نئےسال کی آمد پر

ماضی کا جائزہ اور مستقبل پر نظر

حسن البناء شہیدؒ

میں نے نئے سال کی دہلیز پر کھڑے شخص سے کہا : مجھے روشنی درکار ہے تاکہ آنے والے موہوم ایام کو منور کرسکوں ۔
اس نے کہا : اپنا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں دے دو، وہ تمہیں منزلِ مقصود تک پہنچادے گا ۔
وقت کے قافلے کے ساتھ چلتا مردِ ناداں، زندگی کے ایک دو راہے پر کھڑا کبھی پیچھے کی طرف نظر دوڑاتا، تاکہ اس سفر میں پیش آنے والی تکالیف اور تھکن کو ذہن میں تازہ کرسکے— پھر ایک نظر آگے کی طرف دیکھنے کی کوشش کرتا، تاکہ اندازہ لگائے کہ ابھی اور کتنے مراحل طے کرنے ہیں۔
اے صحراے زندگی میں حیران و سرگرداں بھٹکنے والے دوست ! کب تک اس تاریکی و گمراہی کا شکار رہو گے، حالانکہ تمہارے اپنے ہاتھ میں ایک روشن چراغ موجود ہے :
رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِہٖ وَ یَھْدِیْھِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ o (المائدہ ۵:۱۶)
تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں، سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہِ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے۔
اے حیرانی اور تھکن سے چور لوگو کہ جن کے سامنے راستے گڈمڈ ہوچکے ہیں! اے گم کردہ راہ انسانو! سنو خداے علیم و خبیر کیا کہہ رہا ہے :
(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاو، یقینا اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ وہ تو غفورو رحیم ہے۔ پلٹ آو اپنے رب کی طرف اور مطیع بن جاو اس کے۔ (الزمر ۳۹: ۵۳-۵۴)
آو اس کی پکار پر لبیک کہو، اور پھر اس کے بعد دلی اطمینان، ضمیر و نفس کی راحت اور اللہ تعالیٰ سے نیک اجر کا نظارہ کرو :
اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انہیں یاد آجاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو معاف کرسکتا ہو؟ اور وہ کبھی دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کی جزا ان کے رب کے پاس یہ ہے کہ وہ ان کو معاف کر دے گا اور ایسے باغوں میں انہیں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ کیسا اچھا بدلہ ہے نیک اعمال کرنے والو کے لیے ۔(اٰل عمرٰن ۳ : ۱۳۵۔۱۳۶)
اے مصیبت زدہ اور گناہوں کے بوجھ تلے دبے میرے بھائی! میں تمہی سے مخاطب ہوں کہ میرے رب کے دروازے چوپٹ کھلے ہیں۔ گناہ گاروں کا روتے ہوئے اس کی طرف پلٹ آنا اسے اپنے گھر کے طواف کرنے والوں سے زیادہ محبوب ہے۔ کوئی نالۂ نیم شبی، اس سے مناجات کی کوئی گھڑی، ندامت اور افسوس کے چند آنسو، توبہ اور استغفار کا کوئی کلمہ -اس سے تمہارے گناہ مٹا دیے جائیں گے، تمہارے درجات بلند کردیے جائیں گے اور اللہ کے مقرب بندوں میں شامل ہو جاو گے۔ یاد رکھو، ہر انسان بے حد خطا کار ہے اورخطا کاروں میں سب سے بہترین وہ ہے جو توبہ کرنے والا ہو۔
اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں۔ (البقرہ ۲:۲۲۲)
دیکھو، اللہ تمہارے کتنا قریب ہے، تعجب ہے کہ تمہیں اس کے قرب کا احساس ہی نہیں۔ چشمِ ہوش سے دیکھو، اسے تم سے کتنی محبت ہے لیکن تمہیں اس کی محبت کی قدر ہی نہیں۔ تم پر اس کی رحمتیں کتنی زیادہ ہیں اور تم ہو کہ خوابِ غفلت سے جاگتے ہی نہیں، سنو، وہ حدیث قدسی میں کیا کہتا ہے: میرا بندہ مجھ سے جو بھی گمان کرے میں اسی کے مطابق اس سے معاملہ کرتا ہوں، میں اپنے بندے کے گمان و خیال کے ساتھ ہوں۔ جب بھی وہ مجھے یاد کرتا ہے، تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ وہ اگر مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر مجھے کسی جم غفیر میں یاد کرتا ہے تو میں اس سے بہتر جمِ غفیر میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے تو میں اس کی طزف ایک ہاتھ بڑھتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو میں دو ہاتھ بڑھتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں۔
دیکھو کیا فرما رہا ہے : ’’اے ابن آدم! میری طرف چل کر آ میں تیری طرف دوڑ کر آوں گا‘‘۔ بے شک وہ رات کو ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کے گنہگار توبہ کرلیں اور دن کو ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات کے گنہگار توبہ کرلیں۔ وہ انسان پر اس کی مہربان ماں سے بھی زیادہ مہربان ہے۔ ’’بے شک اللہ لوگوں کے اوپر مہربان اور رحم کرنے والا ہے‘‘(الحج ۲۲:۶۵)
