نسیمے از دیار دیو بند

دریا سے یہ موتی نکلا تھا دریا ہی میں جاکر ڈوب گیا

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

مولانا نسیم اختر شاہ قیصر بڑے عالم اور بڑے ادیب اور بڑے سوانح نگار تھے ’’ایں خانہ ہمہ آفتاب است‘‘ کا محاورہ ان کے خانوادہ پر صادق آتا تھا، وہ خود بڑے عالم ان کے والد بہت بڑے عالم اور صحافی، ان کے چچا نامور استاذ ان کے دادا برصغیر کی نامور شخصیت اور علم حدیث کے امام تھے
دیو بند سے نسیم علم وادب و وضع داری اور شرافت کا ایک جھونکا آیا جس نے اہل علم اور اہل قلم کے مشام جاں کو معطر اور اہل دین وتقوی کی بزم کو منور کردیا تھا اور یہ امید تھی کہ اس چراغ سے کاشانہ علم تادیر منور رہے گا لیکن کاشانہ انور شاہ کشمیری کا یہ ستارہ ’’خوش درخشید ولے دولتے مستعجل بود‘‘ کا مصداق بن گیا ۔جس نے بھی انتقال کی خبر سنی اسے فوراً یقین نہیں آیا لیکن بالآخر یقین کرنا پڑا کہ یہ نسیمے خوش خرام ونیک نام چمن حیات سے رخصت ہوگئی
حیف در چشم زدن صورت یار آخر شد
روئے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شد
ان کو میری حقیر ذات سے بڑی مناسبت تھی۔ اپنی کئی کتابوں پر مقدمے اور تبصرے انہوں نے لکھوائے اور میں نے کیوں لکھے یہ خود مجھے نہیں معلوم، لیکن ان کی تحریریں پڑھیں تو ان میں ایک جذب اور دل کشی محسوس ہوئی ایک فکری توازن کا احساس ہوا وہ فکری توازن جو بڑی مشکلوں کے بعد آتا ہے، شخصیت میں اور فکر میں توازن اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ نعمت جس کو مل گئی بس مل گئی ورنہ ہر مدعی کو یہ نصیب نہیں ہوتی۔ ایک شاعر کو اس عظیم نعمت کا احساس ہوا تو اس نے بڑے شاعرانہ انداز میں تحدیث نعمت کی اور کہا
ہمارے لہجہ میں یہ توازن بڑی صعوبت کے بعد آیا
کئی مزاجوں کے دشت دیکھے کئی رویوں کی خاک چھانی
مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کی مضامین مجھے پسند آئے اور میں نے ان کی کئی کتابوں پر اپنی تحریروں کے پیوند لگا دیے اور مجھے ہر بار محسوس ہوا کہ یہ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند ہے۔ یہ موج نسیم کے ساتھ باد صرصر کی آمیزش ہے یہ اختر صبح کے دامن تک ایک دست بے باک کی دست درازی ہے۔ قیصر کے دربار میں ایک فقیر بے نوا کی در اندازی کی جسارت ہے لیکن کیا کیا جائے وہ اس جسارت کا حکم دیتے رہے اور ادھر سے تعمیل ارشاد ہوتی رہی۔ الامر فوق الادب۔
میں کیسے لوگوں کو بتاؤں کہ میرے لیے لکھنا کتنا مشکل کام ہے، ان کا انتقال علم ادب کی دنیا کا بڑا سانحہ ہے انتقال کے فورا بعد ایک مختصر سی تحریر جسے آہ کہہ لیجیے یا کراہ کہہ لیجیے قلم برداشتہ سامنے آئی پھر اس کے بعد ان کی شخصیت کے شایان شان کچھ نہ لکھ سکا، ایسا لگا کہ وہ موکل جو ہم سے ہم پر مسلط ہو کر لکھواتا ہے طویل رخصت پر چلا گیا ہے اور جس کے بغیر میں کچھ نہیں لکھ سکتا۔ وہ نہ جانے کہاں غائب ہوگیا ہے، میرے لیے یہ دوسروں کو سمجھانا بڑا مشکل ہے کہ میری اکثر وبیشتر تحریریں کسی کی لکھوائی ہوئی ہوتی ہیں، وہ کون ہے میں اسے خود نہیں جانتا، میں نے اسے اپنی آنکھوں سے آج تک نہیں دیکھا، وہ کوئی نادیدہ لیکن محترم ہستی ہے وہ میرے اعصاب پر سوار ہوجاتی ہے اور مجھے املا کراتی ہے میں اسے بہت دنوں سے آواز دے رہا ہوں اے نادیدہ نا شنیدہ ہستی اب آ جا، اے سوار اشہب دوراں بیا
