!نیویارک کے رئیس شہر کا انتخاب

ٹرمپ سے نیتن یاہو تک سب کی امیدوں پر پانی پھرگیا

0

مسعود ابدالی

جواں سال ظہران ممدانی ڈیموکریٹک پارٹی کا ٹکٹ جیتنے میں کامیاب
!اصل انتخابات کے لیے مزید پانچ ماہ باقی ہیں۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
نیویارک کے رئیس شہر (Mayor) کے پرائمری انتخابات میں 33 سالہ بھارتی نژاد ظہران ممدانی نے کامیابی حاصل کر لی۔ امریکہ میں انتخابات کے لیے جماعتی ٹکٹ پارٹیوں کے قائدین یا پارلیمانی بورڈ جاری نہیں کرتے بلکہ اس کے لیے امیدواروں کے درمیان براہِ راست مقابلہ ہوتا ہے جسے پرائمری انتخاب کہا جاتا ہے۔ یعنی ابھی ظہران ممدانی نے رئیس شہر کے انتخابات کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کا ٹکٹ حاصل کیا ہے۔ اصل مقابلہ 5 نومبر کو ہوگا۔
نیویارک کے انتخابات کی گونج امریکہ سے اسرائیل تک سنائی دے رہی ہے، حتیٰ کہ صدر ٹرمپ نے نتائج کے اعلان کے بعد جناب ممدانی پر ‘کمیونسٹ’ کی بھپتی کسی۔ اسرائیلی اخبارات میں ظہران ممدانی کی شخصیت اور سیاسی نظریات پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔ انتخابی نتائج سے پہلے ظہران ممدانی کے خاندانی و نظریاتی پہلوؤں پر چند سطور ملاحظہ فرمائیں:
ظہران ممدانی کے والد ڈاکٹر محمود ممدانی مہاراشٹر میں پیدا ہوئے اور بہت ہی کم عمری میں یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا چلے گئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم دارالسلام، تنزانیہ میں ہوئی اور اسکول سے فارغ ہوتے ہی وہ اسکالرشپ پر ریاست پینسلوینیا کی جامعہ پیٹسبرگ (University of Pittsburgh) آ گئے، جہاں سے انہوں نے سیاسیات میں بی اے کیا۔ محمود ممدانی دورانِ طالب علمی نسلی مساوات اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم رہے اور جیل بھی کاٹی، یعنی ظہران ممدانی کو مزاحمتی سیاست ورثے میں ملی ہے۔ جامعہ ہارورڈ میں PhD کے لیے ان کا مقالہ بھی یوگنڈا کی طبقاتی سیاست پر تھا۔ انہوں نے 1991 میں اڈیشہ کے پنجابی ہندو خاندان سے تعلق رکھنے والی فلم ساز میرا نائر سے شادی کر لی جو عمر میں ان سے 12 سال چھوٹی ہیں۔ظہران ممدانی نے کمپالا میں جنم لیا۔ ان کے والد شیعہ مسلمان اور والدہ ہندو ہیں، جبکہ ظہران خود کو صرف مسلمان کہتے ہیں، یعنی شیعہ سنی کا لیبل انہیں پسند نہیں۔
جب ظہران پانچ سال کے تھے تو ان کے والد جامعہ کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقہ سے وابستہ ہو گئے، لیکن صرف دو سال بعد ان کا خاندان نیویارک آ گیا، جہاں ظہران نے ابتدائی تعلیم مکمل کی، جس کے بعد بوڈین کالج، مین (Bowdoin College, Maine) سے بی اے کی سند حاصل کی۔ دورانِ طالب علمی وہ انسانی حقوق کے سرگرم کارکن رہے اور کالج میں Students for Justice in Palestine کا حلقہ قائم کیا۔ عملی زندگی میں داخل ہونے کے بعد ظہران ممدانی کرایے کی ادائیگی میں مستحق لوگوں کی مدد اور گھر بدری نوٹس ملنے پر قانونی امداد فراہم کرنے کے لیے سرگرم رہے۔ والدہ کی وجہ سے ظہران کو موسیقی سے بھی شغف ہے اور انہوں نے میرا نائر کی فلموں کے لیے دھنیں بھی تیار کیں۔
عملی سیاست میں ظہران ممدانی کا داخلہ مختلف رہنماؤں کی انتخابی مہمات سے ہوا، جن میں بائیں بازو کے رہنما قادر الیتیم، Ross Barkan اور Tiffany Cabán شامل ہیں۔ ظہران نے خود کو ڈیموکریٹک پارٹی کے ترقی پسند دھڑے Democratic Socialists of America سے وابستہ کر لیا اور 2020 میں نیویارک کی ریاستی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔ انہوں نے یہ نشست 2022 اور 2024 میں برقرار رکھی۔ صوبائی اسمبلی میں وہ سرگرم ترین رکن سمجھے جاتے ہیں جنہوں نے 20 مسودۂ قانون پیش کیے اور 230 سے زیادہ بلوں کا حصہ بنے۔ حالیہ انتخابی مہم کے دوران وہ ایک بار بھی اسمبلی اجلاس سے غیر حاضر نہیں رہے۔
