کا ایک بڑا کردار ہوتا ہے ۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور چار سینئر ججوں پر مبنی کلجئیم سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے لیے ججوں کے نام کی سفارش بھیجتی ہے ۔وزارت قانون خفیہ محکمات کی رپورٹ کی بنیاد پر کلجئیم کے ذریعہ پیش کیے گئے ناموں پر اپنا موقف پیش کرتی ہے ۔کبھی کبھی حکومت کے موقف کی بنیاد پر کلجیئم اپنے سفارش کردہ ناموں کو ڈراپ بھی کردیتی ہے اور کبھی حکومت کی سفارشات کا جائزہ لینے کے بعد دوبارہ ان ناموں کو بھیج دیتی ہے ۔اس وقت حکومت کے سامنے کلجئیم کی سفارشات کو ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔جیسا کہ گزشتہ ہفتے کلجیئم نے دوبارہ ان ناموں کی سفارش کی ہے جس پر حکومت نے اعتراض کیا تھا۔ایگزیکٹیو، ججوں کی تقرری میں کتنا اہم کردار ادا کرتی ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کلجئیم کی سفارشات پر کارروائی کرنے میں تاخیر کرتی ہے اس کی وجہ سے ہائی کورٹس کے کئی ججز جو سینیاریٹی کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے سینئر جج بننے کا موقع حاصل کرسکتے تھے وہ محروم ہوجاتےہیں۔ ہائی کورٹس کےکئی ججز سپریم کورٹ میں ترقی کیے بغیر ریٹائر ہو جاتے ہیں۔حکومت کے ذریعہ سفارشات پر عمل درآمد میں تاخیر کی وجہ سے عدلیہ میں ججوں کی تعداد کافی کم ہے اس کی وجہ سے مقدمات کے بوجھ بڑھتے ہیں اور انصاف کا عمل سست روی کاشکار ہوجاتا ہے۔کئی مرتبہ ایگزیکٹیو، کلجئیم کی سفارشات کی خامیوں پر سوال کھڑا کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کرجاتی ہے۔سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کے دورمیں ہائی کورٹ کے دو ججوں کو، جو آل انڈیا سینیاریٹی لسٹ کے سیریل نمبر اکیس اور تینتیس پر تھے، سپریم کورٹ میں تعینات کیا گیا۔کئی چیف جسٹس اور ججوں کے سینئر ججوں کے دعووں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ حکومت اس پر اعتراض کر سکتی ہے اور سفارش کو واپس بھیج سکتی تھی اتنے بڑے پیمانے پر سینیاریٹی کو کیوں نظر انداز کیا گیا ہے؟ متنازعہ سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کیس میں اس وقت کے ریاستی وزیر داخلہ امت شاہ کو 2010 میں پولیس کی تحویل بھیجنے والے جسٹس عقیل قریشی کو جو راجستھان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر ریٹائر ہوئے ہیں، سپریم کورٹ میں ترقی کے لیے سفارش نہیں کی گئی تھی، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ ججوں کی آل انڈیا سینیاریٹی لسٹ میں سب سے سینئر جج تھے۔ حکومت نے اس پر بھی وضاحت طلب نہیں کی۔دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس مرلی دھر کا راتوں رات پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں تبادلہ کر دیا گیا۔ ایسا بظاہر اس لیے کیا گیا کہ انہوں نے بی جے پی کے لیڈروں کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کیے جانے پر دہلی پولیس کی سخت سرزنش کی تھی ۔2016 میں اتر اکھنڈ میں مودی حکومت کی طرف سے نافذ صدر راج کو ختم کرنے والے جسٹس جوزف کو بھی نظر انداز کردیا گیا۔جسٹس یو آر للت، جسٹس آر این اگروال، جسٹس ایس رنگاراجن، جسٹس ایس ایچ شیٹھ اور بہت سے دوسرے ججوں کی تقرری کے عمل کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اس پس منظر کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کالجیئم پر انگلی نہیں اٹھا سکتی ہے کیونکہ کئی مواقع پروہ خود بھی کالجیئم کے غلط سفارشات میں شریک ہوجاتی ہے۔