نیپال میں عوامی بغاوت

جمہوریت کے نقاب میں آمرانہ سیاست اور کارپوریٹ پرستی کا خاتمہ

نوراللہ جاوید

بھارت کو دائیں بازو کی خواہشات کے مطابق کام کرنے کے بجائے ملک کے مفاد میں نیپال سے تعلقات استوار کرنے کی ضرورت
سری لنکا اور بنگلہ دیش کے بعد اب نیپال میں بھی شدید عوامی احتجاج کے نتیجے میں حکم رانوں کو کرسی چھوڑ کر بھاگنا پڑا ہے۔ اگرچہ ان تینوں ممالک میں عوامی بغاوت کے محرکات مختلف ہیں اور عوام کی سوچ، ضروریات اور تقاضے جدا ہیں لیکن اگر ان بغاوتوں کا گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو ایک بات مشترک نظر آتی ہے کہ تینوں ممالک میں عوامی بغاوت جمہوریت کے نقاب میں استحصالی نظام رائج کرنے والوں کے خلاف برپا ہوئی۔
آمریت پسند حکم رانوں اور کارپوریٹ سرمایہ داروں کے گٹھ جوڑ نے ملک کے تمام وسائل پر مخصوص حکم راں طبقے اور اشرافیہ کا قبضہ کروا دیا ہے۔ ان تینوں ممالک میں عوامی بغاوت کو جمہوریت کی ناکامی قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ یہ آمرانہ اور عوام دشمن پالیسیوں، قوم پرست اور کارپوریٹ نواز سیاست دانوں کے خلاف عوامی ناراضگی کی لہر تھی۔ یہ ناراضگی اس لیے پیدا ہوئی کہ ان سیاست دانوں نے قوم پرستی اور مفاد پرستی کی آڑ میں کارپوریٹ گھرانوں کو کھلی چھوٹ دے دی کہ وہ جس طرح چاہیں ملک کو لوٹیں۔ ان سیاست دانوں نے عوام سے کیے گئے وعدوں کو یکسر فراموش کر دیا اور اقتدار کی خاطر ملک کے تمام وسائل کو چند ہاتھوں میں مرکوز کر دیا۔
یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا خون ریز عوامی بغاوت کے بعد سری لنکا اور بنگلہ دیش کے عوام کو استحصالی نظام اور کارپوریٹ گھرانوں کے جبر سے واقعی نجات ملی؟ کیا انقلاب کے نتیجے میں وجود میں آنے والی حکومتوں نے عوامی امنگوں کے مطابق کام شروع کر دیا ہے؟ عوامی احتجاج کے بعد وجود میں آنے والی عبوری حکومت نیپالی عوام بالخصوص نوجوانوں کی امنگوں کو پورا کرنے، بے روزگاری کے خاتمے اور مہنگائی پر قابو پانے میں کامیاب ہوگی؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ جب یہ احتجاج بدعنوانی پر مرکوز تھا تو کیا ملک کی دولت و وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والوں کو عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے گا؟
یہ سوالات اور خدشات اس لیے بھی اہم ہیں کہ ڈیڑھ دہائی قبل عرب دنیا میں بھی اسی طرح کی بغاوتیں برپا ہوئیں، جو 2011 میں تیونس سے شروع ہوکر مصر، بحرین اور لیبیا تک پھیل گئیں۔ یہ احتجاج اور انقلاب مزدوروں، کسانوں اور نوجوانوں کی قیادت میں امریکی حامی سرمایہ دارانہ نظاموں کے ذریعے اسلام کے نام پر قائم بدترین استحصالی نظام کے خلاف تھا۔ اس انقلاب کو "عرب بہار” کا نام دیا گیا۔
مگر سرمایہ دارانہ اور نیم جاگیردارانہ استحصال کے خلاف عوامی بغاوت انقلاب میں تبدیل نہ ہوسکی۔ چنانچہ عوام دوست اور مساوات پر قائم نظام قائم ہونے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ عرب بہار کے پندرہ برس بیت جانے کے بعد بھی کئی عرب ممالک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں۔ سیاسی قوتیں مکمل طور پر ناکام ہیں، بیرونی مداخلت اور سیاست دانوں کے درمیان ٹکراؤ نے ملک کو مذہبی، سماجی اور معاشرتی طور پر منقسم کر دیا ہے۔ اقتدار تک امریکی حمایت یافتہ نئے مقامی ایجنٹ پہنچے اور وہی پرانا مذہبی و آمرانہ سرمایہ دارانہ نظام آج بھی جاری ہے۔
