مودی جی! تاریخ اس داغ کو کبھی بھولنے والی نہیں ہے

افروز عالم ساحل

حکومتیں ہمیشہ اپنے خلاف جو مایوس کن رپورٹ ہوتی ہیں، پہلے انہیں دبانے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے اپناتی ہے، لیکن جب دبانا مشکل ہو جاتا ہے تو اس رپورٹ کو ایسے وقت میں عوام کے سامنے لاتی ہیں تاکہ اس پر بحث کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔

ایسی سی کہانی  2002 کے گودھرا واقعہ اور اس کے بعد بڑے پیمانے پر ہوئے فسادات کی جانچ کرنے والی ناناوتی کمیشن کی رپورٹ کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ گجرات حکومت اس رپورٹ کو منظر عام پر لانے کے لئے ایک ایسی تاریخ کا انتخاب کیا گیا جس دن ملک کا سب سے بڑا ایوان شہریت ترمیمی بل پر بحث کر رہا تھا اور ملک کے عوام اور میڈیا کی نظر پوری طرح سے اس قانون پر تھا۔ حالانکہ یہ رپورٹ وزیر اعظم نریندر مودی کو کلین چٹ دینے کے لئے تھا، لیکن آپ بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ جب وزیر اعظم مودی دنیا کے سامنے خود کی شبیہہ بہتر ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، تو ایسے میں انہوں نے یہ گوارہ نہیں کیا کہ ملک کے عوام و میڈیا میں اس رپورٹ کو لے کر کوئی بحث ہو۔

بتا دیں کہ  گجرات میں 2002 کے گودھرا واقعہ اور اس کے بعد بڑے پیمانے پر ہوئے فسادات جس میں 1000 سے زیادہ لوگوں کی موت ہوگئی، کو لے کر 6 مارچ 2002 کو جسٹس جی ٹی ناناوتی کی صدارت میں ایک کمیشن بنائی گئی۔ اس کمیشن کو اگلے تین مہینے میں اپنی رپورٹ پیش کرنی تھی۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ کا پہلا حصہ 28 ستمبر 2009 کو ریاستی حکومت کو سونپ دیاتھا۔ وہیں کمیشن نے اپنی دوسری رپورٹ 18 نومبر 2014 کو اس وقت کی آنندی بین حکومت کے حوالے کردیا گیا تھا پر حکومت نےا سے تب عام نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد سابق آئی پی ایس افسر شری کمار نے گجرات ہائی کورٹ میں ایک مفادعامہ کی عرضی دائر کرکے اسے عام کرنے کا مطالبہ کیا، جس کےبعد 11 دسمبرکو گجرات حکومت کے وزیر داخلہ پردیپ سنگھ جڈیجہ نے یہ رپورٹ نے اسے ایوان میں پیش کیا۔

ناناوتی کمیشن کی رپورٹ میں اس وقت کے وزیر اعلی اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے اس وقت کے وزیر مملکت برائے داخلہ ہرین پانڈیا اور دو دیگر وزرا بھرت باروٹ اور اشوک بھٹ کو کلین چٹ دے دی گئی ہے۔

وہیں فسادات کے بارے میں حکومت پر الزام لگانے والے اس وقت کے تین آئی پی ایس افسران آر پی شری کمار، سنجیو بھٹ اور راہل شرما کے الزامات کو مسترد کردیا گیا ہے۔ سنجیو بھٹ فی الحال جیل میں ہیں۔

اس رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ پولس کا کام کاج کچھ مقامات پر حالانکہ امید کے مطابق نہیں تھا پر فسادات کوئی منصوبہ بند اور منظم طریقے سے نہیں ہوا تھا۔ مخالفوں نے ان پر دنگے کرانے اور فسادیوں کی مدد کرنے کا الزام لگایا تھا۔

اس رپورٹ میں اس بات کو بھی مسترد کردیا گیا ہے کہ مودی نے گودھرا میں 27 فروری 2002 کو سابرمتی ٹرین کے جلائے گئے کوچ ایس۔6 کا دورہ ثبوت مٹانے کی نیت سے کیا تھا۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سابق آئی پی ایس افسر بھٹ نے الزام لگانے کے لئے کچھ غلط دستاویزات بھی پیش کئے تھے۔ یہ رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ اعلی پولس افسران کی ایسی کوئی میٹنگ اس وقت کے وزیراعلی مودی کی قیادت میں نہیں ہوئی تھی جس میں انہیں فسادات کے دوران غیر فعال رہنے کا حکم دیا گیا ہو۔ تین سو صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں ایسی کئی باتیں کہی گئی ہیں، جس سے اس رپورٹ پر کئی سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ 

واضح رہے کہ سنجیو بھٹ نے یہ الزام لگایا تھا کہ مودی نے ایک میٹنگ میں ایسا حکم دیا تھا کہ پولس اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے فسادیوں کے تئیں نرمی برتے۔ حالانکہ سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل خصوصی جانچ ٹیم یعنی ایس آئی ٹی نے اس معاملے میں مودی کو پہلے ہی کلین چٹ دے دی تھی۔

