سیف اللہ کوٹا (راجستھان)
کسی بھی تحریک کے کارکنوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ حسن ظن رکھیں، ان کی لغزشوں کی تاویل کریں معمولی کوتاہیوں کو نظر انداز کر دیں۔ کسی کی تربیت اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کے ساتھ حسن ظن اور خوش گمانی سے کام نہ لیا جائے۔ برے گمان کے ساتھ کبھی کوئی کام ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ سیرت اور کردار کی تعمیر جیسے عظیم کام کے لیے ضروری ہے کہ اپنے زیر تربیت افراد کے سلسلے میں ہر قسم کی بدگمانی سے بچا چائے۔ جب تک واضح طور پر کوئی بات سامنے نہ آجائے اس وقت تک بدگمانی کے ذرا سے شائبہ کو بھی دل میں جگہ نہ دی جائے اور اگر غلطی واضح ہو کر سامنے آجائے تو حتی الامکان حسن ظن سے کام لیتے ہوئے خوبصورت تاویل کر کے اسے نظر انداز کر دیا جائے۔ ایک مربی کی نگاہ اگر کسی کی کوتاہی کی طرف اٹھے تو اس طرح جس طرح ایک طبیب کی نگاہ بیمار کی طرف اٹھتی ہے نہ کہ اس طرح جس طرح کسی پولیس والے کی نگاہ چور کی طرف اٹھتی ہے۔
انسانوں کی تربیت دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ اس کام کو لوگوں سے بدگماں ہو کر اور تیز وتلخ رویہ اختیار کرتے ہوئے سر انجام نہیں دیا جا سکتا۔ مربی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے زیر تربیت افراد کی اصلاح و ذہن سازی کے لیے ہمیشہ معلم اعظم حضور نبی کریمؐ کے اسوہ کو پیش نظر رکھے۔ مثال کے طور پر اس واقعہ پر غور کریں کہ رسول اللہ ﷺ نے کس طرح ایک نوجوان کے بے قابو جذبات کو لگام دی جب اس نے آپ کے پاس آکر عرض کیا "اے اللہ کے رسول مجھے زنا کی اجازت دے دیجیے”
صحابہ کرام اس نوجوان کی جسارت پر بپھر گئے اور اس کو سخت سزا دینی چاہی مگر نبی ﷺ نے ایک دوسرا موقف اختیار کیا۔ آپ نے اسے قریب بلایا اور کہا "کیا تم یہ بات اپنی ماں کے لیے پسند کرتے ہو؟‘‘
نوجوان نے کہا: ’’میری جان آپ پر قربان ہو’ خدا کی قسم! یہ بات میں اپنی ماں کے لیے کبھی پسند نہیں کرسکتا- پھر آپ نے اس کی بہن’ پھوپی اور خالہ کے بارے میں بھی پوچھا کہ ’’کیا تم اسے ان کے لیے پسند کرتے ہو‘‘ اور وہ ہر بار یہی جواب دیتا کہ ’’خدا کی قسم میں یہ ہرگز پسند نہیں کر سکتا۔ آپ ہر جواب کے بعد فرماتے کہ لوگ بھی اسے پسند نہیں کرتے۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ اس نوجوان کے سر پر رکھا اور دعا کی:
’’اے اللہ! اس کے گناہوں کو معاف کردے، اس کے دل کو پاک فرما دے، اس کی شرم گاہ کو برائیوں سے محفوظ کردے‘‘ اس کے بعد وہ نوجوان اس طرح کی کسی برائی کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔
غور کیجیے کہ کتنا نازک موقع تھا مگر رسول اللہ ﷺ نے کس حکمت اور نرمی کے ساتھ ایک نوجوان کے جذبات کو صحیح رخ دیا۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ دوسروں کی خوبیوں کا کوئی تذکرہ نہیں کرتے لیکن اگر کسی سے چوک ہو جائے تو اس کا اس طرح سے چرچا کرتے ہیں کہ گویا اس شخص میں کوئی خوبی ہی نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ کا طریق کار یہ تھا کہ وہ لوگوں کی اچھائیوں کا تذکرہ کرتے تھے اور ان کی برائیوں پر پردہ ڈال دیا کرتے تھے۔ اگر آپ دیکھتے کہ کسی شخص میں بہت سی خوبیاں ہیں، دین اسلام کے فروغ کے سلسلے میں اس کے بڑے کارنامے ہیں، اس نے دین کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں، اس کے باوجود اگر اس سے کوئی لغزش ہو جاتی تو آپ اس کے کارناموں کے مقابلے میں اس غلطی کو نظر انداز فرما دیتے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 نومبر تا 19 نومبر 2022