ایسے میں یہ سوال لازمی ہے کہ حکومت ججوں کی تقرری میں اپنا واضح کردار کیوں چاہتی ہے اور اس کے پس منظر کیا عوامل ہیں۔بابری مسجد کی ملکیت، رافیل گھوٹالہ، ای ڈی کے اختیارات ، گجرات فسادت میں مودی کے کردار اور اس سے متعلق مقدمات کافیصلہ حکومت کے حق میں آچکا ہے۔کشمیر میں خصوصی اختیارات کے خاتمہ، شہریت ترمیمی ایکٹ اور دیگر مقدمات جو حکومت براہ راست پریشانی میں مبتلا کرسکتے ہیں اس پر سماعت مسلسل تاخیر کا شکار ہے۔
حکومت اور عاملہ کے درمیان تنازعات
ایگزیکٹیو اور عدلیہ کے درمیان جو گھمسان جاری ہے وہ کوئی نیا نہیں ہے۔ ایگزیکٹیو اور عدلیہ کے درمیان کھینچا تانی آئین سازی کے دورمیں ہی شروع ہوگئی تھی۔ آئین کی تشریح اور ترمیم کے حق کو لے کر دونوں آمنے سامنے ہوگئے تھے۔زمین داری کے خاتمے کے تعلق سے عدالت کے رخ کو لےکرسابق وزیر اعظم پنڈت نہرو نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عدالت کے حقوق و اختیارات پر سوالات کھڑے کیے تھے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ پنڈت نہرو ججوں کی تقرری میں ایگزیکٹیو کے کردار کے حق میں نہیں تھے۔ 1951میں آئین میں پہلی ترمیم کی گئی تو اس کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ۔عدالت نے ترمیم کو برقرار رکھا اور فیصلہ دیا کہ پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ردوبدل کا مکمل اختیار ہے۔ تاہم 1967 میں عدالت کے نو ججوں کے بنچ نے یہ فیصلہ دیا کہ پارلیمنٹ کسی بھی بنیادی حقوق کو آئین میں ترمیم کے ذریعہ ختم نہیں کرسکتی ہے۔ یہ فیصلہ ملک کے سب سے مشہور چیف جسٹس کے سبا راؤ نے لکھا تھا۔1970 میں، کیرالا میں ایڈنیر مٹھ کے سربراہ کیسوانند بھارتی نے لینڈ ریفارمز ایکٹ کے تحت مٹھ کی جائیدادوں پر قبضے کو چیلنج کرتے ہوئے ایک مقدمہ دائر کیا تھا۔اس چیلنج کو 13 ججوں کی بنچ کے پاس بھیج دیا گیا۔ 1973 میں 7-6 کی اکثریت سے سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ آئین کا ایک بنیادی فریم ورک ہے جو اتنا اہم ہے کہ پارلیمنٹ اس میں ترمیم نہیں کر سکتی۔ آرٹیکل 368 کے تحت آئین میں ترمیم کرنے کا پارلیمنٹ کا اختیار مطلق نہیں ہے اور یہ ہمیشہ عدالتی نظرثانی کے اختیار کے ساتھ مشروط ہے۔نظرثانی کے اختیارات صرف سپریم کورٹ کے پاس ہیں ۔عدالتی نظرثانی کی طاقت دنیا بھر میں تقریباً تمام آئینی جمہوریتوں میں واضح طور پر ہے۔ یہاں تک کہ بنیادی ڈھانچے کے نظریے کو بھی اب بہت سے ممالک تسلیم کرتے ہیں۔عدلیہ انفرادی حقوق اور آزادیوں کی نگہبان ہے اور یہ اقلیتوں کے لیے ایک حد سے تجاوز کرنے والی ریاست یا بے لگام اکثریت پسندی کے مقابلے میں اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے۔ 1993 میں اعلیٰ عدلیہ میں تقرریوں کا کلجیئم نظام شروع ہونے سے عدالت کی خود مختاری میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا۔سابقہ یو پی اے حکومت نے کالجیئم نظام میں تبدیلی لانے کے لیے بل کا مسودہ تیار کیا۔بعد میں 2014میں مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد’’نیشنل جوڈیشل اپائنٹمنٹ کمیشن ایکٹ 2014 ‘‘ پارلیمنٹ سے پاس کرکے کالجیئم سسٹم پر ضرب لگانے کی کوشش کی۔اس معاملے میں ملک کی تمام سیاسی جماعتیں متفق تھیں لیکن سپریم کورٹ نے اس کو رد کردیا ۔
کالجیئم نظام اعلیٰ عدلیہ میں تنوع قائم کرنے میں ناکام کیوں رہا؟