میرے پیارے بھائی! جس نے وقت کے حقوق پہچان لیے اس نے درحقیقت زندگی کی قیمت پہچان لی، کیونکہ وقت ہی تو زندگی ہے۔ جب زندگی کا پہیہ ہماری زندگی کے سفر کا ایک سال طے کر لیتا ہے اور ہم دوسرے سال کا استقبال کرنے میں لگ جاتے ہیں تو ہم عملاً ایک دو راہے پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس فیصلہ کن گھڑی میں ہمیں اپنے ماضی کا بھی محاسبہ کرنا ہے اور مستقبل کا بھی حساب لگانا ہوتا ہے تاکہ کہیں حساب کی اصل گھڑی اچانک سر پہ نہ آ جائے۔ وہ گھڑی جو یقیناً آ کر رہنی ہے ۔ ماضی کا محاسبہ اس لیے تاکہ ہم اپنی غلطیوں پر نادم ہوں، اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کا تدارک اور اپنی کج روی کو درست کریں کیونکہ ابھی موقع بھی ہے اور فرصت بھی۔ اور ہمیں مستقبل کو بھی دیکھنا ہے تاکہ اس کے لیے بھرپور تیار ی کریں۔
یہ تیاری کیا ہے؟ پاک و صاف سچا دل، عملِ صالح اور نیکی اور خیر کی طرف تیزی سے آگے بڑھنے کا عزمِ صادق۔ مومن ہمیشہ دونوں پہلوؤں سے فکر مند رہتا ہے : ایک طرف تو اسے اپنے سابقہ عمل کے بارے میں دھڑکا رہتا ہے کہ معلوم نہیں میرا یہ عمل اللہ کے ہاں کیا مقام پائے گا۔ دوسری طرف باقی ماندہ مہلت کے بارے میں دل لرزتا رہتا ہے کہ نہ جانے اس کے بارے میں اللہ کا فیصلہ کیا ہوگا ۔ لہٰذا، ہر بندے کو خود اپنے آپ ہی سے اپنے لیے توشہ حاصل کرنا ہے، اپنی دنیا سے اپنی آخرت تعمیر کرنا ہے۔ بڑھاپے سے بھی پہلے اور موت سے بھی پہلے پہلے۔ نبی رحمت حضرت محمد (ﷺ) کے الفاظ میں:
کوئی ایسا دن طلوع نہیں ہوتا جو پکار پکار کر نہ کہہ رہا ہو کہ اے ابنِ آدم ! میں لمحۂ تازہ ہوں اور میں تمہارے عمل پر گواہ ہوں، مجھ سے جو چاہو حاصل کرو میں چلا گیا تو پھر قیامت تک دوبارہ نہیں آوں گا۔
میں نئے سال کی مناسبت سے کچھ لکھنے بیٹھا تھا، میرا خیال تھا کہ میں ہجرتِ نبوی کی یاد میں کچھ لکھوں، اس کے کچھ واقعات سے دلوں کو گرماوں لیکن میں بالکل دوسری سمت جا نکلا۔ میں اپنے ان بھائیوں کے ساتھ راز و نیاز کرنے لگا جنہوں نے وقت کے حقوق ضائع کر دیے، جو زندگی کے اصل راز سے غافل رہے۔ صد افسوس کہ انہوں نے اس امتحان کو فراموش کردیا جس کے لیے ہم سب کو وجود ملا ہے۔ الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (ملک۶۷: ۲) تمہارا رب وہی ہے جس نے موت اور زندگی کو تخلیق کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرتا ہے۔
میں کچھ اور لکھنے بیٹھا تھا لیکن میں نے اچانک خود کو اپنے محترم اور عزیز بھائیوں سے مخاطب پایا۔ دل میں امید پیدا ہوئی کہ اس طرح شیطان کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے رحمن کی پناہ میں آجائیں، ہم سب رضاے خدا وندی کے اس قافلے میں شریک ہو جائیں جسے اس کی طرف سے مغفرت اور رضوان عطا ہوتی ہے۔ ہماری زندگی کے رجسٹر میں نئے محرم الحرام کا آغاز ایک نئے اور صاف و سفید صفحے سے ہو۔ اگر پچھلے صفحات گناہوں کی وجہ سے سیاہ پڑ گئے تھے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے توبہ واستغفار کے ذریعے نیکیوں میں تبدیل فرما دے:
وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتا ہے اور برائیوں سے درگزر فرماتا ہے۔ حالانکہ تم لوگوں کے سب اعمال کا اسے علم ہے۔ وہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کی دعا قبول کرتا ہے اور اپنے فضل سے ان کو اور زیادہ دیتا ہے ۔ (الشورٰی: ۲۵،۲۶)
آئیے دیکھیں کہ ہم پر پروردگار کی نگرانی کس قدر عظیم ہے :
ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو جانتے ہیں، ہم اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں اور (ہمارے اس براہ راست علم کے علاوہ) دو کاتب اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہر چیز ثبت کر رہے ہیں۔ کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگر ان موجود نہ ہو۔
کیا انہوں نے سمجھ رکھا ہے کہ ہم ان کی راز کی باتیں اور ان کی سرگوشیاں نہیں سنتے ہیں۔ ہم سب کچھ سنتے ہیں اور ہمارے فرشتے ان کے پاس ہی لکھ رہے ہیں ۔ (الزخرف۴۳: ۸۰)
آئیے دیکھیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا حساب کتنا دقیق ہوگا ۔
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ o (الزلزال ۹۹:۷-۸)
جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی، وہ اس کو بھی دیکھ لے گا۔
(بشکریہ مجلہ الاخوان المسلمون، محرم الحرام ۱۳۶۸ھ مطابق ۲ نومبر ۱۹۴۸) (عربی سے ترجمہ: عبدالغفار عزیز)
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 جولائی تا 22 جولائی 2023