نیتی آیوگ پر راج نیتی اور بہار کا خصوصی درجہ ؟

بجٹ میں نتیش اور نائیڈو کو بڑا حصہ۔ ڈبل انجن والی حکومتیں بھی نظرانداز!

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

بی جے پی کی امیدوں کو دھکا پہنچانے والی ریاستوں سے انتقام!
ہندوستانی سیاست کی یہ رنگا رنگی ہے کہ نتیش کمار کے نام میں نیتی ہے ۔ وہ مرکزی حکومت کےاین ڈی اے اتحاد میں شامل ہیں اس کے باوجود نیتی آیوگ کی نشست میں نہیں گئے ۔ اس کے برعکس ممتا بنرجی وہاں حاضر ہوگئیں جبکہ انڈیا محاذ، جس کا وہ حصہ ہیں، بائیکاٹ کا اعلان کرچکا تھا ۔ ایسا کیوں ہوا ؟ دراصل بات یہ ہے کہ نتیش کمار کو نیتی (منصوبہ) میں نہیں راج نیتی (سیاست) میں دلچسپی ہے ۔ اپنی عیارانہ سیاست سے انہوں نے بجٹ میں سب سے بڑا حصہ حاصل کرلیا۔ چندرا بابو نائیڈو کو نیتی آیوگ کی میٹنگ میں جانے کے بعد بھی وہ مراعات نہیں مل سکیں اور ممتا تو مائک بند ہونے کا شور مچاتے ہوئے باہر نکل آئیں۔ ان کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے بی جے پی نے ان کا الزام مسترد کرکے انہیں جھوٹاقرار دے دیا اور جس انڈیا محاذ کی مخالفت کرکے انہوں نے سرکاری نشست میں شرکت کی تھی اسے آگے آکر مرہم رکھنا پڑا ۔ ان جھگڑوں سے دور اپنے نائب وزرائے اعلیٰ بھیج کر نتیش کمار نے خانہ پُری کردی ۔ وہ بیک وقت اپنے پاسباں یعنی رائے دہندگان اور دوست نما دشمن مودی سرکار کے درمیان توازن قائم رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ نتیش کمار کی سیاست فی الحال ثاقب لکھنوی کے اس شعر کی مصداق ہے؎
اے چمن والو چمن میں یوں گزارا چاہیے
باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی
نتیش کمار کا دہلی آنا جانا اور وزیر اعظم سے ملاقات کرنا عام سی بات ہے اس کے باوجود انہوں نے نریندر مودی کی صدارت میں منعقد ہونے والے نیتی آیوگ کے اہم اجلاس میں خود شریک ہونے کے بجائے نائب وزیر اعلیٰ وجے سنہا اور سمراٹ چودھری کو کیوں روانہ کیا ؟ اس سوال کا جواب سپریم کورٹ کےذریعہ پٹنہ ہائی کورٹ کے فیصلہ پر روک لگانے سے انکار میں چھپا ہوا ہے۔ یہ فیصلہ نتیش کمار کی سیاست کے لیے بے حد اہم ہے۔ مرکز کی مودی سرکار اگر چاہتی توعدالت میں یہ نہ ہوتا یا کم ازکم ٹھنڈے بستے چلا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پٹنہ ہائی کورٹ نے نتیش کمار سرکار کے ذریعہ اپنے سیاسی حریف تیجسوی یادو کو کمزور کرنے کی خاطر دیے جانے والے بہار میں پسماندہ طبقات، انتہائی پسماندہ طبقات، درج فہرست ذاتوں و قبائل کا ریزرویشن 50 فیصد سے بڑھاکر 65فیصد کرنے والےقانون کو رد کردیا تھا۔ اس کے خلاف بہار سرکار نےسپریم کورٹ میں اپیل کرکے عبوری راحت طلب کی مگر وہ نہیں مل سکی ۔ چیف جسٹس چندرچوڑ کی بنچ نے ریاستی حکومت کی درخواست کا جائزہ لینے پر آمادگی ظاہر کرکے سماعت ستمبر 2024ء تک ملتوی کردی ۔ ایس سی ؍ایس ٹی کوٹہ در کوٹہ معاملے میں سپریم کورٹ کے رخ سے واضح ہوگیا ہے کہ بہار سرکار کے حق میں اس تنازع کا حل نہایت مشکل ہےکیونکہ بظاہر کورٹ اور مرکزی حکومت نےریزرویشن کو بلا واسطہ ختم کرنے پراتفاق کرلیا ہے۔
