نجی ضروریات کے اخراجات میں کمی کے اسباب کا جائزہ ضروری

کارپوریٹ کمپنیوں کے لئے ٹیکس کی چھوٹ مگر مڈل کلاس کے لیے کیوں نہیں؟

0

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

!دولت و غربت کا فرق ؛ ایف ایم سی جی پر خرچ میں کمی مگر لگژیری اشیاء کی خریداری میں اضافہ
گزشتہ دنوں مرکزی اعداد و شمار اور اسکیموں کی عمل آوری کی نگران وزارت نے گھریلو اخراجات سے متعلق ایک سروے پیش کیا ہے جس کے مطابق عوام اشیاء خورد و نوش سے زیادہ دیگر چیزوں پر خرچ کر رہے ہیں، سروے میں یہ بھی کہا کہ گھریلو اشیاء کی خریداری میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ صورت حال شہر اور دیہی علاقوں میں یکساں پائی جاتی ہے، اس سروے میں پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 23-2022 میں دیہی علاقوں میں فی گھریلو خرچ 3773 روپے تھا جبکہ شہری علاقوں میں ہر ایک گھر نے اپنی گھریلو اشیاء پر 6459 روپے خرچ کیا ہے۔ مالی سال 24-2023 میں دیہی علاقوں میں گھریلو اشیاء پر خرچ 4122 روپے جبکہ شہری علاقوں میں 6996 روپے فی گھر خرچ کیے گئے ہیں۔ اس سروے میں ایک اور بات بھی واضح ہو کر سامنے آئی ہے کہ اشیائے خورد و نوش کے علاوہ دیگر اشیاء پر ہی لوگوں نے زیادہ خرچ کیا ہے، یہ صورت حال دونوں علاقوں میں کم و بیش یکساں دیکھی گئی ہے۔ دیہی علاقوں میں عوام نے دیگر اشیاء پر تقریباً 53 فیصد اور شہری علاقوں میں 60 فیصد خرچ کیا ہے۔
یہ بات عمومی طور مانی جاتی ہے کہ اشیائے خورد و نوش پر کم ہی خرچ ہوتا ہے، کھانے پینے کی اشیاء کو چھوڑ کر دیگر اشیاء پر ہی زیادہ خرچ کیا جاتا ہے، لیکن ایسا گھر جو انتہائی غریب ہو تو وہاں دیگر اشیاء کے مقابلے میں کھانے پینے کی چیزوں پر زیادہ خرچ ہوتا ہے، وہیں ایک متوسط گھرانے میں کھانے پینے کی اشیاء سے زیادہ دیگر چیزوں پر زیادہ خرچ کیا جاتا ہے۔ اس کی منطق یہ ہے کہ جیسے جیسے آمدنی بڑھتی ہے، اسی مناسبت سے دیگر اشیاء پر خرچ بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس کے برعکس آمدنی جیسے کم ہوتی جائے گی خرچ میں بھی کمی واقع ہوتی چلی جائے گی۔
نجی ضروریات کے اخراجات میں کمی واقع ہو رہی ہے، جب کہ ماہرین معاشیات کے مطابق نجی ضروریات کے اخراجات ہمارے ملک کی جی ڈی پی میں تقریباً ساٹھ فیصد حصہ ادا کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس سہ ماہی میں جی ڈی پی ساڑھے پانچ فیصد تک گر گئی ہے، جب کہ پچھلے سہ ماہی میں اس کی شرح 6.7 فیصد تھی۔ جی ڈی پی کے گرنے کی وجہ نجی ضروریات کے اخراجات کا کم ہونا ہے، خاص طور پر شہری علاقوں میں نجی ضروریات کے اخراجات بڑی حد تک کم ہوا ہے۔
ایک اور بات یہاں پر عرض کر دیں کہ عوام کا صرف خرچ ہی کم نہیں ہوا ہے بلکہ ان کی بچت بھی کم ہوئی ہے، نجی ضروریات کے اخراجات اور پرسنل سیونگس دونوں کم ہوئی ہیں۔ ان دونوں کی کمی درحقیقت خراب معاشی صورت حال کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ سروے کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کی معاشی صورت حال نہایت بگڑی ہوئی نظر آرہی ہے، یہ سروے کسی پرائیویٹ کمپنی یا کسی اپوزیشن پارٹی کا نہیں ہے بلکہ حکومتی ادارے منسٹری آف اسٹاٹیسٹکس اینڈ پروگرام ایمپلیمنٹیشن کا سروے ہے۔ حکومت کتنی بھی اپنی پیٹھ تھپتھپاتی پھرے کہ ملک کی معیشت تین کھرب ڈالر، چار کھرب ڈالر کی ہوئی ہے، معاشی ترقی ہو رہی ہے، لیکن اعداد و شمار تو اس کی بگڑی ہوئی صورت حال کو واضح طور پر بیان کر رہے ہیں۔ اب حکومت کو اس میں کسی اپوزیشن کی چال یا کسی بیرون ملک کی سازش یا پھر مسلمانوں کا معاشی جہاد کہنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ خود اس کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
