نیوز کلک ‘ پر حملے سے حکومت کیا چاہتی ہے؟‘

کیا حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگانا ملک سے غداری ہے؟

زعیم الدین احمد حیدرآباد

چند روز پہلے نیوز کلک کے مالکوں و مدیروں کے گھروں اور آفسوں پر پولیس نے دھاوا بولا، اس کے کئی کارندوں کو مزید جانچ کے لیے پولیس نے اپنی تحویل میں بھی لے لیا ہے۔ پولیس کی اس کارروائی کے خلاف بہت سے دیگر اخبارات نے اداریے لکھے اور شدید الفاظ میں مذمت کی۔ سوال یہ ہے کہ آخر پولیس نے یہ دھاوے کیوں کیے؟ اس ادارے نے ایسا کیا جرم کیا جس کی وجہ سے اس پر دھاوے بولے گئے؟ کن دفعات کے تحت پولیس نے ان کے خلاف مقدمات درج کیے؟ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ ادارہ ملک کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہے، اس ادارے کو چین سے سرمایہ کاری ہوتی ہے وغیرہ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب اس ادارے کے ذمہ داروں کو پولیس پوچھ تاچھ کے لیے لے گئی تو وہاں اس نے بڑے عجیب و غریب سوالات کیے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان سے ملک کے خلاف سرگرمیوں کے متعلق سوالات کرتے، چین کی سرمایہ کاری سے متعلق سوالات پوچھتے، لیکن ان سے دلی فسادات کے بارے میں سوالات کیے گئے۔ پولیس نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نے دلی فسادات پر رپورٹنگ کی؟ سی اے اے، ین آر سی کے خلاف عوامی احتجاج پر خبریں چلائیں؟ کیا تم نے کسان مخالف تین کالے قوانین کے خلاف خبروں کو عام کیا؟ ایک اور حیرت انگیز سوال بھی پولیس نے ان سے کیا اور اسے ایف آئی آر میں بھی درج کیا ہے، وہ یہ کہ کیا تم لوگوں نے کوویڈ کے موقع پر کیے جانے والے حکومتی اقدامات پر سوالات اٹھائے ہیں وغیرہ۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کی رپورٹنگ کرنا کب سے غیر قانونی ہوگیا ہے؟ کیا حکومت سے سوال پوچھنا جرم ہے؟ کیا حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگانا ملک سے غداری ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی کارروائی سے پولیس کی نیت اور حکومت کے ارادے واضح ہوگئے ہیں کہ وہ اپنے خلاف کچھ سننا نہیں چاہتی، اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبا دینا چاہتی ہے۔
اگر حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھانا جرم ہے تو ملک کے بہت سے میڈیا ادارے بند ہو جائیں گے، کیوں کہ کوویڈ کے موقع پر حکومت کی ناقص کارکردگی پر کئی ایک اداروں نے سوالیہ نشان کھڑا کیا تھا، کوویڈ وباء کو پھیلنے سے روکنے میں حکومت کی ناکامی پر کئی میڈیا چینلز نے آواز بلند کی تھی، کیا ان سب اداروں کو اب حکومت بند کر دے گی؟ کیا ان سب کو پولیس نے اسی طرح گرفتار کیا ہے؟ اگر جرم سب کا ایک ہی ہے تو سزا بھی یکساں ہونی چاہیے۔ اس پر چنندہ کارروائی کا کیا جواز بنتا ہے؟ جمہوریت میں حکومت کی کارکردگی پر سوال کرنا میڈیا کا بنیادی حق ہے، اگر وہ یہ کام کر رہا ہے تو قابل تحسین بات ہے، اگر حکومت سے سوال نہیں ہو رہا ہے تو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ وہ میڈیا بک چکا ہے، اس لحاظ سے وہ جمہوریت کے لیے شدید نقصان کا باعث بنے گا۔