سری لنکا اور بنگلہ دیش کے برعکس نیپال میں عوامی بغاوت صرف حکم رانوں کے خلاف نہیں تھی بلکہ نیپال کی تمام سیاسی جماعتیں، اشرافیہ، کارپوریٹ گھرانے اور حکومت حامی میڈیا اس بغاوت کے نشانے پر تھے۔ مختلف کمیونسٹ جماعتیں، نیپالی کانگریس اور بادشاہت کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کرنے والی ماو نوازوں کی جماعت سبھی عوامی ناراضگی کی زد میں تھیں۔
درحقیقت 1950 سے اب تک نیپال میں تین بڑے اور تاریخی ہنگامے برپا ہو چکے ہیں۔ پہلا ہنگامہ پارلیمانی جمہوریت کے لیے تھا جسے بادشاہت نے 1962 میں ختم کر کے پارٹی لیس پنچایت نظام متعارف کرایا۔ اس کی مخالفت 1990 کی دہائی میں ایک بڑی عوامی تحریک کے ذریعے کی گئی، جس کے نتیجے میں کثیر جماعتی آئینی بادشاہت قائم ہوئی۔ 1996 سے نیپال نے ماو نوازوں کی قیادت میں ایک بڑی مسلح بغاوت دیکھی جو 2006 تک جاری رہی۔ اس کے نتیجے میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور نیپال کو ایک آئینی، سیکولر اور جمہوری جمہوریہ بنایا گیا۔ ماو نوازوں نے ہتھیار ڈال دیے اور انتخابی جمہوری عمل میں شامل ہو گئے۔ 2015 میں ایک نیا آئین تیار کیا گیا، جس نے نیپال کو سات انتظامی اکائیوں کے ساتھ ایک وفاقی جمہوریہ بنایا۔
جنوب میں بھارت اور شمال میں چین کی سرحد سے متصل ہمالیائی ملک نیپال کبھی بھی بڑی قوتوں اور طاقتوروں کی کالونی نہیں رہا۔ اپنے جغرافیائی محلِ وقوع اور طویل مدت تک قائم بادشاہت کے باوجود اس ملک میں بے روزگاری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق باون فیصد سے زیادہ نیپالی عوام خط غربت سے نیچے ہیں۔ کم عمر نوجوانوں کی شرح بائیس فیصد ہے اور ہر روز تین ہزار سے زائد نوجوان روزی روٹی کی تلاش میں ملک چھوڑ دیتے ہیں۔ 2024 میں نیپالی حکومت نے تقریباً نو لاکھ غیر ملکی کام کے اجازت نامے جاری کیے۔
نیپال میں سیاحت بنیادی صنعت ہے جو بنیادی ڈھانچے کی کمی کا شکار ہے۔ چین کے تعاون سے چلنے والے اور دیگر نئے بنیادی ڈھانچے کے منصوبے روزگار کے دیگر ذرائع ہیں۔ قرض کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط نے نیپال کو فلاحی اسکیموں کو محدود کرنے اور نجی کارپوریٹ کی قیادت والے ماڈل کو فروغ دینے پر مجبور کیا ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ ہوا اور نیپالی عوام، خصوصاً نوجوانوں کی زندگی مشکل ہو گئی۔
دوسری طرف "نیپو کڈز” (حکم رانوں اور سیاست دانوں کی اولادیں) کی عیش و عشرت بھری زندگی اور تمام مرکزی دھارے کی جماعتوں کی کھلی بدعنوانی نے پورے نظام کے خلاف بغاوت کو جنم دیا جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ، عدالتوں اور وزراء کے گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ یہ بلاشبہ افسوس ناک ہے لیکن اس طرح کے ہجومی تشدد بھی حکم راں طبقے کے استحصال کی شدت اور عوام کی مایوسی کی گہرائی کا پیمانہ ہے۔
اس ماہ کے آغاز میں جب "جنرل زیڈ” کی تحریک شروع ہوئی تو اقتدار کے نشے میں دھت حکم راں طبقے نے انتہائی حقارت کے ساتھ ان کے مطالبات کو رد کردیا۔ سوشل میڈیا ساٹھ لاکھ سے زیادہ نیپالیوں کے لیے، جو ملک سے باہر کام کر رہے ہیں، رابطے کا بنیادی ذریعہ ہے اور ترسیلاتِ زر کا اہم وسیلہ بھی جو نیپال کے جی ڈی پی کا تینتیس فیصد ہیں۔ بادشاہت کے خاتمے اور جمہوری نظام کے قیام کے بعد امید تھی کہ حکومت غربت کے خاتمے اور پہاڑوں میں محصور آبادیوں کے لیے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر توجہ دے گی مگر وہاں کے سیاست دانوں نے نیپالی عوام کو مایوس کیا۔
