نئے سال میں درپیش چیلنجز:کیاہم تبدیلی کے لیے تیار ہیں؟
بھارتی مسلمانوں کے لیے مسلم شناخت کا تحفظ ایک اہم مسئلہ
نوراللہ جاوید
تعلیمی پسماندگی سے ابھرنے اور سیاسی حیثیت کو منوانے کا چیلنج درپیش
حالات کا جرات مندی سے مقابلہ کرنے کے لیے مسلم معاشرے کو نفسیاتی مضبوطی اور درست حکمت عملی کی ضرورت
فیض احمد فیض کی زبان میں ’اے نیا سال بتا تجھ میں نیاپن کیا ہے؟‘ مہ و سال کی تبدیلی ایک فطری عمل ہے، یہ کوئی جشن اور خوشی کا موقع نہیں ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ کلینڈر کی تبدیلی ہمارے لیے کئی چیلنجز، مواقع اور امکانات کے دروازے بھی کھولتی ہیں، ماضی کا احتساب اور واقعات کا صحیح تجزیہ کرنے کے بعد ہی مستقبل کے اہداف کی منصوبہ سازی کی جاسکتی ہے۔مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ پوری بصیرت کے ساتھ قوتِ فکر و عمل کو بروئے کار لایا جائے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت میں مسلمانوں کونسبتاً زیادہ سخت چیلنجز درپیش ہیں ۔ملک کے نظام و حکومت پر ایک ایسی قوت حاوی ہے جس کے ارادے و منصوبے مسلم دشمنی پر مبنی ہیں۔اس کے دلوں میں بھارت کے مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کا ناپاک جذبہ موج زن ہے۔ وہ جلد سے جلد اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتی ہے۔
2024 کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج نے امید جگائی تھی کہ بھارت میں فرقہ پرست قوتیں مکمل طور پر فتح یاب نہیں ہوسکتیں۔ مودی اگرچہ تیسری مرتبہ اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں مگر حلیفوں کے کندھوں پر سوار ہو کر۔ 2019 کے مقابلے میں مودی کی قیادت میں بی جے پی کی مقبولیت کا گراف نیچے آگیا ہے۔ اس نتیجے سے امید تھی کہ مودی اور بی جے پی اس کو ویک اپ کال کے طور پر لیں گے اور اس تنزلی کا صحیح تجزیہ کرکے دس سالہ بے عملی، آئین مخالف اقدامات اور اقلیت دشمن پالیسی پر نظرثانی کریں گے۔ بی جے پی کی حلیف جماعتیں، چاہے نتیش کمار ہوں یا پھر چندرا بابو نائیڈو، بی جے پی کے فرقہ پرست اقدامات کی راہ میں دیوار بن کر کھڑی ہوجائیں گی، مگر سیاسی مفاد پرستی کی وجہ سے یہ نام نہاد سیکولر طاقتیں خاموش بنی ہوئی ہیں کیوں کہ ان کی صفوں میں بھی فرقہ پرست عناصر داخل ہوچکے ہیں اس لیے وہ بھی بی جے پی کی زبان بول رہے ہیں۔ چنانچہ گزشتہ 6 مہینے کے حالات یہ بتاتے ہیں کہ بی جے پی اپنے ماضی کے غیرآئینی اور سیکولر مخالف اقدامات پر نظرثانی کرنے کے بجائے پوری ڈھٹائی کے ساتھ ’’ڈی مسلمانائزیشن‘‘ کے عمل کو آگے بڑھا رہی ہے۔ وقف ترمیمی بل اور ’’پلیس آف ورشپ ایکٹ 1991‘‘ کے خلاف مہم اسی عمل کا حصہ ہے۔ مگر اندھیرے کو کوسنے، سینہ کوبی کرنے، مایوسی اور نامرادی کا شکار ہونے سے مسئلے کا حل نہیں نکلتا بلکہ چراغ روشن کرکے حالات کو بہتر بنانا ہو گا، مواقع کا صحیح استعمال کرنا ہو گا اور صحیح منصوبہ بندی کرنا ہو گا۔
بی جے پی کی لگاتار فتوحات، سنبھل میں مسجد کی حفاظت کے دوران مسلم نوجوانوں پر پولیس کی فائرنگ سے چار نوجوانوں کی شہادت، نچلی عدالتوں کی بے عملی اور حکومتی جبر نے مسلمانوں کی نفسیات کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ ان حالات میں سب سے اہم اور ضروری کام یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک مضبوط مستقبل کی تعمیر کے لیے تیار کرنا چاہیے۔ انہیں اللہ کے سوا کسی طاقت سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے، منفی سوچ کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور جارحانہ رد عمل یا عقل و ہوش سے عاری جوش و جنون سے دور رہنا چاہیے۔ آئین کے دائرے میں رہ کر اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے۔ مثبت اور صحت مند ذہنی رویہ اور عزم و حوصلے کے ساتھ زندگی گزارنے کے ساتھ پر اعتماد ہو کر حالات سے لڑنا چاہیے۔
