نسلِ نوکی تربیت ماؤں کی رہین ِمنت

آج کی مائیں، اّمت کی ماؤں سے استفادہ کریں

عفّان احمد کامِل

کیاامّت کے اندر موجود وہ تمام تر صلا حیتیں جو اسے دوسرے اقوام سے ممیّز کرتی تھیں نا پید ہو چکی ہیں؟ زمین بنجر ہو گئی ہے یا آپ پا شی کا نظام منتشر ہو گیا ہے؟ مقاصد و منازل جدا ہو گئے بڑی بات نہیں کلمہِ حق کے معنیٰ و مفہوم بھی محدود و محصور ہو گئے۔ قرآن و احادیث مبارکہ کو فرقہ بندی اور عصبیتِ جاہلیہ کی بنیاد پر مختص کیا جانے لگا۔ قرآنی اصطلاحات کے مفاہیم قرآنی لغت کے بجائے تنظیمی، تحریکی، مسلکی اور تکنیکی لغات سے سمجھی اور سیکھی جانے لگی۔ خلافت(1923) میں ختم ہو توتو امّت نے دردرکی ٹھوکر میں کھائیں باطل کے فضلات کو تبرّکات اور شفا بخش سمجھ بیٹھی۔ نو نہال قرآنی قصص، انبیاء و صحابہ کے واقعات کی جگہ فلمی نغموں اور فلمی بھانڈوں کے واہیات قصّے و نغموں سے نیند کے آغوش میں جانے لگے ۔ صنفِ نازک نے کردارِ رابعہ بصرہ اور فکرِ فاطمہ و عائشہ کو خیر باد کہا آزادی کے نام پر رقّا صوں اور طوائفوں کی نقل میں انسانیت و نسوانیت کی حدود کو پامال کیا ، ماؤں نے اندازِ امِّ عمّارہ اور طرزِ امِّ حارثہ چھوڑا جدیدیت و مادّیت سے اس قدر متحّر ہوئیں کہ نو نہالوں کو اپنے جگر کا ٹکڑا سمجھنے کی جگہ مستی بھری زندگی میں خلل واقع کر نے والی شےء سمجھ کر کرائے کی دایہ( چائلڈ کیئر سینٹیر) کے حوالہ کر دیا۔
کہا جاتا ہے بچّہ ماں کے افکاروخیالات سے جلد متاثّر ہوتا ہے، ماں کی گود پہلی درسگاہ قرار پائی، بہنوں کے اندر محبّت و شفقت کا سمندر پایا جا تا ہے، بھایئوں کے اندر ہر طرح کی قربانیوں کا جذبہ پایا جاتا ہے، مگر یہ تمام رشتے اپنی حیثیت کھو چکے معلوم ہوتے ہیں۔ آج کی ماؤں کی خواہش ہے ہمارا بچّہ بڑے بڑے عہدے و مناصب پر فائز ہو، خوب پیسہ، نام و نمود، شہرت و عزّت پائے لیکن کیسی تھیں وہ مائیں جن کی خواہش مزید اولاد کی محض اللّہ کے دین کی سر بلندی، تبلیغ و اشاعت کے جذبہ کے تحت ہوتی تھی۔ جن کی کوکھ سے ایسے ایسے سپوت ملے جن کی بدولت آج اسلام و انسانیت نہ صرف ہم تک پہنچا بلکہ آج اس منافقانہ اور مغلوبانہ دور میں بھی جو کچھ تروتازگی و پاکیزگی پائی جارہی ہے انہی کی قربا نیوں کا نتیجہ ہے۔
موجودہ دور میں بچّے (ایک یا بس دو) وبالِ جان اس وجہ کر ہو گئے کہ والدین نے اپنے دلوں میں خوفِ خدا کی جگہ خوفِ فاقہ ، اللّہ پر توکّل کی جگہ مال و وسائل پر توکّل، اخروی زندگی کو لافانی سمجھنے کی جگہ اسی دنیا کی زندگی کو ہمیشہ ہمیش کی سمجھ بیٹھے لہٰذا! مقام و مرتبہ، شرف و عزّت، کامیابی و کامرانی اور مسابقت کے مفاہیم و مطالب تبدیل ہو گئے۔ دنیا اور اسکی چکاچوندھ ہی ہماری توجّہ کا اہم اور اصل مرکز ہو گیا چنانچہ اب ہم ہیں اور ہماری دنیوی خواہشات، ایک دوڑ اور ہوڑ مچی ہے مسابقت کی، ہر انسان کسی بھی حال میں مطمئن نہیں ہے، ایک دوسرے سے آگے بڑھ نکلنے کی للک نے ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی بے شمار دیواریں بے وجہ اور بے مطلب کی کھڑی کر رکھی ہیں۔اور یہی کیفیت و صورتِ حال دنیا کے مختلف ممالک کے درمیان بھی ہے۔ لوگ اتنے مگن ہو گئے ہیں کہ نہ رکنے والا موت کا سلسلہ بھی انہیں اپنی طرف متوجّہ نہیں کر پا رہا ہے۔ عمر کے آخری ایّام بھی ان فانی خواہشات سے توجّہ موت و رخصت کی طرف مبذول نہیں کرا پا رہے۔انسان کا دل اس قدر اس فانی دنیا میں رچ بس گیا ہے کہ روز قبرستان وشمشان اقرباء و دوست یا کسی جاننے والے کو دفن کرنے کے باوجود موت جیسی حقیقت کو عملاََ تسلیم کرنے کے لئےآمادہ نہیں ، اور ان سب کے باوجود اپنی اولادوں کو بھی اسی مسابقت میں اور متحرّ ک و تیز رفتاری سے دوڑ لگانے کی ہر دن تلقین و نصیحت کر رہے ہیں اورپیچھے رہ جانے کا خوف بھی دلا رہے ہیں ۔جوں جوں دوا کی مرض پڑھتا گیا۔۔اللّہ رحم کرے۔
لوگ اللّہ کی راہ پر چلنا اور والدین اپنے جگر پارے کو اسی نہج پر تربیت کرنے کو تہہِ دل سے تیّار ہو جائیں تو مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ خلقِ خدا کی مدد کا مخلصانہ جذبہ، پوری کائنات کے لئے رحیم و کریم بننے کی تربیت اور اسکی عملاََ کو شش کی طرف پیش قدمی،اور اس دنیا کو انسانیت کے مخلصانہ درد کے ساتھ محبّت و شفقت کے انداز سے بےلوث برتنے (گزارنے)کی تعلیم نئی نسل کو دینی ہوگی۔جہاں کسی طرح کی کوئی تفریق گوارا نہ ہو البتّہ ترجیحات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
قرآنی فکر کے تحت دنیا کی کامیابی و کامرانی شکم بھر (بلکہ گلے بھر) کھانے، اونچی عمارتوں میں سکو ن کی نیند سونے، لمبی گاڑیوں میں قدرتی مناظر کی سیر کو نکلنے، دنیا میں دنیا پرستوں کی طرف سے بڑے بڑے القاب سے نوازے جانے اور جس مادّی نعمت کی ضرورت ہو موجود ہوجانے سے قطعی مراد نہیں ہے۔جبکہ دوسری طرف فسادفی الارض برپا ہو، باطل چہار جانب بلا خوف مٹر گشتی کر رہا ہو، کڑوڑوں انسان زندہ رہنے کے لئے کھانے کو ترس رہے ہوں، کڑوڑوں انسانوں کو سر ڈھانپنے کا ٹھکانہ میسّر نہ ہو، انسانوں کے گھروں کو نذرِآتش کیا جا رہا ہو، عصمت دری کے واقعات عام ہو گئے ہوں، عبادت گاہوں کی بے حرمتی معمول بن گئ ہو، انسانی جان کی قیمت کیڑے مکوڑوں سے بھی کم کر کے لگائی جانے لگی ہو، انسان کی خود کی آزادی پر قدغن لگائے جا رہے ہوں۔۔۔۔اس آہ و فغاں کے ماحول میں، اس چیخ و پکار میں ہمارا آرام و آسائش ، خود کے شکم کو بھر کر سکون بھری نیند۔۔۔سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ ہمارے اندر کوئی اضطراب نہیں۔۔ ھماری موجودگی۔۔ زندگی کی جگہ مردہ ہونے کا ثبوت دیتی ہے۔ ایسے نازک وقت میں ہم اپنی نئ نسل کو کس نہج پر تعمیر کر رہے ہیں یہ سوال بڑاہی اہم ہو جاتا ہے۔
ہمیں نئ نسل کی ہمہ تن تربیت کے لئے اس نئے اور ترقّی یافتہ دور میں بھی اسی طریقے کو ہی اپنانا ہوگا جسے آج سے تقریباً پندرہ سو سال پہلے اپنایا گیا تھا۔ دنیا خواہ کتنی ہی بلندیوں تک پہنچ جائے، اجتہاد کا معیار کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو جائے،تربیت کا جو انداز ماں کی گود، ماں کے لوری کے بول اور والدین کے سنائے ہوئے قصصِ قرآن، انبیا و صحابہِ کرام فراہم کرتے ہیں وہ موجودہ دور کا ترقّی یافتہ ڈیجیٹل نظام قطعی فراہم نہیں کر سکتا ہے۔ جہاں ایک طرف یہ ضروری ہے کہ والدین انبیاء وصحابہ کے قصص کا سہارا لیں وہیں یہ بات بھی انتہائی ضروری ہے کہ والدین دنیوی ذہنیت سے خود کو پاک کریں تا کہ لوری کے بول اور گود کی لمس کی تاثیر قرآنی و انسانی ہوسکے، روزِاوّل سے بچّوں کے ذہن میں ڈاکٹر، انجینیر، کلکٹر، وکیل وغیرہ عہدے کی اہمیت بٹھانے کے بجائے ایک اچّھا انسان، رحمدل شہری، بہترین پڑوسی، با ادب، غریب پرور، نیک و صالح وغیرہ جیسی صفات سے متّصف ھونے کی عملاً تعلیم دی جائے۔
