نویدِ مسرت

نیتن یاہو کا سنگھاسن ڈول رہا ہے!

ڈاکٹر سلیم خان

حماس کی ثابت قدمی ،امریکہ کی بے اعتنائی اور اسرائیلی عوام کا غصہ زوال کا پیش خیمہ
امریکہ میں مقیم آر ایس ایس کے سابق اہلکار اور ناقد و دانشور پارتھا بنرجی نے پچھلے دنوں یہ انکشاف کیا کہ ماضی میں جب وہ سنگھ کے مرکزی دفتر ناگپور جایا کرتے تھے تو انہوں نے وہاں پر بڑے تزک و احتشاام سے ہٹلر کی تصویر کو آویزاں دیکھا تھا۔ یہ اگلے زمانے کی باتیں ہیں اب اس کو نیتن یاہو کی تصویر سے بدل دیا گیا ہوگا۔ اس لیے کہ ہٹلرِ جدید نے اپنی سفاکی سے اپنے پیش رو کو شرمندہ کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل کے جس ظالم و سفاک وزیر اعظم نے اپنے اقتدار کو قائم و دائم رکھنے کے لیے پچیس ہزار فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے اب اس کے پیروں تلے سے زمین کھسکنے لگی ہے۔ نیتن یاہو کی چولیں ہلانے کا کام کوئی اور نہیں بلکہ اسرائیل کا سب سے بڑا حامی بلکہ آقا امریکہ کر رہا ہے۔ عالمی یومِ رفاقت کے دن پر نیتن یاہو نے اپنی اور مودی کی تصویر کے ساتھ فلم شعلے کا یہ نغمہ لکھ دیا تھا ’یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے‘۔ وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے گجرات میں اپنی سرکار کو بچانے اور انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے بائیس سال قبل جو قتل عام کروایا تھا نیتن یاہو نے دس گنا زیادہ تباہی مچا کر انہیں مات دے دی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ جلد ہی اس کی کشتی ڈوبنے والی ہے کیونکہ اسرائیل کا ناخدا امریکہ دل برداشتہ ہو کر اس ناکام سپہ سالار کا متبادل تلاش کرنے لگا ہے۔
غزہ کی پٹی پر سو دن سے زائد عرصے سے جاری جنگ نے واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان اختلافات میں زبردست اضافہ کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے دورانِ جنگ بینجمن نیتن یاہو کے نعم البدل کی تلاش شروع کر دی ہے۔ امریکی ٹی وی نیٹ ورک ’این بی سی‘ نے دونوں ملکوں کے حکام سے بات کرکے اس حقیقت کا انکشاف کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے 7؍ اکتوبر کو غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے مشرق وسطیٰ کے چار دورے کیے اور ہر بار اسرائیل اس میں شامل تھا۔ موجودہ تنازع کے حوالے سے انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم کے سامنے متعدد تجاویز پیش کیں مگر اڑیل یاہو نے حزب اللہ کے خلاف جنگ شروع کرنے سے باز رہنے کے سوا سبھی کو مسترد کردیا۔ اس لیے امریکہ کے تین سینئر عہدیداروں نے مایوسی کے عالم میں یہ اعتراف کرلیا کہ بائیڈن انتظامیہ نے خطے میں اپنے تصورات کے حصول کے لیے نیتن یاہو سے پرے غور وخوض شروع کر دیا ہے تاکہ اپنے ہم خیال رہنما کی مدد سے اپنی تجاویز کو نافذالعمل کیا جا سکے۔ اسرائیل چونکہ امریکہ پر پوری طرح منحصر ایک غیر فطری ملک ہے اس لیے اس کے لیے وہاں اقتدار کی تبدیلی کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ فی الحال متعدد امریکی حکام نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ نیتن یاہو "تادیر اقتدار میں نہیں رہیں گے”۔ نیتن یاہو کا اقتدار سے بے دخل ہو کر جیل جانا حماس کی یقیناً بہت بڑی فتح ہوگی۔