کالجیئم سسٹم درست ہے یا نہیں، کیا یہ نظام انصاف کے حصول کے لیے موثرہے؟ یہ سوالات اپنی جگہ ہیں مگر کچھ سوالات اس سے بھی زیادہ ناگزیر ہیں کہ کیا کالجیئم نظام اعلیٰ عدلیہ میں تنوع اور سماج کے تمام طبقات کو یکساں مواقع فراہم کرنے میں معاون ہے؟ کیا اعلیٰ عدلیہ میں تیزی سےججوں کی تقرری ہوئی ہے یا اس کی وجہ سے اسامیوں کا تناسب بڑھا ہے؟ اس نے مقدمات کے التوا اور ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں مقدمات کے نمٹانے میں لگنے والے وقت پر کیا اثر ڈالا ہے؟ کیا کالجیئم نظام ماتحت عدلیہ کے امیدواروں کے خلاف تعصب سے کام لیتا ہے؟ کیا یہ سروس پر موجود اور ریٹائرڈ ججوں کے رشتہ داروں اور سینئر وکیلوں کے رشتہ داروں کو ترجیح دیتا ہے؟ کالجییم سسٹم نے انصاف کو زیادہ سستا اور عام آدمی کے لیے قابل رسائی بنانے میں اور عدالتی بدعنوانیوں کے خاتمے میں کالجیئم نے کیا کردار ادا کیا ہے؟
اگر مذکورہ سوالوں کے تناظر میں کالجیئم کا جائزہ لیا جائے تو مایوسی ہاتھ آتی ہے۔کالجیئم کے کام میں دھندلاپن پایا جاتا ہے اور عدالتوں میں سماجی تنوع کی واضح کمی نظرآتی ہے۔ مثال کے طور دلتوں، بیک ورڈ کلاسوں، اقلیتوں اور خواتین کا تناسب آبادی کی شرح کے اعتبار سے بہت ہی کم ہے۔ کالجیم نظام پر سب سے بڑی تنقید یہی کی جاتی ہے کہ یہ بغیر کسی واضح میٹرکس (معیار)کے کام کرتا ہے۔مصنف اور دلت اسکالر سورج ینگدے دعویٰ کرتے ہیں کالجیئم تنوع قائم کرنے میں ناکام رہا ہے بلکہ اس کے برعکس اقربا پروری کے معاملات زیادہ نظر آئے ہیں ۔ بہوجن سماج پارٹی کے سابق قومی جنرل سکریٹری اور ایڈووکیٹ سریش مانے کا دعویٰ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں 150-200 خاندانوں کی ہی نمائندگی ہے۔ انگریزی میگزین آؤٹ لک کی 2016 کی رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ کے اٹھائیس ججوں میں سے گیارہ کا تعلق ججوں یا قانونی ماہرین کے خاندانوں سے تھا۔ سپریم کورٹ میں اعلیٰ ذات کے مردوں کا غلبہ ہے۔نیشنل کمیشن فار شیڈول کاسٹس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2011 میں ہائی کورٹ کے 850 ججوں میں سے صرف چوبیس درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل سے تھے۔ ہندوستان کی آبادی کا تقریباً پچیس فیصد ہونے کے باوجود عدالتوں میں ان کی شرح نمائندگی تین فیصد سے بھی کم تھی۔
مزید برآں، اکیس ہائی کورٹس میں سے چودہ ہائی کورٹوں میں ان کمیونٹیز کا ایک بھی جج نہیں تھا۔مرکزی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق، 2018-22کے درمیان ہائی کورٹ کے 537 ججوں میں سے 79 فیصد کا تعلق اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے افراد کا تھا۔باقی میں سے، تقریباً ایک فیصد کا تعلق درج فہرست قبائل سے تھا، تقریباً تین فیصد کا تعلق درج فہرست ذات سے تھا اور گیارہ فیصد کا تعلق دیگر پسماندہ طبقات سے تھا، جب کہ تقریباً چار فیصد تقرریوں کے پس منظر کی شناخت نہیں کی گئی ۔