غورطلب رہے کہ سابرمتی ٹرین کے کوچوں کو نذر آتش کرنے کے بارے میں رپورٹوں میں الگ الگ باتیں کہی گئی تھیں۔ گجرات میں گودھرا ٹرین حادثہ اور اس کے بعد ہونے والے فسادات کی تحقیقات کے لئے دو کمیشن تشکیل کی گئی تھیں۔ پہلی ناناوتی کمیشن تھی تو دوسرا یوسی بنرجی کمیٹی تھا۔ سپریم کورٹ کے سابق جج مسٹر یو سی بنرجی کی سربراہی میں تشکیل دی گئی اس کمیٹی نے 2006  میں ہی اپنی رپورٹ دے دی تھی۔ بتا دیں کہ یو سی بنرجی کمیٹی 2005 میں مرکزی حکومت نے بنائی تھی، جب لالو پرساد ریلوے کے وزیر تھے۔اس کمیٹی نے طویل تحقیقات کے بعد 2006 میں اپنی رپورٹ دی جس میں کہا گیا تھا کہ گودھرا میں ٹرین جلانے کا واقعہ کوئی سازش نہیں بلکہ ایک حادثہ تھا۔ کمیٹی نے واضح طور پر بتایا ہے کہ سابرمتی ایکسپریس کے کوچ ایس  -6 میں لگی آگ کسی سازش کے تحت نہیں تھی۔ کہیں سے بھی اس بات کے شواہد نہیں ملے کہ پٹرول چھڑک کر آگ لگائی گئی تھی۔

اس رپورٹ نے بھلے گجرات فساد کے اصل ملزموں کو کلین چٹ دے دیا ہو، لیکن یہ دنیا اس داغ کو ہمیشہ یاد رکھے گی، جو داغ وزیر اعظم مودی پر لگی ہے۔ کیونکہ داغ انسانیت کے قتل کا ہے۔ 2002 کے بڑے فساد کا ہے۔ تاریخ اس داغ کو کبھی بھولنے والی نہیں ہے اور یہ ایسا داغ ہے جو کبھی مٹ نہیں سکتا۔

گودھرا حادثہ کب اور کیا ہوا؟

27 فروری ، 2002 – گودھرا ریلوے اسٹیشن کے قریب سابر متی ایکسپریس کے ایس -6 کوچ میں 59 کارسیوک آگ کی زد میں آکر ہلاک ہوگئے۔ اس معاملے میں قریب 1500 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ اس حادثے کے بعد ریاست بھر میں فسادات ہوئے تھے اور اس میں 1200 سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

3 مارچ 2002 – ٹرین جلانے کے الزام میں گرفتار افراد کے خلاف پوٹا قانون لگایا گیا۔

6 مارچ 2002 – فسادات کے بعد حکومت نے ٹرین میں لگنے والی آگ اور اس کے بعد کے فسادات کی تحقیقات کے لئے ایک کمیشن تشکیل دیا۔

25 مارچ 2002 – مرکزی حکومت کے دباؤ میں ملزم پر 3 مارچ کو عائد کی گئی پوٹا کو ہٹا لیا گیا۔

18 فروری ، 2003۔ ایک بار پھر ملزم کے خلاف دہشت گردی متعلق قانون لگا دیا گیا۔ بعد میں سپریم کورٹ نے اس کیس میں کسی بھی عدالتی سماعت پر روک لگادی۔

جنوری 2005 – یوسی بنرجی کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں کہا ہے کہ ایس -6 میں لگی آگ محض ایک حادثہ تھا۔

13 اکتوبر ، 2006 – گجرات ہائی کورٹ نے یوسی بنرجی کمیٹی کو غلط قرار دیتے ہوئے اس کی رپورٹ کو مسترد کردیا۔

2008 – ناناوتی کمیشن کو اس معاملے کی تحقیقات سونپ دی گئیں اور اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ ایک سازش تھی۔

18 جنوری ، 2011۔ سپریم کورٹ نے اس کیس میں عدالتی کارروائی کرنے پر پابندی ختم کردی۔

22 فروری ، 2011 – خصوصی عدالت نے گودھرا کیس میں 31 افراد کو مجرم قرار دیا ، جبکہ 63 دیگر کو بری کردیا۔

یکم مارچ ، 2011 – خصوصی عدالت نے گودھرا واقعے میں 11 کو سزائے موت، 20 کو عمر قید کی سزا سنا دی۔

2014 – ناناوتی کمیشن نے گجرات فسادات سے متعلق اپنی حتمی رپورٹ 12 سال کی تحقیقات کے بعد اس وقت کے وزیر اعلی آنندین پٹیل کو پیش کی۔

11 دسمبر، 2019 – گجرات حکومت کے وزیر داخلہ پردیپ سنگھ جڈیجہ نے ناناوتی کمیشن کی رپورٹ کو گجرات اسمبلی کے ایوان میں پیش کیا۔