ڈاکٹر سلیم خان
جے ڈی یو سربراہ کے چلے جانے سے ’انڈیا اتحاد‘ میں خس کم جہاں پاک کی فضا
نتیش کمار تو الٹنے پلٹنے سے پہلے بھی وزیر اعلیٰ تھے اور بعد میں بھی وزیر اعلیٰ ہیں اس لیےان کو تو کوئی فرق نہیں پڑا لیکن سوال یہ ہے کہ آخر اس اٹھا پٹخ سے بی جے پی کو کیا ملا؟
بھگوا ٹولے کی سیاست دوسروں کو بھرم میں مبتلا کرنے کی ضرور ہے مگر وہ خود اپنے فیصلے حقیقت پسندی کی بنیادپر کرتے ہیں۔ بی جے پی والوں نے سوچا تھا کہ رام کے نام پر مخالفین کا ووٹ لوٹ لیں گے اور جو اس جھانسے میں نہیں آئیں گے ان کو پی ایم مودی کے کام مثلاً پانچ کلو اناج کے احسان سے اپنا بندہ بے دام بنا لیں گے لیکن جب پتہ چلا کہ بہار میں ان دونوں سے بات نہیں بن رہی ہے تو ناکام و نامراد ہوکر نتیش کمار کو سلام کرکے انہیں اپنے خیمے میں لے آئے ۔ بی جے پی اپنے آپ کو مہا بلی کہتی ہے اس کے باوجود اسے 75 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے باوجود اپنے سے کمتر 43 سیٹ جیتنے والے نتیش کمار کو کیوں وزیر اعلیٰ بنانا پڑا۔ بی جے پی کا یہی حال مہاراشٹر میں بھی ہے۔ اس اہم ریاست میں بی جے پی کے پاس 105 نشستیں ہیں جبکہ شیوسینا سے بغاوت کرکے اس کے ساتھ آنے والے ایکناتھ شندے کو صرف 48 ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہے مگر وہ وزیر اعلیٰ بنے ہوئے اور بی جے پی کے سابق وزیر اعلیٰ دیویندر پھڈنویس کو ان کی نیابت کے لیے مجبور کردیا گیا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں ایک طرف بی جے پی اپنے مخالفین کو بلیک میل کرکے اپنے ساتھ لانے میں کامیاب ہوجاتی ہے وہیں عوام کی حمایت کی خاطر خود بلیک میل ہو جاتی ہے۔ بہار کا یہ کھیل 2024 کے انتخابات کو پیش نظر رکھ کر کھیلا گیا ہے اس لیے یہ جان لینا ضروری ہے کہ پچھلے انتخاب میں بہار کے نتائج کیا آئے تھے ۔ اس وقت نہ صرف نریندر مودی وزیر اعظم تھے بلکہ نتیش کمار ان کے ساتھ تھے پھر بھی بی جے پی کے ووٹ کا تناسب تقریباً 6 فیصد کم ہوگیا تھا اور اس کے صرف 17 امیدوار کامیاب ہوسکے تھے۔ اس طرح 2014 کے مقابلے میں اس کو 5 نشستوں کا نقصان ہوا تھا حالانکہ وہ سب کی سب نشستیں جیت گئی تھی لیکن چونکہ اسے بلیک میل کرکے جنتا دل یو نے برابر کی نشستوں پر انتخاب لڑا تھا اوران میں سے بھی ایک ہار گئی تھی اس کے باوجود اس کو 14 نشستوں کا فائدہ ہوا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی کے ساتھ پارلیمانی انتخاب لڑنا جہاں ایک طرف بی جے پی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا وہیں دوسری جانب نتیش کمار کی جنتا دل یو کے لیے فائدے مند ٹھہرا تھا۔پچھلے قومی انتخاب میں بی جے پی اور جے ڈی یو کے ووٹ فیصد میں تقریباً ڈیڑھ فیصد کا فرق رہ گیا تھا کیونکہ بی جے پی کے ووٹ تناسب میں جہاں تقریباً 6 فیصد کی کمی آئی تھی وہیں جے ڈی یو کا ووٹ اسی قدر بڑھا تھا۔ ان دونوں کے علاوہ رام ولاس پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی بھی ساتھ تھی جس نے اپنے ووٹ میں تو ڈیڑھ فیصد کا اضافہ کیا مگر نشستوں کی تعداد پہلے کی طرح 6 رہی۔ اس میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں ہوئی۔ بی جے پی، جے ڈی یو اور ایل جے پی کے اتحاد کو 53 فیصد سے زیادہ ووٹ مل گئے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کانگریس صرف اپنے ایک مسلم امیدوار کو کشن گنج سے کامیاب کروا سکی جبکہ دوسری کوئی جماعت اپنا کھاتہ نہیں کھول سکی ۔