2008 سے اب تک ماو نواز، کانگریس اور کمیونسٹ جماعتیں صرف اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے موقع پرست اتحاد بناتی رہیں اور کبھی بھی عوام دوست یا مساوات پر مبنی نظام قائم کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ سیاسی عدم استحکام کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2008 تا 2024 کے درمیان تین بڑی جماعتیں ، نیپالی کانگریس (شیر بہادر دیوبا کی قیادت میں) کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (یونیفائیڈ مارکسسٹ لیننسٹ) (حال ہی میں معزول وزیر اعظم کے پی اولی کی قیادت میں) اور کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (ماو نواز سنٹر) (پرچنڈا کی قیادت میں) کے مختلف امتزاج سے تیرہ سے زیادہ حکومتیں تبدیل ہوئیں۔
معاشی اعتبار سے نیپال شدید مشکلات کا شکار ہے۔ جی ڈی پی کی شرح نمو، جو 2025 کے لیے صرف 3.3 فیصد متوقع ہے جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔ یہ بھارت کے سات فیصد اور بنگلہ دیش کے ساڑھے پانچ فیصد سے کہیں پیچھے ہے۔ فی کس آمدنی صرف چودہ سو ڈالر ہے، جبکہ بھارت میں ستائیس سو ڈالر اور بنگلہ دیش میں ڈھائی ہزار ڈالر ہے۔ یہ اعداد و شمار نیپال کو خطے کے غریب ترین ممالک میں شامل کرتے ہیں۔ خاص طور پر نوجوانوں میں بے روزگاری 19.2 فیصد کی تشویش ناک سطح پر ہے۔
دوسری طرف سیاست دانوں کی شاہانہ زندگی اور عوام کی شدید غربت کے درمیان تضاد نے نوجوانوں کو مایوس کر دیا ہے۔ وہ بد عنوانی اور اقربا پروری کو اپنی مشکلات کی جڑ سمجھتے ہیں۔ اگرچہ نیپال کی موجودہ عوامی بغاوت سوشل میڈیا پر پابندی کے بعد سامنے آئی، لیکن "جنرل زیڈ” کی تحریک ان بنیادی شکایات پر قائم تھی جو برسوں سے ابل رہی تھیں۔ مظاہرے حکم رانوں کی بد عنوانی، اقربا پروری اور خراب حکم رانی پر عوام کی گہری مایوسی کو ظاہر کرتے ہیں۔
نیپال تقریباً 885 کلومیٹر مشرق سے مغرب اور تقریباً 193 کلومیٹر شمال سے جنوب تک پھیلا ہوا ہے اور یہ دو علاقائی طاقتوں کے درمیان واقع ہے: شمال میں چین اور جنوب، مشرق اور مغرب میں بھارت۔ نیپال تاریخی اور ثقافتی طور پر بھارت سے قریب ہے اور نیپالی راجاؤں کا رجحان ہمیشہ بھارت کی طرف رہا ہے لیکن حالیہ برسوں میں بھارت مخالف جذبات میں شدت آئی ہے۔ سبکدوش ہونے والے وزیرِ اعظم اولی چین کی طرف واضح جھکاؤ رکھتے تھے۔ پاکستان اور دیگر ایشیائی ممالک بھی نیپال سے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

چنانچہ سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ نیپال میں عوامی بغاوت کے اثرات صرف نیپال تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ چین، بھارت اور امریکہ کو اپنی پالیسیوں اور حکمت عملی پر نظرِ ثانی کرنی پڑے گی۔ نیپال میں جمہوریت کی بحالی میں کتنا وقت لگے گا اور اقتدار کس کے ہاتھ میں جائے گا، ان سوالات سے قطع نظر بھارت اور چین دونوں کی خواہش ہے کہ نیپال کی زمامِ کار ان ہاتھوں میں ہو جو ان کے مفادات کا احترام کرے۔ ماضی میں نیپال نے چین اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنے کی کوشش کی لیکن حالیہ برسوں میں چین اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں کامیاب رہا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ آخر یہ حالات کیوں پیدا ہوئے؟ تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے نیپال اور بھارت کے درمیان تعلقات گہرے ہیں۔ نیپال میں کئی قدیم مندر ہیں جو بھارت کے ہندوؤں کے لیے مرکزِ عقیدت ہیں۔ اس کے باوجود بھارت اور نیپال کے تعلقات میں کشیدگی کیوں آئی، اس پر غور ضروری ہے۔ نیپال کے ساتھ بہتر تعلقات اس لیے بھی ضروری ہیں کہ بھارت کے اپنے پڑوسی ممالک پاکستان اور چین کے ساتھ تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں۔ بنگلہ دیش، جو طویل عرصہ بھارت کے زیرِ اثر رہا، وہاں بھی بھارت مخالف جذبات ابھرنے لگے ہیں۔ میانمار اور سری لنکا بھی عدم استحکام کا شکار ہیں۔ ایسے میں اگر نیپال کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوتے ہیں تو اس کا نقصان براہِ راست بھارت کو پہنچے گا۔
