نواف سلام: ماسٹر سٹروک یا سیاسی منظرنامہ کی تبدیلی

عالمی عدالت کا نواف کی قیادت میں جرأت مندانہ فیصلہ:اسرائیلی قبضے کے خلاف تاریخی قدم

0

ریحان بیگ ندوی

لبنان کو بحران سے نکالنے کے لیے مالی و سیاسی اصلاحات کے ساتھ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر مکمل عملداری کا تیقن
مشرق وسطیٰ کی سیاست ہمیشہ سے پیچیدگیوں اور تبدیلیوں کا شکار رہی ہے جس کے اثرات خطے کے دیگر ممالک پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔ لبنان جو اپنی اسٹریٹجک اہمیت کے باعث عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاسی عدم استحکام، معاشی بحران اور سماجی بدحالی کا شکار ہے۔ داخلی و خارجی چیلنجوں نے نہ صرف لبنان کی ریاستی ڈھانچے کو کمزور کیا ہے بلکہ عوام کو گہرے مسائل میں بھی مبتلا کر دیا ہے۔ ایسے میں نو منتخب وزیر اعظم نواف سلام سے یہ امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ ملک کو سیاسی استحکام، معاشی بحالی اور سماجی و قانونی اصلاحات کی راہ پر گامزن کریں گے اور لبنان کو اس کے روشن مستقبل کی طرف لے جائیں گے۔
ایران نے لبنان میں اپنی شیعہ تنظیم حزب اللہ کی مدد سے اپنے اثرات کو مستحکم کیا تھا جس کی بدولت لبنان میں سنی سیاسی جماعتوں کی پوزیشن کمزور محسوس کی جارہی تھی اس کے نتیجے میں لبنان میں فرقہ واریت کی جڑیں خوب گہری ہوئیں۔ سلام کا انتخاب لبنان کے فرقہ وارانہ دھڑوں کے درمیان طاقت کے توازن میں ایک نمایاں تبدیلی کی علامت بن کر سامنے آئے گا۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب ایران کی حمایت یافتہ شیعہ تنظیم حزب اللہ گزشتہ سال اسرائیل کے ساتھ جنگ سے کافی تھک ہار چکی ہے اور اس کے اعلیٰ سطحی قائدین شہید کر دیے گئے ہیں اور اس کے شامی اتحادی بشار الاسد کا بھی تختہ پلٹ کیا جاچکا ہے۔ اب ایسی حکومت کی تشکیل جس میں حزب اللہ کے پاس کوئی بااختیار عہدہ نہیں ہے، ان کے مستقبل کے لیے خطرہ ہے۔ حزب اللہ نے اس پر شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ اس کے مخالفین اسے سیاسی عمل سے باہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حزب اللہ نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ کسی ایسی حکومت کی بھرپور مخالفت کرے گی جو "بقائے باہمی” کے اصولوں سے متصادم ہو۔
خاندانی پس منظر
نواف سلام 15 دسمبر 1953 کو بیروت میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک معروف سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد عبداللہ سلام ’مڈل ایسٹ ایئر لائن‘ کے بانی اراکین میں شامل تھے اور 1956 سے 1983 تک اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن رہے۔ ان کے دادا سلیم علی سلام بیروت کے میئر، سلطنت عثمانیہ کی پارلیمنٹ کے رکن اور ’الحركة الإصلاحية في بيروت‘ کے بانیوں میں شامل تھے۔ وہ عرب حکومت کے رکن اور بیروت میں اس کے دفتر کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ نواف سلام کے چچا صائب سلام، فرانسیسی نوآبادیاتی نظام کے خلاف لبنانی تحریک کے سرگرم رکن تھے اور 1952 سے 1973 کے دوران چار مرتبہ لبنان کے وزیر اعظم رہے۔ ان کے کزن تمام سلام 2014 سے 2016 تک لبنان کے وزیر اعظم رہے۔ نواف سلام کی اہلیہ سحر بعاصیری ایک معروف صحافی ہیں اور لبنان کی یونیسکو میں سابق سفیر ہیں۔ ان کے دو بیٹے، عبداللہ اور مروان ہیں۔
تعلیمی پس منظر
انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم پیرس سے حاصل کی اور مدرسہ الدراسات العليا في العلوم الاجتماعية سے 1974 میں ڈپلوما حاصل کیا۔ سوربون یونیورسٹی سے تاریخ میں ڈاکٹریٹ 1979 میں مکمل کی۔ بیروت کی یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری 1984 میں حاصل کی اور ہارورڈ یونیورسٹی سے 1991 میں قانون میں ماسٹرز کیا۔ انسٹیٹیوٹ آف پولیٹیکل اسٹڈیز، پیرس سے 1992 میں سیاسیات میں ڈاکٹریٹ حاصل کی۔ انہوں نے 1984 میں اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز وکالت سے کیا اور مختلف ادوار میں بیروت اور بوسٹن میں وکالت کے فرائض انجام دیے۔ اس کے علاوہ سوربون یونیورسٹی، ہارورڈ یونیورسٹی، اور بیروت کی امریکن یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیے۔