عظیم اتحاد کی 9 نشستوں کا نقصان این ڈی اے کا فائدہ بن گیا ۔ بی جے پی کے لیے یہ خسارہ ناقابلِ برداشت تھا اس لیے اس نے نقصان کی بھرپائی کے لیے اپنے ہی حامی جے ڈی یو کو کمزور کرنے کی سازش رچی اور ریاستی انتخاب میں اس مقصد کے لیے ایک سازش رچی۔ یہ سازش اگر کامیاب ہو جاتی تو بی جے پی کو بہار میں نتیش کمار سے اسی طرح چھٹکارا مل جاتا جیسے مہاراشٹر میں شیوسینا سے مل گیا مگر ایسا نہیں ہوا۔ اسے بادلِ ناخواستہ نتیش کے زہر کا گھونٹ پینا پڑا۔ریاستی انتخاب کے اعدادو شمار بی جے پی کے ذریعہ اپنے ساتھی کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کی سازش کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔
2019 کے پارلیمانی انتخاب کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کے لحاظ سے ریاستی انتخاب میں بی جے پی کو 96 ، جنتا دل (یو) کو 92 اور ایل جے پی کو 35 نشستوں پر کامیاب ہونا چاہیے تھا یعنی این ڈی اے کو بڑے آرام سے 223 نشستیں جیت کر حکومت سازی کرنے کاموقع مل سکتا تھا جبکہ ان کے مخالفت کرنے والے عظیم اتحاد کے حصے میں صرف 19 نشستیں آسکتی تھیں۔ یہ نتائج اسی وقت سامنے آتے جب ایمان داری سے متحد ہوکر الیکشن لڑا جاتا لیکن جب نیت میں کھوٹ آگیا تو 2020 میں یہ توقعات الٹ پلٹ گئیں۔ بی جے پی 96 سے گھٹ کر 74 پر آگئی۔ جنتا دل (یو) 92 کے بجائے 43 نشستیں جیت سکی اور لوک جن شکتی پارٹی 35 کے بجائے ایک پر سمٹ گئی ۔ اس کے برعکس 9 کی توقع کرنے والا راشٹریہ جنتا دل 75 پرپہنچ گیا۔ کانگریس جسے 5 کی امید تھی 19 نشستیں جیت گئی اور ہندوستانی عوام پارٹی 2 سے4 نیز ایم آئی ایم نے 2 کی توقع سےکہیں زیادہ 5 نشستیں جیت لیں ۔یہ چمتکار دراصل بی جے پی کی ایک سازش کا نتیجہ تھا جو الٹی پڑ گئی تھی اور یہی وجہ ہے کہ جنتا دل (یو) کو نقصان پہنچانے کے باوجود پھر سے اسے نتیش کمار کو وزیر اعلیٰ بنانا پڑا تھا۔
2020 کے ریاستی انتخابی نتائج کا اگر 2015 میں ہونے والے اسمبلی انتخاب کے نتیجوں سےموازنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے بی جے پی نے تقریباً 5 فیصد ووٹ گنوائے پھر بھی اس کی 21 نشستوں کا اضافہ ہوا جبکہ جنتا دل (یو) نے پہلے کی بہ نسبت صرف ڈیڑھ فیصد کم ووٹ حاصل کیے اس کے باوجود اسے 26 سیٹوں کا خسارہ ہوگیا اور 43 پر پہنچ گئی۔ این ڈی اے میں شامل وکاس شیل انسان پارٹی نے ڈیڑھ فیصد ووٹ بڑھا کر مزید چار نشستیں جیت لیں جبکہ ہندوستان عوام پارٹی کے اتنے ووٹ گھٹے پھر بھی اسے تین کا فائدہ ہوگیا ۔ اس کا مطلب اس کھیل میں پچھلےصوبائی انتخاب کے مقابلے نتیش کمار بڑے گھاٹے میں رہے اور ایل جے پی 135 سیٹوں پر مقابلہ کرنے کے باوجود صرف ایک نشست جیت سکی جو پہلے سے ایک کم تھی ۔ انتخابی نتائج میں یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ پانچ سال پہلے کے مقابلے میں آر جے ڈی کے ووٹ کا تناسب تقریباً پانچ فیصدکم ہوا اور اس نے پانچ نشستیں بھی گنوائیں۔ کانگریس کے صرف 2 فیصد ووٹ کم ہوئے مگر اسے9 نشستوں کا نقصان ہوا۔ دائیں بازو کی 3 اتحادی جماعتوں نے اپنے ووٹ شیئر میں ڈیڑھ فیصد کا اضافہ کرکے کل 13 اضافی نشستیں جیت لیں یعنی وہ 6 سے 19 پر پہنچ گئیں جو بڑی کامیابی تھی ۔ بہوجن سماج پارٹی بھی ایک مقام پر کامیاب ہوگئی اور ایم آئی ایم نے غیر معمولی کارکردگی کامظاہرہ کرتے ہوئے 5 حلقوں میں جیت درج کرائی۔
بہاری سازش کو سمجھنے کی خاطر یہ جان لینا ضروری ہے کہ ریاستی انتخاب سے قبل کل یگ کے چانکیہ نے رام اور ہنومان کو الگ کردیا یعنی چراغ پاسوان کو این ڈی اے میں شامل کرنے کے بجائے ان سے نتیش کمار کی مخالفت کروا کر انہیں کمزور کرنے کی سپاری دے دی ۔ اس حقیقت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے بی جے پی نے کل 110 نشستوں پر الیکشن لڑا تھا، باقی نشستوں کو اپنے حامیوں کی خاطر چھوڑ دیا تھا ۔ اس کے ساتھ 134 نشستوں پر چراغ پاسوان کے امیدوار کھڑے کروا دیے یعنی بی جے پی کے خلاف ایل جے پی کا کوئی امیدوار نہیں تھا۔
یہی کھیل 2014 میں مہاراشٹر میں کھیلا گیا تھا جہاں بظاہر شیوسینا کے ساتھ الحاق کیا گیا مگر سارے سینک امیدواروں کے خلاف راج ٹھاکرے کی مہاراشٹر نو نرمان سینا کے امیدوار میدان میں اتار دیے گئے تاکہ شیوسینا کو بڑے بھائی سے چھوٹا بھائی بنادیا جائے اور اس مقصد میں انہیں کامیابی ملی۔ بہار میں سازش یہ تھی جے ڈی یو سمیت دیگر حامی جماعتوں کا ووٹ تو بی جے پی کو ملے مگر جہاں اس کا امیدوار نہ ہو وہاں بھگوا رائے دہندے رام کے بجائے ہنومان کو ووٹ دیں ۔ اس طرح نتائج کے بعد نتیش کمار نامی لکشمن کا کانٹا نکال کر رام اور ہنومان کی سرکار بنائی جائے ۔یہی وجہ ہے کہ ڈیڑھ سال قبل بی جے پی سے الگ ہوتے وقت نتیش کمار نے فسطائیت یا فرقہ واریت کے بجائے اپنی پارٹی کے خلاف سازش کی بات کہی تھی ۔
2020 کے اندر نتیش کمار اور بی جے پی کے رشتوں میں ایک دراڑ پڑ چکی تھی اس کے باوجود مجبوراً اقتدار کے لیے وہ لوگ ساتھ آگئے۔ اس دوران بی جے پی نے مہاراشٹر میں شیوسینا کے ارکان پارلیمنٹ کو کھڑا کرکے اپنا ہمنوا بنالیا۔ اس اقدام نے نتیش کمار کو ہوشیار کردیا۔ انہوں نے سوچا کہ اگر یہ ابن الوقت پارٹی اپنے نظریاتی حلیف یعنی ہندوتوا کا دم بھرنے والی شیوسینا کےساتھ یہ سلوک کرسکتی ہے تو جے ڈی یو تو اس کی نظریاتی مخالف ہے۔ اس کے ساتھ اور بھی زیادہ سفاکی کا مظاہرہ ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ نتیش کمار کے سامنے مہاراشٹر وکاس اگھاڑی کا کامیاب تجربہ بھی تھا جس میں کانگریس اور راشٹر وادی کے ساتھ شیوسینا بھی شامل تھی یعنی دو علاقائی جماعتوں کے ساتھ ایک قومی سیاسی جماعت کا کامیاب وفاق ۔ نتیش نے سوچا ہوگا کہ اگر مودی کے خلاف نظریاتی اختلاف رکھنے والے لوگ متحد ہو سکتے ہیں تو انہیں آر جے ڈی اور کانگریس کے ساتھ جانے میں کیا حرج ہے؟ یہی وجہ ہے کہ 2022 میں نتیش کمار نے بی جے پی کو طلاق دےکر آر جے ڈی اور کانگریس سے بیاہ رچا لیا۔وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے نتیش کمار کی حلف برداری وزیر اعظم نریندر مودی سے قبل ہوچکی ہے اور دیگر جماعتوں میں ان کی مقبولیت بھی بہت زیادہ ہے اس لیے ان کے دل میں وزیر اعظم بننے کی خواہش کا انگڑائی لینا ایک فطری بات ہے۔ نتیش کمار نے جس وقت بی جے پی سے ناطہ توڑا تو حزب اختلاف دو حصوں میں منقسم تھا ۔ ان میں سے ایک کانگریس کی قیادت والا یو پی اے تھا اور دوسرا علاقائی جماعتوں کا مجوزہ تیسرا محاذ تھا جس کے لیے ممتا بنرجی، اکھلیش یادو، کے سی آر اور اروند کیجریوال کوشش کر رہے تھے۔ نتیش نے ان دونوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی اور ازخود پٹنہ میں سب کو بلایا ۔ یہ اجلاس کامیاب رہا ۔ اس وقت کانگریس کے اندر بھی کرناٹک اور ہماچل پردیش کی انتخابی کامیابی نے اعتماد پیداکیا تھا اور دوسری جماعتوں نے بھی اسے الگ نظر سے دیکھنا شروع کردیا تھا۔ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا ان کی مقبولیت میں اچھا خاصا اضافہ کر چکی تھی۔ اس ماحول میں نتیش کمار نے آگے بڑھ ’انڈیا‘ نامی اتحاد کی بنیاد ڈالی جبکہ اس کے نام رکھائی رسم بنگلورو میں دوسری نشست میں ہوئی اور اس کے بعد ممبئی میں تیسرا اجلاس بھی بہت کامیاب رہا جس نے بی جے پی کی نیند اڑا دی۔
بی جے پی نے پٹنہ کے اجلاس کو ہلکے میں لیا اور حزب اختلاف کےاتحاد پر امیت شاہ نے دو باتیں کہیں۔ ان میں سے ایک تو یہ تھی وہ محض فوٹو سیشن یعنی اپوزیشن کا اتحاد بہت جلد تاش کے پتوں کی مانند بکھر جائے گا لیکن شاہ کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ اگلے چار ماہ تک ’انڈیا‘ نامی محاذ طاقتور ہوتا چلا گیا اور اب تمام سیاسی جماعتوں کے 146 ارکان اسمبلی کو معطل کرکے بی جے پی نے پورے حزب اختلاف کو فیویکول سے چپکا دیا ہے۔ اس کی اس ناعاقبت اندیشی نے درمیان میں پیدا ہونے والے اختلاف و ناچاقی کو دیکھتے دیکھتے ہوا میں تحلیل کردیا۔ امیت شاہ نے دوسری بات یہ کہی تھی کہ پٹنہ کی مشق راہل بابا کی تاج پوشی کی کوشش ہے جو ناکام ہوجائے گی۔ انڈیا محاذ نے راہل گاندھی کے بجائے ملکارجن کھرگے کو اس کا ناظم بناکر بی جےپی کے اقربا پروری والے الزام کی ہوا نکال دی اور مودی سے موازنہ والا کھیل بھی ختم کردیا۔وزیر داخلہ نے جلسہ عام میں موجود اپنے نمک خواروں سے سوال کیا تھا کہ اگر انہیں مودی یا راہل کے درمیان انتخاب کرنا ہوتو وہ کس کی حمایت کریں گے؟ اس پر مجمع سے آواز آئی ’مودی‘ اور شاہ خوش ہوگئے حالانکہ اگلے روز اگر انہیں کرایہ کے لوگوں کو راہل گاندھی کی ریلی میں لے جایا جاتا اور سوال ہوتا کہ وہ کس کو پسندکریں گے تو راہل کا نام آسمان میں اچھل جاتا۔ ملک کے عوام ایسے احسان فراموش بھی نہیں کہ جس کے جلسہ میں جائیں اس کے خلاف نعرے لگائیں ۔ویسے اگلی بار بلائے جانے کے لیے بھی یہ ضروری ہے ورنہ انہیں بار بار سیاسی ریلیوں میں شرکت کی دعوت اور معاوضہ نہیں ملے گا۔
