نئے دور میں امریکہ- روس تعلقات

روس کے ساتھ ٹرمپ کی قربت سے یورپی محاذ پریشان ۔ عالمی سطح پر بدلتی سیاست

اسد مرزا، سینئر سیاسی تجزیہ نگار

یوکرین کی معدنیات پر امریکی دعویٰ: ٹرمپ کا جیو پولیٹیکل کھیل یا نیا عالمی معاہدہ؟
نوبیل امن انعام کے حصول کے لیے ڈونالڈ ٹرمپ کچھ بھی کرسکتے ہیں
ابتدائی طور پر ایسا لگتا تھا کہ امریکی صدر واقعی روس اور یوکرین کی جنگ کو ختم کرانے میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن بعد میں ہونے والی پیش رفت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایسا یوکرین کے معدنی ذخائر حاصل کر کے ایک مہینے کے عرصے میں دو امن معاہدے پائے تکمیل تک پہنچا کر اس سال کے امن نوبیل انعام کے لیے اپنی امیدواری بھی پیش کرنا چاہتے ہیں۔
ٹرمپ نے جس طرح یہ کرنے کی کوشش کی ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ امریکہ کے یورپی اور نیٹو شراکت داروں کی مخالفت کے علاوہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کو میز پر باعزت نشست دینے پر بضد ہیں۔چند ہی دنوں میں یورپی ممالک اور باقی دنیا کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکہ نے روس کو سرد خانے سے نکال کر اپنے قریب کر لیا ہے۔اس کے نتیجے میں روس میں مغرب مخالف بیانیہ میں بھی تبدیلی آئی ہے، حالانکہ صدر ٹرمپ کے یوکرین میں اپنے معاہدے کو حاصل کرنے کی طرف پہلا قدم ماسکو میں جذبات کے طوفان سے دوچار ہوا۔
پولیٹیکو میگزین کے ایک تجزیے میں سنٹر فار یوروپی پالیسی اینالیسس کے سینئر فیلو آندرے سولڈاٹو اور ارینا بوروگن نے لکھا ہے کہ روسی میڈیا نے اپنے مغربی ہم منصبوں کا اتنے بڑے پیمانے پر حوالہ پہلے کبھی نہیں دیا۔ پچھلے تین سالوں سے روسی معاشرے کو لگا تار یہ کہہ کر ورغلانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ وہ غدار، زوال پذیر مغرب سے منہ موڑ کر مشرق کی طرف دیکھے، یعنی چین اور شمالی کوریا سے تعلقات بڑھائے۔ یہاں تک کہ ملک کا سب سے بااثر روزنامہ Kommersant جو عام طور پر اپنے معتدل اور معقول لہجے کے لیے جانا جاتا ہے، اس نے بھی روسی صدر کے ساتھ ٹرمپ کی فون کال کے ارد گرد بین الاقوامی کوریج کے جائزہ میں اس خبر کو "Putin’s Triumph” کی سرخی دے کر چلایا۔
اس اقدام سے بظاہر پوتن کی اَنا اور انہیں پورے یورپ کے رہنما کے طور پر دیکھے جانے کی ان کی خواہش کو تقویت ملتی ہے۔ درحقیقت یہ ایک نئے بیانیے کا اشارہ ہے جس میں پوتن کو ٹرمپ کی طرف سے ایک برابر کے ساتھی کے طور پر احترام کے ساتھ ملتے اور کام کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے نہ کے ایک دشمن کے طور پر جیسا کہ ماضی میں ہوتا تھا۔ یعنی کہ اس پورے معاملے میں اب یورپ اور یوکرین کو حاشیے پر دھکیل دیا جائے گا اور جنگ روکنے کے لیے بات چیت اب براہِ راست امریکہ اور روس کے درمیان ہوگی اور جس میں یوکرین اور یورپی ممالک شامل نہیں ہوں گے۔
مزید برآں جو بات سب کو حیران کر دیتی ہے وہ یہ ہے کہ جیسے ہی امریکہ-روس معاہدے کی مزید عجیب و غریب تفصیلات سامنے آئیں تو معلوم ہوا کہ یہ امن معاہدے یا امن منصوبے کے لیے بات چیت نہیں ہے بلکہ ایک انتہائی غیر معمولی اقدام میں، ٹرمپ نے یوکرین کی نایاب زمینی دھاتوں کی نصف دولت پر دعویٰ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ڈرامے میں جس میں یوکرین کی مایوسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس سے بے جا شرائط منوائی جاسکتی ہیں۔ جیسا کہ CNN نے رپورٹ کیا تھا۔ صدر ولادیمیر زیلنسکی نے فوری طور پر اس معاہدے کو مسترد کر دیا لیکن تازہ اطلاعات کے مطابق خبر یہ ہے کہ امریکہ کے دباؤ میں آکر یوکرین اب اس معاہدے کے لیے رضا مند ہوگیا ہے۔