گزشتہ کئی دنوں سے ہم لگاتار خبروں میں دیکھ رہے ہیں کہ مڈل کلاس طبقہ ایف ایم سی جی پر خرچ کم کر رہا ہے، ایف یم سی جی یعنی فاسٹ موونگ کسٹمر گوٹس، جس میں بسکٹ، آلو وغیرہ کے چپس، مشروبات، صابن، کاسمیٹکس وغیرہ ہیں جو ایف ایم سی جی کہلاتے ہیں ان کی خریدی میں واضح کمی ہوئی ہے، یہ کوئی بے بنیاد بات نہیں ہے بلکہ ان چیزوں کو بنانے والی کمپنیاں جیسے پارلے اور ہندوستان یونی لیور وغیرہ کہہ رہی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ آٹوموبائل کمپنیوں کی بھی یہی شکایت ہے کہ ہمارے سیلس میں دن بہ دن کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس کے برعکس پرتعیش اشیاء کی فروخت میں کافی اضافہ دیکھا گیا ہے، لگژری گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے، بجٹ کاروں کی فروخت میں کمی ہوئی ہے، ماروتی سیلس کا ڈیٹا بھی یہ بتاتا ہے کہ ہائی انڈ کاروں کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے اور بجٹ کاروں کی فروخت میں کمی ہوئی ہے۔ اسی طرح لگژری اپارٹمنٹوں کی خریدی میں بھی اضافہ ہوا ہے، اس کے برعکس افورڈیبل ہاؤسنگ جو کہ مڈل کلاس خریدتا ہے اس میں کمی ہوئی ہے، اس پیٹرن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان کا جو امیر طبقہ ہے وہ خرچ کر رہا ہے کیوں کہ وہ خرچ کرنے کے قابل ہے، اس کے پاس بھاری دولت جمع ہو رہی ہے، جب کہ ملک کا مڈل کلاس خرچ نہیں کر رہا ہے، وہ صرف ان اشیاء پر ہی خرچ کر رہا ہے جو انتہائی ضروری ہیں، ڈسکریشنری ایکسپنڈیچرز کو کم کر دیا ہے۔ فیکی نے خانگی ادارے سے ایک ریسرچ کروائی تھی کہ گزشتہ چار سالوں میں کس طرح لوگوں کی آمدنی اور ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ ریسرچ مختلف شعبوں میں کام کرنے والوں پر کیا گیا جیسے ریٹیل سیکٹر، آئی ٹی، ایف ایم سی جی، لاجسٹکس وغیرہ۔ ریسرچ سے پتا چلا ہے کہ 0.8 فیصد سے 5.4 فیصد تک ہی بڑھے ہیں، یعنی گزشتہ پانچ سال میں صرف ساڑھے پانچ فیصد تک ہی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے، جب آمدنی میں اضافہ نہیں ہو گا تو بھلا بتائیے خرچ کہاں سے کیا جائے گا؟ آمدنی کے نہیں بڑھنے کا راست اثر خرچ پر پڑے گا، اسی لیے خرچ میں کمی واقع ہوئی ہے۔
اگر ہم افراطِ زر کی شرح کو دیکھیں تو 2019 سے 2023 کے دورانیے میں 5.7 فیصد رہا ہے۔ ایک بات کا یہاں ذکر کردوں کہ افراطِ زر بھی پورے اشیاء کا کیپچر نہیں کیا جاتا ہے، اس میں بعض اشیاء ہمارے استعمال کے ہوتے ہیں اور بعض نہیں ہوتے، اس لیے افراطِ زر کا حقیقی تناسب یعنی 5.7 سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ مارکیٹ کا حقیقی افراط زر سات فیصد سے بڑھا ہوا ہوتا ہے، اب آپ اس افراط زر کو آمدنی سے تقابل کیجیے، جتنا افراط زر بڑھا ہے اتنا آمدنی میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ سرکاری افراط زر 5.7 فیصد ہے، جب کہ آمدنی میں اضافہ 5.4 فیصد ہی ہے، یعنی مہنگائی جس تناسب سے بڑھ رہی ہے، اس تناسب سے آمدنی میں اضافہ نہیں ہوا ہے، پھر بھلا خرچ کیسے بڑھے گا۔
