نیشنل پریس ڈے پر صحافتی اصولوں اور اعلیٰ اقدار کو اپنانے کی وکالت

ایمسٹرڈم میں فٹبال میچ کے بعد تشدد اور مغربی میڈیا کی رپورٹنگ اور بیانیہ موضوع بحث

شہاب فضل، لکھنؤ

غزہ میں 183 سے زائد صحافیوں کے’ قتل‘ پر مجرمانہ خاموشی
مخصوص ایجنڈے کے مطابق خبروں اور مباحثوں کی پیشکش ، متبادل میڈیا ’منفی ذرائع ابلاغ‘ سے برسر پیکار
متبادل میڈیا نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر میڈیا کے منظرنامہ کو متوازن کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنے گہرے تجزیوں ،جامع تبصروں اور حاشیہ کے امور و مسائل اور مفاد عامہ کے موضوعات پر کلام کرکے میڈیا کا اعتبار قائم کیا ہے۔
بھارت میں سولہ نومبر کو پریس کونسل آف انڈیا کے یوم تاسیس پر ہر سال قومی پریس ڈے منایا جاتا ہے ، چنانچہ گزشتہ دنوں ملک گیر سطح پر اس کی تقاریب کا اہتمام کیا گیا ، میڈیا کے اصولوں کی یاددہانی کرائی گئی، ملک و سماج کے تئیں جواب دہی، ذمہ داری اور غیر جانب داری پر زور دیا گیا اور فرضی معلومات کی نشر و اشاعت کو روکنے کا عہد کیا گیا ۔
قومی پریس ڈے دراصل تجدید عہد کا دن ہے کہ فرضی خبروں کی روک تھام کرنی ہے، حقائق کی تفتیش کرنی ہے تبھی انہیں نشر یا شائع کرنا ہے، ذاتی فائدے، سیاسی دباؤ یا لالچ کے چکر میں میڈیائی اخلاقیات سے سمجھوتہ نہیں کرنا ہے اور مفاد عامہ اور اعتمادِ عام کا خیال رکھنا ہے۔
پریس کونسل آف انڈیا 1966ء میں قائم ہوا جس کا بنیادی ہدف اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ پریس، صحافت کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھے اور بیرونی دباؤ سے آزاد رہے۔ اس اعلیٰ تصور کے تئیں میڈیا اداروں کو پابند عہد رکھنا کبھی آسان نہیں رہا اور آج یہ زیادہ پیچیدہ ہو گیا ہے کیونکہ ٹیکنالوجی نے سوشل میڈیا ، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور پوڈ کاسٹ وغیرہ کی شکل میں اطلاعات اور خبروں کی نشر و اشاعت پر روایتی میڈیا گھرانوں کی اجارہ داری کو ختم کردیا ہے تو دوسری طرف میڈیا اداروں کے کارپوریٹ گھرانوں کے تحویل میں چلے جانے سے میڈیا کا پورا منظرنامہ تبدیل ہو چکا ہے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب ٹیلیویژن نیوز چینلوں پر پرائم ٹائم کو اولیت حاصل ہوئی اور شور وغوغا اور چیخ و پکار سے لیس لایعنی ڈبیٹ یا بحثوں کا سلسلہ شروع ہوا تو میڈیا کی ساکھ کو دھچکا لگا اور رفتہ رفتہ یہ واضح ہوگیا کہ ان کا ایجنڈا یک رخا اور یک طرفہ ہے اور میڈیا کے لبادے میں دراصل جارحانہ طریقے سے مخصوص بیانیہ کو فروغ دینا،سماجی تانے بانے کو درہم کرنا ، ثقافتی تنوع کو نقصان پہنچانا اور عوام کو باخبر، باشعور اور بیدار کرنے سے زیادہ انھیں گمراہ کرنا اور ورغلانا مقصود ہے تو متبادل میڈیا کا جنم ہوا اور تفتیشی صحافت کے پلیٹ فارم وجود میں آئے جس سے حقیقت کے دیگر پہلو بھی عوام کے سامنے آنے لگے ۔ اس متبادل میڈیا نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر تعفن زدہ ماحول میں توازن قائم کیا ہے اور اپنے گہرے تجزیوں ،جامع تبصروں اور حاشیہ کے امور و مسائل اور مفاد عامہ کے موضوعات پر کلام کرکے میڈیا کا اعتبار قائم کیا ہے۔