درحقیقت نیوز کلک کا مقدمہ کوئی نیا نہیں بلکہ پرانا مقدمہ ہے، گزشتہ تین سال سے اس پر مقدمات چل رہے ہیں۔ ای ڈی نے نیوز کلک میں کی جانے والی سرمایہ کاری پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کیس درج کیے، اسی طرح اکنامکس افینس ونگ نے بھی اس پر مقدمہ درج کیا ہوا ہے، انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ نے بھی اسی بابت مقدمہ درج کیا ہوا ہے، تین سال سے اس ادارے پر ان تینوں محکموں نے مقدمات درج کیے ہوئے ہیں اور تحقیقات بھی جاری ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تینوں اداروں یعنی ای ڈی، ای اے وی، آئی ٹی نے آج تک ان پر چارج شیٹ بھی داخل نہیں کی ہے، پھر اچانک پولیس کو کیا سوجھی کہ وہ بھی آ دھمکی؟ پولیس نے ادارے کے ذمہ داروں پر یو اے پی اے کی دفعہ لگادی، یہاں تک کہ پولیس نے ان لوگوں کو ایف آئی آر کی نقل بھی فراہم نہیں کی۔ تین سال سے ملک کے اہم اور بڑے محکموں نے بھی ان پر چارج شیٹ داخل نہیں کی۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انہیں اس میں کچھ ملا ہی نہیں، تب ہی تو اب تک چارج شیٹ داخل نہیں ہو پائی ہے، اگر ان کی تحقیقات میں کچھ ملتا تو وہ چارج شیٹ داخل کرچکے ہوتے۔ اسی بات کو لے کر نیوز کلک کے ذمہ داروں نے دہلی ہائی کورٹ کا رخ کیا کہ تین سال ہو چکے ہیں اب تک کوئی چارج شیٹ داخل نہیں ہوئی ہے، لہٰذا ہمیں ضمانت قبل از گرفتاری دی جائے اور دہلی ہائی کورٹ نے ان کی درخواست منظور بھی کرلی ہے۔
اب یہاں سے پولیس ایکشن میں آ جاتی ہے، جیسے ہی انہیں ضمانت قبل از گرفتاری مل جاتی ہے، پولیس ان کے خلاف منصوبہ بناتی ہے کہ انہیں کسی ایسے مقدمہ میں پھنسایا جائے جس سے ان کو ضمانت ہی نہ مل سکے، چنانچہ ان پر یو اے پی اے جیسا ناقابلِ ضمانت مقدمہ درج کر دیا جاتا ہے۔ یو اے پی اے ایک ایسی شق ہے جس کے تحت پولیس کسی کو بھی غیر معینہ مدت تک کے لیے چارج شیٹ داخل کیے بغیر حبس بے جا میں رکھ سکتی ہے۔ اس مقدمے میں کوئی ضمانت نہیں ملتی۔ آخر پولیس نے ان پر کون کون سے الزامات لگائے ہیں؟ آئیے اس کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
نیوز کلک پر پولیس کا الزام یہ ہے کہ اس ادارے میں ایک امریکی تاجر ناویلی رائے سنگھم نے سرمایہ کاری ہے، اور ان کے تعلقات چین سے ہیں، چین کے پروپگنڈے کو عام کرنے کے لیے یہ شخص مختلف ممالک کے میڈیا ادارے میں سرمایہ کاری کرتا رہتا ہے، اسی حیثیت میں اس نے نیوز کلک میں بھی سرمایہ کاری کی ہے۔ یعنی نیوز کلک پر یہ الزام ہے کہ اس سرمایہ کاری کے ذریعے اس نے چین کے پروپگنڈے کو عام کرنے کا کام کیا ہے۔ یہ خبر نیویارک ٹائمز میں شائع ہوئی، اسی کی بنیاد پر پولیس نے کارروائی کی ہے۔ فی الحال ہم اس خبر کو جو نیویارک ٹائمز میں شائع ہوئی ہے صرف نظر کرتے ہوئے یہ دیکھتے ہیں کہ کیا چین کا یا کسی چینی شخص کا کسی بھارتی کمپنی میں سرمایہ کاری کرنا قانونی اعتبار سے جرم ہے؟ بھارتی قانون کے اعتبار سے تو یہ کوئی جرم نہیں ہے، چین کا کوئی بھی شخص بھارتی کمپنی میں سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔ آج بھی سیکڑوں کمپنیاں ایسی ہیں جن میں چین نے سرمایہ کاری کی ہے۔ ژیومی سے لے کر ویو تک ایسی درجنوں کمپنیاں ہیں جن میں چین نے سرمایہ کاری کی ہے۔ ریاستی اعتبار سے دیکھا جائے تو گجرات ایک ایسی ریاست ہے جہاں چین کی سے زیادہ سرمایہ کاری ہے۔ ایک سال قبل تک چین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر تھا اور امریکہ دوسرا۔ دوسری طرف نیوز کلک کا کہنا ہے کہ ہمارے ادارے میں کوئی چینی سرمایہ کاری سرے سے ہے ہی نہیں، ہمارے ادارے میں ناویلی رائے سنگھم نے سرمایہ کاری کی ہے، تھوٹ ورکس جو کے ایک آئی ٹی کمپنی ہے اس کے مالک ہیں، ان کے دفاتر چنائی اور بنگلورو میں بھی موجود ہیں۔ یہ امریکی شہری ہیں، جو بنیادی طور پر بائیں بازو کے نظریات سے متاثر ہیں اور بائیں بازو کی حمایت کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے ہمارے ادارے میں سرمایہ کاری کی ہے، سرمایہ کاری بینکوں کے ذریعے اور آر بی آئی کے ضابطے کے مطابق ہوئی ہے، کوئی غیر قانونی طور پر سرمایہ کاری نہیں کی گئی ہے۔ اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ چینی سرمایہ کاری ہے تو وہ غیر قانونی نہیں ہے، تو پھر کس بنیاد پر ان کے خلاف یو اے پی اے جیسا ملک سے غداری کا مقدمہ درج کیا گیا ہے؟ اگر چین کی ترقی کی تعریف کرنا ملک سے غداری ہے تو ملک کے وزیر اعظم کو کیا کہیں گے جنہوں نے چینی صدر کے ساتھ جھولے لیے تھے، بڑی تعریفیں کی تھیں؟
دوسرا الزام پولیس نے یہ لگایا ہے کہ نیوز کلک کے چیرمین پرابیر پرکایاستھا، گوتم نولکھا کہ اچھے دوست ہیں، جن کا تعلق ماوسٹوں سے ہے اور جس کی وجہ سے وہ گھر پر نظر بند ہیں، اس لیے بھی ان پر یو اے پی اے کا قانون لاگو ہوتا ہے۔ سوچیے کہ یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے۔ اگر کوئی شخص کسی ماوسٹ کو جانتا ہو اور اس کا دوست ہو تو کیا وہ اتنی سی بات پر مجرم ہو جائے گا؟ جب گوتم نولکھا پر محض الزام ہے کہ ان کے تعلقات ماوسٹوں سے ہیں اور ان پر ابھی تک فرد جرم بھی عائد نہیں ہوئی ہے، تو کیا ایسے شخص سے ملاقات کرنا کیا جرم ہو جائے گا اور اس پر یو اے پی اے کی دفعہ عائد ہو جائے گی؟ یہی دہلی پولیس کا دوسرا الزام ہے۔
تیسرا الزام یہ ہے کہ پرابیر اور رائے سنگھم نے مل کر بھارتی نقشے کو توڑ مڑوڑ کر پیش کرنے کے سلسلے میں اپنے ای میل کے ذریعے تبادلے خیال کیا ہے۔ یعنی بھارت کا ایسا نقشہ پیش کرنے کی بات کی ہے جس میں کشمیر اور اروناچل پردیش شامل نہیں ہیں۔ پولیس کا الزام ہے کہ انہوں نے اپنے ای میل میں ایسے نقشے پر تبادلہ خیال کیا ہے، لیکن پولیس نے اس کا کوئی ثبوت نہیں پیش کیا ہے۔ صحافیوں اور میڈیا اداروں پر اتنے عام قسم کے الزامات لگا کر ان پر یو اے پی اے جیسے سنگین نوعیت کے مقدمات لگانا کسی صورت میں منصفانہ اقدام نہیں ہے۔ ان الزامات کو دیکھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ حکومت اپنے ناقدین کو خاموش کر دینا چاہتی ہے۔

 

***

 حیرت کی بات یہ ہے کہ جب اس ادارے کے ذمہ داروں کو پولیس پوچھ تاچھ کے لیے لے گئی تو وہاں اس نے بڑے عجیب و غریب سوالات کیے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان سے ملک کے خلاف سرگرمیوں کے متعلق سوالات کرتے، چین کی سرمایہ کاری سے متعلق سوالات پوچھتے، لیکن ان سے دلی فسادات کے بارے میں سوالات کیے گئے۔ پولیس نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نے دلی فسادات پر رپورٹنگ کی؟ سی اے اے، ین آر سی کے خلاف عوامی احتجاج پر خبریں چلائیں؟ کیا تم نے کسان مخالف تین کالے قوانین کے خلاف خبروں کو عام کیا؟ ایک اور حیرت انگیز سوال بھی پولیس نے ان سے کیا اور اسے ایف آئی آر میں بھی درج کیا ہے، وہ یہ کہ کیا تم لوگوں نے کوویڈ کے موقع پر کیے جانے والے حکومتی اقدامات پر سوالات اٹھائے ہیں وغیرہ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 اکتوبر تا 28 اکتوبر 2023