قومیں چیلنجز اور بدترین حالات سے ابھر کر ہی زندگی حاصل کرتی ہیں۔ زندہ قوموں کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ حالات سے بد دل ہونے یا سپردگی کرنے کے بجائے سینہ سپر ہو کر حالات کا مقابلہ کرتی ہیں، قوتِ فکر و عمل کی طاقت سے لیس ہوتی ہیں اور خطرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ قائدین ایثار، بے نفسی اور بے غرضی جیسی انبیائی صفات کے حامل ہوتے ہیں۔ خود غرض، مفاد پرست، عقل و خرد اور حکمتِ عملی سے عاری جوش و جذبات کے حامل قائدین قوم کو بلندی پر لے جانے کے بجائے اسے بند گلی میں دھکیل دیتے ہیں۔ قیادت اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب نوجوانوں کی صحیح تربیت کی جائے، انہیں انبیائی صفات کا حامل بنایا جائے اور قوم کی حقیقت اور اس کی امامت کے مفہوم سے آگاہ کیا جائے۔ بھارت کے مسلمانوں کے سامنے اس وقت جو اہم سوالات ہیں، وہ ان کی حفاظت، مذہبی شناخت، معاشی بہبود اور سیاست میں شراکت سے متعلق ہیں۔
حالیہ دنوں میں بھارت کے مسلمانوں کے سیاسی مستقبل پر کئی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ ان تمام کتابوں کا یہاں پر تذکرہ کرنے کا موقع نہیں ہے، مگر حالیہ دنوں میں شائع ہونے والی دو کتابیں ہیں جو قابل ذکر ہیں۔ سن میں سے ایک جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے پروفیسر مجیب الرحمان کی شکوۂ ہند ہے۔ اس کتاب کے مصنف کا استدلال ہے کہ ہندتوا طاقت کے ذریعے بھارت کو "ڈی-اسلامائز” کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مجیب الرحمان ہندتوا کے مسئلے اور اس کے علمی پہلوؤں سے بھی واقف ہیں۔ ان کی یونیورسٹی کے طلبہ 2019 میں متنازعہ شہریت ترمیمی قانون (CAA) کے خلاف مظاہروں میں حصہ لینے والے لوگوں میں شامل تھے جنہیں یونیورسٹی کے کیمپس میں پولیس کے بدترین تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ دوسری کتاب فرانسیسی ماہرِ سیاسیات کرسٹوف جیفریلوٹ کی مودیز انڈیا: ہندو نیشنلزم اینڈ دی رائز آف ایتھنک ڈیموکریسی ہے۔ اس کتاب کا انگریزی ورژن 2021 میں شائع ہوا۔ اس کتاب میں ہندتوا کے نظریات، ان کے کام کرنے کے طریقے اور ملک کی سیاسی صورت حال کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ ہندو قوم پرستی کے نظریات اور مودی کے دورِ حکومت میں مسلمانوں کے لیے بنائے گئے منصوبوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ ان منصوبوں میں سب سے اہم منصوبہ مسلمانوں کو انتخابی نظام میں غیر مؤثر بنانا ہے۔
1947 میں ہندوستان کی آزادی کے بعد پہلی بار نریندر مودی کابینہ میں کوئی مسلم وزیر شامل نہیں ہے۔ 140 کروڑ کی آبادی کا 15 فیصد ہونے کے باوجود پارلیمنٹ کے 543 رکنی ایوانِ زیریں میں صرف 24 مسلم اراکین ہیں، جن میں سے کوئی بھی بی جے پی کے زیر قیادت اتحاد سے نہیں ہے۔ زیادہ تر کا تعلق ان حلقوں سے ہے جہاں مسلمان ووٹروں کا ایک اہم حصہ ہیں۔ یہ بات ہندو قوم پرستوں کو مزید بے چین کرتی ہے، اس لیے وہ انتخابی عمل میں ہیرا پھیری یا حلقہ بندیوں کو دوبارہ ترتیب دینے کے نئے طریقے سوچنے لگے ہیں۔ چناں چہ حالیہ دنوں میں آسام میں جو نئی حلقہ بندی ہوئی، اس میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ مسلم ووٹروں کو غیر مؤثر کیا جائے۔ مجیب الرحمان بتاتے ہیں کہ آر ایس ایس کا طویل مدتی منصوبہ بنیادی طور پر بھارت کو ڈی-مسلمانائز کرنا ہے۔ اس لیے ہندتوا کی سیاست کی سادہ منطق یہ ہے کہ مسلمانوں سے جڑی ہر چیز پر کثیر الجہتی حملے کیے جائیں۔ لہذا مساجد، وقف اراضی، درگاہیں اور حجاب وغیرہ پر مسلسل حملے جاری ہیں۔ ایک بیانیہ میڈیا کے ذریعے یہ بنایا جا رہا ہے کہ بھارت کی بیشتر مساجد مندروں کو توڑ کر تعمیر کی گئی ہیں۔