میڈیا میں منفی اور مثبت دونوں رجحانات
اسی سال مارچ میں بین الاقوامی شہرت یافتہ چینل الجزیرہ نے اس موضوع پر ایک اسٹوری کی کہ کس طرح بھارت میں میڈیا وسیع پیمانے پر وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی ہندتوا نواز نیشنلسٹ بھارتیہ جنتا پارٹی کے مفادات کے لیے کام کر رہی ہے اور ایک پروپیگنڈہ آلہ بن کر رہ گئی ہے ۔
مشہور کالم نویس تَولین سنگھ نے 17 نومبر کو انڈین ایکسپریس میں اپنے ایک کالم میں لکھا کہ ’’جمہوریت قانون کی حکم رانی پر استوار ہوتی ہے اور یہ افسوس کی بات ہے کہ ہم لوگ میڈیا میں اس بات کو اتنی شدت سے نہیں کہہ سکے جتنی شدت سے ہمیں کہنا چاہیے تھا‘‘۔ انہوں نے مزید لکھا کہ ’جب سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتہ بلڈوزر کارروائی پر اپنا فیصلہ سنایا تو بہت سے ٹی وی ڈبیٹس میں اینکروں نے یہ کہا کہ کیا ایسے حالات میں ’بلڈوزر جسٹس‘ ٹھیک نہیں ہے جب حقیقی انصاف میں اتنا وقت لگتا ہو‘۔ تولین سنگھ نے ایسا سوال پوچھنے والے اینکروں کو عار دلاتے ہوئے کہا کہ میڈیا کا یہ عمل شرمناک ہے۔ انہوں نے کہا ’’ان اینکروں کو تو اور شرمندہ ہونا چاہیے جنہوں نے کئی قدم آگے بڑھ کر یہ کہاکہ اتر پردیش میں ’بلڈوزر بابا‘ کے راج میں مجرموں اور مافیاؤں پر قابو پالیا گیا ہے‘‘۔
تَولین سنگھ نے آگے یہ بھی لکھا کہ مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کی انتخابی مہم میں بی جے پی کے سینئر رہنماؤں بشمول وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر اعلیٰ یو پی یوگی آدتیہ ناتھ اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے فرقہ وارانہ تقریریں کرکے نفرت پھیلانے کا کام کیا ہے۔ کالم نویس کا سوال ہے’کیا انتخابات جیتنا اتنا زیادہ اہم ہے جس کے آگے بھارتی سماج کا تانا بانا کوئی معنی نہیں رکھتا؟ وہ مزید لکھتی ہیں ’’کسی بھی ٹی وی ڈبیٹ میں ان دنوں یہ مشکل سے ہی دیکھنے کو ملے گا کہ بی جے پی کے ترجمان بھارت کے تمام مسائل کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار نہ ٹھیراتے ہوں۔ میرے لیے یہ فکر کی بات ہے کہ ہماری حکم راں جماعت کے قدآور رہنما مذہبی ہم آہنگی کو بگاڑ کر اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ ہم اصل مسائل پر کبھی بات ہی نہ کریں‘‘