سفارتی اور سیاسی خدمات
نواف سلام 2007 سے 2017 تک اقوام متحدہ میں لبنان کے سفیر رہے اور 2010 اور 2011 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے فلسطینی ریاست کی مکمل رکنیت کے لیے بھی آواز اٹھائی اور فلسطینی مسئلے کے حق میں کئی اہم فیصلے کیے۔ وہ مختلف بین الاقوامی کانفرنسوں میں لبنان کی نمائندگی کرتے رہے جن میں عدم وابستگی تحریک، ترقیاتی مالیات پر کانفرنس اور ماحولیاتی تبدیلی کانفرنس شامل ہیں۔
علمی تحقیقات
نواف سلام نے بین الاقوامی قانون، آئینی اور انتخابی قانون، اسلامی قانون، بین الاقوامی تنظیموں اور عالمی معاملات پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات لکھے ہیں، جن میں "الإصلاح الممكن والإصلاح المنشود”، "اتفاق الطائف، استعادة نقدية” اور "لبنان في مجلس الأمن 2010-2011″، Civil Society in the Arab World: The Historical and Political Dimensionشامل ہیں۔ جب کہ پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالات یہ تھے:
1- "الصراعات والتصورات السياسية في لبنان المعاصر” – یہ تحقیق انہوں نے 1991 میں معهد باريس للدراسات السياسية میں مکمل کی۔
-2 "انتفاضة 1958 في لبنان” – یہ تحقیق انہوں نے 1979 میں جامعہ السوربون، پیرس میں مکمل کی۔
(مزید تفصیل کے لیے عربی ویکیپیڈیا ملاحظہ کریں)
نواف سلام: سیاسی میدان میں نامزدگیوں کا محور
نواف سلام کی شخصیت اس اعتبار سے منفرد ہے کہ انہیں کئی بار اہم سیاسی پیشکشیں کی گئیں لیکن انہوں نے ہمیشہ غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموشی اختیار کی اور ان معاملات میں کسی قسم کی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ سب سے پہلے ان کا نام 2019 میں "الانتفاضة الشعبیة” کے دوران، خاص طور پر جب "تیار المستقبل” کے سربراہ سعد الحريري نے حکومت سے استعفیٰ دیا، بہت نمایاں ہوا۔ اس وقت اپوزیشن کے کچھ رہنماؤں نے ان کا نام ایک غیر جانبدار تکنوکریٹ وزیرِ اعظم کے طور پر پیش کیا، مگر "الثنائي الشيعي” (حزب اللہ اور حركة أمل) کی جانب سے فیصلہ کن "الفيتو” کی وجہ سے ان کا وزیرِ اعظم بننا ممکن نہ ہو سکا۔ یہ "الفيتو” ان کو "مرشح الولايات المتحدة” کے طور پر پیش کرتا تھا اور اس کے نتیجے میں حسان دیاب کو وزیرِ اعظم مقرر کیا گیا۔
بعد ازاں 4 اگست 2019 کو بیروت میں ہونے والے دھماکے کے بعد دیاب کی حکومت کے استعفیٰ کے بعد نواف سلام کا نام پھر وزیرِ اعظم کے لیے سامنے آیا۔مگر مختلف پارلیمانی گروپوں کے اتفاقِ رائے سے مصطفی أديب کو وزیرِ اعظم منتخب کیا گیا مگر وہ حکومت سازی میں ناکامی کے بعد اس منصب کو قبول کرنے سے انکار کر گئے۔
نواف سلام نے اس دوران خاموشی اختیار کی لیکن پارلیمانی مشاورت میں بعض ارکان کی جانب سے پیش کیے گئے اعتماد پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "ان کے خلاف کی جانے والی تشہیر بے بنیاد ہے” اور ان کی خاموشی اس لیے تھی کہ وہ "محكمة العدل الدولية” کے جج ہیں۔
اب کی بار نو منتخب لبنانی صدر جوزف خلیل عون نے 13 جنوری 2025 کو نواف سلام کو حکومت کی تشکیل کا کام سونپا ہے۔ یہ ذمہ داری پارلیمانی مشاورت کے بعد دی گئی جس میں انہیں 128 میں سے 85 ووٹ ملے۔ یہ توقع کی جا رہی ہے کہ سلام اپنی ذمہ داریاں شیعہ بلاکس کی حمایت کے بغیر سنبھالیں گے۔ حزب اللہ اور اس کی اتحادی تحریک أمل کے اراکینِ پارلیمنٹ نے کسی بھی امیدوار کو ووٹ دینے سے گریز کیا ہے۔
سلام وژن: سیاسی و مالی اصلاحات پر زور
اپنے انتخاب کے بعد نواف سلام نے "برنامج حكومي” لبنان کو بحران سے نکالنے کے لیے نظام میں تبدیلی کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ مالی اور سیاسی اصلاحات ضروری ہیں، جن کا مقصد "عقلية الزبائنية” اور "ثقافة المحاصصة” کا خاتمہ کرنا ہے۔ انہوں نے "قضاء و عدلیہ کی خودمختاری” اور "ریاستی اداروں کو فرقہ واریت اور سفارش کلچر سے محفوظ رکھنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ نواف سلام نے یہ بھی عہد کیا کہ وہ ہمیشہ تمام ان افراد کے ساتھ کام کریں گے جو ریاست کی اصلاح، خودمختاری کے قیام اور لبنان کو عالمی سطح پر اس کا مقام واپس دلانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لبنان کو بچانے کے لیے اقدامات کا آغاز سیاسی، مالیاتی، اور عدالتی اصلاحات سے کرنا ہوگا۔ ان اصلاحات کا مقصد لبنان کے آئین، انصاف اور حقوق کی حفاظت ہونا چاہیے اور ان کا نفاذ قومی مفاد کی خاطر ہونا ضروری ہے۔”