انڈیا اور این ڈی اے کے درمیان فی الحال ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔ ایوانِ پارلیمنٹ میں راہل گاندھی اس پر اصرارکرتے ہیں تو بی جے پی انوراگ ٹھاکر کے ذریعہ ان کی مخالفت کرواتی ہے۔ بہار کے اندر یہ معاملہ اس قدر نازک ہے کہ وہاں بی جے پی نے خود نتیش کمار کے ساتھ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کی حمایت کی تھی۔ اس کے بعد تیجسوی یادو کے ساتھ مل کر نتیش کمار نے ریاست میں کاسٹ سروے کرانے کے بعد کوٹہ بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا مگر اس کو پٹنہ ہائی کورٹ نے 20جون کو رد کردیا ۔اس کی دو وجوہات ہیں اول تو عدالتوں میں سارے نام نہاد اونچی ذات کے جج بھرے پڑے ہیں جن کے نزدیک اپنے طبقہ کا مفاد آئین، قانون یا سماجی فلاح و بہبود سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے نیز انہیں انتخاب بھی نہیں لڑنا ہے لیکن سیاسی جماعتیں بشمول بی جے پی جانتی ہے کہ ریزرویشن سے چھیڑ چھاڑ سیاسی خودکشی کے مترادف ہے۔
جے ڈی یو فی الحال مرکزی حکومت سے بیش از بیش مالی فائدہ حاصل کرنے کے موڈ میں ہے کیونکہ مرکز کی سرکاری امداد سے جو ٹھیکے دیے جائیں گے انہیں سے الیکشن لڑنے کی خاطر پارٹی کے خزانے میں چندہ آئے گا اس لیے وہ ٹکراو نہیں چاہتی ۔ یہی وجہ ہے کہ جے ڈی یو کے ترجمان نیرج کمار نے نتیش کمار کی نیتی آیوگ کی میٹنگ میں غیر حاضری کوایسا پہلی بار نہیں ہوا کہہ کر ٹال دیا ۔ جے ڈی یو کے جنرل سکریٹری کے سی تیاگی نے وزیر اعلیٰ کی ذاتی وجوہات کا بہانہ بناکر سیاسی اسباب کا انکار کیااور بجٹ ونیتی آیوگ کی میٹنگ کےحوالے سے پرجوش ہونے کا دعویٰ کیا جو درست نکلا ۔ بہار کو اس بار بجٹ میں دوسروں کی بہ نسبت بہت زیادہ نوازہ گیا۔اس کے بہانے کانگریس نے نیتی آیوگ کا بائیکاٹ کردیا ۔ اس کے ترجمان پون کھیڑا نے اپنے فیصلے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت اکثریت کے لیے دو ریاستوں پر منحصر ہے۔ حکومت نےبجٹ میں ان دونوں ریاستوں کے لیے خزانہ کھول کر یہ ثابت کردیا کہ وزیراعظم انصاف نہیں کر سکتے، یہی بائیکاٹ کی وجہ ہے۔
پون کھیڑا نے کہا کہ انتخابی نتائج کے بعد بھی وزیر اعظم مودی نےعوام کا مزاج سمجھے بغیر ڈبل انجن والی حکومتوں کو بھی نظر اندازکرکے نتیش کمار اور این چندرابابو نائیڈو کو ہی نواز دیا ۔اس ضمن میں کانگریس ترجمان نے راجستھان اور مہاراشٹر کی سزا کا ذکر کیا کیونکہ ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی کو کم سیٹیں ملیں۔ انہوں نے حزب اختلاف کے منتخب وزرائے اعلیٰ کے ساتھ جس ناانصافی کا ذکر کیا اس کا ثبوت ممتا بنرجی کے ساتھ بد سلوکی میں چھپا ہے۔ نیتی آیوگ کاادھورا اجلاس چھوڑ کر باہر آنے کے بعدممتا نے الزام لگایا کہ انہیں بولنے سے روکا گیا اس لیے ناراض ہو کروہ درمیان میں اجلاس چھوڑ کر باہر آ گئیں۔ انہوں نے کہا چندربابو نائیڈ کو بولنے کے لیے 20 منٹ دیے گئے۔ آسام، گوا، چھتیس گڑھ کے وزرائے اعلیٰ 10-12 منٹ تک بولے۔ لیکن انہیں صرف پانچ منٹ بولنے کے بعد روک دیا گیا۔ وہ کہتی ہیں بجٹ میں بھی یہی کیا گیا، یہ سیاسی طور پر متعصبانہ بجٹ ہے۔ انہوں نےریاستوں کے ساتھ تعصب پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ نیتی آیوگ کے پاس کوئی اقتصادی طاقت نہیں ہے تو یہ کام کس طرح کرے گا؟ ان کا مطالبہ ہے کہ یا تو اسے مضبوط بنائیں یا پھر پلاننگ کمیشن کو پھر سے بحال کیا جائے۔