اس بیانیہ کو صحیح ثابت کرنے کے لیے تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ نصابی کتابوں میں تبدیلی کی جا رہی ہے۔ چوں کہ نصابی کتابوں میں مسلمانوں کو حملہ آور، در انداز اور ہندو دشمن کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اس لیے برادران وطن کی نوجوان نسل مسلم دشمنی کے جذبات کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے۔حال ہی فرانسیسی محقق نے کرسٹوفر جیفرلوٹ نے بھارت میں ہندو مسلم تعلقات پر ایک طویل رپورٹ شائع کی ہے جس میں بیشتر ہندو نوجوانوں نے مسلمانوں کے تئیں منفی سوچ کا اظہار کیا اور کہا کہ ان کے آپس میں تعلقات نہیں ہیں۔ یہ صورت حال خود برادران وطن کے لیے بھی صحیح نہیں ہے۔ دائیں بازو کی جماعتوں نے ہندو نوجوانوں کے دماغ کو منفی سوچ کا حامل بنا دیا ہے اور یہ رویہ خود ان کے لیے زہر ہلاہل ثابت ہونے والا ہے مگر اس کے اولین شکار مسلمان ہوں گے۔ یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہندوؤں کی نئی نسل کی منفی سوچ کا مقابلہ کس طرح کیا جائے اور یہ کہ گزشتہ دس سالوں میں ہم نے اس سوچ کا مقابلہ کس طرح کیا ہے؟ بس زیادہ سے زیادہ چند جلسوں میں کچھ ہندو پنڈتوں کو بلا کر ان سے تقریریں کروائی گئی ہیں لیکن یہ ناکافی ہے۔ منفی سوچ اور غلط بیانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مقامی، علمی اور سماجی، ہر سطح پر کوششیں کی جائیں۔ ہندو سماج اس قدر منفیت اور تضاد کا شکار ہے کہ اب بڑے بڑے جلسوں اور کانفرنسوں کے ذریعہ کی جانے والی بین المذاہب یکجہتی کی کوششوں کا بھی کوئی خاص اثر پڑتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
آر ایس ایس ملک کی سب سے بڑی اور طاقت ور ہندو تنظیم سمجھی جاتی ہے، اس کے سربراہ کے فرمان کو پوری ہندو قوم کی ترجمانی کے طور پر لیا جاتا ہے۔ لیکن جب اس کے سربراہ موہن بھاگوت نے مسجدوں کے خلاف ملک گیر مہم پر ایک بیان دیا اور مسجدوں کے سروے کرانے کی کوششوں کے نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہندؤں سے اپیل کی کہ وہ اس طرح کی مہم سے باز آ جائیں مگر ان کی اس اپیل کو ایک نابینا ہندو لیڈر نے ٹھکرا دیا۔
مسلمانوں کے معاشی اور ثقافتی مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ ملک کی سیاست میں ان کو غیر موثر بنانے کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں اس کا مقابلہ کیا جائے اور اس کے لیے حکمت عملی طے کی جائے۔ 2026 میں ملک بھر میں نئی حلقہ بندی ہونی ہے۔ اس نئی حلقہ بندی میں مسلم ووٹوں کو با اثر بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں اس پر غور کرنے کے لیے 2025 کا یہ سال کافی اہم ہے۔ ماضی میں شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب کے لیے ان سیٹوں کو محفوظ کیا گیا جہاں مسلم ووٹر فیصلہ کن پوزیشن میں تھے۔ آسام اس کی ایک مثال ہے جہاں کئی مسلم اکثریتی حلقوں کو انتہائی غلط طریقے سے تقسیم کیا گیا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سیاسی مستقبل کا منظم طور پر کم زور کیا جانا بھارتی مسلمانوں کو مزید بد حالی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہوگا۔ سیاسی مستقبل کو روشن کرنے کی حکمت عملی بنانے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے تعلیمی مسائل بھی سب سے اہم ہیں۔ وزارت تعلیم کے سروے کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی تعلیم چھوڑنے کی شرح 30 سے 40 فیصد ہے۔ یہ تعداد افسوس ناک ہے اس صورت حال کو تعلیم میں زیادہ سرمایہ کاری کر کے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں شاہین گروپ، الامین مشن اور رحمانی مشن جیسی مسلم تنظیمیں بہت کام کر رہی ہیں لیکن مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