سلام نے ایوانِ صدر میں صدر جوزف عون سے ملاقات کے بعد خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اقوامِ متحدہ کی قرارداد 1701 اور جنگ بندی معاہدے کی تمام شقوں پر مکمل عمل درآمد یقینی بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ دشمن کو لبنان کی آخری انچ زمین سے بھی مکمل انخلا پر مجبور کیا جائے گا جو حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی تباہ کن جنگ کے بعد سے اب تک قابض ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ "میں تفریق کا قائل نہیں، بلکہ اتحاد کا داعی ہوں۔ استبعاد کی نہیں، بلکہ افہام و تفہیم اور شراکت داری کی راہ پر یقین رکھتا ہوں۔میرا ہاتھ سب کے لیے بڑھا ہوا ہے تاکہ ہم مل کر ملک کو بحران سے نکالنے، اصلاحات نافذ کرنے، اور تعمیر نو کے مشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی کوشش کریں۔”
منتخب صدر جوزف عون نے بھی اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ ’ ’اب یہاں سے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا، جہاں صرف ریاست کے پاس ہی اسلحہ رکھنے کا واحد حق ہوگا اور تمام لبنانی اقربا پروری سے ہٹ کر فقط قانون اور عدلیہ کے تابع ہوں گے۔‘‘
حزب اللہ مخالف سیاسی حلقوں کا گمان ہے کہ ان کا وزارت عظمیٰ تک پہنچنا سرکاری اداروں کی کارکردگی میں تبدیلی کا موقع فراہم کر سکتا ہے اور حزب اللہ کے سیاسی کنٹرول کے دور کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
اسرائیل اور صہیون مخالف کوششیں
نواف سلام اقوام متحدہ میں لبنان کے مستقل مندوب کے طور پر اپنی خدمات کے دوران نہ صرف لبنانی عوام کے حقوق کے محافظ رہے بلکہ انہوں نے فلسطینی کاز کے لیے بھی انتہائی متحرک کردار ادا کیا۔ وہ فلسطینی ریاست کی مکمل رکنیت کے لیے جدوجہد کرتے رہے اور اقوام متحدہ میں کئی اہم قراردادیں پیش کیں جن میں اسرائیلی مظالم اور قبضے کی مذمت شامل تھی۔
انہوں نے صہیونی منصوبوں کے خلاف کئی علمی اور قانونی مضامین تحریر کیے جن میں "الشبكة اليهودية الدولية لمناهضة الصہيونية” جیسے حراک کو اجاگر کیا جو یہودی برادری کے اندر سے صیہونیت کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔ ان کے مضامین میں اسرائیلی جارحیت، فلسطینیوں کی زبردستی نقل مکانی، اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت صیہونیت کے غیر قانونی اقدامات پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔
6 فروری 2024 کو جب وہ اقوام متحدہ کی عدالت The International Court of Justice کے صدر منتخب ہوئے تھے اس کے بعد فلسطین کے حق میں ان کے جرأت مندانہ فیصلے کو فلسطینیوں اور انسانی حقوق کے حامیوں نے تاریخی فیصلہ قرار دیا جبکہ اسرائیل نے اسے ’مبنی بر کذب ‘کہا۔ کیونکہ 19 جولائی کو سلام کی قیادت میں عدالت نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ فلسطینی علاقوں پر دہائیوں سے جاری اسرائیلی قبضہ غیر قانونی ہے اور اسے جلد از جلد ختم ہونا چاہیے۔ اسرائیلی حکام نے اس پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا ’یہودی قوم اپنی زمین پر قابض نہیں ہے، دی ہاگ کا کوئی بھی جھوٹا فیصلہ اس تاریخی حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتا اور ہمارے وطن کے تمام علاقوں میں آبادکاری کی قانونی حیثیت پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔‘
***

 

***

 نواف سلام اقوام متحدہ میں لبنان کے مستقل مندوب کے طور پر اپنی خدمات کے دوران نہ صرف لبنانی عوام کے حقوق کے محافظ رہے بلکہ انہوں نے فلسطینی کاز کے لیے بھی انتہائی متحرک کردار ادا کیا۔ وہ فلسطینی ریاست کی مکمل رکنیت کے لیے جدوجہد کرتے رہے اور اقوام متحدہ میں کئی اہم قراردادیں پیش کیں جن میں اسرائیلی مظالم اور قبضے کی مذمت شامل تھی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 فروری تا 22 فروری 2025