اسرائیل چونکہ امریکہ کا بغل بچہ ہے وہ اس سے مشرق وسطیٰ میں بہت سارے کام لیتا ہے اس لیے نہایت احتیاط کے ساتھ اس ہدف کی جانب قدم بڑھایا جا رہا ہے۔ واشنگٹن نے نیتن یاہو کے بعد نئی حکومت کی تشکیل کے لیے دیگر اسرائیلی رہنماؤں کے علاوہ سول سوسائٹی سے بھی گفت و شنید شروع کردی ہے۔ اس سلسلے کی ایک کڑی بلنکن کے حالیہ دورے میں تل ابیب کے اندر جنگی کابینہ کے ارکان اور حزب اختلاف کے رہنماوں خاص طور پر سابق وزیر اعظم یائر لپیڈ سے انفرادی ملاقات تھی۔ امریکی وزیر خارجہ کو ایسا اس لیے کرنا پڑا کیونکہ نیتن یاہو امریکہ کی تجویز "حماس پر قابو پانے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے‘‘ کو قبول کرنے سے انکار کر رہا ہے۔امریکی انتظامیہ کی یہ رائے ہے کہ ’’اسرائیلی رہنما اگر اس بات کو تسلیم نہیں کرتے تو تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی اور تشدد جاری رہے گا”۔ یہ نہایت معقول بات ہے کیونکہ آزادی کے متوالوں کو طاقت کے بل بوتے پر کچلا نہیں جا سکتا۔امریکہ کو ویتنام سے افغانستان تک کئی ممالک میں اس حقیقت سے سابقہ پیش آچکا ہےاس لیے وہ اپنی بدنامی سے بچنے کے لیے جنگ کی شدت کو کم کرنے اور عام شہریوں کی اموات میں کمی کرنے والی جنگی حکمت عملی استعمال کرنے پر زور دیتا ہے مگر نیتن یاہو ماننے کے لیے تیار نہیں۔
غزہ کی جنگ جب اپنے 100ویں دن میں داخل ہو گئی تو پہلی بار ایک امریکی اہلکار نے کھلے عام انکشاف کیا کہ صدر جو بائیڈن کا اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ رابطہ ٹوٹ چکا ہے اور 20 دنوں سے زیادہ عرصے سے ان دونوں میں بات نہیں ہوئی۔ یہ تعطل اس بات کی علامت ہے کہ اب صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے، سمجھانے بجھانے کا مرحلہ گزرگیا ہے اس لیے امریکہ نے بیزار ہو کر نیتن یاہو سے چھٹکارا پانے کا ارادہ کرلیا ہے۔ امریکی اہلکار کے مطابق بائیڈن کی ناراضی اس وجہ سے بھی ہے کہ اسرائیل غزہ میں امداد پہنچانے کے لیے اقدامات کرنے سے گریز کر رہا ہے نیز، فلسطینی اتھارٹی کے فنڈز جاری کرنے کا بھی منکر ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے نزدیک جنگ کے بعد غزہ کے لیے اسرائیل کے منصوبے پر عمل درآمد ناممکن ہے۔امریکہ اور اسرائیل کے درمیان غزہ کے حوالے سے اختلافات میں غزہ کے مستقبل، شہریوں کے تحفظ، اوسلو معاہدے کے ذریعے ضمانت یافتہ فلسطینی اتھارٹی کے لیے ٹیکس فنڈز اور غزہ میں جنگ کے بعد کے عبوری انتظام وغیرہ شامل ہیں۔
اسرائیل کے عبرانی ٹی وی چینل 12 نے گزشتہ دنوں یہ انکشاف کیا کہ ایک پارلیمانی اجلاس کے دوران وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو، آرمی چیف ہرزی ہلیوی، وزیر دفاع یو آف گلینٹ، موساد کے چیف ڈیوڈ بارنیا اور داخلی سلامتی کے وزیر رونین بار کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ فوجی رہنماؤں اور سینیر اسرائیلی وزراء کے مشترکہ اجلاس کا مقصد جنگ کے بعد غزہ کی پٹی سے متعلق انتظام کے منصوبوں پر تبادلہ خیال کرنا تھا لیکن اس میں متعدد وزراء اور افسروں کے درمیان شدید تلخ کلامی، افراتفری اور زبردست غم و غصے کا اظہار ہونے لگا۔ اجلاس میں یہ کیفیت اس وقت رونما ہوئی جب دائیں بازو کے متعدد وزراء، خاص طور پر وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اسرائیلی آرمی چیف آف اسٹاف ہرزی ہیلیوی پر پرتشدد تنقید شروع کردی۔ ان لوگوں نے سات اکتوبر کو ہونے والے حماس کے حملے کو روکنے میں ناکامی کا ذمہ دار سیکیورٹی اداروں کو ٹھیرا دیا اور وجوہات کی تحقیقات کے لیے آرمی چیف سے بھی باز پرس کا مطالبہ کیا۔