بھارت میں دائیں بازو کی طاقتوں نے اب تک اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا کہ نیپال نے طویل جدوجہد کے بعد جمہوری اور سیکولر ملک کا درجہ حاصل کیا ہے۔ بھارت میں ایسے عناصر موجود ہیں جو نیپال میں ہندو راشٹر اور ہندو ثقافت کی بالادستی کی تحریکوں کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال نیپال کے قبائلیوں اور بدھسٹ آبادی کو بھارت سے دور کر رہی ہے۔
نیپالی دانش وروں کا الزام ہے کہ بھارت شاہی راج کی واپسی اور "ہندو راشٹر” کے قیام کی کوششوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔ بھارت کی طرح نیپال بھی ذات پات کی سیاست کا شکار ہے۔ برہمنوں، گرونگ اور مدھیشیوں کے درمیان ایک عرصے سے دوریاں موجود ہیں۔ گرونگ قبیلہ اور مدھیشی ذات کئی برسوں سے اپنے قبائلی رہنماؤں سوڈن گرونگ اور بلین شاہ کی قیادت میں نیپال کو دوبارہ "ہندو قوم” بنانے کے مطالبے کی مخالفت میں منظم جدوجہد کر رہے ہیں۔
بھارت کے مختلف میڈیا ہاؤسز نیپال میں، "راشٹریہ سویم سیوک سنگھ” کے طرز پر ہی "ہندو سویم سیوک سنگھ (ایچ ایس ایس)” کے عروج سے متعلق خبریں بڑھا چڑھا کر پیش کرتے رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق "ہندو سویم سیوک سنگھ” کا ایجنڈا بھی وہی ہے جو آر ایس ایس کا ہے یعنی نیپال میں ہندو ثقافت، ہندو اتحاد، عسکریت پسند قوم پرستی اور "ہندو قوم” کے قیام کو فروغ دینا۔ تاہم ایچ ایس ایس اپنی طویل کوششوں کے باوجود نیپال میں کوئی خاطر خواہ اثر و رسوخ قائم نہیں کر سکی ہے۔
دراصل آر ایس ایس جس طرح بھارت میں اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ، عیسائی مشنریوں کے ذریعہ تبدیلی مذہب اور ڈیموگرافی میں تبدیلی جیسے مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کر کے ہندو عوام کو خوف زدہ کرتی اور مقبولیت حاصل کرتی رہی ہے، ویسا پس منظر نیپال میں ایچ ایس ایس کو دستیاب نہیں ہے۔ نیپال میں صرف 5.09 فیصد مسلمان ہیں اور وہ بھی زیادہ تر ترائی کے چند اضلاع جیسے روتاہٹ، پارسا، بارہ اور بنکے میں آباد ہیں۔ مزید یہ کہ نیپال میں کبھی مغلوں نے حکمرانی نہیں کی کہ تاریخ کو مسخ کر کے عوام کے ذہن میں فرقہ وارانہ زہر گھولا جا سکے، اور نہ ہی نیپال کا پاکستان سے کوئی تاریخی تعلق ہے جسے پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ ایچ ایس ایس 1992 سے نیپال میں سرگرم ہے مگر تین دہائیوں کے باوجود وہ عوام میں مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
نیپال میں حالیہ بغاوت کی کوریج کے لیے پہنچنے والے بھارتی صحافیوں کے ساتھ بد سلوکی کے جو مناظر دیکھنے میں آئے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ یہی عوامی ناراضگی ہے۔ نیپالی نوجوانوں کا کہنا ہے کہ ان کی قوم اس وقت اپنے مستقبل کے لیے فکر مند ہے۔ بد عنوانی نے نیپالی سماج کو گہن زدہ کر دیا ہے اور اقربا پروری نے نوجوانوں کا مستقبل تاریک کر دیا ہے، بھارتی میڈیا ہمارے جذبات اور مسائل کی نمائندگی کرنے کے بجائے ہمیں ذات پات اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس ہفتے نو ستمبر کو جب نیپال میں عوامی ناراضگی اپنے عروج پر پہنچی تو بھارتی میڈیا کی کوریج میں اصل کہانی تقریباً غائب تھی۔ بدعنوانی، بے روزگاری اور ریاستی تشدد جیسے بنیادی اور ڈھانچہ جاتی مسائل کو نمایاں کرنے کے بجائے نیوز 18، ٹائمز ناؤ نو بھارت، ڈی ڈی نیوز، این ڈی ٹی وی اور آج تک کے اینکروں نے اس تحریک کی معنویت کو بدل کر اسے ہندو ازم کے احیا اور غیر ملکی سازشوں کے تناظر میں پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھارتی صحافی گورکھ نیپال پہنچے تو انہیں نوجوانوں کی جانب سے شدید ردعمل اور بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا۔