میں حیدرآباد میں رہتا تھا اور وہ دیوبند میں رہتے تھے، میری ان سے شناسائی نہیں تھی لیکن وہ اپنی کتابیں مجھے بھیجتے تھے اور مجھ سے تحریر کی فرمائش بھی کرتے تھے۔ نہ میں نے ان کو دیکھا تھا اور نہ انہوں نے مجھ کو، ایک بے نام سا رشتہ تھا ایک تعلق تھا بے نام سا، گمنام سا، وہ رشتہ جو اہل قلم کو ایک دوسرے سے ہوتا ہے، تحریریں انسان کی شناخت ہوتی ہیں انسان کی طبیعت اور کیفیت کا آئینہ ہوتی ہیں مجھے ان کی تحریریں پسند آتی تھیں ان کے ادبی اور علمی ذوق کا آئینہ ہوتی تھیں میں ان کے علمی ادبی دسترخوان سے ریزہ چینی کرتا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی جب انہوں نے مجھ سے اپنی کسی کتاب پر تحریر کی فرمائش کی، پہلے تو یقین نہیں آیا پھر ایسا لگا کہ ان کو شاید میری عزت افزائی مقصود ہے، میں نے حکم کی تعمیل میں تحریر لکھ کر دے دی۔ ایک بار اور انہوں نے ایسی ہی فرمائش کی تعجب ہوا لیکن حکم کی تعمیل کی گئی، اس کے بعد سے یہ احساس ضرور ہوا کہ کچھ لوگ میری تحریروں کو پسند کرتے ہیں۔ ہماری ان سے ملاقات بھی نہیں تھی وہ دیوبند میں اور میں ایک ہزار میل دور حیدرآباد میں، وہ کئی کتابوں کے نامور مصنف تھے اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچ رہے تھے، وہ وقف دارالعلوم کے استاد اور علم وادب کے نقاد تھے اور ایک بہت معروف علمی خانوادہ کے چشم وچراغ تھے، ان سے ایک بے نام سا رشتہ تھا جو آگے چل کر ایک نوعیت کے خاندانی رشتہ میں بدل گیا۔ ان کی ایک صاحب زادی کا ہمارے خاندان میں رشتہ ہوا اور پھر ان سے کئی بار ملاقاتیں ہوئیں اور میں نے ان کو علوم اسلامیہ کے فاضل اور اسکالر کی حیثیت سے بھی قابل صد احترام شخص پایا۔ یہ اندازہ نہ تھا کہ یہ شخصیت جلد شعلہ مستعجل اور راہی ملک ازل بن جائے گی اور وہ ایک دن اچانک سب کو حیرت زدہ اور غم زدہ چھوڑ کر مسافر ملک عدم ہوجائیں گے۔ جانا اس دنیا سے سب کو ہے زمین کا ایک چھوٹا ٹکڑا سب کی منزل ہے لیکن ایسا لگا
کہ انہوں نے زیادہ تیز رفتاری بلکہ برق رفتاری کا ثبوت دیا، دنیا میں وہ اپنے جوہر کمال میں سب سے آگے تھے وہ اپنی آخری منزل تک پہنچنے میں بھی سب سے آگے رہے۔
ع منزل کی طرف دو گام چلوں اور سامنے منزل آجائے
ان کا حلقہ احباب بڑا وسیع تھا، لوگ ان کے بڑے قدرداں تھے اور ان کے کمالات کے معترف تھے طلبہ اور اساتذہ بھی مطمئن دوست اور احباب ان کے قلمی صلاحیتیوں کے مداح، عوام وخواص ان کی خطابت کے ثنا خواں، شہر کے لوگ ان کی شرافت اور خوش اخلاقی کے قائل تھے، چنانچہ ان کا انتقال ہوا تو دور دراز سے ہزاروں لوگ افتاں وخیزاں اور نالہ بلب اور گریہ کناں ان کے مکان پر پہنچے اور ایسا ہجوم ہوا کہ اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔
مولانا نسیم اختر شاہ قیصر بڑے عالم اور بڑے ادیب اور بڑے سوانح نگار تھے ’’ایں خانہ ہمہ آفتاب است‘‘ کا محاورہ ان کے خانوادہ پر صادق آتا تھا، وہ خود بڑے عالم ان کے والد بہت بڑے عالم اور صحافی، ان کے چچا نامور استاذ ان کے دادا برصغیر کی نامور شخصیت اور علم حدیث کے امام تھے۔ مولانا نسیم اختر نے میری بڑی عزت افزائی کی اور کئی بار اپنی کتابوں پر تقریظ لکھوائی حالانکہ وہ مجھ سے کہیں بڑِے عالم اور صاحب قلم تھے۔ بعد میں اس عظیم خانوادہ سے جب قرابت ہوگئی اور میرا بھی ریٹائرڈمنٹ کے بعد اور مسلسل علالت کی وجہ سے حیدرآباد سے دلی منتقل ہونا ہوا تو ملاقاتیں بار بار ہونے لگیں۔ میں بھی ان کے گھر پر گیا اور وہ کئی بار میرے گھر تشریف لائے۔ اکثر ان سے علمی اور فکری گفتگو ہوتی اور حالات حاضرہ پر تبادلہ خیال ہوتا۔