اس بحث و تنقید کے دوران نیتن یاہو کے وزراء دو خیموں میں منقسم ہو گئے۔ ایک طرف وزیر ٹرانسپورٹ میری ریجیو نے ہیلیوی پر تنقید کی مگر اس کے جواب میں قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر، وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ اور علاقائی تعاون کے وزیر ڈیوڈ امسالم اپنی ہی کابینہ کے وزیرِ ٹرانسپورٹ پر چڑھ دوڑے۔ اس بابت ڈیوڈ امسالم نے نہایت معقول سوال پوچھا کہ "ہمیں اب، یعنی دورانِ جنگ تحقیقات کی ضرورت کیوں ہے؟‘‘ انہوں نے متنبہ کیا کہ ’’یہ قدم فوج کو جنگ جیتنے میں مصروف کرنے کے بجائے دفاعی پوزیشن میں ڈال دے گا‘‘۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق شدید اختلافات کے بعد حکومتی کابینہ کا مذکورہ اجلاس اس طرح ختم کیا گیا کہ اگلے اجلاس کی تاریخ بھی نہیں دی گئی۔ کسی مغرور قوم کو جب خلاف توقع ہزیمت اٹھانی پڑتی ہے تو اس کے اندر غم و غصے کی ایک شدید لہر چل پڑتی ہے اور وہ دل برداشتہ ہو کر آپس میں دست وگریباں ہو جاتے ہیں۔ اس حالت میں میدان جنگ کے اندر ناکامی، امریکی ناراضگی کے علاوہ عوام کے اندر پھیلنے والی بے چینی کا بھی عمل دخل شامل ہوتا ہے۔
غزہ کے اندر حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے جانے والوں کے لواحقین کا پیمانۂ صبر بھی اب لبریز ہوچکا ہے۔ وہ آئے دن سڑکوں پر اتر کر احتجاج کرتے ہیں اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے گھر کے سامنے دھرنا دینے کے لیے بھی پہنچ جاتے ہیں۔ امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک نامہ نگار نے جب ان مظاہرین سے سوالات کیے جو غزہ اسرائیل جنگ کے آغاز میں 100 سے زائد یرغمالیوں کو رہا کرانے کے لیے مظاہرہ کر رہے تھے تو انہوں نے بتایا کہ وہ اسرائیلی حکومت کی سست رو پیش رفت سے مایوس ہوگئے ہیں۔ اسرائیلی یرغمالیوں کے لواحقین کی نمائندگی کرنے والے ایک گروپ نے کہا کہ ہم ’ 105 دنوں سے التجائیں کر رہے ہیں اور اب حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے جرأت مندانہ اقدامات کیے جائیں۔‘ اسرائیل کی جنگی کابینہ کے ایک رکن نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ یرغمالیوں کی رہائی کو محفوظ بنانے کا واحد راستہ جنگ بندی ہے لیکن چونکہ اس سے وزیر اعظم کی انا کو ٹھیس پہنچتی ہے اور سیاسی نقصان ہوتا ہے اس لیے وہ اسے نظر انداز کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ رہائی کی خاطر جنگ بندی معاہدے کا داخلی دباؤ دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔
ایک طرف مظاہرین وزیر اعظم کے گھر کے باہر احتجاج کر رہے ہیں تو دوسری طرف اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ گادی آئزنکوٹ نے اسرائیل کی موجودہ حکمت عملی پر تنقید کرکے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا ہے۔ عوام، فوج اور امریکہ کے تین طرفہ دباو میں اسرائیل کی قیادت کو متعدد و متضاد مشکلات کا سامنا ہے۔ ایسے میں عسکری سرگرمیوں کے اضافے کے سبب حماس کے ہاتھوں یرغمالیوں کی زندگی کے خطرات میں اضافے کا اندیشہ ہے۔ نیتن یاہو کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ حماس کے خلاف ’مکمل کامیابی‘ کے لیے بھرپور کوشش کرنے کے عزم کا اظہار تو دہراتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ ان کا لائحہ عمل کیا ہے۔ اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ آپسی اختلاف کی پردہ داری کے لیے نیتن یاہو اسرائیلی کابینہ کے بحث و مباحثے کو روکنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ لیکن یہ تو کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کو خاموش کرنا تو کسی قدر آسان ہے مگر عوام پر یہ حربہ کام نہیں آتا۔
پہلے جو لوگ سڑکوں پر اتر کر یرغمالیوں کو چھڑانے کی بات کر رہے تھے اب وہ حکومت کے خلاف یک زباں ہو کر دارالحکومت تل ابیب میں وزیر اعظم کے فوری استعفٰی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔تازہ ترین احتجاج میں مظاہرین نے غزہ جنگ کے لیے وزیر اعظم نیتن یاہو کو ذمہ دار قرار دے کر انہیں شیطان کا چہرہ بتایا ہے۔ اسرائیلی حکومت کے خلاف نعرے لگانے والے یہ مظاہرین ملک میں فوری طور پر نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس صورتحال کو بدلنے کی طاقت ان کے پاس ہے اس لیے موجودہ حکومت کو اب واپس گھر جانا پڑے گا۔ یہ ضرورت اس لیے بھی پیش آئی کیونکہ حماس کے قبضے سے یرغمالیوں کو آزاد نہ کروانے پر اسرائیلی کابینہ میں جو اختلافات پہلے زبانی جمع خرچ تک محدود تھے وہ اب ہاتھا پائی تک پہنچ گئے ہیں۔ اسرائیلی نیوز ویب سائٹ کے مطابق اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گلینٹ کے حامیوں نے وزیر اعظم نیتن یاہو کے آفس پر دھاوا بول دیا۔ اس دوران امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئ تین اسرائیلی کمانڈروں نے اعتراف کیا کہ بیک وقت حماس کو شکست دے کر یرغمالیوں کو زندہ بچانا ممکن نہیں ہے۔ یرغمالیوں کی تیز ترین واپسی کا راستہ سفارتی طریقہ کار ہے۔اس مشورے کو وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو جتنی جلدی قبول کرلیں اس میں ان کی بھلائی ہے۔
ایک طرف اسرائیلی خیمہ میں یہ انتشار ہے تو دوسری جانب حماس کے رہنما خالد مشعل نے عمان میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری بہادر، جاں نثار اور ثابت قدم قوم نے غزہ جنگ کے 100 دنوں میں دشمن کی ننگی جارحیت کا جس بہادری اور دلیری سے مقابلہ کیا ہے اس نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ فلسطینی قوم ناقابل شکست ہے۔ اسرائیل تمام تر جنگی مشین اور وحشت وبربریت کے جرائم کا ارتکاب کرنے کے باوجود فلسطینی قوم کو جھکانے اور فلسطینی مزاحمت کو کچلنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ غزہ کی جنگ میں ایک نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے جس کی منزل فلسطین کی آزادی ہے۔ غزہ کے فاقہ کش، محصور پوری بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ قتل عام، جارحیت اور جنگی جرائم سہ رہے ہیں۔ ہمارا دشمن صدمہ محسوس کرتا ہے کیونکہ مجاہدین اب بھی زیر زمین سرنگوں میں ثابت قدم ہیں اور انہیں تباہ کرنے میں دشمن ناکام ہوگیا ہے۔خالد مشعل نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل روز بروز نفسیاتی شکست کے علاوہ عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہے جب کہ فلسطینیوں کی عالمی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسرائیلی ریاست اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دشمن کی حکومت کے درمیان اختلافات کتنے شدید ہوتے جا رہے ہیں۔دشمن جتنا زیادہ جنگ میں الجھتا جاتا ہے اس کا بحران اتنا ہی گہرا ہوتا جاتا ہے۔
