نیتن یاہو کو ملک کے اندر شدید مزاحمت کا سامنا

حکومتی ’’عزائم‘‘ کی تکمیل کے لیے مطلوبہ تعداد میں سپاہی میسر نہیں۔ اسرائیلی جرنیل

0

مسعود ابدالی

خفیہ ایجنسیاں Deep Stateکی نجی ملیشیا میں تبدیل ہوچکی ہیں؛ نیتن یاہو کا شکوہ
فرانسیسی و برطانوی ارکان پارلیمنٹ کے اسرائیلی ویزے منسوخ ۔غزہ میں ایک اور خاتون صحافی اسرائیل کے ہاتھوں قتل
غزہ اور غرب اردن میں ڈیڑھ سال سے جاری وحشت و بربریت کے جلد ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اس کی بنیادی وجہ اسرائیلی وزیر اعظم کی سیاسی مشکلات ہیں۔ اسرائیل میں یہ تاثر عام ہے کہ غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا کے ساتھ ہی نیتن یاہو کو ایوان وزیر اعظم خالی کرنا ہوگا۔ ان کے خلاف بے ایمانی، مالی بدعنوانی اور اختیارکے غیر قانونی استعمال کے اتنے پرچے کٹ چکے ہیں کہ کوئے یار سے انہیں سیدھا سوئے دار (جیل) جانا ہوگا۔ متکبر نیتن یاہو، غزہ، غربِ اردن، جنوبی لبنان، شام اور یمن کو برباد کرنے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن پورس کے اس بدمست ہاتھی سے خود اسرائیل بھی اب محفوظ نہیں رہا۔اسرائیل کی قوت کا راز اس کا سراغرسانی کا کامیاب نظام ہے اور اس شعبے کے تینوں اداروں یعنی موساد، شاباک (Shin Bet)اور یونٹ 8200سے وزیراعظم کی ٹھنی ہوئی ہے۔
اکتوبر 2023 میں غزہ پر حملے کے ساتھ ہی اسرائیلی فوج کو غزہ میں جس شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا وہ حکومت کے ساتھ فوج اور خفیہ اداروں کے لیے غیر متوقع اور حیران کن تھا۔ جانی و مالی نقصان میں اضافے کے ساتھ انگشت نمائی و الزام تراشی کا آغاز ہوا اور ایوان وزیراعظم محلاتی سازشوں کا گڑھ بن گیا۔ عالمی فوجداری عدالت سے وزیراعظم، وزیردفاع اور عسکری سربراہ کے پروانہ گرفتاری کے بعد ‘یہ سب تمہاری غلطی ہے’ قائدین کا تکیہ کلام بن گیا۔ اس کے نتیجے میں وزیردفاع گیلینٹ اور فوج کے سربراہ سمیت صف اول کے جرنیلوں کو مستعفی ہونا پڑا۔ وزیراعظم نیتن یاہو کی بے ایمانی و بددیانتی کی کہانیاں پہلے ہی زبان زد خاص و عام تھیں، قطر گیٹ اسیکنڈل کی شکل میں رشوت ستانی کے نئے قصے مشہور ہوئے اور پتہ چلا کہ ٹبر کے ساتھ مشیروں کا سارا طائفہ لوٹ مار میں شریک ہے۔
نیتن یاہو سمجھتے ہیں کہ شاباک کی شکل میں گھر بلکہ جڑ میں بیٹھا بھیدی لنکا ڈھارہا ہے، چنانچہ انہوں نے خفیہ ادارے کے سربراہ رونن بار کو پروانہ برطرفی تھمادیا لیکن اٹارنی جنرل کی سفارش پر عدالت نے برطرفی کے خلاف حکم امتناعی جاری کرکے معاملے کو معلق کردیا۔ اٹارنی جنرل غالی بہارو میعارا کی جانب سے شاباک کی پشت پناہی حکم رانوں کے لیے نیا درد سر ہے۔ دوسری طرف فوج کے لیے غزہ کی دلدل گہری ہوتی چلی گئی۔جرنیلوں نے نجی مجالس میں وزیراعظم سے اپنی تشویش کاذکر کیا لیکن ‘فتح مبیں’ کے گنبد میں بند نیتن کچھ سننے کو تیار نہ ہوئے جس پر فوجی افسروں اور سراغرساں اداروں نے کھلے خط کی شکل میں اپنے خدشات اور تحفظات عوام کے سامنے رکھ دیے۔ اب وزیراعظم کے ساتھ ان کے حکم راں لیکڈ اتحاد نے بھی خفیہ اداروں کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔پندرہ اپریل کو لیکڈ نے سوشل میڈیا پر صاف صاف کہہ دیا کہ