اصل بنیادی سوال یہ ہے کہ بھارت نیپال کے موجودہ حالات میں کس طرح توازن قائم کرے گا؟ کیا ہندو اسٹیٹ کے خواب اور مذہبی قوم پرستی کی خواہش میں ہم ایک اور پڑوسی ملک سے تعلقات خراب کرنے کا خطرہ مول لیں گے یا پھر ملک کے حقیقی مفادات کو پیشِ نظر رکھ کر ایک متوازن حکمتِ عملی اختیار کی جائے گی؟
نیپالی ٹائمز کے مطابق بیرونی طاقتیں، بالخصوص امریکہ مختلف این جی اوز کے ذریعے نیپال میں اپنی موجودگی بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے جس سے صورت حال مزید پیچیدہ ہو رہی ہے۔
نیپال میں عوامی بغاوت بھارت اور یہاں کے سیاست دانوں کے لیے ایک بڑا سبق ہے۔ نام نہاد مذہبی قوم پرستی اور کارپوریٹ نواز پالیسیوں کے ذریعے بھارت کی دولت اور وسائل کو چند ہاتھوں میں مرکوز کر کے عوام کو زیادہ دنوں تک مطمئن نہیں رکھا جا سکتا۔ انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں نوجوان سماجی اور معاشی ترقی کے خواہاں ہیں۔ انہیں مذہب کے نام پر طویل عرصے تک خاموش رکھنے کی کوشش حالات کو مزید بگاڑ سکتی ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 اگست تا 27 اگست 2025

hacklink panel |
betorder giriş |
güncel bahis siteleri |
hacklink panel |
onlyfans |
şans casino |
deneme bonusu veren siteler |
gamdom |
gamdom giriş |
yeni casino siteleri |
betorder giriş |
casino siteleri |
casibom |
deneme bonusu |
vadicasino |
gamdom giriş |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom giriş |
gamdom |
porn |
gamdom |
gamdom giriş |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
onlyfans nude |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
sweet bonanza oyna |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
bahis siteleri |
matadorbet giriş |
deneme bonusu veren siteler |
bonus veren siteler |
1xbet giriş |
casino siteleri |
bahis siteleri |
deneme bonusu veren siteler |
bonus veren siteler |
casino siteleri |
deneme bonusu veren siteler |
hacklink panel |
betorder giriş |
güncel bahis siteleri |
hacklink panel |
onlyfans |
şans casino |
deneme bonusu veren siteler |
gamdom |
gamdom giriş |
yeni casino siteleri |
betorder giriş |
casino siteleri |
casibom |
deneme bonusu |
vadicasino |
gamdom giriş |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom giriş |
gamdom |
porn |
gamdom |
gamdom giriş |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
onlyfans nude |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
sweet bonanza oyna |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
bahis siteleri |
matadorbet giriş |
deneme bonusu veren siteler |
bonus veren siteler |
1xbet giriş |
casino siteleri |
bahis siteleri |
deneme bonusu veren siteler |
bonus veren siteler |
casino siteleri |
deneme bonusu veren siteler |