تولین سنگھ نے جس موضوع کو اٹھایا ہے وہ بہت اہم ہے جس پر ان جیسے لوگ میڈیا میں بات کر رہے ہیں مگر زیادہ تر میڈیا اداروں نے اس مسئلہ سے آنکھیں موند رکھی ہیں ۔ مین اسٹریم میڈیا اور خاص کر ٹی وی چینلوں سے ان کی یہی شکایت ہے۔
ان کی شکایت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کچھ میڈیا ادارے یک طرفہ ڈبیٹ کرکے نفرتی بیانیہ کو ہوا دیتے ہیں اور مخصوص ایجنڈا تشکیل دیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ریپبلک ٹی وی پر ’جامعاز ڈارک ریئلٹی ایکسپوزڈ‘ کے عنوان سے نشر کیا جانے والا شو ہے جس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں غیرمسلموں کے ساتھ تعصب کی ایک نام نہاد رپورٹ کو بنیاد بناکر حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ اس طرح کے کئی ٹی وی شوز گزشتہ چند برسوں سے چینلز پر دکھائے جارہے ہیں جن کا مقصد نفرت کے ایجنڈے کو دھار دینا ہے۔
ڈیجیٹل وینچرز خلا کو پُر کرنے کے کام میں مصروف
جانب دارانہ صحافت نے متبادل میڈیا کی اہمیت و ضرورت میں اضافہ کیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ نئے ڈیجیٹل وینچرز اپنے متوازن کوریج سے جلد مقبولیت حاصل کرلیتے ہیں۔ دی وائر ڈاٹ اِن ، اسکرول یا ناکنگ نیوز جیسے یوٹیوب چینلز وغیرہ اس کی کچھ مثالیں ہیں۔ اسی طرح کا ایک ڈیجیٹل وینچر ’دی ہندی ٹاپ‘ کے نام سے بازا ر میں قدم رکھنے جارہا ہے۔ سماچار فار میڈیا ڈاٹ کام کی اطلاع کے مطابق تقریباً پچیس سال کے صحافتی کریئر کے بعد سید طارق احمد ’دی ہندی ٹاپ‘ لانچ کرنے جارہے ہیں۔ ان کے بقول ہندی بازار میں مواد کی کمی اور نیوز چینلوں کی یک طرفہ صحافت سے اوب چکے ناظرین اور قارئین کے لیے وہ اس پلیٹ فارم کو شروع کررہے ہیں۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے بعد ان کا نیوز چینل بھی لانچ کرنے کا ارادہ ہے ۔
خبروں کو مخصوص ایجنڈے کے مطابق دبانے کی کوشش
کچھ معروف اور زیادہ سرکولیشن رکھنے والے اخبارات اپنے ایجنڈے کے مطابق ہی قارئین کو خبریں پیش کرتے ہیں ہیں۔ میڈیا کے رجحانات اور خبروں پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ بھڑاس فار میڈیا ڈاٹ کام نے ہندی اخبار کی ایک مختصر خبر کو پوسٹ کرتے ہوئے اس بات پر حیرت و تعجب کا اظہار کیا ہے کہ اتر پردیش کے ضلع ہاتھرس میں ایک اسکول کے مالک نے اپنے لڑکے کی کامیابی کے لیے دو بچوں کی بلی دی۔ اتنی بڑی خبر کو اخبار نے زیادہ اہمیت نہ دیتے ہوئے مختصرات میں شامل کیا اور دس لائن میں ہی پوری خبر کو سمیٹ دیا ۔بھڑاس نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ’’دو بچوں کا قتل ہوگیا اور خبر بھولے بسرے انداز میں آٹھ دس لائن میں نپٹا دی گئی۔ نہ اسکول کا نام اور نہ ملزم کا نام ہے۔ صحافیوں کو لوگ گالی نہیں دیں گے تو کیا کریں گے!‘‘