میرے جیسے بے چین، مضطرب اور فکر مند شخص کے لیے حالات حاضرہ کا موضوع ہمیشہ بہت اہم اور حساس موضوع رہا ہے، اس راقم آثم کے قلم سے ایک پوری کتاب اس موضوع پر منظر عام پر آچکی ہے جس کا نام ہے ’’حالات بدل سکتے ہیں‘‘ وہ انسٹیٹیوٹ آف آبجکٹیو اسٹڈیز دلی سے اور قاضی پبلیشر نظام الدین سے بار بار شائع ہو چکی ہے۔ یہ موضوع میری زندگی کا اوڑھنا بچھونا اور شعار و دثار رہا ہے، میری کوئی سانس اس فکر سے خالی نہیں جاتی ہے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ مولانا نسیم اختر شاہ قیصر جیسی شخصیت سے بار بار ملاقات ہو اور یہ موضوع زیر گفتگو نہ آئے، میں اپنے اشکالات اور اعتراضات پیش کرتا جن کی زد بڑی مستند اور موقر شخصیتوں پر پڑتی، کوئی بات اعتراض برائے اعتراض نہ ہوتی یہ غم کے آنسو ہوتے جو لفظوں کی شکل میں ادا ہوتے تھے۔ یہ آنسو بھی غم کا افسانہ بیان کرنے سے قاصر ہوتے۔ مجھے محسوس ہوتا کہ پوری امت کے زوال کا ادراک مجھے نصیب ہوا ہے۔ مجھے محسوس ہوتا کہ پوری امت کے عروج کا راز مجھے مل گیا ہے
وہ حرف راز مجھے جو سکھا گیا ہے
خدا مجھے نفس جبرئیل دے تو کہوں
میں مولانا نسیم اختر شاہ قیصر سے کہتا کہ میں سالہا سال اس مسئلہ پر غور کرنے کے بعد اس نتیجہ تک پہنچا ہوں کہ مسلمانوں کے زوال و اضمحلال شکست وریخت بد حالی اور بربادی کی اصل وجہ یہ ہے کہ مسلمان پیغمبرانہ مشن سے رو گرداں ہو گئے ہیں۔ اسلام کی تاریخ میں پیغمبرانہ مشن ڈیریلمنٹ کا شکار ہوگیا ہے اور گاڑی پٹری سے اتر گئی ہے۔ مولانا نسیم اختر بغیر تبصرہ کے میری بات سنتے، میں نے ان سے کئی ملاقاتوں میں یہ بات کہی۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ نا انصافی ہوگی اگر میں مولانا نسیم اختر پر مضمون لکھوں اور ان سے میں اپنی اس گفتگو کا تذکرہ نہ کروں، مولانا نے کبھی میری بات کی حمایت نہیں کی، مولانا نے کبھی میری بات کی تردید بھی نہیں کی لیکن ان کے چہرے پر حیرت کے آثار ضرور نمودار ہوتے، میں نے جب ان سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے ایک بار غور کرنے کا وعدہ کیا۔
اب جبکہ مولانا نسیم اختر پر مضمون میں اس خیال وفکر کا تذکرہ آہی گیا ہے تو اسے تشنہ چھوڑنا مناسب نہیں ہے۔ ایک طویل عرصہ کے غور وفکر کے بعد میں اس نتیجہ تک پہنچا ہوں کہ ہمارے اسلاف سے بڑی غلطی ہوئی ہے کہ انہوں نے پیغمبرانہ مشن سے مکمل طور پر دست برداری اختیار کر لی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے اصلاح وتجدید کی عظیم الشان خدمات انجام دی ہیں لیکن وہ کام نہیں کیا ہے جو انبیاء کرام نے انجام دیا تھا۔ اس وقت بھی ہماری جتنی جماعتیں ہیں اور تنظیمیں ہیں وہ حقوق کی لڑائی لڑ رہی ہیں، وہ مطالبات کی سیاست میں یا احتجاج کی سیاست میں الجھی ہوئی ہیں، ان کی دعوت میں اور پیغمبروں کی دعوت میں بہت بڑا فرق ہے۔پورے قرآن مجید کو غور سے پڑھیے اور دیکھیے کہ ہر پیغمبر اپنی مخاطب قوم کو کیا کہتا ہے پھر غور کیجیے کہ کیا ہمارے قائدین کا قوم (غیر مسلموں) سے ایسا ہی خطاب ہے یا ایسا خطاب ہوا تھا۔ یاد رکھیے کہ اللہ کی نصرت پیغمبرانہ دعوت کو اختیار کرنے سے نازل ہوتی ہے، تبلیغی جماعت بلا شبہ بہت اہم اصلاحی اور دینی خدمت انجام دے رہی ہے لیکن یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ انبیاء کرام کا بعینہ یہی مشن تھا اور یہ کام پیغمبرانہ کام ہے۔