امریکی ماہر سیاسیات جی ایچ گڈبوئس نے اپنی کتاب’’ججز آف دی سپریم کورٹ آف انڈیا: 1950-1989‘‘ میں انکشاف کیا ہے کہ سپریم کورٹ میں ہمہ وقت چالیس فیصد سے زیادہ جج برہمن رہے ہیں جب کہ پچاس فیصد کا تعلق دیگر اعلی ذاتوں سے رہا ہے ۔ گڈبوئس کے مطابق میں سپریم کورٹ میں ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی ججوں کی کل تعداد کبھی بھی دس فیصد سے تجاوز نہیں کر سکی۔ 1970 کے بعد پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو جج مقررکرنے پر زور دیا گیا اور اس کی وجہ سے عدالتوں میں پسماندہ طبقات کی نمائندگی میں اضافہ ہونے لگا مگر کالجئیم نظام کے نفاذ کے بعد ایک بار پھر اس میں کمی آنی شروع ہوگئی ہے۔دلت تنظیمیں الزام لگاتی ہیں کہ کالجیئم شروع کرنے کا مقصد بھی یہی تھا ۔چوں کہ دلت سماج حرکت میں ہے اور تعلیم کی طرف ان کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے اس لیے عدالتوں میں نمائندگی کی آواز بلند ہونا یقینی بات تھی مگر کالجیئم کا سسٹم سماجی تنوع قائم کرنے بڑی رکاوٹ ثابت ہورہا ہے ۔عدالتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کی صورت حال بھی ایسی ہی ہے، 1980 میں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ پر مشتمل 351 ججوں میں سے صرف 4.3 فیصد مسلمان تھے جبکہ 1988 میں چار سو میں سے، تقریباً ستائیس یا 6 .8 فیصد، گڈبوئس کے مطابق مسلمان تھے۔ ستمبر 2021 تک کل 664 ججوں میں سے صرف تیس یعنی 4.5 فیصد مسلمان ہیں۔حتیٰ کہ سپریم کورٹ میں تینتیس موجودہ ججوں میں سے صرف ایک مسلمان جج ہے۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ سماجی عدم مساوات کے اثرات عدالتوں کے فیصلوں سے بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ تقریباً تہتر فیصد زیر سماعت اور ساٹھ فیصد سزائے موت کے قیدی درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل یا دیگر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں ۔او پی جندال گلوبل یونیورسٹی، ہریانہ میں سوشیالوجی کے پروفیسر سومیت مہاسکر بتاتے ہیں کہ سماجی عدم مساوات کا ہی نتیجہ ہے کہ حالیہ برسوں میں دلت اور قبائلیوں کے مفادات کے برخلاف فیصلے دیے گئے ہیں۔پٹنہ ہائی کورٹ کے ججوں کے ذریعہ ریزرویشن پر مضحکہ خیز تبصرہ اس کا بین ثبوت ہے۔ ماضی قریب میں مسلم آبادی سے متعلق کئی مسائل پر سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا ہے۔ مسلم خواتین پر حجاب کی پابندی کے معاملے سے لے کر، جس پر الگ الگ فیصلہ سنایا گیا اور گیان واپی کیس، نفرت انگیز تقریر کے معاملات تک، مختلف ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ نے مسلمانوں کے مقدمات میں بنچ ایسے ججوں پر مشتمل تھی جس میں ایک بھی مسلم جج شامل نہیں تھا۔امریکن بار اسوسی ایشن کے سینٹر فار ہیومن رائٹس کی طرف سے تیار کردہ ایک رپورٹ، جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے اس میں لکھا گیا ہے کہ اونچی ذات کے ججوں کی دلت برادری سے تعلق رکھنے والے اپنے ساتھیوں کے تئیں تعصب پر مبنی رویہ رہا ہے۔ ہائی کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس کے حوالے سے انکشاف کیا گیا ہے کہ جب بھی انہوں نے اس ہائی کورٹ میں جج کے طور پر تقرری کے لیے ایک دلت وکیل پر غور کیا تو انہیں اپنے اعلیٰ ذات کے ساتھیوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔رپورٹ میں اعلیٰ ذات کے سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج نے اعلیٰ عدلیہ میں دلت ججوں کے خلاف تعصب کی موجودگی کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ کم قابلیت کے حامل ہیں کیونکہ ان کی تقرری ریزرویشن کے ذریعے ہوتی ہے اور اسی وجہ سے انہیں آسانی سے ترقی نہیں دی جاسکتی ہے۔سپریم کورٹ کے ایک اور ریٹائرڈ جج جو مبینہ طور پر پچھلی دہائی میں دو سال تک سپریم کورٹ کالجیم کا حصہ رہے، کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ چونکہ بنچ میں ان کے دور میں ہائی کورٹس میں سینیاریٹی کے ساتھ کوئی دلت جج نہیں تھا، اس لیے اس مسئلہ کو سپریم کورٹ میں دلتوں کی نمائندگی کو یقینی بنانے پر کالجیئم کے حصے کے طور پر نہیں دیکھا گیا۔