آئی ٹی شعبہ جس کے بارے میں یہ مانا جاتا ہے کہ اس میں سب سے زیادہ تنخواہیں ہوتی ہے وہاں بھی سالانہ تنخواہوں میں اضافہ محض 4.2 فیصد ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آئی ٹی کمپنیاں بھی ملازمین پر خرچ کم کر رہی ہیں، وہ ملازمین کو تنخواہیں کم دیتے ہوئے، ان پر مختلف اخراجات کو کم کرکے اپنی آمدنی میں اضافہ کر رہی ہیں۔ چیف اکنامک ایڈوائزر گورنمنٹ آف انڈیا وی اننت ناگیشورن نے کہا کہ گزشتہ پندرہ سالوں میں کارپوریٹ شعبے نے جتنی کمائی کی ہے اتنی کبھی نہیں کی ہے۔ کوویڈ کے زمانے میں بھی اس کی آمدنی میں اضافہ جاری رہا۔ کارپوریٹ کمپنیوں کی آمدنی میں اضافہ ہو رہا ہے، اپنی آمدنیوں کو تو وہ بڑھا رہے ہیں لیکن ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کر رہے ہیں، بلکہ الٹا ملازمین پر ہونے والے خرچ کو گھٹا رہے ہیں جس کے نتیجے میں ملازمین کی تنخواہوں میں بچت نہیں ہو رہی ہے، اسی وجہ سے وہ خرچ نہیں کر پا رہے ہیں۔ حاصل یہی ہے کہ نجی ضروریات کے اخراجات میں کمی کی سب سے پہلی وجہ آمدنی میں اضافے کا نہ ہونا ہی ہے۔
نجی ضروریات کے اخراجات میں کمی کی دوسری وجہ انکم ٹیکس کا زیادہ ہونا ہے۔ انکم ٹیکس دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک پرسنل انکم ٹیکس اور دوسرا کارپوریٹ انکم ٹیکس۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کارپوریٹ انکم ٹیکس سے زیادہ پرسنل انکم ٹیکس وصول ہوتا ہے۔ پرسنل انکم ٹیکس کی اوسط شرح ہمارے ملک میں بیس فیصد ہے، تو کسی کی تیس فیصد ہے۔ وہیں کارپوریٹ انکم ٹیکس کم ہوتا ہے، آپ گوگل پر سرچ کر کے دیکھ سکتے ہیں، ریلائنس کے بارے میں معلوم کیجیے کہ میکش امبانی کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں؟ شاید پندرہ سے اٹھارہ فیصد سے زیادہ نہیں ہوگا۔ جب کہ ایک فرد کا پرسنل انکم ٹیکس اس سے زیادہ ہے، جب ایک عام انسان ٹیکس زیادہ ادا کرے گا تو خرچ کیسے کرے پائے گا۔
نجی ضروریات کے اخراجات کی کمی کی تیسری وجہ جی ایس ٹی کا بے ہنگم، غیر منصفانہ، پیچیدہ، نہ سمجھ میں آنے والا طریقہ کار ہے۔ پاپ کارن کی الگ الگ تیاری پر الگ الگ جی ایس ٹی کا اطلاق، ہر شئے پر جی ایس ٹی کا ظالمانہ اطلاق ہو رہا ہے۔ مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ بزنس مین جو کچھ خرچ کرتا ہے وہ اپنی کمپنی کے اخراجات میں درج کر کے ٹیکس سے بچتا ہے، جب کہ ایک ملازم چاہے وہ سرکاری ملازم ہی کیوں نہ ہو وہ اپنے اخراجات پر کوئی ایگزمپشن نہیں لے سکتا۔ مثال کے طور پر ایک بزنس مین آفس جانے کے لیے کار کا استعمال کرتا ہے، اس میں جو پٹرول استعمال ہوگا اس کا خرچ کمپنی کے اخراجات میں شامل کرتا ہے تو اسے چھوٹ ہے، وہیں ایک ہیڈ ماسٹر اسکول جانے کے لیے اگر کار کا استعمال کرتا ہے، تو اس میں جو پٹرول کا خرچ ہوگا اس کے لیے کوئی ایگزمپشن نہیں ہے، یہ بے انصافی ہے جی ایس ٹی کی۔ جی ایس ٹی کی ایک اور مضحکہ خیزی ملاحظہ فرمائیں، جی ایس ٹی ایک عام آدمی بھی بھرتا ہے اور ایک بزنس مین بھی، لیکن بزنس مین کو انپٹ کریڈیٹ ملتا ہے، یعنی ایک میں وہ جی ایس ٹی بھرتا ہے اور دوسرے میں اسے خود جی ایس ٹی آتا ہے، جب کہ ایک عام آدمی کو ایسی سہولت نہیں ہے۔ یہاں تک کہ امتحانات کے فارمس پر بھی اٹھارہ فیصد جی ایس ٹی ہے، اسی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے خرچ میں کمی ہو رہی ہے، خرچ کرنے والا طبقہ تو عام آدمی ہی ہوتا ہے، کارپوریٹ خرچ کرتا ہے لیکن وہ اپنی کمپنی کے لیے خرچ کرتا ہے، پروڈیکشن پر نہیں، جب کہ عام آدمی پروڈیکشن پر خرچ کرتا ہے، اپنی ذاتی ضروریات کے لیے خرچ کرتا ہے، جب عام آدمی خرچ کرے گا تو ہی اکنامی بڑھے گی، ترقی کرے گی۔ اکنامی میں گروتھ چاہیے تو کنزمپشن کو فروغ دینا پڑے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ کنزمپشن کیسا بڑھے گا،اس کا سیدھا سادھا جواب یہی ہے کہ کنزمپشن عوامی انکم میں اضافے سے بڑھے گا، انکم کب ہوگی؟ انکم میں اضافہ ٹیکس میں کمی سے ہوگا، یہ ایک زنجیر ہے۔ بدقسمتی سے مودی سرکار کارپوریٹ کمپنیوں کو انکم ٹیکس میں چھوٹ دیتی ہے، ان کے کارپوریٹ انکم ٹیکس کو معاف کرتی ہے، ان کو رعایتیں دیتی ہے۔ 2019 میں کارپوریٹ انکم ٹیکس دس فیصد کم کیا گیا، ایک لاکھ چوالیس ہزار کروڑ روپے معاف کردیے گئے، پھر بھی ان کارپوریٹ کمپنیوں نے نہ تو انوسٹمنٹ کیا، نہ ہی ویجیس بڑھائے، نہ کیپٹل ایکسپنڈیچر کیے اور نہ ہی ایمپلائمنٹ کریٹ کیے، پھر ایسی رعایت کا کیا فائدہ؟ انہوں نے حکومت کی طرف سے دی گئی رعایتوں سے صرف اپنی تجوریاں بھر لیں۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ مرکزی دھارے کے میڈیا میں اس پر ڈیبیٹ نہیں ہوتی، مڈل کلاس کی آمدنی کم ہوتی جا رہی ہے، وہ بچت نہیں کر پا رہے ہیں، مہنگائی بڑھ رہی ہے، مہنگائی کے تناسب سے ان کی کمائی یا ان کی تنخواہیں نہیں بڑھ رہی ہیں، تعلیم مہنگی ہوتی جا رہی ہے، صحت مہنگی ہوگئی ہے، رہائش مہنگی ہوگئی ہے، یعنی کاسٹ آف ایجوکیشن، کاسٹ آف ہیلتھ، کاسٹ آف اکاموڈیشن بے انتہا مہنگے ہوگئے ہیں۔ مڈل کلاس کے لیے شہروں میں زندگی گزارنا عذاب بن گیا ہے۔ مرکزی حکومت نے رینٹل ہوم اسکیم تو بنائی ہے لیکن اس پر کوئی عمل درآمد نہیں کیا گیا، اسکول فیس کو ریگولیٹ کرنے کی بات کی گئی لیکن اس پر بھی کوئی عمل درآمد نہیں کیا گیا، کارپوریٹ ہسپتالوں میں فیس کو ریگولیٹ کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن کسی قسم کا ریگولیشن لاگو نہیں ہوا، بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ان تمام چیزوں پر حکومت کا کوئی کنٹرول ہی نہیں ہے، ان تمام مسائل سے مڈل کلاس گزر رہا ہے، لیکن ان کی بات سننے والا کوئی نہیں ہے۔ حکومت کارپوریٹ کے ٹیکس کو معاف کرتی ہے لیکن عام آدمی پر نت نئے ناموں سے ٹیکسوں کا بوجھ بڑھاتی چلی جاتی ہے، انہیں کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں ملتی۔
حکومت عوام کے اصل مسائل کو حل کرنے کے بجائے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے میں لگی ہوئی ہے تاکہ لوگ اپنے حقیقی مسائل کے بارے میں ان سے سوال نہ کریں، لوگ ہندو مسلم کرتے ہوئے آپس میں دست و گریباں ہوتے رہیں تاکہ اپنے پسندیدہ کارپوریٹ کمپنیوں کو ملک لوٹنے کا پورا موقع ملتا رہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 جنوری تا 18 جنوری 2024