مسلم معاشرے کی خامیوں میں ایک بڑی خامی منیجمنٹ کی صلاحیت سے عاری ہونا اور ترجیحات کے علم سے عدم واقفیت ہے۔ معاشرہ مجموعی اعتبار سے بے حسی کا شکار ہے۔ بیداری نہ ہونے کی وجہ سے مسلم معاشرے میں کئی سماجی و معاشرتی برائیاں درآئی ہیں۔نشے کی لت عام ہوتی جارہی ہے۔بڑے شہروں سے لے کر چھوٹے قصبات میں دیر رات گئے تک چائے خانے مسلم نوجوانوں سے آباد ہیں۔شادی بیاہ کی تقریبات میں اصراف کیا جا رہا ہے، جلسے جلوس پر لاکھوں روپے اڑائے جارہے ہیں۔ مسلم معاشرے نے پوری دنیا میں ہونے والی سماجی و سیاسی تبدیلیوں کا دیانت دارانہ تجزیہ نہیں کیا ہے۔ نہ صرف انتخابی سیاست بلکہ سیاسی لغت میں بھی تبدیلی ہو رہی ہے۔ اس کے لیے نوجوانوں کی تربیت میں سب سے زیادہ قوت صرف کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام نوجوانوں کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے کیوں کہ اس کی ترقی اور اس کا مستقبل انہی کے ہاتھ میں ہے۔ ہمیں نوجوانوں کی کردار سازی پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ وہ معاشرے اور ملک کی ترقی میں بہت زیادہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔ نوجوان ابتدائی دور میں اسلام کے مشعل بردار تھے لہذا آج نوجوانوں کے اسی کردار کی بازیافت ہونی چاہیے۔ مسلم خواتین معاشرے کے لیے معجزے دکھا سکتی ہیں جس کی ایک مثال شاہین باغ ہے۔ خواتین کو تعلیمی، سماجی، معاشی، نفسیاتی اور سیاسی شعبوں میں با اختیار بنانے سے ان کی سماجی شمولیت اور مسلم معاشرے کی مجموعی ترقی میں بہتری آئے گی۔ ایک ماں کی اپنی تعلیم، اس کی اپنی معاشی حیثیت اور کامیابی، اس نسل کے مستقبل پر اثر انداز ہوتی ہے جسے وہ پالتی ہے۔ نوجوانوں پر فرض ہے کہ وہ اپنے عمل سے اسلام کی نمائندگی کریں۔ جب ایمان، یقین، اخلاص، دیانت اور اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کی بات ہو تو انہیں بہت زیادہ عملی ہونے کی ضرورت ہے۔ لیکن افسوس کہ مسلم نوجوان اس بات سے بے خبر ہیں کہ زندگی میں ان کی کیا ذمہ داریاں اور ترجیحات ہونی چاہئیں۔ انہیں چیلنجز کا سامنا کرنا چاہیے اور اپنی ذمہ داریوں کو سچائی اور خلوص کے ساتھ قبول کرنا چاہیے اور معاشرے اور ملک کے سامنے آنے والے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کے پاس موجود تمام ذرائع استعمال کرنا چاہیے۔
***
***
بی جے پی کی لگاتار فتوحات، سنبھل میں مسجد کی حفاظت کے دوران مسلم نوجوانوں پر پولیس فائرنگ اور چار نوجوانوں کی شہادت، نچلی عدالتوں کی بے عملی اور حکومتی جبر نے مسلمانوں کی نفسیات کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ مسلمانوں کا عمومی طبقہ اس وقت منفی سوچ کا شکار ہوچکا ہے۔ مایوسی کا عالم یہ ہے کہ وہ خود سپردگی کے لیے تیار ہوچکا ہے یا پھر جارحانہ ردعمل کی نفسیات کا شکار ہے۔ اس طرح کی منفی اور غیر مثبت سوچ قوموں کی ترقی اور راہِ عمل کے لیے نقصان دہ ہے۔ ان حالات میں سب سے اہم اور ضروری عمل یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک مضبوط نفسیات کی تعمیر کے لیے کام کرنا چاہیے اور کسی چیز سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 جنوری تا 11 جنوری 2024