صورت حال کے بارے میں اپنے تجزیے میں، سی این این کے اسٹیفن کولنسن نے بجا طور پر نشاندہی کی ہے کہ ٹرمپ کو یوکرین یا درحقیقت مشرق وسطیٰ کے تاریخی معاملات کے بارے میں بہت کم ادراک ہے، اس کے پیش نظر فلسطینیوں کو غزہ سے منتقل کرنے کا منصوبہ ہے تاکہ وہ ساحل سمندر پر تفریحی مقامات تعمیر کر سکیں اور اب یوکرین کی معدنی ذخائر پر قبضہ کرسکیں۔ کولنسن مزید رائے دیتے ہیں کہ ٹرمپ کا جیو پولیٹیکل معاملے کے بارے میں نظریہ ایک ریل اسٹیٹ ڈیلر کے طور پر ہوتا ہے اور اب وہ ایک ایسے معاہدے کو آگے بڑھا رہے ہیں جس سے پوتن کو وہ تمام اراضی رکھنے کی اجازت دی جائے جو انہوں نے طاقت کے بل بوتے پر یوکرین سے حاصل کی ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ جلد بازی میں ہونے والا یہ امن معاہدہ جو روس کو مضبوط کرتا ہے اور پوتن کی توسیع پسندی کو توثیق دے کر یورپی سلامتی کو کمزور کرتا ہے، ممکنہ طور پر مستقبل میں اس سے بھی بدتر جنگ کے بیج بوسکتا ہے۔
سرد جنگ کے اختتام پر، صدر جارج ایچ ڈبلیو بش نے مشرقی یورپ میں سوویت یونین اور اس کی سابقہ ریاستوں کے زوال کا انتظام کیا تھا۔ بعض اوقات مغرب کے وسیع تر مفادات اور ان کی اپنی سلامتی کے لیے علاقائی رہنماؤں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور اب بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ ٹرمپ دیگر یورپی ممالک کے مفاد کے لیے کوئی کام نہیں کرنا چاہتے ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ آخر یورپی حکومتیں اب اس قدر پریشان کیوں ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ وہی کر رہے ہیں جو انہوں نے اپنی انتخابی مہم کےدوران کہا تھا۔ امریکی صدر کے بارے میں یورپی ممالک کی غلط فہمی کی وجہ سے اہم یورپی رہنما گزشتہ پیر کو ہنگامی مذاکرات کے لیے پیرس پہنچ گئے ہیں تاکہ یہ طے کرسکیں کہ اب اس پورے معاملے سے باہر ہونے کا جواب اپنے عوام کو کیسے دیں اور جو مالی اور دفاعی امداد یوکرین کو دی تھی اسے کیسے واپس حاصل کیا جائے۔
امریکی صدر کے مطابق یوکرین کے زیر زمین معدنی ذخائر اب امریکہ کے پاس ہونے چاہئیں۔ پچھلے ہفتے نئے امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے کیف کا دورہ کیا۔ اس نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کو یوکرین کی نصف معدنی دولت کے ساتھ ساتھ اس کے تیل، گیس اور انفراسٹرکچر جیسے کہ بندرگاہوں وغیرہ پر اپنا حیران کن دعویٰ پیش کیا۔
وائٹ ہاؤس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 500 بلین ڈالر کا بل یوکرین کے لیے سابقہ امریکی فوجی امداد کے لیے معاوضہ کے طور پر ہے۔
زیلنسکی نے معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے واضح کیا تھا کہ واشنگٹن کو یوکرین کے وسیع قدرتی وسائل، عالمی معدنی ذخائر کے تقریباً 5 فیصد پر قبضہ یا کسی بھی معاہدے تک پہنچنے سے پہلے حفاظتی ضمانتیں دینی ہوں گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ نے صرف 69.2 بلین ڈالر کی فوجی امداد یوکرین کو مہیا کرائی تھی۔ اور اب جو ٹرمپ مانگ رہے ہیں وہ اس رقم کا پانچ گنا ہے اور مزید کہا کہ دیگر شراکت دار جیسے کہ یورپی یونین، کینیڈا اور برطانیہ بھی سرمایہ کاری میں دلچسپی لے سکتے ہیں جس سے کہ یوکرین کی معیشت کو مضبوط کیا جاسکتا ہے لیکن ٹرمپ ایسا نہیں چاہتے ہیں۔