خالد مشعل کے ایمان افروز بیان سے سورۂ انفال کی یاد آتی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’اے ایمان لانے والو، جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمہیں کامیابی نصیب ہو گی‘‘۔ عصرِ حاضر میں اہل غزہ نے اس آیت کے بہترین ترجمان ہیں۔ انہوں نے مشکل ترین حالات میں بے مثال صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے بعد والی آیت میں اہل ایمان کو دشمنانِ اسلام کے ایک مخصوص رویہ کی جانب توجہ مبذول کروا کر بچنے کی تلقین کرتے ہوئے متنبہ کیا گیا کہ: ’’اور ان لوگوں کے جیسے رنگ ڈھنگ نہ اختیار کرو جو اپنے گھروں سے اِتراتے اور لوگوں کو اپنی شان دِکھاتے ہوئے نکلے اور جن کی روش یہ ہے کہ اللہ کے راستے سے روکتے ہیں، جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہے‘‘۔ قرآن مجید کی یہ آیت اسرائیل کی حکومت اور فوج پر صادق آتی ہے۔ ان لوگوں کے وہم و گمان میں یہ بات نہیں تھی کہ یہ مزاحمت اس قدر طویل ہوجائے گی اور مجاہدین اسلام میدان جنگ میں ایسے ڈٹے رہیں گے اور اپنی طاقت پر اترانے والی اسرائیلی فوج کو ان کے ہاتھوں ہر روز نئی زک اٹھانی پڑے گی۔ ایسے میں آگے کے لیے قرآنی ہدایت یہ ہے:’’اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی صبر سے کام لو، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘
فی الحال چونکہ اسرائیل کی حکومت اور فوج کے درمیان اختلافات رونما ہو رہے ہیں اس لیے بزدلی ان کے دلوں میں گھر کر رہی ہے اور ان کی ہوا اکھڑنے لگی ہے۔ یہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے نوید مسرت ہے۔

 

***

 ایک طرف مظاہرین وزیراعظم کے گھر کے باہر احتجاج کررہے ہیں دوسری جانب اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ گادی آئزنکوٹ نے اسرائیل کی موجودہ حکمت عملی پر تنقید کرکے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کردیا ہے۔ عوام ، فوج اور امریکہ کے تین طرفہ دباو میں اسرائیل کی قیادت کومتعدد و متضاد مشکلات کا سامنا ہے۔ایسے میں عسکری سرگرمیوں کے اندر اضافے کے سبب حماس کے ہاتھوں یرغمالیوں کی زندگی کے خطرات میں اضافہ کا اندیشہ ہے۔نیتن یاہو کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ حماس کے خلاف ’مکمل کامیابی‘ کے لیے بھرپور کوشش کرنے کے عزم کا اظہار تو دوہراتے رہتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ ان کا لائحہ عمل کیا ہے۔ اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ آپسی اختلاف کی پردہ داری کے لیے نیتن یاہو اسرائیلی کابینہ کے بحث و مباحثے کو روکنے پر مجبور ہوگئے ہیں لیکن یہ تو کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ ارکان پارلیمان کو خاموش کرنا تو کسی قدر آسان ہے مگرعوام پر یہ حربہ کام نہیں آتا ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جنوری تا 3 فروری 2024