شاباک کے سربراہ رونن بار اور اٹارنی جنرل بہارو میعارا نے سیکیورٹی سروس کو ‘گہری ریاست (Deep State)کی نجی ملیشیا’ میں تبدیل کر دیا ہے جو قانون کی حکم رانی اور جمہوریت کی بنیادوں کو کمزور کر رہی ہے۔ شین بیت تحفظِ اسرائیل کے بنیادی کام کے بجائے اب صحافیوں کو پکڑ دھکڑ اور اور ان سے پوچھ تاچھ میں مصروف ہے۔ پولیس افسروں اور حکومتی اہلکاروں کی بلیک میلنگ کے ساتھ وزرا اور ارکان پارلیمنٹ کے خلاف تحقیقات کے کھاتے کھول دیے گئے ہیں۔ لیکوڈ اتحاد کا کہنا ہے کہ شین بیت کے ریاست کے اندر ریاست بن جانے کی وجہ سے غزہ کی جیتی ہوئی جنگ شرمناک شکست کی طرف بڑھ رہی ہے۔
اندرونی چپقلش اس مقام تک پہنچ چکی ہے کہ گزشتہ ہفتے اسرائیلی پارلیمنٹ کی دفاعی کمیٹی کو فوج کے سربراہ جنرل ایال ضمیر نے بریفنگ دی۔حساسیت کی بناپر اس اجتماع کا TOP SECRETقرار دیا گیا یعنی وہاں موجود شرکاء کو نوٹس لینے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ لیکن نشست ختم ہوتے ہی عبرانی خبر رساں ایجنسی Ynet Newsپر اجلاس کی خبر کچھ اس طرح شائع ہوئی ‘سیاسی قائدین کے ایک خصوصی اجتماع کو فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایال ضمیر نے بتایا کہ ان کے پاس غزہ کی پٹی میں حکومت کے "عزائم” کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مطلوبہ تعداد میں سپاہی میسر نہیں ہیں۔اسرائیلی فوج نے اس خبر نما انکشاف کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ‘چیف آف اسٹاف نے سیاسی حلقوں کے سامنے ‘بند آپریشنل بحث’ میں جو کچھ عرض کیا اسے توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے اور یہ حقائق کی عکاسی نہیں کرتا’۔ اس پر معروف دفاعی تجزیہ نگار یوف زیٹن (Yaov Ziton) نے خبر اور وضاحت کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک درمیانی رائے کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ ‘(جنرل) ضمیر سیاسی قیادت سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ زمینی حقائق کے تناظر میں اپنے کچھ خواب و تصورات ترک کرلیں۔
غزہ نسل کشی کے طول پکڑ جانے سے فوج میں جو بے چینی ہے اس کا ذکر ہم گزشتہ نشست میں کرچکے ہیں۔اس ہفتے شہری ہوابازی کے 300پائیلٹوں نے وزیراعظم کے نام اپنے کھلے خط میں کہا کہ خونریزی جاری رہنے سے قیدیوں کی زندگی کو سخت خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔مکتوب پر سرکاری اسرائیل ایئرلائن El Al کے علاوہ نجی جہاز راں کمپنیوں سے وابستہ پائلٹوں کے دستخط ہیں جن کی مجموعی تعداد اسرائیل کے دو تہائی ہوا بازوں سے زیادہ ہے۔
اب جبکہ نیتن یاہو کے لیے ‘جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینےلگے’ والی صورتحال پیدا ہوچکی ہے تو موصوف خود کو دبنگ ثابت کرنے کے لیے بہت ہی مکروہ انداز میں غُرا رہے ہیں۔ ہفتہ 19 اپریل کو قوم کے نام اپنے جذباتی خطاب میں انہوں نے کہا مزاحمت کاروں کے مکمل خاتمے سے پہلے غزہ جنگ ختم نہیں ہوگی۔ غزہ میں مزاحمت کاروں کا اقتدار بحال رہنا اسرائیل کی شکست ہے۔