دریں اثنا، امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیکوالٹز ٹرمپ کو ایک امن ساز کے طور پر پیش کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ "وہ یورپ میں جنگ ختم کرنے جا رہےہیں۔ اور مشرق وسطیٰ میں تو جنگیں ختم کرا چکے ہیں۔ نیز ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور ہماری قیادت کو اپنے نصف کرہ میں دوبارہ سرمایہ کاری کی جارہی ہے، یعنی آرکٹک سے لے کر پاناما تک۔ انہوں نے مزید کہا کہ "اس سب کے اختتام کے بعد، ہم ڈونالڈ ٹرمپ کے نام کے ساتھ نوبیل امن انعام یافتہ بھی لگا سکیں گے۔”
فارچیون میگزین نے رپورٹ کیا ہے کہ ٹرمپ کے مجوزہ معاہدے میں پہلی جنگ عظیم کے بعد ورسائی کے معاہدے میں شکست خوردہ جرمنی پر اتحادیوں کی طرف سے عائد کی گئے معاوضوں کا موازنہ کیا گیا ہے۔ جرمنی نے تقریباً 32 بلین ڈالر یا آج کے تقریباً 560 بلین ڈالر کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ زیادہ تر مورخین اس معاہدے سے جرمنی کی ناراضگی اور اس کے نتیجے میں ملک کی معاشی بدحالی کو نازی پارٹی کے عروج اور دوسری جنگ عظیم کے شروع ہونے کی ایک اہم وجہ قرار دیتے ہیں اور اب ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ دوبارہ وہی کھیل کھیل رہے ہیں۔
تاہم صورت حال کے تفصیلی تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ یوکرین کی معدنی دولت میں بڑا حصہ مانگ کر ٹرمپ زمین کے نایاب معدنیات تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں جو کہ اس وقت چین کے کنٹرول میں ہیں۔ اور یہ وہ معدنیات ہیں جو کہ آج کے دور میں موبائل سے لے کر سپر کمپیوٹر اور AI سے چلنے والے ہتھیار بنانے کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ٹرمپ ان پر امریکی کنٹرول قائم کرکے ان معدنیات کی عالمی سپلائی سے چین کو باہر کرنا چاہتے ہیں۔
بنیادی طور پر ٹرمپ کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ وہ کس طرح یورپ کو سائیڈ لائن کرتے ہیں اور پوتن کی انا کو فروغ دیتے ہیں۔ حقیقت میں وہ ایک تاجر ہیں اور ایک تاجر کے طور پر، وہ دفاعی اور خلائی ٹیکنالوجی
کے ابھرتے ہوئے اہم شعبوں میں امریکی بالادستی کو برقرار رکھنے کے مقصد کے لیے ان معدنی وسائل کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں اور اس دوران ایک ایسے شخص کے طور پر نامزد ہونے کی بھی کوشش کریں گے جس نے کہ دنیا میں امن قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور وہ اس کے لیے نوبیل امن انعام کے لیے حق دار ہیں۔ یہ انعام پانے کے لیے وہ کیا کھیل کھیلتے ہیں یہ آئندہ کی سرخیوں میں واضح ہو جائے گا۔

 

***

 ’’امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جس طرح سے روسی صدر پوتن سے تقریباً تین سال پرانی روس-یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے تعاون کیا ہے اس نے سلامتی، خارجہ امور اور بین الاقوامی مبصرین کو حیران کر دیا ہے۔ لیکن اس کی اصل وجہ صرف دو لفظوں میں بیان کی جا سکتی ہے، اور وہ ہے خیانت اور چوری۔ اور اس نئے بیانیے میں امریکہ روس کو کچھ نہیں کہے گا اگر وہ امریکی مفادات کو کوئی چیلنج نہیں کرتا ہے‘‘


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 مارچ تا 15 مارچ 2025