مولانا نسیم اختر شاہ قیصر نے میری بات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا صرف غور کرنے کا وعدہ کیا۔ میرا حال یہ ہوگیا ہے کہ کسی بھی علمی شخصیت سے تفصیلی ملاقات کا موقع ملتا ہے تو میں اپنا غم اس کے سامنے ضرور پیش کرتا ہوں اور استفسار کرتا ہوں کہ فکر میں کوئی غلطی ہو تو اس کی وضاحت کی جائے۔ دیوبند میں مولانا نور عالم امینی نے ناشتہ پر مجھے بلایا تھا، میں نے ان کے سامنے بھی اپنے خیالات اور افکار پیش کیے تو انہوں نے میری بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ جو کہہ رہے ہیں وہ درست ہے لیکن اگر آپ اس بات کو اس طرح کہیں گے کہ ہمارے اسلاف نے یہ کام نہیں کیا تو ہنگامہ کھڑا ہوجائے گا۔ معروف عالم دین مولانا سجاد نعمانی نے صاف اعتراف کیا اور کہا ہمارے بزرگوں نے دعوت دین کا کام انجام نہیں دیا بلکہ تحفظ دین کا کام انجام دیا، امیر جماعت اسلامی مرحوم مولانا جلال الدین عمری نے بھی بہت صاف لفظوں میں میرے خیالات سے اتفاق کیا تھا۔
یہاں یہ موضوع صرف اس لیے زیر بحث آیا کہ میں نے ایک بار سے زیادہ مولانا نسیم اختر شاہ قیصر سے اس موضوع پر گفتگو کی کوشش کی تھی شاید انہوں نے پہلی مرتبہ یہ خیالات سنے تھے، میرے سوا ان افکار کا پیش کرنے والا اور کوئی نہیں ہے۔ پہلے میں یہ سمجھتا تھا کہ تنہا یہ میرا خیال ہے بعد میں مولانا عبدالملک جامعی کی ایک کتاب مولانا الیاس کے تبلیغی مشن پر میری نظر سے گزری جسے معروف صحافی معصوم مرادآبادی نے شائع کیا تھا، اس کتاب میں بھی جو پہلے مخطوطہ کی شکل میں تھی بعینہ یہی بات کہی گئی ہے۔ مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کے لیے اس نئے خیال پر تبصرہ کرنا مشکل تھا کیونکہ اس کی زد میں ہمارے کئی سو سال کے بزرگ آتے تھے اور چونکہ موضوع بہت غور وفکر کا ہے اور اس پر میری پوری کتاب موجود ہے جس کا اوپر تذکرہ آیا ہے، اس لیے مولانا نسیم اختر نے غور کرکے جواب دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اب وہ وہاں چلے گئے جہاں ہر سوال کا یقینی جواب موجود ہوگا اور سارے شکوک وشبہات کا ازالہ ہوجائے گا۔جس شخص کو یہ موضوع تفصیل سے سمجھنا ہو اسے میری مذکورہ کتاب ضرور پڑھ لینی چاہیے اور اس موضوع پر اس راقم کے قلم سے شاید جلد ایک اور کتاب منظر عام پر آجائے اور اس کا نام ہو ’’قیادت کا بحران‘‘
***

 

***

 میں حیدرآباد میں رہتا تھا اور وہ دیوبند میں رہتے تھے، میری ان سے شناسائی نہیں تھی لیکن وہ اپنی کتابیں مجھے بھیجتے تھے اور مجھ سے تحریر کی فرمائش بھی کرتے تھے۔ نہ میں نے ان کو دیکھا تھا اور نہ انہوں نے مجھ کو، ایک بے نام سا رشتہ تھا ایک تعلق تھا بے نام سا، گمنام سا، وہ رشتہ جو اہل قلم کو ایک دوسرے سے ہوتا ہے، تحریریں انسان کی شناخت ہوتی ہیں انسان کی طبیعت اور کیفیت کا آئینہ ہوتی ہیں مجھے ان کی تحریریں پسند آتی تھیں ان کے ادبی اور علمی ذوق کا آئینہ ہوتی تھیں میں ان کے علمی ادبی دسترخوان سے ریزہ چینی کرتا تھا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 جون تا 17 جون 2023