واشنگٹن میں یہ خبر گردش کررہی ہے کہ امریکی خفیہ ادارے نےغزہ کے بارے میں اپنی تشویش سے صدر ٹرمپ کو مطلع کردیا ہے۔سی آئی اے کے خیال میں غزہ اسرائیلی فوج کا دلدل بن چکا ہے۔ وحشیانہ بمباری سے عسکری اہداف کا حصول ممکن نہیں جبکہ زمینی دستوں کو ہر جگہ شدید مزاحمت کا سامناہے۔صدر ٹرمپ کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اہل غزہ سے براہ راست بات چیت کرکے امریکی قیدی عیدن الیکزنڈر اور چار امریکی لاشیں بازیاب کرالیں۔ عیدن کی زندگی کے بارے میں بھی خدشات پائے جاتے ہیں۔ پندرہ اپریل کو شدید بمباری کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم Telegramپر مزاحمت کاروں کے ترجمان نے کہا ‘بمباری کے بعد ہمارا اس مرکز سے رابطہ ختم ہوگیا ہے جہاں کچھ دوسرے قیدیوں کے ساتھ عیدن الیگزنڈر کو رکھا گیا تھا، قیدیوں کی نگرانی پر مامور محافظین سے رابطے کی کوشش کی جا رہی ہے۔متحدہ عرب امارات کی خبر رساں ایجنسی Erem کے مطابق صدر ٹرمپ نے مزاحمت کاروں سے براہ راست مذاکرات کے لیے اپنے خصوصی ایلچی آدم بوہلر کو قطر جانے کی ہدایت کی ہے۔
ملک کے اندر بے چینی کے ساتھ اپنے مغربی اتحادیوں کے سنگین تحفظات سے نیتن یاہو بوکھلائے سے لگ رہے ہیں۔ اتوار 20 اپریل کو اسرائیلی حکومت نے فرانسیسی پارلیمنٹ کے 27ارکان کو ملک آنے سے روک دیا۔ ان قانون سازوں کا تعلق ماحول دوست (Ecologist) اور کمیونسٹ پارٹیوں سے ہے۔ چند روز پہلے برطانیہ کی برسراقتدار لیبر پارٹی کے دو ارکان کے اسرائیلی ویزے منسوخ کیے جا چکے ہیں۔ وضاحت کرتے ہوئے وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ‘ان افراد کی سرگرمیاں اسرائیل کے قومی مفادات اور سلامتی کے لیے نقصان دہ ہیں’ حوالہ: ٹائمز آف اسرائیلی
قیدیوں کے حراست کدوں پر بمباری کی خبر سے اسرائیل بھر میں مظاہروں نے شدت اختیار کرلی ہے۔ یروشلم میں مظاہرے کے دوران حال ہی میں رہا ہونے والے عفر کلدڑن نے کہا کہ نیتن یاہو نے ہماری روح کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔اس ہفتے عوامی سطح پر ‘جنگ ختم کرو، ہمارے پیاروں کو واپس لاو’ کے عنوان سے اسرائیل میں دستخطی مہم کا آغاز ہوا اور پہلے ہی دن سابق وزیر اعظم یہود براک، فوج کے سابق سربراہ جنرل ڈین ہالُٹز، موساد کے سابق سربراہوں اور غزہ قتل عام میں مصروف فوجیوں سمیت ڈیڑھ لاکھ افراد نے اس پر دستخط کر دیے ہیں۔ اسرائیلی ٹیلی ویژن 12 کے ایک جائزے میں 70 فیصد اسرائیلیوں نے جنگ ختم کرکے قیدی آزاد کرانے کی حمایت کی ہے۔
دوسری طرف امن مذاکرات کے ثالث، قطر نے لگی لپٹی بغیرجنگ بندی کے حوالے سے اسرائیل کی بدنیتی کا بھانڈہ پھوڑدیا۔ماسکو میں روسی صدر ولادیمر پیوتن سے ملاقات کے بعد میزبان کے ہمراہ مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیرِ قطر شیخ ثمیم بن حمد الثانی نے کہا کہ ‘ہم کئی ماہ پہلے ایک امن معاہدے پر متفق ہوچکے تھے لیکن بد قسمتی سے اسرائیل نے معاہدے کی پاسداری نہیں کی’۔