ظاہر ہے کہ یہ صورت حال مایوس کن اور ملک کے نظام انصاف سے اعتماد اور یقین ختم کرنے والی ہے، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ عدالت پر عوام کا اعتماد کیسے قائم ہواور عدالتی نظام میں موجود خامیوں کا ازالہ کیسے کیا جائے اس پر غور کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس کی فکر کون کرے گا؟ کیامرکزی حکومت اورعدلیہ دونوں مل کر اس کے ازالے کے لیے اقدامات کریں گے؟ کیا اعلیٰ عدالت میں سماجی تنوع قائم کرنے کے لیے 2001میں پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر آئین کے آرٹیکل 124 اور 217 میں مناسب ترمیم کرکے ججوں کی تقرری میں ریزرویشن نافذ کیا جائے گا؟
یقینی طور پر ججوں کی تقرری کے کالجیئم نظام میں اصلاحات کی کافی گنجائش موجود ہے۔ جس طریقےسے عدالتوں میں ججوں کی تقرری ہورہی ہے اسے اپنے نیٹ ورک کو وسیع تر کرنے اور فیصلہ سازی کے معیار اور عمل کو مزید کھلا اور جامع بنانے کی ضرورت ہے۔ کالجیئم کے کام میں دھندلا پن ہے اور بنچ پر تنوع کی واضح کمی ہے۔ احتساب اور شفافیت کا فقدان ہے۔ ان حقائق کے باوجود ایک سچائی یہ بھی ہے کہ کالجیئم کے نظام کے مقابلے میں ججوں کی تقرری میں ایگزیکٹیو کی برتری زیادہ نقصاندہ ثابت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ مقننہ میں اکثریت مطلق ہوتی ہے اور طاقت ایک پارٹی کے ہاتھ میں مرکوز ہوتی ہے ایسے میں ایگزیکیٹیو کے ذریعہ عدالت کے فیصلے پراثرانداز ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔اس وقت ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں ان میں عدلیہ کی طرف سے عدالتی تقرریوں میں تمام تر مبہم پن، اقربا پروری اور تعصبات کے باوجود آمرانہ حکمرانی کے خلاف آزاد عدلیہ کے لیے کالجیئم نظام ہی واحد امید ہے۔
***

 

***

 انگریزی میگزین آؤٹ لک کی 2016 کی رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ کے اٹھائیس ججوں میں سے گیارہ کا تعلق ججوں یا قانونی ماہرین کے خاندانوں سے تھا۔ سپریم کورٹ میں اعلیٰ ذات کے مردوں کا غلبہ ہے۔نیشنل کمیشن فار شیڈول کاسٹس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2011 میں ہائی کورٹ کے 850 ججوں میں سے صرف چوبیس درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل سے تھے۔ ہندوستان کی آبادی کا تقریباً پچیس فیصد ہونے کے باوجود عدالتوں میں ان کی شرح نمائندگی تین فیصد سے بھی کم تھی۔ مزید برآں، اکیس ہائی کورٹس میں سے چودہ ہائی کورٹوں میں ان کمیونٹیز کا ایک بھی جج نہیں تھا۔مرکزی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق، 2018-22کے درمیان ہائی کورٹ کے 537 ججوں میں سے 79 فیصد کا تعلق اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے افراد کا تھا۔باقی میں سے، تقریباً ایک فیصد کا تعلق درج فہرست قبائل سے تھا، تقریباً تین فیصد کا تعلق درج فہرست ذات سے تھا اور گیارہ فیصد کا تعلق دیگر پسماندہ طبقات سے تھا، جب کہ تقریباً چار فیصد تقرریوں کے پس منظر کی شناخت نہیں کی گئی ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 فروری تا 11 فروری 2023