ممتا بنرجی نے بی جے پی کے ہاتھوں ہزیمت کے بعد عہد کیا کہ وہ دوبارہ اس اجلاس میں کبھی شرکت نہیں کریں گی، لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اپنے محاذ کے فیصلے کی روگردانی کرکے وہ اپنی بے عزتی کرانے کے لیے وہاں گئی ہی کیوں تھیں؟ وہ بھی اگر تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن کی مانند نیتی آیوگ کے اجلاس کا بائیکاٹ کرتیں اور سوشل میڈیا پر لکھ دیتیں کہ مرکزی بجٹ ریاستوں اور بی جے پی کا بائیکاٹ کرنے والے لوگوں کے خلاف انتقامی کارروائی ہے، اسے انڈیا اتحاد کو ووٹ دینے والوں سے انتقام لینے کے لیے تیار کیا گیاہے تو یہ بے عزتی تو نہ ہوتی۔ اسٹالن کا یہ موقف نہایت معقول نظر آتا ہےکہ مرکز کی بی جے پی حکومت تمل ناڈو کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہے اس لیے وہ بائیکاٹ کررہے ہیں ۔ شیوسینا کے رکن پارلیمان سنجے راوت نے اسٹالن کی تائید میں کہا کہ نیتی آیوگ بجٹ کے مطابق کام کرتا ہے۔ بجٹ سے صاف ظاہر ہے کہ پیسہ اور اسکیمیں صرف بی جے پی حکومت والی ریاستوں کو دی جارہی ہیں۔ اس لیے اسٹالن، تلنگانہ اور ہماچل پردیش کے چیف منسٹروں نے میٹنگ کا بائیکاٹ کیا۔ مغربی بنگال کے وزیراعلیٰ کی توہین پر وہ بولے ان کا مائیکرو فون بندکیا جانا جمہوریت سے مطابقت نہیں رکھتا۔
سیاسی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو ممتا بنرجی کا نیتی آیوگ کے اجلاس میں شرکت کو گودی میڈیا نے انڈیا محاذ کے اندر دراڑ کے طور پر پیش کیا تھا۔ بی جے پی کی مخلوط حکومت کے لیے ممتا بنرجی کو زیادہ وقت اور توجہ دے کر اپنے قریب کرنے اور انڈیا محاذ کو کمزورکرنے کا کا یہ بہترین موقع تھا جو اس نے گنوادیا ۔ اول تو بدسلوکی کی اور پھر ڈھٹائی سے مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے ممتا بنرجی کا دعویٰ کو بے بنیاد قرار دے دیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ وہ انڈیا بلاک کے لیڈروں کو خوش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جبکہ حقیقت میں وہ انہیں ناراض کرکے وہاں گئی تھیں ۔ بی جے پی تو اس سے استفادہ نہیں کرسکی مگر کانگریس نے نیتی آیوگ کی میٹنگ میں مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی بے عزتی کو ’’ ناقابل قبول‘‘ قرار دےکر بازی الٹ دی۔ کانگریس نے الزام عائد کیا کہ دس سال پہلے قائم کردہ نیتی آیوگ غیر حیاتیاتی وزیر اعظم نریندر مودی کا ’’ڈھولی‘‘ بنا ہوا ہے۔کانگریس جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے کہا کہ آیوگ نے کوآپریٹو وفاقیت کے مقصد کو کسی بھی طرح سے آگے نہیں بڑھایا ۔ اس کا کام صریحاًمتعصبانہ رہا ہے، اور نہ وہ پیشہ ورانہ اور خود مختار ہے۔ کانگریس کے راجیو شکلا نے بھی ممتا بنرجی کے ساتھ بدسلوکی کی مذمت کی۔