آج کے اس پر فتن دور میں امّت کو سب سے زیادہ مخلص و ایماندار شخص کی ضرورت ہے، اخلاص و للّٰہیت سے بھرے دِل کی ، انسانیت سے بھرے جذبے اور محض اللّہ کی خاطر کئے گئے عمل کی ضرورت ہے، جس تعلّق سے امّت میں خلاء دن بدن بڑھتا ھی جا رھا ہے۔ ایمان کے تعلّق سے حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے ’’سب سے اوّل درجے کا ایمان یہ ہے کہ انسان غلط کام ہوتا ہوا دیکھے تو بزور قوّت روک دے، دوسرے درجے کا ایمان یہ ہے کہ انسان زبان و قلم سے روکنے کی کو شش کرے اور سب سے نچلے درجے کا ایمان یہ ہے کہ اس عملِ بد کے تئیں دل میں کڑھن اور گھٹن محسوس کرے، دل میں اسے بدلنے اور روکنے کی تڑپ اور بے چینی پائی جائے‘‘ ۔ آج حالت دل کی یہ ہے کہ دل ہر کام پر ہر وقت مطمئن ہی رہنا چاہتا ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ کی یہ حدیث اپنے ایمان کو تولنے کا بہترین پیمانہ ہے۔
امّت مسلک و مکتب میں تقسیم ہے، ہر کسی کے گروہی فکروعمل نے عصبیتِ جاہلیہ کی شکل اختیار کر رکھی ہے، قرآن و احادیث کو عملاً با لائے طاق رکھ کر انسانی فقہ و اصول پر بغیر تفقہ کے عمل آوری کی ضد ہر گروہ نے اختیار کر رکھی ہے۔ اتّحاد کی مستقل کو ششیں بھی ہو تی رہتی ہیں لیکن ہر کو شش کا نتیجہ ایک نئے اختلاف کی شکل میں اجاگر ہوتا ہے یا محض چند ’’ڈیسک ٹاک‘‘ تک محدود رہتا ہے۔ مسئلہ دن بدن گنجلک اور پیچیدہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔یوں تو وجوہات کئی ہیں۔ بنیادی مسئلہ کو نظر انداز کیا جا رہا ہے یا پھر ہر گروہ اپنے ہی انداز سے قیادت کرنے کی سوچ رہا ہے۔ ایک بڑا مسئلہ نئی نسل کی تربیت کا ہے تا کہ صالح و مخلص افراد شامل ہو سکیں۔ جس کے اندر انقلابی تبدیلی کا جذبہ ہو، جومسائل میں حل تلاش کرتے وقت خوفِ الٰہی سے لرزتے و کانپتے ہوں، جو قرآن پر مکمّل عمل کا پابند ہوں اس میں اپنے لطف کے اعتبار سے اختصاص نہ کریں، جو پوری احادیثِ مبارکہ کو نظر کے سامنے رکھتے ہوں جہاں اصلاحِ معاشرہ اور دعوتِ دین کے ساتھ ساتھ قیامت و آخرت، دجّال و اختتامِ دنیا(دورِ فتن) کی احادیث بھی انکے سامنے ہوں۔ جہاں مسواک کرنا، میٹھا کھانا ،عطر لگانا، اللّہ کی نعمتوں کا اظہار کر نا، ہنس کر بات کرنا جیسی سنّتیں یاد رہیں وہیں فاقہ کرنا، شکم بھر کھانا نہ کھانا، پیروں میں چھالے پڑ جانا اور پیروں کا پھول جانا، جسم پر چٹائی کے نشان پڑ جانا، راتوں کو اللّہ کے آگے گڑ گڑانا، کبھی روزہ کبھی افطار کرنا ، پڑوسیوں کو خالی پیٹ نہ سونے دینا، جمع کرنے کے بجائے تقسیم کر نا، فِرج میں رکھنے کے بجائے ضرورت مندوں تک پہنچا نا ، ایک انسان پر دوسرے انسان کے حقوق ،ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے حقوق، اور سب سے بڑھ کر اپنی ذات کویعنی خود کو(اپنی شخصیت کو ) اہمیت کا مر کز نہ بنانا جیسی سنّتِ مبارکہ بھی یاد رہیں۔