گزشتہ سال اکتوبر میں ظہران ممدانی نے رئیس شہر کے لیے قسمت آزمائی کا اعلان کیا۔ اسرائیل کے بعد یہودیوں کی سب سے بڑی آبادی نیویارک میں ہے، اس لیے یہاں سے جیتنے کے لیے یہودی آشیر واد ضروری ہے۔ ظہران کسی بھی مذہب کے لوگوں کے مخالف نہیں لیکن فلسطینیوں کے حقوق کے بارے میں ان کا موقف و عزم بہت واضح ہے اور وہ اس کے اظہار میں کوئی مداہنت نہیں برتتے۔ وہ غزہ میں نسل کشی کے خلاف مظاہرے میں گرفتار بھی ہو چکے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر نیتن یاہو نیویارک آئے تو عالمی فوجداری عدالت (ICC) کے وارنٹ کی تعمیل کرتے ہوئے انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔
دلچسپ بات یہ کہ ان کی والدہ بھی فلسطینیوں کے حقوق کی ایسی ہی پُرجوش حامی ہیں۔ جولائی 2013 میں انہیں دعوت دی گئی کہ وہ حیفہ (اسرائیل) فلم میلے کے دوران اپنی فلم پیش کریں۔ آہنی عزم کی حامل اس خاتون نے دعوت نامے کے جواب میں لکھا:
میں اسرائیل تب جاؤں گی جب
(اسرائیلی و فلسطینی آبادیوں کے بیچ کھڑی) دیواریں گرا دی جائیں گی
(فلسطین سے) قبضہ ختم ہوگا
وہاں ایک مذہب کو دوسرے پر امتیازی برتری حاصل نہ ہوگی
وہاں نسل پرستی (Apartheid) کا خاتمہ ہوگا
خط کے اختتام پر ظہران کی والدہ نے لکھا:
"میں فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیل کے علمی و ثقافتی بائیکاٹ (PACBI) کی حامی ہوں۔”
اس ذاتی و خاندانی پس منظر کے ساتھ نیویارک کے رئیس شہر کے لیے میدان میں اترنا ظہران ممدانی جیسے مضبوط اعصاب والے شخص کا ہی کام ہے۔ انہوں نے غریب طبقے کے مفادات کو اپنے منشور کا حصہ بنایا جن میں کام پر آنے جانے کے لیے مفت بس سواری، مکانوں کے بڑھتے ہوئے کرایوں اور مالک مکان کی من مانیوں پر نظر اور شہریوں کو مناسب قیمت پر اشیائے خورد و نوش فراہم کرنے کے لیے سرکاری گروسری اسٹور کا قیام شامل ہے۔
ابتدا میں سو سے زیادہ امیدوار میدان میں اترے جن کی اکثریت نوشتۂ دیوار پڑھ کر دوڑ سے علیحدہ ہو گئی، اور آخر میں صرف 12 امیدوار رہ گئے۔ اصل مقابلہ نیویارک کے سابق گورنر اینڈریو کومو اور ظہران ممدانی میں تھا۔ اینڈریو کومو کے والد آنجہانی ماریو کومو بھی گورنر رہ چکے ہیں۔ ماسوائے Jewish Voice for Peace کے، تمام یہودی اور قدامت پسند تنظیموں و گروہوں نے کومو کی حمایت کی۔ یہاں پر بھی اخلاقیات کا درس دینے والوں نے اپنا اصلی روپ دکھا دیا۔ بطور گورنر اینڈریو کومو بددیانتی، بھتہ خوری اور جنسی زیادتیوں کے اسکینڈل میں لت پت رہے اور موصوف نے گورنری سے استعفیٰ دے کر جان چھڑائی، لیکن محض ممدانی کو ہرانے کے لیے شائستہ و منصفانہ سیاست کے دعویداروں نے اینڈریو کومو کی انتخابی مہم کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے۔
دوسری طرف سینیٹر برنی سینڈرز اور ڈیموکریٹک پارٹی کے ترقی پسند رہنماؤں نے ظہران ممدانی کا کھل کر ساتھ دیا۔ پاکستان، ہندوستانی اور بنگلہ دیشی خواتین نے زبردست مہم چلائی۔ ہر ایک کو فون اور ہر گھر پر دستک دے کر رائے عامہ کو ہموار کیا۔ نتائج کے مطابق ظہران ممدانی 43.51 فیصد ووٹ لے کر معرکہ جیت گئے، جبکہ اینڈریو کومو نے 36.42 فیصد ووٹ حاصل کیے۔
اینڈریو کومو نے شکست کے بعد دستبردار ہونے کے بجائے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیویارک کے حالیہ میئر ایرک ایڈمز بھی آزاد امیدوار کے طور پر قسمت آزمائی کر رہے ہیں، جبکہ ریپبلکن پارٹی 71 سالہ کرٹس سلوا (Curtis Sliwa) کو میدان میں اتار رہی ہے۔ ابھی انتخابات میں پانچ ماہ باقی ہیں، اس لیے نتائج کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے، لیکن صدر ٹرمپ اور اسرائیلی حکومت سے لے کر امریکہ کے تمام متعصب انتہا پسند، ظہران ممدانی کو ہرانے کے لیے یکسو ہیں، چنانچہ سخت مقابلے کی توقع ہے۔
***

 

***

 ظہران کسی بھی مذہب کے لوگوں کے مخالف نہیں لیکن فلسطینیوں کے حقوق کے بارے میں ان کا موقف و عزم بہت واضح ہے اور وہ اس کے اظہار میں کوئی مداہنت نہیں برتتے۔ وہ غزہ میں نسل کشی کے خلاف مظاہرے میں گرفتار بھی ہو چکے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر نیتن یاہو نیویارک آئے تو عالمی فوجداری عدالت (ICC) کے وارنٹ کی تعمیل کرتے ہوئے انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 جولائی تا 12 جولائی 2025