حزب اختلاف کے اس خیر میں شر کا پہلو یہ نکلا کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے خواب چکنا چور ہونے لگے ۔ وہ ایک نہایت آرزو مند سیاست داں ہیں اور یہی چیز ان کو موقع پرست بنادیتی ہے۔ وہ جیل جانے سے بہت ڈرتے ہیں اس لیے وہ گاہے بگاہے ابن الوقتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کے لیے ان کے ساتھ ہنٹر اور گاجر کی حکمت عملی استعمال کرنا بہت سہل ہوجاتا ہے۔ بی جے پی نے حزب اختلاف کے خلاف رام کے نام اور مودی کے کام پر ووٹ مانگنے کی حکمت عملی بنائی لیکن اس کے داخلی جائزے میں یہ بات سامنے آئی کہ بہار میں یہ جادو نہیں چلے گا ۔ نتیش کمار کو اگر الگ نہیں کیا گیا تو اس کی حالت آر جے ڈی جیسی ہو جائے گی اور اس کے لیے کھاتہ بھی کھولنا مشکل ہوجائے گا۔ اس طرح این ڈی اے کی 39 نشستوں پر خطرے بادل منڈلانے لگیں گے نیز اس کی 17 نشستیں خطرے میں پڑ جائیں گی اس لیے نتیش کی کسی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر انہیں ساتھ لیا گیا اور مجبوراً وزیر اعلیٰ کی کرسی بھی سونپ دی گئی۔بی جے پی نےاس حکمت عملی سے اپنے متوقع خسارے کو کم کردیا ہے لیکن اس کے نتیجے میں ایک سے زیادہ نشست کا فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ 40 میں سے 41 نشست تو کوئی بھی نہیں جیت سکتا۔ اسی کے ساتھ بی جے پی نے بلا واسطہ طور پر یہ تسلیم کرلیا ہے انتخابی جیت کے لیے رام کا نام اور مودی کا کام کافی نہیں ہے۔ بی جے پی کو امید تھی کہ اس سے ممتا، کیجریوال اور اکھلیش یادو بھی بد دل ہوکر الگ ہوجائیں گے مگر ان سب نے ایک سُر میں نتیش کو تنقید کا نشانہ بناکر یکجہتی کا ثبوت دیا۔ اکھلیش نے اسے سب سے بڑی غداری کہا اور کانگریس کے ساتھ نشستوں کی تقسیم کو حتمی شکل دے دی نیز، ممتا بنرجی نے کہہ دیا کہ نتیش کا ابھی چلے جانا اچھا ہے کیونکہ اگر نتائج کے بعد جاتے تو بڑا نقصان ہوتا ۔بہر حال حزب اختلاف کے اتحاد میں خس کم جہاں پاک کی فضا ہے ۔ نتیش کمار اگر انتخاب کے بعد جا سکتے ہیں تو واپس بھی آسکتے ہیں۔ اس صورت میں وہ این ڈی اے کو بڑا نقصان پہنچائیں گے۔ اس سے بی جے پی نے اپنے ایک بڑے نقصان کو ٹال دیاہے لیکن اگر انڈیا نامی اتحاد اتر پردیش میں اثر انداز ہوجائے تو بی جے پی کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ نتیش کمار کی اس قلا بازی کا قومی انتخاب پر کیا اثر پڑے گا یہ تو وقت بتائے گا۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
نتیش کمار ایک نہایت آرزو مند سیاست داں ہیں اور یہی چیز ان کو موقع پرست بنادیتی ہے۔ وہ جیل جانے سے بہت ڈرتے ہیں اس لیے وہ گاہے بگاہے ابن الوقتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کے لیے ان کے ساتھ ہنٹر اور گاجر کی حکمت عملی استعمال کرنا بہت سہل ہوجاتا ہے۔ بی جے پی نے حزب اختلاف کے خلاف رام کے نام اور مودی کے کام پر ووٹ مانگنے کی حکمت عملی بنائی لیکن اس کے داخلی جائزے میں یہ بات سامنے آئی کہ بہار میں یہ جادو نہیں چلے گا ۔ نتیش کمار کو اگر الگ نہیں کیا گیا تو اس کی حالت آر جے ڈی جیسی ہو جائے گی اور اس کے لیے کھاتہ بھی کھولنا مشکل ہوجائے گا۔ اس طرح این ڈی اے کی 39 نشستوں پر خطرے بادل منڈلانے لگیں گے نیز اس کی 17 نشستیں خطرے میں پڑ جائیں گی اس لیے نتیش کی کسی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر انہیں ساتھ لیا گیا اور مجبوراً وزیر اعلیٰ کی کرسی بھی سونپ دی گئی۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 4 فروری تا 10 فروری 2024