اترپردیش کے شہر جھانسی میں ایک درد مناک سانحہ میں ہسپتال میں ہونے والی آتشزدگی میں دس نو نہالوں کی موت ہوگئی ۔اس سانحہ کی میڈیا رپورٹنگ کے رجحان کا حوالہ دیتے ہوئے صحافی روہنی سنگھ نے اپنے ایکس اکاؤنٹ سے یہ پوسٹ کیا کہ’’نوئیڈا کے چینلز بے دلی کے ساتھ اس سانحہ پر بات کر رہے ہیں اور’ سسٹم‘ کو ذمہ دار ٹھیرا رہے ہیں نہ کہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو، جو اس بات کی ایک اور مثال ہے کہ یہ نیوز چینلز بی جے پی کے وزرائے اعلیٰ کو ہر قیمت پر بچاتے ہیں اور ان کی ذمہ داری طے نہیں کرتے۔اگر یہ سانحہ مغربی بنگال میں پیش آیا ہوتا تو سارے ٹی وی اسکرینوں پر ممتا بنرجی کی تصویریں نظر آتیں اور ان کے استعفے کا مطالبہ ہوتا، چینل والے انہیں بے حس قرار دیتے ۔کچھ اینکرز تو شو کے دوران رونے لگتے ۔ یہی وجہ ہے کہ نوئیڈا کے چینلوں کو آج جمہوریت کا سب سے بدنما ستون سمجھا جاتا ہے‘‘۔
تعصب اور جانب داری کو ترک کرنے پر زور
میڈیا میں تعصب اور جانب داری سے دور رہنے پر زور دیا جاتا ہے۔ یہ ایک مشکل کام ہے مگر میڈیا اخلاقیات میں اس کی تلقین کی جاتی ہے کہ معاملے کے تمام پہلوؤں پر بات کی جائے اور یک طرفہ انداز نہ اپنایا جائے۔ سینئر ٹی وی جرنلسٹ راہل کنول نے ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں میڈیا میں جانب داری پر افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے امریکی انتخابات کی کووریج کے حوالہ سے لکھا کہ اگر آپ سی این این چینل دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ کملا ہیرس جیت رہی ہیں۔ لیکن اگر فوکس نیوز دیکھیں تو احساس ہوگا کہ ٹرمپ کی جیت یقینی ہے ۔میڈیا کو کسی معاملے کے دونوں پہلوؤں کا تجزیہ کرنا چاہیے، یک طرفہ نہیں ہونا چاہیے۔ راہل کنول کے پوسٹ پر انہیں کو آئینہ دکھاتے ہوئے صحافی روہنی سنگھ نے ایکس پر لکھا کہ اب نوئیڈا کے اینکرز (ٹی وی چینلوں کے بیشتر دفاتر نوئیڈا، اتر پردیش میں واقع ہیں) امریکی میڈیا کے تعصب کا رونا رو رہے ہیں جب کہ وہ خود اپوزیشن جماعتوں کو لگابتار نشانہ بناتے ہیں، ان کی تذلیل کرتے ہیں، انہیں نیچا دکھاتے ہیں اور فراڈ سروے اور ایگزٹ پول کو بار بار دکھاتے ہیں۔
ایکس پلیٹ فارم پر اکثر و بیشتر خبروں یا ان کے پس پشت کی کہانی یا صحافیانہ رجحانات کو اجاگر کیا جاتا ہے ۔اے این آئی بھارت کی ایک معروف ملٹی میڈیا نیوز ایجنسی ہے جس کی ایڈیٹر اسمیتا پرکاش کے سلسلہ میں 19 اکتوبر 2024 کو ایکس پر ایک اہم پوسٹ منظر عام پر آئی۔ اویش تیواری نامی صحافی نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ کناڈا کے فارین انٹرفیس کمیشن نے اپنے سرکاری دستاویز میں اسمیتا پرکاش سمیت کئی صحافیوں اور ٹی وی چینلوں کو فرضی ٹویٹ کرنے، خبریں نشر کرنے اور غلط اطلاعات عام کرنے کا قصوروار بتایا ہے۔ صرف کناڈا ہی نہیں بلکہ یوروپی یونین کے کئی ملک اے این آئی، آج تک، ریپبلک ٹی وی کے نامہ نگاروں اور ایڈیٹروں پر پابندی لگانے کا ذہن بناچکے ہیں، جو ملک کی میڈیا کے لیے ایک سنگین بات ہے۔