ممتا بنرجی کی دلآزاری کرنے والی بی جے پی نے بجٹ میں روپیہ بانٹ کر نتیش کمار کو تو خوش کردیا مگر بہار کے ووٹروں کو راضی نہیں کرسکی اس لیے کہ بجٹ کا بیشتر فائدہ سیاستدانوں اور ان کے چہیتے ٹھیکداروں کی تجوریوں میں چلا جاتا ہے ۔ عوام کا دل بہلانے کے لیے خصوصی ریاست کا درجہ دینا اہم اقدام ہوسکتا تھا۔ ایوان پارلیمنٹ کا مانسون سیشن شروع ہوا تو پہلے ہی روز ایوانِ بالا میں مختلف اراکین نے وقفہ صفر کئی مسائل اٹھائے ان میں سے ایک بہار اور اڈیشہ کو خصوصی درجہ دینے کا مطالبہ بھی تھا۔ راشٹریہ جنتا دل کے منوج جھا نے بہار کو خصوصی درجہ دینے کا مطالبہ کرکے بی جے پی اور جنتا دل کے درمیان دراڑ ڈالنے کی جو کوشش کی، اس میں وہ کامیاب ہوگئے ۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کو خصوصی درجہ دینے کے ساتھ ہی خصوصی پیکیج بھی دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ریاست میں پانچ خصوصی اقتصادی زون بنانے کا بھی مطالبہ کرڈالا۔
جنتا دل یونائیٹڈ کے رہنما بھی بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے کا مسلسل مطالبہ کرتے رہے ہیں لیکن وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو بالآخر پارٹی مرکزی حکومت کا جواب مل ہی گیا کہ خصوصی ریاست کا درجہ نہیں مل سکتا۔ جے ڈی یو کے رکن پارلیمان رام پریت منڈل کے سوال کے جواب میں پنکج چودھری نے تحریری جواب میں یہ فرمان سنا دیا۔ وزیر مملکت برائے خزانہ پنکج چودھری نے مرکزی حکومت کی جانب سے کہا کہ خصوصی درجہ کے لیے ضروری شرائط کو بہار پورا نہیں کرتا۔ جنرل بجٹ 2024-25 اور جموں وکشمیر کے بجٹ پر مشترکہ بحث میں حصہ لیتے ہوئے بہار کانگریس کے صدراکھلیش پرساد سنگھ نے نریندر مودی اور نتیش کمار کو لڑانے کی کوشش کی ۔
انہوں اکھلیش سنگھ نے کہا کہ مرکز کی موجودہ مخلوط حکومت سے یہ امید کی جارہی تھی کہ اب ریاست کوخصوصی درجہ مل جائے گا لیکن پارلیمنٹ کے اجلاس کے پہلے ہی دن سرکار نے کہہ دیا چونکہ بہار مختلف معیارات پر پورا نہیں اترتا اس لیے یہ ممکن نہیں ہے۔ان کے مطابق انسانی ترقی کے اشاریہ جات، قومی آمدنی اور صنعت کاری سمیت تمام کسوٹیوں پر بہار خصوصی درجہ کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔ یہ صوبہ سیلاب اور خشک سالی سے مستقل طور پر متاثر رہتاہے۔کانگریس کے رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ حکومت کو اپنے خودساختہ معیار میں ترمیم کرکے بہار کو یہ درجہ دینا چاہیے کیونکہ اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات میں این ڈی اے کے کئی رہنما بھی خصوصی درجہ کا سنہرا خواب دکھاتے رہے ہیں۔ اکھلیش پرساد سنگھ نے یاد دلایا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے بہار میں ایک بڑی ریلی میں 1.25 لاکھ کروڑ روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا لیکن آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس کا کیا ہوا؟ ان کے مطابق سال 2000 میں بہار کی تقسیم کے بعد اس وقت کے وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی نے بھی بہار کے لیے پیکیج کا اعلان کیا تھا۔