غزہ اور غرب اردن پر اسرائیل کی وحشت کے ساتھ امریکہ بہادر یمن پر قیامت ڈھائے ہوئے ہے۔ امریکی وزارت دفاع (پینٹاگون) کے مطابق یمن کے خلاف اب انسانی تاریخ کا خوفناک ترین GBU-57A/B MOP (Massive Ordnance Penetrator)المعروف بنکر بسڑ بم استعمال کیا جارہا ہے۔ بوئنگ کا تیارکردہ 30 ہزار پونڈ کا یہ بم اپنے ہدف کو چیرتا ہوا زمین کے اندر 200 فٹ گھس کر پھٹتا ہے اور چٹانیں اور فولادی چادریں دھواں بن کر فضا میں اڑ جاتی ہیں۔ بیس فٹ لمبا اور 30 انچ قطر کا یہ بم اتنا بھاری ہے کہ روایتی بمباروں کے لیے انہیں اٹھانا ممکن نہیں چنانچہ قیامت گرانے کے لیے دیوپیکر B-2 Spiritبمبار استعمال کیے جارہے ہیں۔ امریکہ نے پانچ غیر مرئی (Stealth)بی 2 بمبار بحر یند کے ڈیگو گارشیا (Diego Garcia)اڈے پر پہنچادیے ہیں۔گزشتہ ہفتے بحرہ احمر کی یمنی بندرگاہ راٗس عیسیٰ کو ان بموں سے اس وقت نشانہ بنایا جب وہاں جہازوں سے غلہ اتارا جارہا تھا۔ بمباری سے 75 کارکن جان بحق ہوئے اور قحط زدہ یمنیوں کا ٹنوں غلہ راکھ بن گیا۔اسی روز الحدیدہ بندرگاہ کو بھی نشانہ بنایاگیا۔ تاہم یمنی میزائیلوں کا اسرائیل کی طرف سفر بھی جاری ہے۔اٹھارہ اپریل کو یمن سے منجنیقی (Ballistic) میزائیل داغے گئے، جسے اسرائیلی دفاعی نظام نے غیر مؤثر کردیا لیکن اس کا ملبہ گرنے سے کوہ یروشلم پر تاریخی ساریک غار کے قریب آگ بھڑک اٹھی۔ حفاظتی الارم کے سائرن بجنے کی وجہ سے سیکڑوں افراد اس غار میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ میزائیل کے کچھ ٹکڑے بیت اللحم کے قریب گرے
ایک اور آئینہ چکناچور:
اس ہفتے 25 سال فری لانس فوٹو جرنلسٹ فاطمہ حسسونہ بمباری سے اپنے ماں باپ کے ساتھ شہید ہوگئیں۔فاطمہ کو کعبہ و مدینہ کی زیارت کا بہت شوق تھا اور اس مبارک سفر کے لیے اس نے زاد راہ بھی جمع کرلیا تھا لیکن فاطمہ کا خیال تھا کہ اس وقت عمرے سے زیادہ اہم دنیا کو اسرائیلی مظالم کی تفصیل بتانا ہے، لہٰذا اس نے نیت کرلی کہ جنگ ختم ہونے پر وہ اپنے والدین کے ساتھ عمرہ کرے گی لیکن 16 اپریل کی صبح اسرائیلی طیاروں نے اس کے گھر کو نشانہ بنایا جس سے وہاں موجود تمام لوگ جاں بحق ہوگئے اور فاطمہ، کعبہ کے بجائے رب کعبہ کے حضور پہنچ گئیں۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔
فوٹو جرنلزم کے حوالے سے غزہ کے نو سالہ بچے محمود عجور کی تصویر کشی پر نیویارک ٹائمز کے فوٹو گرافر کو WORLD PRESS PHOTOکا ایوارڈ دیا گیا ہے۔اسرائیلی بمباری سے اس بچے کے دونوں بازو اڑ گئے ہیں۔ درندگی و وحشت کے اس استعارے پر انعام دینے والوں کو اس ظلمِ عظیم کی مذمت کی توفیق نصیب نہیں ہوئی۔سچ ہے کہ غزہ کے لہو نے مغربی تہذیب کا میک اپ دھو کر اس کا مکروہ چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]

 

***

 فوٹو جرنلزم کے حوالے سے غزہ کے نو سالہ بچے محمود عجور کی تصویر کشی پر نیویارک ٹائمز کے فوٹو گرافر کو WORLD PRESS PHOTOکا ایوارڈ دیا گیا ہے۔اسرائیلی بمباری سے اس بچے کے دونوں بازو اڑ گئے ہیں۔ درندگی و وحشت کے اس استعارے پر انعام دینے والوں کو اس ظلمِ عظیم کی مذمت کی توفیق نصیب نہیں ہوئی۔سچ ہے کہ غزہ کے لہو نے مغربی تہذیب کا میک اپ دھو کر اس کا مکروہ چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اپریل تا 03 مئی 2025