ایسی نسل کی تعمیر میں والدین ہی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں بلخصوص مائیں۔ امّت میں موجود مائیں اّمت کی اصل ماؤں سے استفادہ کریں، ان کی زندگیوں کا بغور مطالعہ کریں۔ بی بی خدیجہ، بی بی عا ئشہ، بی بی فاطمہ، بی بی اسماء، بی بی سمیّہ، بی بی امِّ ورقہ، بی بی عفرا، بی بی امِّ حارثہ رضی الّلہ عنہا وغیرہ۔۔۔ بے شمار ایسی مائیں ھیں ، واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے، ضرورت ہے رجوع کرنے کی، سبق لینے کی اور مخلصانہ کو شش کی۔
بڑا تضاد ہے امّت کی اصل ماؤںمیں اور موجودہ ماؤں میں، اسباب خواہ کچھ بھی ہوں ہم کیسے تصوّر کر لیتے ہیں کہ ایسی گود میں پرورش پائے ہوئے بچّے جہاں حلال و حرام غذا کی اہمیت کا بھی اندازہ نہ ہو(جو کہ پورے جسم و روح کی اصل و بنیاد ہے، اسکے بغیر کسی بھی اچّھے کا تصوّر نا ممکن ہے)، جو دنیا کی حقیقی کامیابی سے آشنا نہ ہو، جو عزّت و منزلت، شرافت و رذالت کے معیار سے واقف نہ ہو، جو ایمانی حلاوت جیسی نعمت سے لطف اندوز نہ ہوا ہو، جو محبّت و شفقت اور رحمدلی کے مفہوم سے واقف نہ ہو، جسے فساد فی الارض اور امن و امان کے معنٰی و مطالب میں فرق کر نا نہ آ رہا ہو۔۔۔وہ کسی پاکیزہ معاشرہ (جہاں حقوق اللّہ اور حقوق العباد کا پورا خیال رکھا جا تا ہو ) کی تشکیل میں کوئی کار آمد کردار ادا کر پائے گا؟ یہ خیال بعید از حقعقت ہے۔ ا س طریقے سے کوئی اصلاحی معاشرہ نہ وجود میں آیا ہے اور نہ آ سکتا ہے۔
جب تک انہی اسلامی خطوط پر جس کی ہر شق قرآنی اور احادیثِ رسول اکرم ﷺ کی روشنی میں ہو تربیت کا آغاز نہیں ہوتا پوری نسل یوں ہی پر فتن وادیوں میں سیر کرتی رہے گی۔ ایجاد و اجتہاد کر تی رہےگی، بلا تفریق دینی و غیر دینی سارے مسلمان ایک جیسے ہو جائینگے، دینی طبقہ چند دینی رسومات ، شناخت اور اصطلا حات کے ساتھ مو جود رہے گا اور غیر دینی طبقہ ان اجزاء سے خالی گرچہ کہ عمل میں کوئی اختلاف نہیں دکھے گا۔ جو مسائل خالص دنیوی یا سیاسی پارٹیز میں ہوں گی وہی دینی جماعتوں میں بھی موجود ہونگی، جس طریقے سے دوسری جگہوں پر رسّہ کشی جیسا ماحول رہتا ہے ویسا ہی ماحول دینی جماعتوں میں بھی رہے گا۔ پھر کسی اصلاح یا اجتہاد کی گنجائش نہیں رہے گی بلکہ دائمی تباہی ہی مقدّر بن جائے گی۔ اللّہ خیر کا معاملہ کرے اور ہم سب کا خاتمہ ایمان پر کرے۔۔آمین۔

 

***

 ہمیں نئ نسل کی ہمہ تن تربیت کے لئے اس نئے اور ترقّی یافتہ دور میں بھی اسی طریقے کو ہی اپنانا ہوگا جسے آج سے تقریباً پندرہ سو سال پہلے اپنایا گیا تھا۔ دنیا خواہ کتنی ہی بلندیوں تک پہنچ جائے، اجتہاد کا معیار کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو جائے،تربیت کا جو انداز ماں کی گود، ماں کے لوری کے بول اور والدین کے سنائے ہوئے قصصِ قرآن، انبیا و صحابہِ کرام فراہم کرتے ہیں وہ موجودہ دور کا ترقّی یافتہ ڈیجیٹل نظام قطعی فراہم نہیں کر سکتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 جنوری تا 28 جنوری 2023