کیا اکھلیش پرساد کو نہیں معلوم کہ بی جے پی کے نزدیک اس طرح کے وعدوں کی جملوں سے زیادہ اہمیت نہیں ہے اس لیے ان کے ذریعہ پوری ریاست میں سڑکوں پر اتر کر ہر ضلع میں احتجاج کرنے کا اعلان معقول لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بہار کو سرکردہ ریاستوں کی فہرست میں شامل کرنا ہے تو اسے خصوصی درجہ دیا جانا ہوگا۔ان کے خیال میں بہار ایک بیمار ریاست ہےاور اس کی ترقی کے لیےخصوصی درجہ لازمی ہے۔ کانگریس کا نہ سہی، بی جے پی کو کم ازکم جنتا دل (یو) کا تو خیال رکھنا چاہیے۔ مخلوط حکومت میں پارٹنرس کا احترام لازمی ہوتا ہے۔ لیکن مودی اب بھی پہلے جیسی من مانی کیے جارہے ہیں ۔ مودی-3 میں وزارت کی تقسیم کے بعد امید تھی کہ اسپیکر کا عہدہ جے ڈی یو یا ٹی ڈی پی کو دیا جائے گا مگر ویسا بھی نہیں ہوا اور خصوصی درجہ دینے سے بھی انکار کردیا گیا۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ مودی خود چاہتے ہیں کہ جے ڈی یو الگ ہوجائیں اور وہ ان کے ارکان کو خرید کر اپنی پارٹی میں شامل کرنے کے بعد اپنے بل بوتے پراکثریت میں آجائیں یا دوبارہ انتخاب کروا کر الیکشن جیت جائیں ۔
ملک کے سات صوبوں سے آنے والے ضمنی انتخاب کے نتائج چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ عوام کا رحجان بدل چکا ہے مگر اس پکار کو سننے کے لیے کان کھلے ہونے چاہئیں۔ سوئے ہوئے آدمی کی آنکھ کے ساتھ کان بھی بند ہوتے ہیں ۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ اقتدار کے نشے میں ایسے دُھت ہیں کہ انہیں غیر تو دور خود اپنے نفع نقصان کا بھی احساس نہیں ہے۔ کسی پارٹی کا سارا انحصار اگر ایک فرد پر مرکوز ہوجائے اور وہ شخص نرگسیت کے خمار میں گرفتار ہو تو دونوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔مرکز کا یہ رویہ بتاتا ہے کہ یاتو سرکار خواب دیکھ رہی ہے یا اقتدار کے نشے میں دھت ہے۔ خواب اور نشہ کی حالت میں انسان حقیقت سے بے بہرہ ہوجاتا ہے۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں نتیش کمار کے ساتھ اس طرح کی بھونڈی حرکت وہی کرسکتا جو دوبارہ انتخاب کروا کر اپنے بل پر کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہو۔
حکومت سازی سے قبل یہ توقع کی جارہی تھی کہ کوئی اہم وزارت جے ڈی یو اور تیلگو دیشم پارٹی کو ملے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔ مودی نے اپنی ہار کو چھپانے کے لیے پچھلی وزارت کو کاپی پیسٹ کردیا۔ پچھلا انتخاب مودی کی گارنٹی پر لڑا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ وزیر اعظم اپنی کارکردگی پر توثیق چاہتے تھے اور آئندہ اسی ڈگر پر اپنا سفر جاری رکھنے کی اجازت مانگ رہے تھے ۔ اس لیے وہ الیکشن نہیں ریفرنڈم تھا۔ استصواب کے اندر کم از کم پچاس فیصد کی حمایت لازمی ہوتی ہے اور اسے پانے میں مودی ناکام ہوگئے۔ اس لیے اول تو انہیں اپنی شکست کو تسلیم کرکے از خود مارگ درشک منڈل میں چلے جانا چاہیے تھا مگر اقتدار کی ہوس پیروں کی زنجیر بن گئی اور وہ مخلوط حکومت تشکیل کرکے وزیر اعظم بن گئے۔ استصواب میں شکست کے باوجودمودی کا وزیر اعظم بن جانا ابراہیم عدم کےاس شعر کی مانند ہے؎
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 اگست تا 17 اگست 2024