ایکس پر اوریجینل لوگوں کے اکاؤنٹ کے ساتھ ہی فرضی اکاؤنٹ بھی کثیر تعداد میں ہیں۔ بعض دفعہ اصل لوگوں کے نام پر پیروڈی یعنی نقلی اکاؤنٹ بنالئے جاتے ہیں جن سے تفریحی اور طنزیہ پوسٹ کیے جاتے ہیں۔ اگر ایسے ہی کسی اکاؤنٹ کو اصل شخص کا سمجھ کر کوئی بڑا چینل خبر نشر کردے تو اس کا مذاق اڑنا تعجب کی بات نہیں۔ امریکی انتخابات میں ڈونالڈ ٹرمپ کی جیت کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کے پیروڈی اکاؤنٹ سے ایک پوسٹ کیا گیا جسے انگریزی نیوز چینل انڈیا ٹوڈے نے اصل بتاکر نشر کرنا شروع کردیا، جس کے بعد ایکس پر انڈیا ٹوڈے پر طنز کے تیر برسائے گئے۔ لوگوں نے مذاق بناتے ہوئے کہاکہ نمبر ایک بننے کے چکر میں ایسا ہوجاتا ہے۔ اسی طرح الجزیرہ میڈیا انسٹیٹیوٹ نے بھی حال ہی میں بھارتی میڈیا میں پائے جانے والے تعصب اور جانب دار ی کا ایک تجزیہ کیا ہے اور لنچنگ کے واقعات میں مسلم مخالف تعصب کو اجاگر کیا ہے۔
ایمسٹرڈم میں اسرائیلی فٹ بال کلب کے میچ کے دوران ہنگامہ اور تشدد پر میڈیا کا بیانیہ موضوع بحث
نیدر لینڈ کے شہر ایمسٹرڈم میں سات اور آٹھ نومبر کی درمیانی شب میں میکابی تل ابیب فٹ بال کلب اور ایمسٹرڈم کے ایک کلب کے درمیان میچ کے دوران اسرائیلی شائقین کی جانب سے عرب مخالف نعروں پر ہنگامہ شروع ہوگیا اور تشدد میں کئی لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ۔حملہ میں کم سے کم چھ افراد زخمی ہوئے اور درجنوں لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ اس واقعہ کی رپورٹنگ پر کافی تیکھی بحث ہوئی ہے اور میڈیا دو دھڑوں میں تقسیم نظر آیا ہے۔
قطر نشیں ڈِس انفارمیشن ایکسپرٹ اور ’ڈیجیٹل اتھاریٹیریئنزم اِن دی مڈل ایسٹ: ڈسیپشن،ڈِس انفارمیشن اینڈ سوشل میڈیا‘ کے مصنف مارک اووین جونس نے اپنے ایکس اکاؤنٹ سے اس پورے واقعہ پر روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے اپنی پوسٹ کے ذریعہ بتایا کہ میکابی فٹبال کلب کے شائقین نے عرب مخالف نسل پرستانہ نعرے لگائے، فلسطین کے پرچم پھاڑے اور مقامی باشندوں پر حملے کیے۔ دو طرفہ حملوں سے معاملہ خطرناک رخ اختیار کر گیا، البتہ حیرت انگریز بات یہ ہوئی کہ حملہ کی ویڈیوز کو اسکائی نیوز اور دیگر چینلوں نے پہلے اس بیانیہ کے ساتھ پیش کیا کہ اسرائیلی شائقین نے عرب مخالف نسل پرستانہ نعرے لگائے، ہنگامہ کیا اور مقامی لوگوں پر حملے کیے۔ چند گھنٹوں پر اس بیانیہ کو تبدیل کر دیا گیا اور ویڈیو کو ہٹالیا گیا۔ بعد کے بیانیہ میں یہ رپورٹ نشر کی گئی کہ اسرائیلی شائقین پر اینٹی سیمیٹک یعنی یہودی مخالف حملے کیے گئے۔ یہی بیانیہ بعد میں دیگر چینلوں اور نیوز ایجنسیوں نے نشر کیا۔
اس سلسلہ میں فرانس کے ٹی وی چینل’ فرانس 24‘ نے اپنے تفتیشی پروگرام ’اسکوپ‘ میں ایک تجزیہ نشر کیا اور میڈیا کی اس روش کو ناظرین کے سامنے لاکر واقعہ کے تمام پہلوؤں کو پیش کیا۔ ویڈیو فوٹیج پہلے کیا تھا اور بعد میں اسے کس طرح نشر کیا گیا، اس کے تجزیہ سے میڈیا چینلوں کا طرز عمل اور پس منظر کے اسباب و علل سامنے آجاتے ہیں۔
اس واقعہ کے بعد کئی افراد نے ایکس پر لکھا کہ رائٹرز اور اے پی (معروف خبررساں ایجنسیاں) اسٹوریز کو شکل اور رخ دینے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں جسے مین اسٹریم نیوز ادارے اپناتے ہیں ۔ اس واقعہ کے بعد سے ان الزامات میں شدت آئی ہے کہ مغربی میڈیا اسرائیل کے مظالم کو چھپانے کا کام کر رہا ہے۔
غزہ میں جاری اسرائیلی حملوں میں 183 صحافیوں کی موت
امریکی مشن برائے اقوام متحدہ نے اپنے ایک بیان میں دنیا بھر میں صحافیوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کی مذمت کی ہے لیکن اس میں غزہ میں اسرائیلی حملوں میں مارے جانے والے صحافیوں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ الجزیرہ میڈیا انسٹیٹیوٹ میں شائع شدہ اپنے تجزیاتی مضمون میں محمد زیدان نے بتایا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی حملوں میں 183 سے زائد صحافیوں کاقتل ہوا ہے، مگر اس پر کوئی بات نہیں ہو رہی ہے۔
امریکی تفتیشی صحافی جرمی ساہل کے بقول جرائم کو چھپانے کی یہ روش گزشتہ دہائیوں میں دنیا بھر میں امریکی فورسیز کی قدیم روش سے مماثلت رکھتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ہاتھوں صحافیوں کے اس بڑے پیمانے پر قتل کو فلسطین اسرائیل تنازعہ سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ محمد زیدان نے امریکی صحافی کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ یہ سب اسرائیلی پریشر گروپس کی کارستانی ہے جو مغربی میڈیا میں عرب و فلسطین مخالف اور اسرائیل کی تائید میں بیانیہ کو ہوا دیتے ہیں۔
ساہل ’ایڈورسیریئل صحافت‘ کی وکالت کرتے ہیں جس کا مفہوم ہے: صحافت کو اس کی بنیادی قدروں پر واپس لے جانا، ذمہ داروں کی جواب دہی طے کرنا، بیانیہ کی جانچ پرکھ کرنا، معروضی حقائق پر اعتماد کو بحال کرنا اور اطلاعات کی باریکی و گہرائی سے تصدیق کرنا۔ ساہل کے بقول سچی صحافت ،اطلاعات عامہ پر کسی بھی طرح کی اجارہ داری سے مزاحمت اور علم و ناقدانہ فکر کے حق کا تحفظ کرنے سے عبارت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طاقتور لوگوں کے بیانیہ اور خیالات کے تئیں صحافیوں کو ’عدم اعتماد‘ کا اصول اپنانا چاہیے اور ’اعتماد کرتا ہوں مگر تصدیق کر رہا ہوں‘ کا اصول ترک کرنا ہوگا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 نومبر تا 30 نومبر 2024